ہوائی

0

تعارفِ سبق : سبق ”ہوائی“ کی مصنفہ کا نام ”بیگم اختر ریاض الدین“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”دھنک پر قدم“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

تاریخ اردو ادب میں بہت کم مصنفہ گزری ہیں جن کو اتنی شہرت ملی ہو جتنی بیگم اختر ریاض الدین کو ملی ہے۔ آپ نے ادب لکھنے کی شروعات بیرونی ممالک جانے سے کی۔ اردو ادب میں عورتوں کی تعداد بہت کم رہی ہے اور یہ تعداد سفر ناموں کی صنف میں اور کم ہوجات ہے۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنفہ اپنے ایک سفر کی داستان رقم کررہی ہیں۔ اس سفر کے دوران بیگم اختر ٹوکیو سے ہونولولو جارہی تھیں ، جو چھے گھنٹے کا سفر تھا اور اس درمیان کوئی آبادی یا کوئی جزیرہ بھہ واقع نہ تھا۔ ہر طرف سمندر ہی سمندر موجود تھا۔ انسان سمندر کو مسلسل دیکھتے دیکھتے اکتا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں ایک صاحبہ نے انھیں ڈراتے ہوۓ یہ بات کہی تھی کہ نیچے بحرالکاہل ہوتا ہے اور اوپر خدا، کہیں زمین کا ذرا سا ٹکڑا بھی ڈھارس کے لیے دکھائی نہیں دیتا۔

مصنفہ بتاتی ہیں کہ بی او اے سی برطانیہ کی معروف ہوائی کمپنی ہے، مگر اس زمانے میں اس کی پرواز میں شاید تا خیر سے ہوجاتی تھی۔ بیگم اختر نے اس کمپنی کا ٹکٹ لیا۔ انھیں اندازہ تھا کہ بعض اوقات اس کمپنی کی پرواز ۲۴ گھنٹے کی تاخیر سے چلتی ہے۔ اس پس منظر میں وہ طنزاً کہتی ہیں کہ اگر ۲۶ کو جانا ہے ،تو ۲۵ کی سیٹ بک کر وانی چاہیے۔ کیونکہ ۲۵ کو چلنے والا جہاز لیٹ ہوکر ۲۶ ہی کو چلے گا۔ لیکن اگر آپ ۲۶ تاریخ کی ٹکٹ خریدیں گے ، تو پھر آپ ۲۷ کو سفر کرسکیں گے۔

کلکتہ، بیگم اختر کی جائے پیدایش تھی، مگر وہ اپنی عمر کا ایک سال ہی وہاں گزارسکیں۔ اب یہاں سے گزرتے ہوۓ انھیں اس شہر کی سیر کرنے کی سوجھی۔ لیکن ائیر پورٹ سے باہر شہر جانے کے لیے پولیس سٹیشن سے اجازت ضروری تھی۔ اس طرح کسٹم افسران کی رضا مندی بھی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ خاصی پریشان ہوگئیں اور ان کے الفاظ میں ان جیسے سیاحوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی نزاکت کی بنا پر یہ سلسلہ اور بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں وہ کہتی ہیں، کہ خدا کسی شریف انسان کو کلکتہ نہ لے جاۓ ، کیونکہ کسی بھلے آدمی کے لیے پولیس کی موجودگی میں بخیریت سیر کرنا ممکن نہیں ہے۔

مصنفہ بتاتی ہیں کہ ہانگ کانگ سے ٹوکیو جاتے ہوئے پین ایم کا کھٹارا جہاز فضا میں لرزتا رہا اور وہ ڈرتی رہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے جاپانی تاجر نے تسلی دیتے ہوۓ کہا کہ اس سے نہ ڈرو البتہ ٹوکیو سے ہوائی تک کا سفر خاصا تکلیف دہ ہے کیونکہ وہاں جہاز نہ صرف بار بار خود اچھلتا ہے بلکہ سواریوں کو بھی بے تحاشا اچھالتا ہے۔

مصنفہ کہتی ہیں کہ بیگم اختر کو ایک جاپانی تاجر نے ڈرایا تھا کہ ٹوکیو سے ہونولولو تک ہوائی جہاز ایسے چلے گا ، جیسے چھاج میں گیہوں اچھلتا ہے مگر یہ سفر بہت خوش گوار اور ہموار رہا اور کوئی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ہوائی پہنچنے کے بعد پہلی شام بیگم اختر اپنے میاں کے ساتھ، سیر کو نکلیں۔ اس وقت سورج ڈھل چکا تھا اور ہلکی ہلکی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ چونکہ زمرد کا رنگ بھی سبز ہوتا ہے اس لیے چاروں طرف پھیلے سبزے کی وسیع و عریض چادر کو مصنفہ نے زمرد کی آمریت سے تعبیر کیا ہے۔ آمریکا، سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ سرمایہ داری کی مستحکم ترین صورت امریکا ہی میں ملتی ہے۔

بیگم اختر کے خیال میں وہاں کی سپر مارکیٹ اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں کامل مظاہرہ کر رہی تھی۔ سرمایہ داری کا مزاج یہ ہے کہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کی جیبوں سے روپیہ کھینچنے کا فن جانتی ہے۔ ایک ہی چیز کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ یا ذائقے ، رنگ اور ڈیزائن کی تبدیلی کے ساتھ ، نئے لیبل لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکن طرز حیات کا بنیادی قلعہ سے مراد یہ ہے کہ امر کی طرز حیات اور اس کی معاشرت کا ڈھانچا اس سرمایہ داری پر قائم ہے اور اس میں ہر چیز بڑی افراط اور کثرت کے ساتھ موجود ہے اور طرح طرح کی چیزوں کے ذخیرے لوگوں کو دعوت خریداری دیتے ہیں۔

سوال نمبر ا : مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجیے۔

الف- نیچے بحرالکاہل ہوتا ہے اور اوپر خدا، کہیں زمین کا ذرا سا ٹکڑا بھی ڈھارس کے لیے دکھائی نہیں دیتا۔

جواب : بیگم اختر ٹوکیو سے ہونولولو جارہی تھیں ، جو چھے گھنٹے کا سفر تھا اور اس درمیان کوئی آبادی یا کوئی جزیرہ بھہ واقع نہ تھا۔ ہر طرف سمندر ہی سمندر موجود تھا۔ انسان سمندر کو مسلسل دیکھتے دیکھتے اکتا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں ایک صاحبہ نے انھیں ڈراتے ہوۓ یہ بات کہی تھی۔

ب- اگر۲۶ کو جانا ہو تو ۲۵ کی سیٹ بک کراؤ کیونکہ وہ چودہ سو چالیس منٹ سے کم لیٹ ہونا کسرشان سمجھتی ہے۔

جواب : بی او اے سی برطانیہ کی معروف ہوائی کمپنی ہے، مگر اس زمانے میں اس کی پرواز میں شاید تا خیر سے ہوجاتی تھی۔ بیگم اختر نے اس کمپنی کا ٹکٹ لیا۔ انھیں اندازہ تھا کہ بعض اوقات اس کمپنی کی پرواز ۲۴ گھنٹے کی تاخیر سے چلتی ہے۔ اس پس منظر میں وہ طنزاً کہتی ہیں کہ اگر ۲۶ کو جانا ہے ،تو ۲۵ کی سیٹ بک کر وانی چاہیے۔ کیونکہ ۲۵ کو چلنے والا جہاز لیٹ ہوکر ۲۶ ہی کو چلے گا۔ لیکن اگر آپ ۲۶ تاریخ کی ٹکٹ خریدیں گے ، تو پھر آپ ۲۷ کو سفر کرسکیں گے۔

ج۔ خدا کسی شریف انسان کو کلکتہ نہ لے جاۓ۔اگر مرزا غالب نے اس میں کچھ دیکھا تو ہند وستانی کسٹم آفیسر اور بنیا پولیس سے پہلے دیکھاہوگا۔

جواب : کلکتہ، بیگم اختر کی جاۓ پیدایش تھی، مگر وہ اپنی عمر کا ایک سال ہی وہاں گزارسکیں۔ اب یہاں سے گزرتے ہوۓ انھیں اس شہر کی سیر کرنے کی سوجھی۔ لیکن ائیر پورٹ سے باہر شہر جانے کے لیے پولیس سٹیشن سے اجازت ضروری تھی۔ اس طرح کسٹم افسران کی رضا مندی بھی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ خاصی پریشان ہوگئیں اور ان کے الفاظ میں ان جیسے سیاحوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی نزاکت کی بنا پر یہ سلسلہ اور بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں وہ کہتی ہیں، کہ خدا کسی شریف انسان کو کلکتہ نہ لے جاۓ ، کیونکہ کسی بھلے آدمی کے لیے پولیس کی موجودگی میں بخیریت سیر کرنا ممکن نہیں ہے۔

د- جب ٹوکیو سے ہوائی جاؤگی تو ہوائی جہاز ایسے اچھلے گا جیسے چھاج میں گیہوں۔

جواب : ہانگ کانگ سے ٹوکیو جاتے ہوئے پین ایم کا کھٹارا جہاز فضا میں لرزتا رہا اور وہ ڈرتی رہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے جاپانی تاجر نے تسلی دیتے ہوۓ کہا کہ اس سے نہ ڈرو البتہ ٹوکیو سے ہوائی تک کا سفر خاصا تکلیف دہ ہے کیونکہ وہاں جہاز نہ صرف بار بار خود اچھلتا ہے بلکہ سواریوں کو بھی بے تحاشا اچھالتا ہے۔

ہ- سارا سفر آسانوں میں ریشم کی طرح سر سر کرتا گزر گیا۔

جواب : بیگم اختر کو ایک جاپانی تاجر نے ڈرایا تھا کہ ٹوکیو س ہونولولو تک ہوائی جہاز ایسے چلے گا ، جیسے چھاج میں گیہوں اچھلتا ہے مگر یہ سفر بہت خوش گوار اور ہموار رہا اور کوئی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ بیگم اختر نے مذکورہ بالا جملہ اسی پس منظر میں لکھا ہے۔

ہ- ڈھلتے سورج میں بحرا کامل کروٹیں لے رہا تھا اور چاروں طرف زمرد کی آمریت مستحکم ہو چکی تھی۔

جواب : ہوائی پہنچنے کے بعد پہلی شام بیگم اختر اپنے میاں کے ساتھ، سیر کو نکلیں۔ اس وقت سورج ڈھل چکا تھا اور ہلکی ہلکی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ چونکہ زمرد کا رنگ بھی سبز ہوتا ہے اس لیے چاروں طرف پھیلے سبزے کی وسیع و عریض چادر کو مصنفہ نے زمرد کی آمریت سے تعبیر کیا ہے۔

ج- سپر مارکیٹ امریکن سرمایہ داری کامل مظاہرہ اور امریکن طرزِ حیات کا بنیادی قلعہ اور اس کی لامحدود افراط کا ذخار ہے۔

جواب : آمریکا، سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ سرمایہ داری کی مستحکم ترین صورت امریکا ہی میں ملتی ہے۔ بیگم اختر کے خیال میں وہاں کی سپر مارکیٹ اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں کامل مظاہرہ کر رہی تھی۔ سرمایہ داری کا مزاج یہ ہے کہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کی جیبوں سے روپیہ کھینچنے کا فن جانتی ہے۔ ایک ہی چیز کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ یا ذائقے ، رنگ اور ڈیزائن کی تبدیلی کے ساتھ ، نئے لیبل لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکن طرز حیات کا بنیادی قلعہ سے مراد یہ ہے کہ امر کی طرز حیات اور اس کی معاشرت کا ڈھانچا اس سرمایہ داری پر قائم ہے اور اس میں ہر چیز بڑی افراط اور کثرت کے ساتھ موجود ہے اور طرح طرح کی چیزوں کے ذخیرے لوگوں کو دعوت خریداری دیتے ہیں۔

سوال نمبر ۲ : مندرجہ ذیل محاورات اور ضرب الامثال کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

اوکھلی میں سر دیا تو دھمکوں سے کیا ڈرنا : مخلص اور سچے سیاسی کارکن آمریت کے خلاف تحریکوں میں ہمیشہ بے خوفی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اوکھلی میں سر دیا تو دھمکوں سے کیا ڈرنا۔
دھکے کھانا : بے روز گار انسام ہر روز دھکے کھا کر شام کو لوٹ آ تا ہے۔
انا للہ پڑھنا : تاجر نے کاروبار میں غیر معمولی نقصان پر انا للہ پڑھا اور صبر وشکر کر کے چپ ہو گیا۔
خاک چھاننا : اس نے کئی ماہ تک جنگلوں کی خاک چھانی ، مگر مطلوبہ جڑی بوٹی نہ مل سکی۔
بلی کی طرح گھر بدلنا : میاں صاحب کو مناسب مکان نہیں ملتا تھا، چنانچہ بلی کی طرح تین بار انھیں گھر بدلنا پڑا۔
شیطان کی آنت ہونا : ہم بہت دیر سے مارکیٹ کے اندر گھوم رہے تھے مگر وہ تو شیطان کی آنت ہوگئی ختم ہونے میں ہی نہ آتی تھی ۔
پیٹ میں ہول اٹھنا : سفر کی ہولناک داستان سن کر میرے تو پیٹ میں ہول اٹھنے لگے۔
ٹھیکی لگانا : جہاز نے ذرا سی دیر کے لیے ٹھیکی لی اور پھر انقرہ کے لیے روانہ ہو گیا۔
آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہونا : آغا گل شادی کے بعد والدین سے الگ ہوا اور اخراجات بڑھے تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔
پھول نچھاور کرنا : ہرقوم اپنے قائدین کی عزت کرتی اور ان پر پھول نچھاور کرتی ہے۔

سوال نمبر ۳ : آپ نے اپنے ملک یا ملک سے باہر کسی جگہ کا سفر کیا ہو تو اس کا حال اپنے لفظوں میں لکھیے۔

جواب : ایک مرتبہ ہم نے پاکستان گھوم کر اس کی خوبصورتی دیکھنے کا فیصلہ کیا اور سویرے دس بجے کی ریل گاڑی سے کراچی سے لاہور روانہ ہوگئے۔ ریل گاڑی ہر اسٹیشن پر رکتی اور مسافر نیچے اتر کر اپنی پسند کی اشیاء خرید لاتے تو کچھ ہی دیر میں سفر کا دوبارہ آغاز ہوجاتا۔ تقریباً چوبیس گھنٹے کے مزیدار لیکن تھکادینے والے سفر کے بعد ہم لاہور پہنچے تو ہوٹل ڈھونڈنے اور وہاں ٹھہرنے کا ایک مشکل ترین مرحلہ ہمارے سامنے موجود تھا۔ چند ہوٹل دیکھنے کے بعد ہم ایک جگہ ٹھہر گئے اور کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد چڑیا گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ اگلے دن ہم مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد دیکھنے گئے اور پھر وہاں سے ہم مری کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں ہم نے کچھ شہروں میں قیام کیا اور مری پہنچ کر وہاں پر موجود بہترین قدرت کے نظارے دیکھے۔ وہاں سے ہم ناران گئے اور سیف الملوک جھیل بھی دیکھی پھر راولپنڈی کی جانب رُخ کیا اور دو دن وہاں قیام کرنے کے بعد ہم اپنے شہر کراچی واپس لوٹ آئے۔

سوال نمبر ۴ : درج ذیل مصادر کو امدادی افعال کے طور پر اپنے جملوں میں استعال کیے۔

دینا : آفتاب نے پچے کو نیا کھلونا لادیا۔
چکنا : بہت ہو چکی اب ختم کیجیے یہ کل کل۔
آنا : ارے آپ تو بہت جلد لوٹ آۓ ۔
جانا : تمھارا اس قدر جلد چلے جانا اچھا نہ تھا۔
اٹھنا : اب عوام جاگ اٹھے ہیں ،مہنگائی ختم ہو جاۓ گی۔
رہنا : سستی کے مارے وہ وہیں پڑا رہا۔
ہونا : کاش میں نے اپنے استاد کی نصیحت پر عمل کیا ہوتا۔
کرنا : دس سال پہلے وہ یہاں رہا کرتا تھا۔
لینا : جلد ہی اس نے قافلے کو جالیا۔
چاہنا : بڑوں کا ادب کر نا چاہیے۔
رکھنا : آج کا کام کل پہ نہ اٹھا رکھو۔

سوال نمبر ۵ : درج ذیل الفاظ کا تلفظ اعراب کی مدد سے واضح کیے۔

اَلْاماَن،
وَاللّٰهُ اَعْلَمُ
تَنوُّعْ
تَوسُّل
اِخْتِراع
زَخَّاز
شِیرخَوارُ
مُراجِعَتُ،