سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ

0
  • سبق : سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ
  • مصنف : مولانا محمد حسین آزاد
  • ماخوذ : نیرنگِ خیال

سوال 9 : اس سبق میں مضمون نگار جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ اپنے لفظوں میں تحریر کیجیے۔

تعارفِ سبق

سبق ”سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ“ کے مصنف کا نام ”مولانا محمد حسین آزاد“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”نیرنگِ خیال“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

آپ کا نام محمد حسین، آزاد تخلص اور شمس العماء خطاب تھا۔ آپ ۱۸۳۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد باقر تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ ذوق کے شاگرد ہوئے۔ آپ نے اعلیٰ ثانوی تعلیم دلی کالج سے حاصل کی اور آپ کے تعلیم سے فراغت پانے کے فوراً بعد ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہوگیا۔ مولانا آزاد کے والد کو ایک انگریز کے قتل کے الزام میں سزائے موت ہوگئی۔

آزاد نے بمشکل اپنی جان بچائی اور لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ یہاں بھی حالات سازگار نہ پاکر لاہور روانہ ہوئے اور وہاں محکمہ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔ آپ نے درسی کتابیں تیار کیں۔ آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کے استاد رہے۔ آپ نے لاہور میں انجمنِ پنجاب کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیفات میں ” آبِ حیات ، نیرنگِ خیال ، دربارِ اکبری ، قصص ہند ، مکاتیب آزاد اور نظمِ آزاد “ قابلِ ذکر ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۱۰ء میں ہوا۔

سبق کا خلاصہ

اس سبق میں مصنف لکھتے ہیں کہ ملکہ صداقت زمانی سلطان آسمانی کی بیٹی ہے کیوں کہ سلطان آسمانی سے مراد یہاں رب تعالیٰ ہے اور صداقت و سچائی رب کی ایک نمایاں خاصیت ہے۔ سبق میں ملکہ دانش خاتون کو صداقت زمانی کی کی ماں اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ جو بھی شخص دانشمند ہوتا ہے وہ ہمشیہ صداقت کو ترجیح دیتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ سلطان آسمانی نے اپنی بیٹی صداقت زمانی کو حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاؤ کیونکہ صداقت ایک ایسی چیز ہے جو بنی نوع انسان کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔ اگر انسان سچ نہ بولے تو ہمیں بہت سے نقصانات اٹھانے پڑھ سکتے ہیں۔

پھر مصنف لکھتے ہیں حمق تیرہ دماغ دروغ دیو زاد کا باپ اور ہوس ہوا پرست اس کی ماں ہے کیونکہ انسان تب ہی کسی سے حسد کرتا ہے جب اس کا ذہن غلط جانب مائل ہوچکا ہوتا ہے اور اسے ہر چیز میں لالچ نظر آتی ہے۔ وہ چاہتا ہے ہر چیز اسے مل جائے اور پھر وہ دوسروں کی کامیابی سے جلنے لگتا ہے۔ یوں تو دروغ دیو زاد کو سلطانِ آسمانی کے دربار میں آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جب کبھی کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے تو وہ ان کی سنگت میں دربار میں آجاتا تھا۔

ملکہ صداقت کی رزم گاہ میں تصویر اس طرح کھینچی گئی ہے کہ وہ اپنے زور پر اکیلی اٹھی اور کسی کی مدد ساتھ نہ لائی اور اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلانے چل دی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فتح و اقبال نور کا غبار اس کے آگے آگے اڑاتے تھے اور پیچھے پیچھے ادراک پر پرواز تھا لیکن معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب ملکہ کے تابع ہیں، شریک نہیں۔ جب کہ دروغ دیو زاد کے ساتھ دنیا کی ہوا و ہوس، ہزاروں رسالے اور پلٹنیں تھیں۔ جب کبھی ملکہ اور دروغ دیو زاد آمنے سامنے آتے وہ لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جا کر غل مچانا شروع کردو۔

دغا کو اشارہ کرتا کہ گھات لگا کر بیٹھ جاؤ، اس کے پاس طراری کی تلوار اور بےحیائی کی ڈھال ہوتی۔ غرض کہ وہ ملکہ صداقت کو ہرانے کے خاطر طرح طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا لیکن پھر بھی فتح کبھی اس کا مقدر نہ بنتی۔ حق و باطل کے معرکے میں فتح کی حقدار ہمیشہ ملکہ صداقت بنتی کیونکہ سچائی و صداقت ہی انسان کا اصل ہیں اور دروغ دیو زاد وقتی طور پر تو اپنی فتح کے شادیانے بجا سکتا ہے لیکن دائمی فتح اس کے مقدر کا حصہ کسی طور نہیں ہوسکتی۔

مصنف لکھتے ہیں کہ جب ملکہ صداقت نے ہوش سنبھالا تو بہترین تعلیم و تربیت پانے کے بعد اس کے سر پر عزت و احترام کا ہمیشہ رہنے والا تاج سجایا گیا اور اسے دعاؤں سے نوازا گیا۔ پھر اسے حکم دیا گیا کہ جاؤ اور جا کر ملکہ ہونے کا فرض ادا کرو اور اولادِ آدم میں سچائی و صداقت کو پھیلاؤ۔ مصنف کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہر جانب خوشیوں کا راج تھا وہاں کسی غلط خیال یعنی دروغ زاد دیو کو آنے کی اجازت نہ تھی لیکن جب کبھی اس محل میں محفلیں سجتی اور وہاں تفریح کے ساتھ ساتھ کسی کا تمسخر اڑایا جاتا تو ظرافت اور تمسخر کی سنگت میں وہ دیو زاد بھی اس محفل کا حصہ بن جاتا تھا۔

مصنف کہتے ہیں کہ جب ملکہ کو حکم ہوا کہ جاؤ اور لوگوں میں صداقت پھیلاؤ تو وہ اپنے دم پر اٹھی اور بڑی شان سے تن تنہا اپنے فرض کو سر انجام دینے نکل کھڑی ہوئی۔ یوں تو وہ اکیلی تھی لیکن اس ملکہ کے آگے آگے فتح و کامیابی نور کا اغبار اڑاتی نظر آتی تھی اور ادراک ملکہ کے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ لیکن معلوم یہ ہوتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ملکہ کا شریک نہیں ہے بلکہ سب ملکہ کے تابع ہیں۔ دروغ دیو زاد جو کہ ملکہ صداقت کا حسد اپنے دل میں رکھتا تھا ملکہ کے پیچھے پیچھے اس کا کام خراب کرنے کی نیت سے گیا تھا۔ ملکہ تو اپنے کام کو مکمل کرنے اکیلی نکلی تھی لیکن دیو زاد فطرتاً گھبرایا ہوا تھا اس لیے اس کے ساتھ بہت سے اور ساتھی موجود تھے جن میں دنیا کی ہوا و ہوس کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی اپنے دل میں لالچ پیدا کرے تو اسے سب سے پہلے دنیا کی ہوس ہوگی اور پھر وہ ہر شے میں لالچ کرے گا۔

مصنف کہتے ہیں کہ جب کبھی ملکہ صداقت اور دیو زاد کا آمنا سامنا ہوتا ، دیو زاد کے ساتھ دل کی ہٹ دھرمی موجود ہوتی، بات کی پچ بھی اس کا ساتھ دیتی اور اسے پیچھے سے زور لگاتی۔ اور بھی بہت سے ساتھی اس کے ساتھ ہوتے لیکن وہ پھر بھی دور دور سے ہی جنگ کرنے کی کوشش کرتا اور میدان میں آنا اس کے لیے دوبھر تھا۔

اس سبق کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال 8 : ذیل کے فقروں میں جو مفہوم پوشیدہ ہے وہ سادہ الفاظ میں بیان کیجیے۔

  • (1)عزت و احترام کا تاج مرصع سر پر رکھا گیا۔

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ”سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”محمد حسین آزاد“ ہے۔ یہ سبق محمد حسین آزاد کی کتاب ” نیرنگِ خیال “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تشریح

اس جملہ میں مصنف لکھتے ہیں کہ جب ملکہ صداقت نے ہوش سنبھالا تو بہترین تعلیم و تربیت پانے کے بعد اس کے سر پر عزت و احترام کا ہمیشہ رہنے والا تاج سجایا گیا اور اسے دعاؤں سے نوازا گیا۔ پھر اسے حکم دیا گیا کہ جاؤ اور جا کر ملکہ ہونے کا فرض ادا کرو اور اولادِ آدم میں سچائی و صداقت کو پھیلاؤ۔

  • (2) جب کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے ان کی سنگت میں وہ آجاتا تھا۔

تشریح

اس جملے میں مصنف کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہر جانب خوشیوں کا راج تھا وہاں کسی غلط خیال یعنی دروغ زاد دیو کو آنے کی اجازت نہ تھی لیکن جب کبھی اس محل میں محفلیں سجتی اور وہاں تفریح کے ساتھ ساتھ کسی کا تمسخر اڑایا جاتا تو ظرافت اور تمسخر کی سنگت میں وہ دیو زاد بھی اس محفل کا حصہ بن جاتا تھا۔

  • (3) آگے آگے فتح و اقبال ، نور کا غبار اڑاتے آتے تھے اور پیچھے پیچھے ادراک پر پرواز تھا۔

تشریح

اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کہ جب ملکہ کو حکم ہوا کہ جاؤ اور لوگوں میں صداقت پھیلاؤ تو وہ اپنے دم پر اٹھی اور بڑی شان سے تن تنہا اپنے فرض کو سر انجام دینے نکل کھڑی ہوئی۔ یوں تو وہ اکیلی تھی لیکن اس ملکہ کے آگے آگے فتح و کامیابی نور کا اغبار اڑاتی نظر آتی تھی اور ادراک ملکہ کے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ لیکن معلوم یہ ہوتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ملکہ کا شریک نہیں ہے بلکہ سب ملکہ کے تابع ہیں۔

  • (4) ہوا و ہوس اس کے یار وفادار تھے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کہ دروغ دیو زاد جو کہ ملکہ صداقت کا حسد اپنے دل میں رکھتا تھا ملکہ کے پیچھے پیچھے اس کا کام خراب کرنے کی نیت سے گیا تھا۔ ملکہ تو اپنے کام کو مکمل کرنے اکیلی نکلی تھی لیکن دیو زاد فطرتاً گھبرایا ہوا تھا اس لیے اس کے ساتھ بہت سے اور ساتھی موجود تھے جن میں دنیا کی ہوا و ہوس کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی اپنے دل میں لالچ پیدا کرے تو اسے سب سے پہلے دنیا کی ہوس ہوگی اور پھر وہ ہر شے میں لالچ کرے گا۔

  • (5) دل کی ہٹ دھرمی ، بات کی پچ، پیچھے سے زور لگاتے تھے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کہ جب کبھی ملکہ صداقت اور دیو زاد کا آمنا سامنا ہوتا ، دیو زاد کے ساتھ دل کی ہٹ دھرمی موجود ہوتی، بات کی پچ بھی اس کا ساتھ دیتی اور اسے پیچھے سے زور لگاتی۔ اور بھی بہت سے ساتھی اس کے ساتھ ہوتے لیکن وہ پھر بھی دور دور سے ہی جنگ کرنے کی کوشش کرتا اور میدان میں آنا اس کے لیے دو بھر تھا۔

سوال : آپ حق گوئی اور مصلحت پسندی کو زندہ انسان قرار دے کر ان کی آپس کی گفتگو کو مکالمے کی شکل میں لکھیے۔

  • حق گوئی : تم لوگوں کو مصلحت پسندی کے نام ہر منافقت کرنے پر مجبور کردیتی ہو۔ لیکن تم کیا جانو حق کا مقدر جیت ہے اور تم کبھی میرے سامنے ٹک نہیں سکتی۔
  • مصلحت پسندی : حق کہہ کر کسی کی دل آزاری ہو اور مصلحت پسندی سے اپنی زندگی آسان تو انسان یقیناً مجھے تم پر ترجیح دیں گے۔
  • حق گوئی : انسان آسانی کی جانب جاتا ہے لیکن منافقت کا درجہ بہت نیچے ہے اور پھر حق کہہ کر اگر انسان مشکل میں بھی پڑے تو اس کا درجہ بہت اونچا ہے۔ تم میری اہمیت اپنی باتوں سے کم نہیں کرسکتی۔
  • مصلحت پسندی : میں تمھاری اہمیت کم کرنے نہیں، اپنی اہمیت بتانے آئی ہوں۔
  • حق گوئی : ہاہاہاہا، اپنے نام کی طرح آگئی ناں تم بھی مصلحت پسندی کی جانب۔
  • مصلحت پسندی : کم از کم تلخ لہجے میں حق کہہ کر کسی کی دل آزاری جیسے گناہ کی مرتکب نہیں ہوتی میں۔
  • حق گوئی : تمھاری اور میری بحث لایعنی ہے ، کسی معاملے میں مصلحت اور کہیں حق گوئی بہتر ہے۔ آسمان کے بادشاہ نے آدمِ اولاد کو دانش مندی اور عقل اس لیے دی ہے کہ وہ درست فیصلہ کر سکے کہ کب کسے ترجیح دینی ہے۔ تمھارے یا میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔
  • مصلحت پسندی : سو تو ہے، ہماری یہ بحث یقیناً بنی نوع انسان کے لیے سوچ کے در وا کرسکتی ہے لیکن نتیجہ اسے خود اخذ کرنا پڑے گا۔