چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ

0
  • سبق : چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ
  • مصنف : مولاناصلاح الدین احمد
  • ماخوذ از : صریر خامہ ، حصہ دوم

تعارفِ سبق : سبق ” چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ“ کے مصنف کا نام ”مولاناصلاح الدین احمد“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” صریر خامہ ، حصہ دوم “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف سجاد حیدر کا تعارف کروا رہے ہیں اور وہ لکھتے ہیں کہ سجاد حیدر کو افسانہ نگار کے بجائے انشا پرداز کہنا اس لیے درست ہے کیونکہ وہ حسن کو ایک نادرہ کی کار چابک دستی سے الفاظ کے حسن میں منتقل کرنے کی ایک بے مثال قدرت رکھتے تھے۔ مصنف نے حسن کا لفظ عمداً استعمال کیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بد صورتی کے انتقال کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہ ایک بہت بڑے اسٹائلسٹ تھے۔ سجاد حیدر نے اپنے سحر نگار قلم سے اردو ادب کو قلم قرطاس کو ایک گلشن بہار میں منتقل کیا اور انہوں نے ایک نئے طرز و بیاں سے متعارف کروایا۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ہمارے اردو ادب پر اخلاق و افادیت کا کہر چھایا ہوا تھا۔ سر سید احمد خان کی تحریک بارور ہوچکی تھی اور حالی اپنے سیل سخن کو تنگئائے غزل سے نکال کر قومی شاعرواں کی رودبار نو میں رواں کرچکے تھے۔ بقول مولانا صلاح الدین احمد ایک پر زور اور چونکا دینے والے اسٹائل (اسلوب تحریر) طبیعت کے اندورنی طوفان سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے وطن میں جو ایک تخلیقی دنیا آباد ہے اس کے عناصر جب ہماری خارجی دنیا سے ٹکراتے ہیں تو تصادم کا اظہار لامحالہ زبان اس مرکب رنگ میں ہی ہوسکتا ہے ، جو اپنی روشنائی خارجی فضا اور سرخی لکھنے والے کے خون دل سے مستعار لیتا ہے۔

مصنف کہتے ہیں کی اردو ادب نے ایک کٹھن دور گزارا ہے اور اس کٹھنائی میں ان تین لوگوں نے اس کی بقاء کی کوشش کی۔ رتن ناتھ سرشار ، عبدالحلیم شرر اور سجاد حسین نے اپنے آخری دم تک ادب کی اس بجھی مشعل کو جلانے کی کوشش کی، جس روشنی پہلے بھی عروج پر تھی اور اس کا موجب سر سید احمد کی تحریک تھی۔ مصنف کہتے ہیں جب سجاد حیدر کچھ لکھنے کے لیے قلم تھامتے تو یوں لگتا تھا جیسے الفاظ ادب سے ہاتھ باندھیں کھڑے ہیں اور سجاد حیدر بہت سوچ و بچار کے بعد عمدہ لفظوں کا چناؤ کر کے ، ان لفظوں میں اپنی انفرادیت کی چاشنی بھر رہے ہیں اور ایک کہانی ترتیب دے رہے ہیں۔

سوال ۱ : بیسویں صدی کے آغاز میں ہمارے اردو ادب کی کیا صورت حال تھی؟

جواب : بیسویں صدی کے آغاز میں ہمارے اردو ادب پر اخلاق و افادیت کا کہر چھایا ہوا تھا۔ سر سید احمد خان کی تحریک بارور ہوچکی تھی اور حالی اپنے سیل سخن کو تنگئائے غزل سے نکال کر قومی شاعرواں کی رودبار نو میں رواں کرچکے تھے۔

سوال۲ : سجاد حیدر کو افسانہ نگار کے بجائے انشا پرداز کہنا کیوں درست ہے؟

جواب : سجاد حیدر کو افسانہ نگار کے بجائے انشا پرداز کہنا اس لیے درست ہے کیونکہ وہ حسن کو ایک نادرہ کی کار چابک دستی سے الفاظ کے حسن میں منتقل کرنے کی ایک بے مثال قدرت رکھتے تھے۔ مصنف نے حسن کا لفظ عمداً استعمال کیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بد صورتی کے انتقال کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہ ایک بہت بڑے اسٹائلسٹ تھے۔

سوال۳ : سجاد حیدر نے اپنے سحر نگار قلم سے اردو ادب کو جو کچھ دیا اس پر روشنی ڈالیے؟

جواب : سجاد حیدر نے اپنے سحر نگار قلم سے اردو ادب کو قلم قرطاس کو ایک گلشن بہار میں منتقل کیا اور انہوں نے ایک نئے طرز و بیاں سے متعارف کروایا۔

سوال۴ : بقول مولانا صلاح الدین احمد ایک پر زور اور چونکا دینے والے اسٹائل (اسلوب تحریر)کس طرح پیدا ہوتا ہے؟

جواب : بقول مولانا صلاح الدین احمد ایک پر زور اور چونکا دینے والے اسٹائل (اسلوب تحریر) طبیعت کے اندورنی طوفان سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے وطن میں جو ایک تخلیقی دنیا آباد ہے اس کے عناصر جب ہماری خارجی دنیا سے ٹکراتے ہیں تو تصادم کا اظہار لامحالہ زبان اس مرکب رنگ میں ہی ہوسکتا ہے ، جو اپنی روشنائی خارجی فضا اور سرخی لکھنے والے کے خون دل سے مستعار لیتا ہے۔

سوال۵ : ذیل کے جملوں کے مفہوم کی وضاحت کیجیے :

  • (ا) سرشار ، شرر اور سجاد حسین نے اس بجھتی ہوئی کو اکسانے کی کوشش کی جس سے کبھی شام اودھ کے سہانے دھندلکے روشن تھے۔

یہ اقتباس سبق چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ سے لیا گیا ہے۔ جس کے مصنف مولاناصلاح الدین احمد ہیں ۔ یہ سبق کتاب صریر خامہ ، حصہ دوم سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کی اردو ادب نے ایک کٹھن دور گزارا ہے اور اس کٹھنائی میں ان تین لوگوں نے اس کی بقاء کی کوشش کی۔ رتن ناتھ سرشار ، عبدالحلیم شرر اور سجاد حسین نے اپنے آخری دم تک ادب کی اس بجھی مشعل کو جلانے کی کوشش کی، جس روشنی پہلے بھی عروج پر تھی اور اس کا موجب سر سید احمد کی تحریک تھی۔

  • (ب) جب اس نے قلم اٹھایا تو صفحات قرطاس ایک کلشن بے خزاں کے ان سدا بہار تختوں میں منتقل ہوتے چلے گئے جن کی شمیم روح افزا سے شینتکان ادب کے مشام شام ابد تک معطر رہیں گے۔

یہ اقتباس سبق چند لمحے سجاد حیدر کے ساتھ سے لیا گیا ہے۔ جس کے مصنف مولاناصلاح الدین احمد ہیں ۔ یہ سبق کتاب صریر خامہ ، حصہ دوم سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کی اردو ادب نے ایک کٹھن دور گزارا ہے اور اس کٹھنائی میں ان تین لوگوں نے اس کی بقاء کی کوشش کی۔ ان میں ایک نام سجاد حیدر کا بھی ہے۔ مصنف کہتے ہیں جب سجاد حیدر کچھ لکھنے کے لیے قلم تھامتے تو یوں لگتا تھا جیسے الفاظ ادب سے ہاتھ باندھیں کھڑے ہیں اور سجاد حیدر بہت سوچ و بچار کے بعد عمدہ لفظوں کا چناؤ کر کے ، ان لفظوں میں اپنی انفرادیت کی چاشنی بھر رہے ہیں اور ایک کہانی ترتیب دے رہے ہیں۔

سوال ٦ : آپ بھی یہ حروف الگ الگ جملوں میں الگ الگ معنوں میں استعمال کیجیے۔

١) معلوم تو مجھے سب ہے مگر میں بتاؤں گا نہیں۔
٢) خطاطی اچھی تو کیا ہوتی بلکہ اور خراب ہوگئی۔
٣) مجھے آپ کو تو نہیں البتہ آپ کے والد کو کچھ بتانا ہے۔
٤) میں نے کیک بنانے کی بڑی کوشش کی لیکن بنا نہیں سکی۔