عتبہ بن غلام رحمة اللہ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

آپؒ کا شمار اہل باطن اور اہل کمال میں ہوتا ہے۔ آپؒ حضرت حسن بصریؒ کے تلامذہ میں ہیں اور آپؒ کا طریقہ مقبول عام و خاص تھا۔

راضی بر رضائے الٰہی:☜

آپؒ ایک دن حضرت حسن بصریؒ کے ہمراہ دریاء کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ اچانک پانی کے اوپر چلنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت حسن بصریؒ حیرت زدہ ہو گئے اور ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟؟؟   فرمایا کہ آپ تو صرف وہ کرتے ہیں جسکا آپ کو حکم دیا جاتا ہے لیکن میں وہ امور انجام دیتا ہوں جو اللہ تعالٰی کا منشاء ہوتا ہے۔  مطلب یہ تھا کہ آپؒ بحر تسلیم و رضاء  میں غرق رہتے ہیں۔ 

احساس زیاں:☜

آپؒ اس طرح تائب ہوئے کہ ایک حسین عورت پر فریفتہ ہوئے، اس سے کسی نہ کسی طرح اپنے عشق کا اظہار کر دیا۔ چنانچہ اس نے اپنی کنیز کے ذریعہ دریافت کرایا کہ آپؒ نے میرے جسم کا کون سا حصہ دیکھا ہے؟؟؟  آپؒ نے فرمایا کہ تمہاری آنکھیں دیکھ کر فریفتہ ہوا ہوں۔۔اس  جواب کے بعد اس نے اپنی دونوں آنکھیں نکال کر آپؒ  کی خدمت میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کنیز سے یہ کہلوایا کہ جس چیز پر آپ فریتہ ہوۓ تھے وہ حاضر ہیں۔ یہ دیکھ کر آپؒ کے اوپر ایک عجیب حالت طاری ہو گئی اور حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں پہنچ کر تائب ہوئے اور فیوض باطنی سے بہراور ہو کر مشغول عبادت رہے۔ خود اپنے ہاتھ سے جو کی کاشت کرتے اور خود ہی اپنے ہاتھ سے آٹا پیستے اور پانی میں تر کرکے دھوپ میں سکھاتے  اور پورے ہفتہ ایک ایک ٹکیہ کھا کر عبادت میں مشغول رہتے اور فرماتے کہ روزانہ رفع حاجت کے لیے جانے سے کراماً کاتبین کے سامنے شرم آتی ہے۔

ندامت:☜

لوگوں نے ایک مرتبہ سرما کے موسم میں آپؒ کو ایک کرتہ میں دیکھا! کہ موسم سرما میں بھی آپؒ کا جسم پسینہ سے شرابور تھا۔اور جب  کچھ لوگوں  نے اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ مدت گزر گئی میرے یہاں کچھ مہمان آۓ،اور انہوں نے بلا اجازت میرے ہمسایہ کی دیوار سے مٹی لے لی۔ چنانچہ جب سے لیکر آج تک  جب بھی میری نظر اس دیوار پر پڑتی ہے تو میں شرمندگی سے پسینہ پسینہ ہو جاتا ہوں۔ حالانکہ میرا ہمسایہ معاف کر چکا ہے۔

آپؒ کا حال:☜

لوگوں نے عبدالوحد بن زیدؒ سے سوال کیا کہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جو اپنے حال میں مست رہتے ہوۓ دوسروں کے حال سے بے خبر رہے؟ فرمایا کہ ہاں تھوڑی دیر انتظار کرو وہ ابھی آتا ہے۔ چنانچہ سامنے سے حضرت عتبہؒ تشریف لے آئے۔ لوگوں نے جب ان سے سوال کیا کہ راہ میں کس کس سے ملاقات ہوئی۔تو آپؒ نے فرمایا کہ مجھے تو کوئی نہیں ملا۔ حالانکہ آپؒ بازار کی جانب سے تشریف لا رہے تھے۔

آپؒ کی عاجزی:☜

آپؒ نہ کبھی عمدہ کھاتے اور نہ کبھی اچھا لباس پہنتے۔ایک مرتبہ آپؒ کی والدہ نے کہا کہ اے عتبہ اپنی حالت پر رحم کر ۔۔۔۔ آپؒ نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ مجھ پر روز محشر رحم کیا جاۓ۔جو ہمشیہ کے لیے سود مند ہو۔ دنیا تو چند روزہ ہے، اگر یہاں کی تکلیف سے آخرت کی تکلیف  کا ازالہ ہو جاتا ہے تو یہ بڑی خوش بختی ہے۔

آپؒ کا گریہ:☜

متواتر کئی رات بیدار رہ کر یہ  کلمہ دوہراتے رہے کہ  اے اللہ!  خواہ  تو مجھے عذاب میں مبتلا کر یا معاف کر دے، ہر حال میں تو میرا دوست ہے۔

 جنت کی حوریں آپؒ کی خواہش مند تھی:☜

ایک مرتبہ آپؒ نے خواب میں ایک حور کو یہ کہتے دیکھا  کہ۔۔۔۔ اے عتبہ میں تم پر فریفتہ ہو گئی اور میری خواہش یہ ہے کہ تم کبھی ایسا کوئی کام  نہیں کرنا ، جو ہماری جدائی کی شکل میں نمودار ہو۔ آپؒ نے فرمایا کہ میں تو دنیا کو طلاق دے چکا ،اور تجھ سے وصال کے وقت کبھی دنیا کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھوں گا۔

کرامت:☜

ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ بہت سے لوگ مجھ سے آپؒ کا حال دریافت کرتے ہیں۔اگر آپ اپنی کوئی کرامت دیکھا دیں تو بہتر ہے۔ آپؒ نے پوچھا کہ بتا کیا پوچھتے ہیں؟؟؟ اس نے کہا : کہ تازہ کھجور کی خواہش ہے۔حالانکہ  یہ کھجور کی فصل (موسم) نہیں ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ یہ لیں ۔۔۔اور ایک کھجور سے بھری ہوئی تھیلی  اس کو دی۔

سفر آخرت :☜

ایک دن حضرت سماکؒ اور حضرت ذوالنورین، حضرت رابعہ بصریؒ کے یہاں تشریف فرما تھے۔تو حضرت عتبہؒ ایک نیاء لباس زیب کرکے اکڑتے ہوۓ پہنچے۔ حضرت سماکؒ نے فرمایا یہ آج کیسی چال چل رہے ہو؟ فرمایا کہ میرا نام غلام جبار ہے ،اس لیے اکڑ کر چل رہا ہوں۔اور یہ کہتے ہی غش کھا کر زمین پر گر پڑے اور جب لوگوں نے پاس جا کر دیکھا تو آپؒ کی روح پرواز کر چکی تھی۔  ان للہ وان الیہ راجعون۔۔۔۔۔

آپؒ کی زیارت:☜

وفات کے بعد کسی نے آپؒ کو خواب میں دیکھا کہ نصف چہرا سیاہ پڑ گیا ہے۔ اور آپؒ سے جب اسکا سبب دریافت کیا؟؟؟ تو آپؒ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ دور طالب علمی میں بڑی ڈاڑھی اور موچھوں والے ایک خوبصورت  لڑکے کو غور سے دیکھا تھا۔  چنانچہ جب مرنے کے بعد مجھے جنت کی جانب لے جایا جا رہا تھا۔   تو جہنم سے گزرتے ہوۓ ایک سانپ نے میرے رخسار پر کاٹتے ہوۓ کہا کہ بس ایک نظر دیکھنے کی ہی سزاء ہے۔ اور اگر تو کبھی اس لڑکے  کو اس سے زیادہ توجہ سے دیکھتا تو میں تجھے اس سے زیادہ اذیت پہنچاتا۔