Advertisement
Advertisement

غزل

کوچہ یار عین کاسی کا ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے
اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے
یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے
جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے
اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

تشریح

پہلا شعر

کوچہ یار عین کاسی کا ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے

محبوب کا کوچہ عاشق کے لیے کسی تیرتھ استھان سے کم نہیں ہوتا ہے لہذا شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا کوچہ کاشی کی مانند ہے اور میرا دل وہاں کا رہنے والا ہے۔ کاشی ہندوؤں کا ایک تیرتھ استھان ہے۔ شاعر نے محبوب کے کوچے کو کاشی سے تشبیہ دی ہے۔

Advertisement

دوسرا شعر

پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جدائی کی مایوسی کے سبب سے میرے دل پر ہمیشہ اداسی چھائی رہتی ہے۔

تیسرا شعر

اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب تمہارے ماتھے پر جو یہ سیاہ تِل ہے یہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہندو ہردوار پر باس کر رہا ہو۔محبوب کی پیشانی کو شاعر نے ہردوار اور تِل کو ہندو سے تشبیہ دی ہے اور وہ اس لئے کہ ہندو کے معنی سیاہ کے بھی ہوتے ہیں۔

Advertisement

چوتھا شعر

زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے

زُلفوں میں چونکہ کے بل ہوتے ہیں اس لیے انہیں اکثر دریا کی لہروں سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تمہاری زُلف دریاے جمنا کی موج کی طرح ہے اور اس کے نزدیک جو تِل ہے وہ جیسے کوئی جمنا کے کِنارے بیٹھا سنیاسی ہو۔(جمنا بھی ہندؤں میں مُتبرک دریا مانا جاتا ہے)

Advertisement

پانچواں شعر

یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے

اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری ٹھوڑی تک آئی یہ زلف ایسی بے قرار ہے جیسے کوئی ناگنی کنویں پر پیاسی ہو۔ سانپ میں ویسے ہی قرار نہیں ہوتا اس پر پیاسا ہو اور پانی سامنے ہو مگر اس تک پہنچ نہ پائے تو کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سانپ سے زلف کوتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح ولیؔ نے پیا سے سانپ سے محبوب کی بے قرار زلف کوتشبیہ ہے۔ یہ بے مثال ہے۔

چھٹا شعر

جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ جس کے کلام میں تاثیر نہیں ہے، مزہ نہیں ہے۔ اس کا کلام باسی کھانے کی طرح ہے کہ وہ کہ جس طرح باسی کھانا بے مزہ ہوتا ہے اس طرح اس کا کام بھی مزہ نہیں دیتا۔

Advertisement

ساتواں شعر

اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

غزل کے مقطع میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ عشق کو آرائش سے مطلب نہیں ہوتا۔ اس کی پہچان تو اس کا چاک گربیان ہوتا ہے۔لہذا جو شخص بہتر لباس کا خیال رکھتا ہے وہ عاشقوں کے نزدیک عاشق نہیں ہے بلکہ وہ تو دنیاوی، دنیا کا باشندہ ہے، جس کو عشق سے سروکار نہیں۔

Advertisement