Advertisement
Advertisement

غزل

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
کیونکہ حاصل ہو مجھ کوں جمعیت
زلف تیری قرار کھوتی ہے
ہر سحر، شوق کی نگہ کی شراب
مجھ آنکھیاں کا خُمار کھوتی ہے

تشریح

پہلا شعر

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے

شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی تمام بہاریں، رونقیں، خوشیاں، ناداری چھین لیتی ہے۔ مفلسی یعنی ناداری ،غریبی انسان کی تمام مُسکراہٹیں ختم کر دیتی ہے۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ یہ ایسی لعنت ہے کہ آدمی کا اعتبار ختم کر دیتی ہے۔ نادار پر کوئی بھروسا نہیں کرتا۔

Advertisement

دوسرا شعر

کیونکہ حاصل ہو مجھ کوں جمعیت
زلف تیری قرار کھوتی ہے

شاعر کہتا ہے کہ مجھے اطمینان کیونکر حاصل ہو سکتا ہے۔مجھے سکون کیونکر مہیا ہو سکتا ہے کہ تمہاری یہ پیچ دار دراز زُلفیں میرے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہیں اور اسی طرح مجھے بے قرار کیے رہتی ہیں۔

تیسرا شعر

ہر سحر، شوق کی نگہ کی شراب
مجھ آنکھیاں کا خُمار کھوتی ہے

محبوب کی آنکھوں کو پیمانا سے اکثر تشبیہ دی جاتی ہے۔پیمانے میں شراب ہوتی ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہر صبح اس شوخ، شریر چخچل محبوب کا دیدار کرتا ہوں، اس کی نگاہوں کی شراب پیتا ہوں اور اس طرح سے خُمار کی حالت سے نجات پا لیتا ہوں۔خُمار اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں نشہ اترنے لگتا ہے اور بدن جیسے ٹوٹتا ہے۔

Advertisement

Advertisement