وزیر آغا کے تنقیدی نظریات

0

وزیر آغا نے روش عام سے ہٹ کر اپنی تنقید کا راستہ نکالا۔تہذیب اور کلچر کے علاوہ نفسیات اور دیو مالا وہ اہم زاویے ہیں جن سے انہوں نے اردو ادب کو دیکھا اور پرکھا۔ادب کی جڑوں کو تلاش کرتے ہوئے وہ قدیم تاریخ کے صفحات میں اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ بعض نقادوں کے بقول ان کی تنقید کا حقیقت سے رشتہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن جہاں ان کے طریق کار پر نکتہ چینی کی گئی وہیں اسے سراہا بھی گیا۔

انہوں نے دیو مالا کے ذریعے انسان کی صدیوں سال پرانی دنیا تک رسائی حاصل کرنے اور آرکی ٹائپس کا سراغ لگانے کی کوشش کی جو ذہن انسانی کا جزو بن جاتے ہیں اور لاشعوری طور پر ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔وزیر آغا نے اجتماعی لاشعور کی مدد سے کئی فنکاروں کا مطالعہ کیا اور بالکل نئے نتیجے نکالے۔اس سلسلے میں میراجی کا نام لیا جاسکتا ہے جن کا ظاہر ایسا انوکھا تھا کہ لوگ اسی میں الجھے رہے۔ان کے باطن تک پہنچنے کی کوشش کم لوگوں نے کی۔لیکن وزیر آغا اس نتیجے پر پہنچے کہ”میرا جی چونکہ اس دھرتی کا باسی تھا اور اس کا خون، گوشت پوست اور مزاج اس دھرتی کے نمک،ہوا، پانی اور مٹی سے بنا تھا اس لیے یہ غیر اغلب نہیں کہ اس کے اجتماعی لاشعور میں بھی ماضی اور ماضی کی روایات کے وہ سارے نقوش موجود ہوں جو روشنی میں آنے کے لئے بے تاب تھے۔میرا سین کی ہستی محض اس لاشعوری رحجان کو جنبش میں لانے کا موجب بنی اور میراجی نے اپنی نظم کے ذریعے اس صدیوں پرانی وابستگی اور پوجا کو کاغذ پر منتقل کردیا”

یہ اقتباس پیش کرنے کے بعد انور سدید لکھتے ہیں کہ یہی نہیں بلکہ وزیر آغا نے میرا جی کی نظموں سے وشینومت کے تصورات بھی ڈھونڈ نکالے اور اس کی نظموں کے جنسی پہلو کو ویشنو بھگتی تحریک کے اثرات کا نتیجہ قرار دیا۔وزیر آغا کی اس کاوش کے بعد میرا جی کی شاعری کی طرف زیادہ توجہ کی گئی۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی تنقید میں تہذیب اور نفسیات کی طرف خاص توجہ کی ہے لیکن تنقید کے باقی حربوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔انہوں نے سماج کے تعلق سے بھی ادب کا مطالعہ کیا ہے،مذہبیات اور انتھروپالوجی سے بھی مدد لی ہے۔ان کا طریق کار یہ ہے کہ تنقید کے لیے وہ کسی فن پارے کا انتخاب کر لیتے ہیں،پھر یہ کام اس فن پارے پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اسے کن کن زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جائے۔مطلب یہ کہ وہ فن پارے کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اس سے مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔

فنپارے کے مطالعے میں وزیر آغا یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ اس کا کوئی پہلو چھوٹنے نہ پائے۔جیسا کہ واضح کیا گیا ان کے نظام فکر میں زمین کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اس لئے وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ کسی ادب پارے کا جائزہ اسی وقت مکمل کہلانے کا مستحق ہے جب زمین اور فنکار کی شخصیت کے کسی پہلو کو نظرانداز نہ کیا جائے۔عقیدے کی وہ نفی نہیں کرتے مگر محض اسی کو کسوٹی سمجھ لینا ان کے نزدیک محدود اور تنگ نقطۂ نظر کو فروغ دینا ہے۔ان کے الفاظ میں”ایک عظیم فنکار اپنی فطری نمو کے راستے میں کوئی بند نہیں باندھتا۔وہ اسے آزاد فضا میں پھیلنے کی کھلی اجازت دیتا ہے۔اس کا فن تنگ مادی حدود کو پار کرکے آسمانی رفعتوں کی طرف پھیلتا تو ہے لیکن اس کی جڑیں صدر زمین کی سے وابستہ رہتی ہیں —اور—-ادب کی تخلیق کے سلسلے میں اس بات کی قطعاً کوئی قید نہیں کہ اس میں ادیب نے کس عقیدے کا اظہار کیا ہے یا سرے سے کسی عقیدے کو پیش بھی کیا ہے یا نہیں۔دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس نے جو کچھ پیش کیا ہے اس میں خلوص اور فن کا کیا عالم ہے۔اگر وہ پرخلوص ہے اور اس کے یہاں تخلیقی عمل توانا ہے،نیز وہ اظہار و ابلاغ پر بھی قادر ہے تو لامحالہ اس کی تخلیق ادب کے زمرے میں شامل ہوگی چاہے اس نے کیسے ہی تاثر یا عقائد کا اظہار کیوں نہ کیا ہو۔”
گویا وہ صرف تہذیب اور کلچر یامحض نفسیات اور دیو مالا کو اہمیت نہیں دیتے۔فن پارے میں عقیدے کا وجود وعدم ان کے لیے بے معنی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ وہ ادب کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں مطلب یہ کہ ان کے نزدیک جمالیاتی پہلو کو تنقید میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔غرض ان کی تنقید کسی طرح کی تنگ دامانی کا شکار نہیں۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسی لیے وہ ان کی تنقید کو امتزاجی تنقید(synthetic criticism) کا نام بھی دیا گیا ہے۔

اردو ادب میں وزیر آغا کی کئی حیثیتیں ہیں۔وہ نقاد ہونے کے علاوہ تخلیق کار بھی ہیں۔ وہ تنقید کو تخلیق کا ہمسر مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت ہی تنقیدی مضامین کی محرک ہوئی۔انہوں نے لکھا ہے”مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ میری تنقید میرے تخلیقی عمل سے ماخوذ ہے،اس کی محرک ہرگز نہیں۔اگر مجھے خالص تخلیقی عمل سے گزرنے کی سعادت نصیب نہ ہوتی تو میں شاید ان میں سے کوئی مضمون بھی نہ لکھ سکتا” اس لیے وہ اپنی تنقید کو “تخلیق مکرر” کہتے ہیں اور لکھتے ہیں:
“نقاد چاہے زمانہ ہو یا خود فنکار جب تک فنکار کو جاننے اور پہچاننے کے لیے تخلیق مکرر کے عمل سے نہیں گزرتا فن پارہ اس پر اپنا سینہ عریاں نہیں کرتا”

وزیر آغا نے تنقید کا جو راستہ اختیار کیا تھا اس میں بہت سے اندیشے تھے خاص طور پر یہ کہ موضوع نیا ہونے کے سبب وہ بھاری بھرکم ادبی و علمی اصطلاحوں کا سہارا لیتے اور ان کے افکار و خیالات،وضاحت و صراحت سے محروم ہوجاتے مگر ایسا نہیں۔ان کا انداز بیان شگفتہ، روشن اور نہایت مدلل ہے۔نتیجہ یہ کہ انکی تحریریں دلچسپ، پراثر، فکر انگیز اور ساتھ ہی عالمانہ سنجیدگی سے معمور ہیں۔

ان کی تصانیف کی فہرست بہت لمبی ہے مگر ادب کے طالب علم کے لیے جن کا مطالعہ زیادہ ضروری ہے وہ ہیں: اردو ادب میں طنز و مزاح،نظم جدید کی کروٹیں،اردو شاعری کا مزاج،تخلیقی عمل،تنقید اور احتساب اور تصورات عقل و خرد۔۔