شاعری کی تعریف

0

اردو شاعری سے متعلق ابحاث پر لکھی گئی کتابوں میں الطاف حسین حالی مرحوم کی کتاب “مقدمہ شعر و شاعری” کو وہی مقام حاصل ہے جو خود شاعری کو اصنافِ ادب میں حاصل ہے۔ شاعری کا ذوق رکھنے والے احباب کے لیے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

اس کتاب میں شاعری کی تعریف، ضرورت، مدح و ذم، شاعری کے لیے درکار استعداد، اشعار کے محاسن و قبائح اور شاعری کی بعض اصناف وغیرہ پر تفصیل سے کلام کیا گیا ہے۔ “مقدمہ شعر و شاعری” اور دیگر کتب کے مطالعہ کے دوران میں نے ان مباحث کو، جن کا جاننا کسی بھی شاعر کے لیے ضروری ہے، اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ جمع کیا ہے۔

شاعری کی تعریف

خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزوں کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔

شاعری دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

۱) تخیل و محاکات  ۲)  وزن

تخیل و محاکات

  معلومات کے ذخیرہ سے کوئی خیال اخذ کرنا تخیل اور پھر اسے الفاظ کے دلکش اور موثر پیرایہ میں پیش کرنا محاکات کہلاتا ہے۔

قوت متخیلہ جس قدراعلی درجے کی ہوگی اسی قدر  شاعری بھی اعلی درجے کی ہو گی۔یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے ۔ اور ماضی و استقبال کو اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم علیہ السلام اور  جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام  واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں ۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیات جیسی چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔

تخیل و محاکات کی مثال:

جیسے درج ذیل معلومات سے شاعر نے ایک خیال اخذ کیا اور پھر اسے کلام کی صورت میں  پیش کیا۔

معلوم نمبر۱؛ جام سفال (مٹی کا کوزہ) ایک نہایت کم قیمت چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتا ہے۔

معلوم نمبر۲؛ جام جم (جمشید بادشاہ کا جام) ایک نہایت قیمتی اور انمول چیز ہے جو بازار میں دستیاب نہیں۔

معلوم ۳؛ جام جم کے آگے جام سفال کی کوئی حیثیت نہیں۔

اب شاعر کی قوت متخیلہ نے ان تمام معلومات کو ترتیب دے کر یہ خیال پیش کیا کہ جام سفال جام جم سے بہتر ہے۔اور پھر اس خیال کو بیان کا ایک دلفریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر لذت حاصل کرتی ہے اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے؀

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے (غالب)

آسان  و مختصر الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ذہن میں کوئی خیال لانا تخییل ہے اور پھر اسے دلکش انداز میں پیش کرنا محاکات ہے۔

۲۔ کلام کا موزون ہونا

جان لینا چاہئے کہ کسی کلام میں اگرچہ  کتنے ہی بلند مضامین کو خوب سے خوب تر انداز میں بیان کیا گیا ہو، لیکن اگر وہ کسی وزن و آہنگ میں نہیں ،تو اسے شاعری نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس پر نثر کا اطلاق ہو گا۔

شاعری کی اصطلاح میں وزن،  دو کلموں کی حرکات و سکنات کے برابر ہونے کو کہتے ہیں۔

جیسے افضل اور اشرف ، کتاب اور شباب وغیرہ  ان مثالوں میں افضل اور اشرف ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک، دوسرا ساکن، تیسرا متحرک اورچوتھا ساکن ہے۔

اسی طرح کتاب اور شباب ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک دوسرا بھی متحرک تیسرا ساکن اور چوتھا بھی ساکن ہے۔ اوزان شعریہ پر بحث علم عروض میں کی جاتی ہے۔