یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں تشریح

0
  • شاعرہ : ادا جعفری
  • ماخوذاز : غزالاں تم تو واقف ہو

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کی شاعرہ کا نام ادا جعفری ہے۔ یہ غزل غزالاں تم تو واقف ہو سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعرہ :

ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ آپ نے نظم و نثر دونوں صنفوں میں اظہارِ خیال کیا مگر شاعری وجہ شہرت بنی۔ انھوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں اور جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی نام کمایا، مگر وجہ کمال غزل ہے۔ آپ نے متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات و تمغات حاصل کیے، جن میں قومی تمغا برائے حسن کارکردگی بھی شامل ہے۔ آپ کے ادبی سرمائے میں ”ساز ڈھونڈتی رہی، غزل نما، ساز سخن بہانہ ہے، حرف شناسائی ، غزالاں تم تو واقف ہو، شہردرد، سفر باقی اور موسم موسم“ جیسے مشہور شعری مجموعے ہیں۔

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

تشریح: اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہہ رہی ہیں کہ اے میرے محبوب! نفسا نفسی کے اس دور میں بھی ہم تہمارے شانابشانہ چلے ہیں اور اس بات پر ہم بہت مخر محسوس کرتے ہیں کہ اس پرفتن دور میں جہاں کوئی کسی کا ساتھ نہیں نبھاتا ہم تمہارے ساتھ چلے اور ہر خیر و شر میں تمہارا ساتھ دیا۔ ہمیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں خواہ ہم لوگوں کی نگاہ میں بہت بڑا گناہ گار ہوں مگر اس سب کے باوجود تمہارے ساتھ چلے ہیں۔

جلنا تو خیر چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں

تشریح: اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہہ رہی ہیں کہ یہ تو جگ بیتی ہے کہ ہر وہ چیز جو جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اس نے ہر حال میں وہ کام سرانجام دینا ہے۔کیونکہ یہ قدرتی امر ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ جو چیز یا جو شخص جس مقصد کے قابل ہوتا ہے وہ اس کا مقدر بنادی جاتی ہے اور اس کے برعکس ہمارا دل ہے جو بجھ چکا ہے اور کسی چیز کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

نازک تھے کہیں رنگ گل و بوئے سمن سے
جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں

تشریح: اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہتی ہیں کہ گلوں کے رنگوں سے خوشبو سے زیادہ ملائم و نازک میری محبت ہے۔انھوں نے اپنے نازک جذبوں کو ادب و مروت میں ڈھال دیا۔محبوب کے لیے پیدا ہونے والے جذبات بہت نادان ہوتے ہیں بالکل پھولوں کے جیسے خوشنما اور نازک۔محبت کی زبان ادب و آداب کی زبان ہے سو اب میرے جذبات محدود ہیں اور تکلف ومروت سے بھرپور ہو گئے ہیں۔شاعرہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتی ہے مگر جب وہ محبت کے قرینوں سے واقف ہوئی تو انھوں نے اپنے جذبات کو پھولوں کے ایسے نازک کہا اور ان کو ادب و آداب میں ڈھاکر انھوں نے مروت و تکلف سے اپنی محبت کو محدود کر دیاہے۔

تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں

تشریح: اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہتی ہیں کہ نظام جہاں سب قدرت کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ ذات جب چاہے جیسے چاہے دنیا کا نظام درہم برہم کر سکتی ہے اور اسی طرح انسان کا وجود بھی اس قانون کے تحت بنا ہے۔ وہ جب خلاف تقدیر کام کرتا ہے یا اس بارے میں سوچتا ہے تو وہ ایسے مصائب میں گھر جاتا ہے جہاں سے نکلنا دشواری کا سبب بنتا ہے۔اس کی زندگی تاریکی سے بھر جاتی ہے اور قدرت اسے امتحان میں ڈال دیتی ہے۔

جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھائوں میں وہ لوگ جلے ہیں

تشریح:اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہتی ہیں کہ اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو مشکلات کا سامنا کرنا جانتے ہیں اور دوسرے وہ جو مصائب سے بھاگتے ہیں۔ لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ جو لوگ مشکلات سے بھاگتے ہیں مشکلات بھی ان کے پیچھے موت کی طرح پڑی رہتی ہیں اور لوگوں کی زندگی بہت کھٹن اور مشکل ہو جاتی ہے۔ عشاق کی بھی حالت ایسی ہی ہے وہ دنیا کے ستم اور سخت رویوں کو سہہ لیتے ہیں مگر جب محبوب سے جدائی کا سنتے ہیں تو سوکھے پتوں کے جیسے بکھر جاتے ہیں۔وہ دنیا کے لوگوں کی مشکلات اٹھا سکتے ہیں مگر محبوب کی بے رخی انھیں ان پر گراں گزرتی ہے۔

اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

تشریح:اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری کہتی ہیں کہ میں نے ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر گوارہ کیا اور ایسے ایسے مشکل ادوار میں خود کو ثابت قدم رکھا کہ زمانہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ زمانے نے کیسے کیسے حربے آزما ئے مگر ہم محبت پر قائم رہے اور ہم نے مشکل حالات کو مل کر گزارا ۔ ہر مصیب کا دلیری سے سامنا کیا زمانے نے ہمیں بہت خوف دلایا مگرہم نے ثابت قدمی کا دامن نہ چھوڑا۔باقی لوگ زمانے کی ان مشکلات کی زد میں آجاتے ہیں اس لیے ان کے لیے مشکل ہو جاتی ہے وہ ناکام ہو کر بے چین زندگی گزارتے ہیں۔

سوال1: مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیجیے:

(الف)غزل کے مطلع میں شاعرہ کس بات پر نازاں ہے؟

جواب: غزل کے مطلع میں شاعرہ ادا جعفری اس بات پر نازاں ہے کہ اسے اپنے محبوب کے ساتھ دو چار قدم نصیب ہوئے۔

(ب)دل کے کنول اور چراغوں میں کیا بنیادی فرق بتایا گیا ہے۔

جواب:دل کے کنول اور چراغوں میں فرق یہ ہے کہ چراغوں کا مقدد ازل سے جلنا ہے، چراغ تو شروع سے ہی جل رہے ہیں مگر یہ دل کے کنول میں کبھی بجھے گا نہیں۔

(ج)”اک شمع بجھائی۔۔۔۔۔۔۔”سے کیا مراد ہے؟

جواب: اک شمع بجھائی سے مراد ہے کہ اگر راستے میں ایک رکاوٹ آگئی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں “ایک در بند سو کھلے” کے مصداق ایک بند راستے کو چھوڑ کر گئی کھلے راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح رکاوٹ اور مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے۔

سوال 2: دیے گئے جوابات میں سے درست جواب پر نشان (درست) لگائیں۔

(الف)شاعرہ کو کس بات پر فخر ہے؟
٭اچھا شعر کہنے پر
٭محبوب کے ہم قدم ہونے پر(✓)
٭آسماں کے مہربان ہونے پر
٭محبوب کے التفات پر

(ب)اک شمع بجھائی تو:
٭ہم پچھتائے بہت
٭کئی اور جلالیں(✓)
٭سو رہے
٭بےسکون ہوگئے

(ج) یہ غزل کس مجموعۂ سے لی گئی ہے؟
٭شہر درد
٭سازسخن بہانہ ہے
٭غزالاں تم تو واقف ہو(✓)
٭میں ساز ڈھونڈتی رہی

(د)”جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور”میں کڑی دھوپ سے مراد ہے؟
٭سورج کی حدت
٭زمانےکے مصائب(✓)
٭محبوب کی بے رخی
٭عام دکھ اور بیماری

(ہ) پہلے شعر میں”چلے”کو کہیں گے:
٭مطلع
٭ردیف
٭قافیہ(✓)
٭مقطع

(و) “نازک تھے کہیں رنگ گل و بوئے سمن سے”میں رنگ و بو سے مراد ہیں:
٭آداب
٭جذبات(✓)
٭تصورات
٭خیالات

(ز)غزل کا چھٹا شعر ہے:
٭مطلع
٭مقطع
٭عام شعر
٭آخری شعر(✓)

سوال نمبر 4: کالم (الف) کے الفاظ کالم (ب) کے الفاظ سے ملائیں:

کالم (الف) کالم (ب)
چراغوں کا مقدر جلنا
رنگ گل بوئے سمن
ستارے سرشام
ہنگام سحر خورشید
کڑی دھوپ تیور

سوال5: آپ ادا جعفری کی اس غزل کی ردیف اور قوافی کی نشان دہی کریں۔

جواب: ردیف: ہیں
قوافی: بھلے،چلے،جلے،ڈھلے،