افسانہ انتقام

0

یہ کہانی ان معصوم لوگوں کی ہے جہاں ہر روز نئے نئے ظلم و ستم ہوتے ہیں۔ کبھی معصوم لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی ہراس کر کے زمین میں دفن کردیا جاتا ہے، سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

علینہ ایک معصوم سی بچی ہے، جس کی عمر سات سال ہے، وہ دوسری کلاس میں پڑھتی ہے۔ اس کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ علینہ کو سکول چھوڑنے اس کے بابا جاتے ہیں۔ ایک دن علینہ سکول نہ جانے کی ضد کر رہی تھی۔

علینہ: ماما مجھے سکول نہیں جانا، آج آپ کے ساتھ بیٹھ کے بہت سی پریوں والی کہانیاں سنو‌ں گی۔ آپ کے ساتھ کھیلوں گی میرا دل نہیں کر رہا سکول جانے کو۔

ما ما: علینہ آپ کو ڈاکٹر بننا ہے، بڑے ہو کر اگر سکول نہیں جاؤ گی تو ڈاکٹر کیسے بنوں گی؟ میری بیٹی کے خواب کیسے پورے ہوں گے؟ ٹھیک ہے ماما مجھے جلدی سے تیار کریں سکول کے لیے۔ ماما نے اسکول کیلئے علینہ کو تیار کیا۔ اس کے بابا علینہ کو سکول چھوڑ دیتے ہیں آفس جاتے وقت۔

علینہ جب سکول کے گیٹ کے باہر کھڑی پاپا کا انتظار کر رہی تھی اچانک سے دو آدمی علینہ کو زبردستی اٹھا کے لے گئے۔
علینہ: چھوڑ دو مجھے کون ہو تم؟ مجھے اپنے بابا کے پاس جانا ہے۔ علینہ بہت چیختی رہی مگر اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔ سکول بند ہو چکا تھا۔ بابا کو آتے ہوئے دیر ہوگئی۔ علینہ نے بہت واسطے دیے، پاؤں پکڑے، گھر جانے کے لیے مگر ان درندوں نے علینہ کی بات نہیں سنی۔ اس معصوم کو کہیں لے گئے، ہراس کرکے زمین میں دفن کر دیا۔ ان درندوں کو علینہ پر ترس نہیں آیا۔ نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کو یہ زیادتیوں کا نشانہ بنا چکے۔

علینہ کے بابا سکول پہنچے۔ علینہ نہیں ملی، بہت ڈھونڈا علینہ کو اس کے والدین نے مگر یہ کہیں نہیں ملی۔ علینہ کا گھر سوگ بن کر رہ گیا، ماتم کی آواز سنائی دیتی۔ علینہ کو بہت تلاش کیا مگر نہیں ملی۔ علینہ کی ماں خود کو بہت کوستی کاش اگر علینہ کی بات مان لیتی تو ایسا نہ ہوتا۔ علینہ کو سکول نہیں جانے دیتی۔

چند دنوں بعد بہت بڑا طوفان آیا۔ معصوم بچیوں کی بددعا نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ پورے ملک میں آندھی زلزلے اور مختلف بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں۔

ایک دن یہی درندے کہیں جا رہے تھے کہ اچانک ان کا کار سے ایکسیڈنٹ ہو گیا، ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، بہت تڑپ تڑپ کے موت آئی ان درندوں کو۔ خدا نے ان معصوم بچیوں کا انتقام لے لیا مگر پھر بھی معصوم بچیوں کی صدائیں اور چیخ و پکار ہر وقت گونجتی ہیں۔