فارسی کلام: *منم محوِ خیال* کی تشریح

0
مَنَم محوِ خیالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم

میں اُسکے خیال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہ کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وِصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔

غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتم

میں اُس کے چہرے کا غلام ہوں، اُسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اُسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔

بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتم

اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتم

میں اُس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اُس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اُسکے دیدار میں محو ہوں اور نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔

قلندر بُوعلی ہستم، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم، نمی دانم کجا رفتم

میں بُو علی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے، اور نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔