Masoom Bacha | Wardat | Afsana By Premchand | معصوم بچہ

معصوم بچہ

گنگو کو لوگ برہمن کہتے ہیں اور وہ اپنے کو برہمن سمجھتا بھی ہے۔ میرے سائیں اور خدمتگار مجھے زور سے سلام کرتے ہیں۔گنگو مجھے کبھی سلام نہیں کرتا ہے۔ وہ شاید مجھ سے پالا گن کی توقع رکھتا ہے۔میرا جھوٹا گلاس کبھی ہاتھ سے نہیں چھوتا اور نہ کبھی میری اتنی ہمت ہوئی کہ اس سے پنکھا جھلنے کو کہوں۔جب میں پسینے میں تر ہوتا ہوں اور وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہوتا تو گنگو آپ ہی آپ پنکھا اٹھا لیتا ہے لیکن اس کے چہرے سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر کوئی احسان کر رہا ہے اور میں بھی نہ جانے کیوں فوراً ہی اس کے ہاتھ سے پنکھا چھین لیتا ہوں۔ تیز مزاج آدمی ہے۔ بات کی مطلق برداشت نہیں۔ایسے بہت کم آدمی ہیں جن سے اس کی دوستی ہو۔ سائیس اور خدمتگار کے ساتھ بیٹھنا شاید وہ کسر شان سمجھتا ہے۔ میں نے اسے کسی سے بے تکلف ہوتے نہیں دیکھا۔ نہ میلے تماشے میں جاتے دیکھا۔ حیرت یہ ہے کہ اسے بھنگ بوٹی سے بھی شوق نہیں جو اس طبقے کے آدمیوں میں ایک غیرمعمولی وصف ہے۔ وہ کبھی پوجاپاٹ نہیں کرتا اور نہ اسے ندی میں اشنان کرنے کا خبط ہے۔ بالکل ناحرف شناس آدمی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ برہمن ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا اس کی تعظیم اور خدمت کرے، اور کیوں نہ چاہے؟ جب اجداد کی پیدا کی ہوئی ملکیتوں پر آج بھی لوگ قابض ہیں اور اسی شان سے قابض ہیں گویا انہوں نے خود پیدا کی ہو، تو وہ کیوں اس تقدس اور امتیاز کو ترک کردے جو اس کے بزرگوں نے پیدا کیا تھا۔ یہی اس کا ترکہ ہے۔

میری طبیعت کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اپنے ملازموں سے بہت کم بولتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں جب تک میں نہ بلاؤں کوئی میرے پاس نہ آئے۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ ذرا ذرا سی باتوں کے لئے آدمیوں کو آواز دیتا پھروں۔مجھے اپنے ہاتھ سے صراحی سے پانی انڈیل لینا یا لیمپ جلا لینا یا اپنے جوتے پہن لینا یا الماری سے کوئی کتاب نکال لینا اس سے کہیں زیادہ آرام دہ معلوم ہوتا ہے کہ ہینگن اور میکو کو پکاروں۔اس سے مجھے اپنی آزادی اور خود اختیاری کا احساس ہوتا ہے۔ نوکر بھی میرے مزاج سے واقف ہوگئے ہیں اور بلاضرورت میرے پاس بہت کم آتے ہیں۔اس لیے ایک دن علی الصبح جب گنگو میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا تو مجھے کچھ ناگوار گزرا۔ یہ لوگ جب آتے ہیں تو یا تو پیشگی حساب میں کچھ مانگنے کے لئے یا کسی دوسرے ملازم کی شکایت کرنے کے لئے۔ اور مجھے یہ دونوں حرکتیں حد درجہ نا پسند ہیں۔ میں پہلی کو ہر ایک کی تنخواہ بیباک کر دیتا ہوں اور بیچ میں جب کوئی مانگتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔ کون دو دو چار چار روپے کا حساب رکھتا پھرے۔ پھر جب کسی کو منہ بھری مزدوری مل گئی تو اسے کیا حق ہے کہ اسے 15 دن میں خرچ کردے اور قرض یا پیشگی کی ذلت اختیار کرے، اور شکایتوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔ میں شکایت کو کمزوری کی دلیل سمجھتا ہوں یا خوشامد پرستی اور امداد طلبی کی کمینہ کوشش۔

میں نے چین بہ جبین ہو کر کہا “کیا معاملہ ہے میں نے تو تمہیں بلایا نھیں”

گنگو کے تیکھے بے نیاز چہرے پر آج کچھ ایسی لجاجت، کچھ ایسی التجا، کچھ ایسا حجاب تھا کہ مجھے تعجب ہوا۔ ایسا معلوم ہوا کہ وہ کچھ جواب دینا چاہتا ہے مگر الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔

میں نے ذرا اور تیز ہو کر کہا :”آخر بات کیا ہے؟ کہتے کیوں نہیں۔ تم جانتے ہو یہ میری ہوا خوری کا وقت ہے مجھے دیر ہو رہی ہے”۔

گنگو نے مایوسانہ لہجے میں کہا “تو آپ ہوا کھانے جائیں۔ میں پھر آ جاؤں گا”

یہ صورت اور بھی پریشان کرنے والی تھی۔ اس روا روی میں ایک منٹ میں وہ اپنی سرگزشت کہہ سنائے گا۔ وہ اتنا جانتا ہے کہ مجھے زیادہ فرصت نہیں۔ دوسرے موقع پر تو کمبخت گھنٹوں روئے گا۔ میرے کچھ لکھنے پڑھنے کو تو شاید کام سمجھتا ہو لیکن غوروخوص کو جو میرے لئے انتہائی مصروفیت ہے وہ میرے آرام کا وقت سمجھتا ہے یقیناً یہ اسی وقت آ کر میرے سر پر سوار ہوجائے گا۔

میں نے تلخی کے ساتھ کہا “کچھ پیشگی مانگنے آئے ہو ؟میں پیشگی نہیں دیتا”

“جی نہیں سرکار، میں نے تو کبھی پیش کیں نہیں مانگی”

“کیا کسی کی شکایت کرنا چاہتے ہو؟ مجھے شکایتوں سے نفرت ہے”

“جی نہیں سرکار، میں نے تو کبھی کسی کی شکایت نہیں کی”

“تو پھر خواہ مخواہ کیوں سر پر سوار ہوگئے؟”

گنگو نے اپنے دل کو مضبوط کیا۔ اس کے بشر سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ گویا کوئی جست لگانے کے لیے اپنی ساری قوتوں کو متمجع کر رہا ہے۔آخر اس نے کہا “مجھے اب آپ چھٹی دے دیں۔ میں اب آپ کی نوکری نہ کر سکوں گا”یہ اس قسم کی پہلی استطاعت تھی جو میرے کانوں میں پڑی۔ میری خودداری کو چوٹ لگی۔ میں جو اپنے آپ کو انسانیت کا پتلا سمجھتا ہوں، اپنے ملازموں سے سخت کلامی نہیں کرتا ، اپنی آقائیت کو حط الامکان نیام میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اس درخواست پر کیوں نہ حیرت میں آجاتا۔ تحکم کے لہجے میں پوچھا” “کیوں، کیا شکایت ہے”

“آپ نے تو ہجور جیسی نیک طبیعت پائی ہے ویسی کیا کوئی پائے گا۔ لیکن بات ایسی آپڑی ہے کہ اب میں آپ کے یہاں نہیں رہ سکتا۔ ایسا نہ ہو پیچھے سے کوئی بات ہو جائے تو آپ کی بدنامی ہو۔ میں نہیں چاہتا میرے ڈیل سے آپ کی آبرو میں بٹا لگے”

میرے دل میں الجھن پیدا ہوئی۔ دریافت حال کا اشتیاق پیدا ہوا۔ ہوا خوری کا نشہ اتر گیا۔ توکل کے انداز سے برآمدے میں پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر بولا۔” تم تو پہیلیاں بھجوا رہے ہو۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کیا معاملہ ہے؟”

گنگو نے مجسم معذرت بن کر کہا “بات یہ ہے کہ عورت جو ابھی بدھوا آشرم سے نکال دی گئی ہے وہی گومتی دیو۔۔۔۔۔۔”

وہ خاموش ہو گیا میں نے بے صبر ہو کر کہا” ہاں نکال لی گئی ہے تو پھر؟ تمہاری نوکری کا اس سے کیا تعلق ہے؟”

“میں اس سے بیاہ کرنا چاہتا ہوں ہجور”

میں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا۔ یہ پرانے خیال کا بونگا برہمن جسے نئی تہذیب کی ہوا تک نہیں لگی،اس عورت سے شادی کرے گا جس سے کوئی بلا آدمی اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھنے دے گا۔ گومتی نے محلے کی پرسکون فضا میں تھوڑی سی حرکت پیدا کر دی تھی۔کئی سال قبل وہ بدوا آشرم میں داخل ہوئی تھی۔ تین بار آشرم کے منتظموں نے اس کی شادی کر دی مگر ہر بار وہ ہفتہ عشرہ کے بعد باگ آئی۔ یہاں تک کہ آشرم کے سیکرٹری نے اب کی بار اسے آشرم سے نکال دیا تھا۔ وہ اسی محلے میں ایک کوٹھڑی لے کر رہتی تھی اور سارے محلے کے شہدوں کے لیے دلچسپیوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

مجھے گنگو کی سادہ لوحی پر غصہ بھی آیا اور رحم بھی۔ اس بیوقوف کو ساری دنیا میں کوئی عورت ہی نہ ملتی تھی جو اس سے شادی کرنے جارہا ہے۔جب وہ تین بار شوہروں کے پاس سے باگ آئی تو اس کے پاس کتنے دنوں رہے گی۔ کوئی گانٹھ کا پورا آدمی ہوتا تو ایک بات بھی تھی۔ شاید سال چھ مہینے ٹک جاتی۔ یہ محض آنکھ کا اندھا ہے ایک ہفتہ بھی تو نباہ نہ ہوگا۔

میں نے تنبیہہ آمیز لہجے میں پوچھا:” تم اس عورت کے حالات سے واقف ہو؟”

گنگو نے عین الیقین کے انداز سے کہا “سب جھوٹ ہے سرکار، لوگوں نے اس کو ناحق بد نام کیا ہے”

“کیا معنی” کیا وہ تین بار اپنے شوہروں کے پاس سے نہیں بھاگ آئی؟”

“ان لوگوں نے اسے نکال دیا تو کیا کرتی؟”

“کیسے احمق آدمی ہو، کوئی اتنی دور سے آکر شادی کرکے لے جاتا ہے۔ ہزاروں روپے خرچ کرتا ہے، اس لیے کہ عورت کو نکال دے؟”

گنگو نے شاعرانہ جوش کے ساتھ کہا:”جہاں محبت نہیں ہوتی ہے ہجور، وہاں کوئی عورت نہیں رہ سکتی۔عورت خالی روٹی کپڑا تو نہیں چاہتی ہے کچھ محبت بھی تو چاہتی ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ ہم نے بدھوا سے بیاہ کر کے اس کے اوپر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ چاہتے تھے کہ وہ دل و جان سے اس کی ہوجائے لیکن دوسرے کو اپنا بنانے کے لیے پہلے آپ کو اس کا بن جانا پڑتا ہے۔ ہجور،یہ بات ہے۔ پھر اسے ایک بیماری بھی ہے۔ اسے کوئی بھوت لگا ہوا ہے وہ کبھی بک جھک کرنے لگتی ہے اور بے ہوش ہوجاتی ہے۔”

“اور تم ایسی عورت سے شادی کرو گے؟” میں نے شبہ کے انداز سے سر ہلا کر کہا :”سمجھ لو زندگی تلخ ہو جائے گی”

گنگو نے شہیدانہ سرگرمی سے کہا: “میں تو سمجھتا ہوں میری جندگی بن جائے گی۔ آگے بھگوان کی مرجی”

میں نے زور دے کر کہا” تو تم نے کیا کر لیا ہے؟”

“ہاں ہجور”

“تو میں تمہارا استعفی منظور کرتا ہوں”

میں بے معنی رسوم اور مہمل بندشوں کا غلام نہیں ہوں۔ لیکن جو آدمی ایک فاحشہ سے شادی کر لے اسے اپنے یہاں رکھنا اندیشے سے خالی نہ تھا۔ آئے دن قضیے ہوں گے، نئی نئی الجھنیں پیدا ہوں گی، کبھی پولیس تحقیقات کرنے آئے گی، کبھی مقدمے کھڑے ہونگے کیا عجب ہے چوری کی وارداتیں بھی ہوں۔ گنگو بھوکے آدمی کی طرح روٹی کا ٹکڑا دیکھ کر اس کی طرف لپک رہا ہے۔ روٹی خشک ہے، بدمزہ ہے اس کی اسے پرواہ نہیں۔ اس کا عقل سلیم سے کام لینا محال تھا۔ میں نے اس کو علیحدہ کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔

( ٢)

پانچ مہینے گزر گئے گنگو نے گومتی سے شادی کر لی تھی اور اس محلے میں ایک کھپریل کا مکان لے کر رہتا تھا۔ اب وہ چاٹ کا خوانچہ لگا کر گزر بسر کرتا تھا۔ مجھے جب کبھی بازار میں مل جاتا میں اس سے فوراً استفسار حال کرتا۔ مجھے اس کے حالات سے ایک خاص دلچسپی ہوگئی تھی۔ یہ ایک معاشرتی مسئلے کی آزمائش تھی، معاشرتی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی بھی۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ میں گنگو کو ہمیشہ خوش و حرم دیکھتا۔ فراغت اور بے فکری سے چہرے پر جو ایک نفاست اور مزاج میں ایک خود داری پیدا ہوجاتی ہے وہ مجھے یہاں صریحاً نظر آتی تھی۔روپے بیس آنے کی بکری ہوجاتی تھی اس میں لاگت نکال کر آٹھ دس آنے بچ جاتے تھے۔ یہی اس کی معاش تھی، مگر اس میں کوئی خاص برکت تھی۔ کیونکہ اس طبقے کے آدمیوں میں جو بے سروسامانی، جو بے غیرتی نظر آتی ہے ان سے وہ پاک تھا۔ اس کے چہرے پر خود اعتمادی اور مسرت کی جھلک تھی جو سکون قلب ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔

ایک دن میں نے سنا کہ گومتی گنگو کے گھر سے بھاگ گئی۔

کہہ نہیں سکتا کیوں مجھے اس خبر سے ایک خاص خوشی ہوئی۔ مجھے گنگو کے اطمینان اور پر عافیت زندگی پر ایک طرح کا رشک آتا تھا۔ میں اسکے بارے میں کسی رسواکن سانحے، کسی دلفگار اور تباہ کن تغیر کا منتظر تھا۔ آخر اسے اپنی سہل اعتقادی کا تاوان دینا پڑا۔اب دیکھیں وہ کس طرح منہ دکھاتا ہے۔ اب آنکھیں کھلیں گی اور معلوم ہو گا کہ لوگ جو اسے اس شادی سے باز رکھنے کی کوشش کررہے تھے کتنے نیک نیت تھے۔اس وقت تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا حضرت کو ایک نایاب چیز ملی جارہی ہے۔ گویا نجات کا دروازہ کھل گیا ہے۔ لوگوں نے کتنا سمجھایا کتنا کہا کہ یہ عورت اعتبار کے قابل نہیں، کتنوں کو دغا دے چکی ہے، تمہارے ساتھ بھی دغا کرے گی۔ مگر اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ اب اس ابلہانہ ضد کا خمیازہ اٹھاؤ۔میں تو ذرا مزاج پرسی کروں۔ کہوں، “کیوں مزاج، دیوی جی کا یہ پروان پا کر خوش ہوئے یا نہیں۔ تم تو کہتے تھے وہ ایسی ہے اور ویسی ہے۔ لوگ اسے محض بدخواہی کے باعث تمہت لگاتے ہیں۔ اب بتاؤ کون غلطی پر تھا۔ اب آگیا خیال شریف میں کہ حسن فروش عورتوں سے لوگ کیوں احتراز کرتے ہیں۔”

اسی دن اتفاق سے بازار میں گنگو سے میری ملاقات ہوگی۔ بدحواس تھا، بالکل کھویا ہوا، غم کشتہ، کشتی شکستہ۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ندامت سے نہیں درد سے۔ میرے پاس آکر بولا بابو جی،” گومتی نے میرے ساتھ بھی دغا کی”

میں نے حاسدانہ مسرت سے لیکن بظاہر ہمدردی کا اظہار کرکے کیا”تم سے تو میں نے پہلے ہی کہا تھا لیکن تم مانے ہی نہیں۔ اب صبر کرو۔ اس کے سوا اور کیا چارہ ہے۔ روپے پیسے صاف کر لے گی یا کچھ چھوڑ گئی”؟

گنگو نے سینے پر ہاتھ رکھا۔ ایسا معلوم ہوا، گویا میرے اس سوال نے اس کے جگر کے ٹکڑے کردیئے ہیں۔

ارے بابو جی، ایسا نہ کہئے۔ اس نے دھیلے کی چیز بھی نہیں چھوئی۔ اپنا جو کچھ تھا وہ بھی چھوڑ گئی۔نہ جانے مجھ میں کیا برائی دیکھی۔ میں اس کے لائق نہ تھا۔ بس اور کیا کہوں۔ وہ پڑھی لکھی، میں کرایا اچھر بھینس برابر، میرے ساتھ اتنے دن رہی یہی بہت تھا۔ کچھ دن اور اس کے ساتھ رہ جاتا تو آدمی بن جاتا۔ اس کا آپ سے کہاں تک بکھان کروں بابو جی۔اوروں کے لئے وہ چاہے کچھ رہی ہوں وہ میرے لئے کسی دیوتا کا آشیرباد تھی۔ کیا جانے مجھ سے ایسی کیا خطا ہوگئی۔ مگر قسم لے لیجیے جو اس نے بھول کر بھی شکایت کی ہو۔ میری اوقات ہی کیا ہے بابوجی، دس بارہ آنے روز کا مجور ہوں، مگر اسی میں اس کے ہاتھوں اتنی برکت تھی کہ کبھی کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی۔ کبھی میں نے اس کے چہرے پر میل نہیں دیکھا”

مجھے ان الفاظ سے سخت مایوسی ہوئی۔ میں نے سمجھا تھا وہ اسکی بے وفائی کی داستان کہے گا اور میں اس کی حماقت پر حاسدانہ ہمدردی کروں گا۔ اس احمق کی آنکھیں اب تک نہیں کھلیں۔ اب بھی اسی کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ ضرور اس کے دماغ میں کچھ خلل ہے۔

میں نے شماتت آمیز ظرافت شروع کی:” تو وہ تمہارے گھر سے کچھ نہیں لے گی؟”

“کچھ نہیں بابو جی، دھیلے کی چیز بھی نہیں”

“اور تم سے محبت بھی بہت کرتی تھی”؟

“اب آپ سے کیا کہوں بابو جی، وہ محبت تو مرتے دم تک یاد رہے گی”

“پھر بھی تمہیں چھوڑ کر چلی گئی”؟

“یہی تو تعجب ہے بابو جی”

“تریا چرتر کا نام کبھی سنا ہے”؟

“ارے بابو جی ایسا نہ کہیے۔میری گردن پر کوئی چھری بھی رکھ دے تو بھی میں اس کا جس ہی گائے جاؤں گا”

“تو پھر ڈھونڈ نکالو”

“ہاں مالک! جب تک اسے ڈھونڈ نہ لاؤں مجھے چین نہ آئے گا۔ مجھے اتنا معلوم ہو جائے کہ وہ کہاں ہے تو پھر تو میں اسے لے ہی آؤں گا اور بابوجی، میرا دل کہتا ہے کہ وہ آئے گی ضرور، دیکھ لیجیے گا۔ وہ مجھ سے خفا نہیں تھی۔ لیکن دل نہیں مانتا جاتا ہوں، مہینے دو مہینے جنگل پہاڑ کی خاک چھانوں گا۔جیتا رہا تو آپ کے درسن کروں گا” یہ کہہ کر وہ مجنونانہ رفتار سے ایک طرف چل دیا۔

( ٣)

اس کے بعد مجھے ایک ضرورت سے نینیتال جانا پڑا تفریح کے لئے۔ ایک مہینے کے بعد لوٹا اور ابھی کپڑے بھی نہ اتارنے پایا تھا کہ دیکھتا ہوں گنگو ایک نوزائیدہ بچے کو گود میں لیے کھڑا ہے۔شاید کرشن کو پا کر نند بھی اتنے باغ باغ نہ ہوئے ہونگے۔ معلوم ہوتا تھا مسرت اس کے جسم سے باہر نکلی پڑتی ہے۔ چہرے اور آنکھوں سے تشکر اور نیاز کے نغمے سے نکل رہے تھے۔ کچھ وہی کیفیت تھی جو کسی فاقہ کش سائل کے چہرے پر شکم سیر ہو جانے کے بعد نظر آتی ہے۔

میں نے پوچھا “کہو مہراج، گھومتی دیوی کا کچھ سراغ ملا ؟تم تو باہر گئے تھے”

گنگو نے جامے میں پھولے نہ سماتے ہوئے جواب دیا۔ “ہاں بابوجی، آپ کی دعا سے ڈھونڈ لایا۔ لکھنؤ کے زنانے ہسپتال میں ملی۔یہاں ایک سہیلی سے کہہ گئی تھی کہ اگر وہ بہت بے قرار ہوں تو بتلا دینا۔ میں سنتے ہی لکھنؤ بھاگا اور انہیں لے آیا۔ یہ بچہ بھی مل گیا۔”

اس نے بچے کو گود میں میری طرف بڑھایا گویا کوئی کھلاڑی تغمہ پا کر اس سے دکھا رہا ہو۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ابھی اس کی شادی کو ہوئے کل چھ مہینے ہوئے ہیں پھر بھی یہ بچے کو کتنی بے حیائی سے دکھا رہا ہے۔ میں نے تمسخر کے انداز سے پوچھا “اچھا یہ لڑکا بھی مل گیا۔ شاید اسی لیے وہ یہاں سے بھاگی تھی۔ ہے تمہارا ہی لڑکانہ؟”

“میرا کاہے کو ہے، بابوجی، آپ کا ہے بھگوان کا ہے”
“تو لکھنؤ میں پیدا ہوا”؟

“ہاں بابو جی، ابھی تو ایک مہینے کا ہے”

“تمہاری شادی ہوئے کتنے دن ہوئے”؟

“یہ ساتواں مہینہ جا رہا ہے”

“شادی کے چھٹے مہینے میں پیدا ہوا”؟

“اور کیا بابو جی۔”

“پھر بھی تمہارا لڑکا ہے؟”

“ہاں جی”

“کیسی بے سر پیر کی باتیں کر رہے ہو؟”

معلوم نہیں وہ میرا منشا سمجھ رہا تھا۔ اسی سادہ لوحانہ انداز سے بولا: ” گھر میں مرتے مرتے بچی۔ بابوجی، یہ نیا جنم ہوا۔ تین دن تین رات چھٹپٹاتی رہی۔ کچھ نہ پوچھیے۔”

میں نے اب کی بار ذرا طنز کے ساتھ کہا “لیکن چھ مہینے میں لڑکا ہوتے میں نے آج سنا”

یہ کنایہ نشانہ پر جا بیٹھا۔ معذرت آمیز تبسم کے ساتھ بولا:” مجھے تو بابو جی اس کا خیال بھی نہیں آیا۔اسی لاج سے تو گومتی بھاگی تھی۔” میں نے کہا “گومتی اگر تمھارا دل مجھ سے نہیں ملتا ہے تو مجھے چھوڑ دو۔ میں اسی دم چلا جاؤں گا اور پھر کبھی تمہارے پاس نہ آؤں گا۔ مجھے تم سے کوئی ملال نہیں ہے۔ تم میری نظر میں اب بھی اتنی ہی بھلی ہو۔اب بھی میں تمہیں اتنا ھی چاھتا ھوں، نہیں اب میں تمہیں اور زیادہ چاہتا ہوں۔ لیکن اگر تمہارا دل مجھ سے پھر نہیں گیا ہے تو میرے ساتھ چلو۔ گنگو جیتے جی تم سے بے وفائی نہیں کرے گا۔ میں نے تم سے اس لئے بیاہ نہیں کیا کہ تم دیوی ہو بلکہ اس لئے کہ میں تمہیں چاہتا ہوں اور سمجھتا تھا کہ تم بھی مجھے چاہتی ہو۔ یہ بچہ میرا ہے، میرا اپنا بچہ ہے۔ میں نے ایک بویا ہوا کھیت لیا تو کیا اس کی فصل کو اس لئے چھوڑ دو گا کہ اسے کبھی کسی دوسرے نے بویا تھا۔” یہ کہہ کر اس نے زور سے قہقہ مارا۔

میں کپڑے اتارنا بھول گیا۔ کہہ نہیں سکتا کہ کیوں میری آنکھیں پر آب ہوگئیں۔ نہ جانے وہ کونسی طاقت تھی جس نے میری دلی کراہت کے باوجود میرے ہاتھوں کو بڑھا دیا۔ میں نے اس معصوم بچے کو گود میں لے لیا اور اس پیار سے اس کا بوسہ لیا کہ شاید اپنے بچوں کا بھی کبھی نہ لیا ہوگا۔

گنگو بولا، “بابو جی آپ بڑے شریف ہیں۔ میں گومتی سے برابر آپکا بگھان کیا کرتا ہوں۔ کہتا ہوں چل ایک بار ان کے درسن کر آ۔ لیکن مارے سرم کے آتی ہی نہیں”

میں اور شریف! اپنی شرافت کا پردہ آج میری نظروں سے ہٹا۔ میں نے عقیدت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا:” نہیں جی، وہ میرے جیسے سیاہ دلوں کے پاس کیا آئیں گی۔ چلو میں ان کے درشن کرنے چلتا ہوں۔ تم مجھے شریف سمجھتے ہو میں ظاہر میں شریف مگر دل کا کمینہ ہوں۔ اسلۓ شرافت تم میں ہے اور یہ معصوم بچہ وہ پھول ہے جس سے تمہاری شرافت کی مہک نکل رہی ہے”

میں بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے گنگو کے ساتھ چلا۔