پروفائل beingsajid Questions(680)Answers(532)Posts(208)Comments شروع میں مردہ شخص کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ مر گیا ہے۔ وہ خود کو موت کا خواب دیکھتا ہوا محسوس کرتا ہے، وہ خود کو روتا، نہاتا، گرہ لگاتا اور قبر پر اترتا ہوا دیکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ خواب دیکھنے کا تاثر رکھتا ہے۔جب وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔ پھر وہ چیختا ہے لیکن کوئی اس کی چیخ نہیں سنتا، جب ہر کوئی منتشر ہو جاتا ہے اور زمین کے اندر تنہا رہ جاتا ہے، اللہ اس کی روح کو بحال کرتا ہے۔ وہ آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے "برے خواب" سے جاگتا ہے۔ پہلے تو وہ خوش اور شکر گزار ہوتا ہے کہ، جس سے وہ گزر رہا تھا وہ صرف ایک ڈراؤنا خواب تھا ، اور اب وہ اپنی نیند سے بیدار ہے۔پھر وہ اپنے جسم کو چھونے لگتا ہے ، جو کپڑے میں لپٹا ہوا ہے ، خود سے حیرت سے سوال کرتا ہے "میری قمیض کہاں ہے "میں کہاں ہوں ، یہ جگہ کہاں ہے ، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا کیوں ہے ، میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟" پھر اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ زیر زمین ہے ، اور جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہے وہ خواب نہیں ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی مر گیا ہے۔وہ ہر ممکن حد تک زور سے چیختا ہے ، پکارتا ہے: اس کے رشتہ دار جو اس کے مطابق اسے بچا سکتے تھے: اسے کوئی جواب نہیں دیتا۔ وہ پھر یاد کرتا ہے کہ اس وقت اللہ ہی واحد امید ہے۔ وہ اس کے لیے روتا ہے اور اس سے معافی مانگتے ہوئے اس سے التجا کرتا ہے۔ "یا اللہ! یا اللہ! مجھے معاف کر دے یا اللہ ... !!! وہ ایک ناقابل یقین خوف سے چیختا ہے جو اس نے اپنی زندگی کے دوران پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اگر وہ ایک اچھا انسان ہے تو مسکراتے ہوئے چہرے والے دو فرشتے اسے تسلی دینے کے لیے بیٹھ جائیں گے ، پھر اس کی بہترین خدمت کریں گے۔اگر وہ برا شخص ہے تو دو فرشتے اس کے خوف کو بڑھا دیں گے اور اس کے بدصورت کاموں کے مطابق اسے اذیت دیں گے۔ اے اللہ ہمارے ماں ، باپ ، اور ہمارے خاندان اور دوستوں کے گناہ معاف فرما 🙏🏻 اور ہمیں ایمان پر موت نصیب فرما۔۔۔ آمین.تحریر ظفر اقبال On مُردے کیسے تصدیق کرتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں؟ 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد دنیا بھر میں مردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے ۔دنیا میں سب سے پہلا عالمی یومِ خواتین19مارچ سن 1911 ء کومنایا گیا پھر سن 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال آٹھ مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔عظیم الشان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں۔تعصب کی عینک اتار کر بہ نظر غائر دیکھاجائے تو اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اورحقوق کے تحفظ کا جوآسمانی بل پیش کیا ہے اسکی مثال آزاد، سیکولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصرہیں اور رہیں گے۔اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا ؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے ، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ،؛ کیوں کہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعترافِ حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں۔صنف نازک کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تومجموعی طورپر اس کی چار حیثیتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں :(1)ماں (2) بہن(3) بیوی (4)بیٹیاسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ !میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا کہ زندہ ہے ، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو پھراسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے ۔ (نسائی)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺمیرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری)اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے ۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے ۔ حضر ت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے ، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ۔ بہ حیثیت ہمشیرہ، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے ، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔(ترمذی)اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ان میں خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی ، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا،خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حق عطاء کیا،جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا پورا اختیار دیا ۔اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ،جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ یوم خواتین منانے والوں کے نام :جو لوگ آزادئ نسواں ، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلواناچاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھادیں ،چند دانشوروں کو بلاکرکسی بزم میں تقریریں کروادیں،خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروادی بلکہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے ،کتاب کا فقط دیباچہ ہے ،عمارت کی محض بنیاد ہے ،اصل کام تو ابھی باقی ہے ۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیںخوب ہو جو اس یوم یادگار کو عمل و کردار کا جامہ پہنایا جائے ،عملی میدان میں خواتین کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ،ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ کیا جائے ،بڑھتی ہوئی بے راہ روی اورہوس پرستی پر قدغن لگائی جائے ،عزت و ناموس کی حفاظت ہو،خلوص ومحبت کی جلوہ ارزائی ہو،تقدس وپاکیزگی کو فروغ ملے تاکہ سال کاہردن یوم خواتین بن جائے ۔بشکریہ : عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ On عالمی یوم خواتین پر ایک ایک تقریر۔ جواب: رسولﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد گمراہ بن کر ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا بلکہ اسلامی اخوت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا لیکن میرے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسولﷺ کی سنے تمہاری رہنمائی کرے گی۔“رسولﷺ نے خطبہ کے دوران صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیامیں نے حق ادا کر دیا اور حق کو تم تک پہنچا دیا؟ تو صحابہ کرامؓ نے بیک آواز عرض کیا کہ آپؐ نے حق پہنچا دیا۔ آپؐ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ آپ گواہ رہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک آدمی اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور مختلف جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو۔ تم میں زیادہ عزت اور تکریم والو خدا کی نظرؤں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کوکسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عرب پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت حاصل ہے نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت ہے بلکہ فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔امانت میں خیانت نہ کرنا: رسولﷺ فرمایا کہ اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی چیز امانت کےطور پر رکھوائی ہے تو اس میں ہرگز خیانت نہ کرنا بلکہ اس امانت کی حفاظت کرنا اور اسی حالت میں واپس لوٹادینا اور اللہ سے ڈرتے رہنا۔سود سے بچنا:رسولﷺ نے تمام سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا ہے لیکن تمہارا اصل زر تم پر حلال ہے اور پہلا شخس جس کا سود میں چھوڑ دیتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے وہ کل کا کل اٹھایا گیا۔میراث کی تقسیم: آپﷺ نے فرمایا: اے لوگوں اللہ تعالیٰ نے وراث کے لیے میراث سے ایک حصہ مقرر کیا ہوا ہے جس ہر حقدار کو ضرور ملنا چاہئے لہٰذا کوئی ایسی وصیت نہ کرنا کہ ایک وارث کو اس کے حصے سے زیادہ ملے ۔ اور وراثت کی تقسیم میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور کوئی خیانت نہ کرنا۔مزید ارشادات:قرض قابل واپسی ہے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تھنے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے تو اسے تاوان ادا کرنا چا ہے۔ دیکھو ایک مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمے دار ہے، نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ تمھاری بیویوں کا تم پر اور ان پر تمھارا حق ہے۔ بیویوں پر تمھارا حق اتنا ہے کہ وہ تمھارے بستر کو کسی غیر مرد سے آلودہ نہ کریں اور ایسے لوگوں کو تمھاری اجازت کے بغیر تمھارے گھروں میں داخل نہ ہونے دیں جنھیں تم نا پسند کرتے ہو۔ انھیں (عورتوں کو) کوئی معیوب کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمھیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم ان کی سرزنش کرو اور ان سے بستر میں علیحدگی اختیار کرو اور (اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں ) انھیں ایسی مار مارو کہ نمودار نہ ہو۔ اگر وہ باز آجائیں تو تم پر واجب ہے کہ انھیں اچھا کھلاؤ اور رواج کے مطابق اچھا پہناؤ۔ عورتوں کے معاملے میں فراخ دلی سے کام لو کیونکہ در حقیقت وہ ایک طرح سے تمھاری پابند ہیں۔ ان کی کوئی املاک نہیں اور تم نے انھیں خدا کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ان کے وجود سے حظ اُٹھاتے ہو۔ سو خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور ان سے نیک سلوک کرو اور کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔ لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جسے اس کا بھائی برضا ورغبت عطا کر دے۔ اپنے نفس پر اور دوسروں پر زیادتی نہ کرو اور ہاں تمھارے غلام، ان کا خیال رکھو۔ جو تم کھاؤ اس میں سے ان کو کھلاؤ، جو تم پہنو اسی میں ان کو پہناؤ۔ اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو اللہ کے بندو ! انھیں فروخت کردو اور سزا نہ دو۔ On انسانی حقوق اور حسن سلوک کے بارے میں خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات قلمبند کریں: جہاد بالنفس:جہاد بالنفس بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ جہاد بالنفس سے مراد ہے جسم و جان سے جہاد کرنا۔ حتیٰ کہ اللہ کی راہ میں دشمنوں سے لڑتے لڑتے اپنی جان تک پیش کر دی جائے۔عام طورپر جب لفظ جہاد بولا جاتا ہے تو اس سے اسی قسم کا جہاد ہی مراد لیا جاتا ہے جس کو قرآن میں قتال کہا گیا ہے۔ جہاد کے لیے جنگی قوت کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے اور جہاد میں شہید ہوجانے والوں کو مردہ کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے رزق پارہے ہیں اور اس پر خوشیاں منارہے ہیں۔ ان کے لیے اجرعظیم، جنتوں کا بہترین ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔جہاد بالعلم:جہاد بالعلم جہاد کی ایک قسم ہے۔ دنیا کے تمام شر و فساد جہالت کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا دور کرنا ضروری ہے۔ جہالت کے اندھیرؤں کو علم کی روشنی سے دور کرنا بھی جہاد ہے۔ اگر انسان عقل و شعور اور علم و دانش رکھتا ہے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی اس سے فیض پہنچائے۔ انسان کو جو ہدایت ملی وہ دوسروں کو دینا جہاد ہی ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ النحل میں ارشاد ہے:ترجمہ: ”لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف آنے کی دعوت حکمت و دانش اور خوب صورت نصحیت کے ساتھ کردو۔ اور ان سے مجادلہ (بحث و مباحثہ) جنگ بہت ہی خوب صورت طریقت سے کرو۔ اسی طرح عملی انداز میں دین کی دعوت و تبلیغ بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ اور نتائج و افادیت کے لحاظ سے اس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔سورۃ الفرقان میں اسے ”جہاد کبیر“ قرار دیا گیا ہے۔جہاد بالمال:جہاد بالمال بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال و دولت عطا فرمایا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے اور حق کی حمایت و نصرت کے سلسلے میں انفاق سے گریز نہ کیا جائے۔ انسان کابہترین مال کا مصرف وہی ہے جو وہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔ انسان جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ نے اس کے بدلے بہتر عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔جو مال راہ خدا میں خرچ ہوتا ہے اس کا اجر کچھ تو دنیا میں ملے گا اور بقیہ آخرت میں جنت میں جانے کا سبب بنے گا۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا،یہ لوگ اللہ کے پاس نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔جو لوگ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے اس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں انھیں ”عذاب الیم“ کی خوشخبری دی گئی ہے۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے:ترجمہ: ”اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دو۔ “فرائض کی ادائیگی: جہادکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہر نیک کام اور فرض کی ادائیگی میں اپنی جان و مال اور دماغ کی پوری قوت صرف کی جائے۔ ایک مرتبہ عورتوں نے جہاد کی اجازت چاہی تو رسولؐ نے فرمایا: ”تمہارا جہاد حج مبرور ہے“ماں باپ کی خدمت:ایک صحابیؓ نے جہاد میں شرکت کے لیے کہا تو آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں، اس نے عرض کیا، جی ہاں تو آپؐ نے فرمایا تو تم ان کی خدمت کے ذریعے جہاد کرو۔ On جہاد کے مختلف اقسام تفصیل سے بیان کریں؟ حقوق اولاد:اولاد کی پیدائش کے بعد ابتدائی حقوق: جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اولاد کا یہ حق ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے اس کےبعد جب وہ سات دن کا ہو جائے تو اس کا عقیقہ کیا جائے اس کے سر کے بال منڈوا کر بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کیا جائے اگر لڑکا ہو تو دو بکرے اور اگر لڑکی ہو تو ایک بکراذبح کیا جائے اس کے بعد اس کا اچھا سا نام رکھا جائے ایسا نام جس سے اللہ کی بڑائی اوربندے کی عائزی ظاہرہوتی ہو۔ اگر لڑکا ہو تو عقیقہ والے دن اس کا ختنہ کیا جائے اگر اس دن رہ جائےتوپھر بعد میں جتنا جلدی ہو سکے اس کا ختنہ کر دیا جائے۔ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسےنماز پڑھنے کی تاکید کی جائے اور ابتدائی اسلامی تعلیم دی جائے اسے اچھے اخلاق، نیکی کے کام، بڑوں کا احترام سکھایا جائے۔پرورش:اولاد کی پرورش کےسلسلے میں قرآن نے یہ قانون دیا ہے کہ بچہ کی رضاعت دو برس تک ہےماں مرجائے یا طلاق ہو جائے تو باپ دو برس تک رضاعت کا سامان کرے لڑکی کمزور ہوتی ہے اس لیے اس کی پرورش کے بارے میں اسلام خصوصی تاکید کرتا ہے۔تعلیم و تربیت:اولاد کا والدین پر حق ہے کہ انہیں عمدہ اور نیک تربیت دیں قرآن میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ:”اپنے آپ کو اور گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“یعنی خود بھی نیکی کرو اور گھر کے افراد کو بھی نیکی سکھاؤ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:”کوئی باپ اپنے بچے کو حسن ادب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔“اولاد کی پرورش اور تربیت کرکے انہیں کمائی کے لائق کرنا ایک عظیم دینی خدمت ہے احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔وراثت میں حصہ:اولاد کا یہ حق ہے کہ جب ان کے والدین کی طرف سے جو تر کہ رہ جائے تو اس میں اولاد کو باقاعدہ حصہ دیا جائے شریعت میں ایک لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ مقرر ہے۔والدین کے حقوق:والدین کےاولاد پر اس قدر احسانات ہوتے ہیں کہ اولاد ان کی خدمت میں تمام زندگی لگادے تو ان کا حق ادا نہیں ہو سکتا حضورؐ کی حدیث ہے کہ:”کوئی اولاد اپنے والدین کے احسانوں کا اجرادا نہیں کرسکتی سوائے اس کے کہ والدین کسی کے غلام ہوں اور انہیں خرید کر آزاد کردے۔“والدین کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:محبت و احترام:والدین سے محبت اور ان کا احترام کرنا چاہئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے ساتھ ہی والدین سے حسن سلوک کا حکم دی اہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:”تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں، تو انہیں اف تک نہ کہو نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحمت کے ساتھ انکے سامنے جھک کررہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگاران پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کےساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا۔“فرمانبرداری:والدین کی فرمانبردای ہر حالت میں ضروری ہو سوائے اس صورت کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اس کے علاوہ والدین کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی روا نہیں۔ حضورؐ کافرمان ہے کہ اگر والدین تجھے کنبہ اور دنیا سے نکل جانے کا حکم دیں تو جب بھی ان کا نافرمانی نہ کر۔والدین کے رشتہ داروں سے سلوک:حضورﷺ نے والدین کی محبت اور خدمت گزاری پر تاکید نہیں کہ بلکہ ان کے رشتہ داروں کی محبت اور خدمت گزاری کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا کہ مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ آپؐ نے پوچھا کہ تیری ماں (زندہ) ہے بولا نہیں پھر پوچھا کیا تیری خالہ ہے؟ جواب دیا ہاں آپؐ نے فرمایا تو اس سے نیکی کر۔ حدیث میں ہے کہ بہترین نیکی یہ ہے کہ والدکے تعلقات کو زندہ رکھا جائے۔والدین کی موت کے بعد:والدین کی خدمت گزاری کا حق انکی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بعد میں بھی جاری رہتا ہے۔ اولاد کی نیکی کا ثواب والدین کو بھی پہنچتا ہے اس لیے والدین کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ انسان نیک ہو کر رہے تاکہ جنت میں ان کے درجات بلند تر ہوں۔ On اولاد کے حقوق و فرائض بیان کریں۔ مفہوم:زوج کے معنی ہیں جوڑا اس کی جمع ازواج ہے زوجین کے معنی ہیں میاں، بیوی۔رشتہ زوجیت کی اہمیت: والدین اور اولاد کے بعد قوی ترین رشتہ زوجین کا ہے اس رشتہ کو سب رشتوں پر تقدم حاصل ہے کیونکہ یہ رشتہ باقی رشتوں کی بنیاد ہے اسلام نے رشتہ زوجیت کو رزق کی فراخی کا سبب قرار دیا ہے یہ یہی رشتہ راحت و سکون کا ذریعہ ہے۔حقوق و فرائض:خاوند کے حقوق: خاوند کے وہی حقوق ہیں جو بیوی کے فرائض ہیں خاوند کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ حضورؐ کے اس فرمان سے ہوتا ہے کہ:”اگر میں کسی کو حکم دیتا تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ بیوی اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔“احترام و محبت:رشتہ زوجیت باہمی احترام و محبت کا رشتہ ہے حضورؐ کی حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کا دل سے بیحد احترام کرے بیوی کا دل خاوند کی محبت سے سرشار ہو اس سے ازدواج زندگی خوشگوار ہوتی ہے باہمی احترام و محبت سے زندگی آسان ہو جاتی ہے۔اطاعت شعاری:بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے کبھی اس کی نافرمانی نہ کرے قرآن کی رو سے نیک عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو۔جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:”پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اورنگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔“مال و عزت کی حفاظت:بیوی کا فرض ہے کہ وہ خاوند کے مال اور گھر کے اثاثے وغیرہ کی حفاظت کرے کفایت شعاری اور سلیقے سے کام لے چیزوں کو ضائع نہ ہونے دے قرآن میں آتا ہے کہ:”پس جو نیک عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔“ On زوجین کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟ مفہوم:عائلی زندگی سے مراد خاندانی زندگی ہے انسان پیدائش سے موت تک ساری زندگی اپنے خاندان میں گزارتا ہے خاندان بنیادی طور پر میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد مختلف رشتوں کی بناءپر ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ خاندان معاشرے کا اہم جزو ہے۔ اور معاشرے کے اثرات خاندان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ خوشحال اور اسلامی طرز زندگی پر گامزن ہوگاتو خاندان پر اس کے اچھے اثرات پڑیں گے۔ اسلام نے انسانی معاشرے میں ایک مضبوط خاندانی نظام کے قیام کو بڑی اہمیت دی ہے۔بقائے ملت:حضورؐ نے نکاح کی بنیادی وجہ یا غرض بقائے ملت بتائی ہے بچہ پیدائش کے وقت ضعیف اور محتاج ہوتا ہے اسے کئی برس نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے یہ مشکل کام ہے یہ بوجھ صرف والدین ہی اٹھا سکتے ہیں اور یہ تمام مرحلہ صرف ایک گھر سے ہی وابستہ ہو سکتا ہے والدین بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیتے ہیں اپنا چین و سکون اولاد پر قربان کر دیتے ہیں گھر ہی ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں قوم کے بچے بیرونی خطرات سے محفوظ نشوونما پاتے ہیں اور والدین اس قلعہ کے نگہبان ہیں۔اولین تربیت گاہ:گھر بچے کی اولین تربیت گاہ ہے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے جو طریقے وہ بچپن میں سیکھتے ہیں ان کی بنیاد پختہ ہوتی ہے بچپن میں مزاج اور حرکات و سکنات کا جورنگ ہوتا ہے وہ عمر بھر کے لئے ساتھ دیتا ہے۔ مسلمان والدین اپنی طرف سے بچے کی ہر ممکن نیک تربیت کرتے ہیں۔ انکی یہ اچھی تربیت قوم کی بقاء کے لیے مدد گار ثابت ہوتی ہے گھر کی زندگی انسان کو دنیا کی وسیع تر زندگی کی ذمہ داریوں کے قابل بناتی ہے۔اخلاقی طہارت اور کردار کا تحفظ:زندگی کو صحیح طریقے سے اختیار کرنے کے بعد مرد و عورت کئی فتنوں سے محفوظ رہتے ہیں عورت ا س اخلاقی قلعے میں امن سے ہو جاتی ہے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:”جو تم میں سے جو آدمی مہر و نفقہ کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کیونکہ یہ سب سے زیادہ نگاہ کو پاک رکھتا ہے اور عفت کی حفاظت کرتا ہے جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ روزے رکھے“نیک خاوند اور بیوی ایک دوسرے کا اخلاق سنوارتے ہیں والدین نیک ہوں تو اولاد پر بھی نیک اثر پڑتا ہے بچے اچھے اخلاق سےآراستہ ہوتے ہیں ایسا گھر پھر ارد گرد کے ماحول پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔آخرت کا سامان: عائلی زندگی کا ذمہ اٹھانا ایک عظیم دینی ذمہ داری سنبھالنے کےبرابر ہے۔ جو شخص اس سے عہدہ بر آہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا انعام ہوگا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز کم سن بچے والدین کی شفاعت کریں گے۔ On خاندانی نظام کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔ قرآن مجید میں پچھتر مقامات پر صبر کا ذکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صابر کو پسند فرماتا ہے اور صبر کی اہمیت بھی ہم پر واضح ہوتی ہے۔ قرآن پاک ہی میں صبر کرنے والوں کی خوبیاں اور اوصاف بار بار بیان کیے گئے ہیں اور صبر کے نتائج و ثمرات بیان کرتے ہوئے اسے ایمان کے اعلیٰ ترین درجوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح ارشادات نبویؐ میں صبر کی بہت سی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔ عملی طور پر رسولﷺ کی حیات طیبہ صبر و استقلال کا اعلی اور روشن نمونہ ہے۔قرآن کی روشنی میں:قرآن مجید میں صبر کے بارے میں بار بار تلقین کی گئی ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذل آیات مبارکہ سے ظاہر ہے:”اور جب مصیبت تمہیں پیش آئے اسے برداشت کرو، بے شک یہ بڑے عزم کی بات ہے۔“(لقمان: 17)ایک اور جگہ پر ارشاد ہے:”اے ایمان والوں! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ (البقرۃ : 153)صبر کرنے والوں کے لیے بشارت بھی ہے:”اورصبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے“ (البقرۃ: 155) On قرآن کی روشنی میں صبر کی اہمیت بیان کریں۔ جواب: زکوہ کے مصارف کا ذکر قرآن حکیم میں ہے:”صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے ۔“ (سورۃ التوبہ: ۶۰)قرآن مجید کی رو سے زکوۃ کے مصارف کی تعداد آٹھ ہے:للفقراء: فقراء کےلیے: فقیر سے مراد وہ مرد و عورت ہے جو اپنے گزر اوقات کے لیے دوسروں کی مدد اور تعاون کا محتاج ہو۔ جس کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ ہو۔والمساکین: مساکین کے لیے: اس سے مراد وہ شریف غرباء ہیں جو بچارے نہایت ہی غریب ہوں لیکن شرف کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اور سمٹ چمٹ کر وقت گزار رہے ہوں۔والعملین: عاملین کے لیے: ان سےمراد زکوۃ کے محکمے کےملازمین یا زکوہ جمع کرنے والے سرکاری ملازم ہیں۔والمولفۃ قلوبھم: تالیف قلب کے لیے: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی تالیف قلب یعنی دل جائی مطلوب ہو۔ اسلام کے مفاد میں ان کو ہموار کرنا اور مخالفت کےجوش کو ٹھنڈا کرنا پیش نظر ہو۔وفی الرقاب:گردن چھڑانے کے لیے: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوں اور مالکوں کو رقم ادا کرکے آزاد ہونا چاہتےہوں۔والغارمین: قرض دار کے لیے: ایسے لوگ جو قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں اور قرض ادا نہ کر سکتے ہوں۔وفی سبیل اللہ: اللہ کی راہ کے لیے: اس سے مراد راہ خدا میں جہاد و اشاعت اسلام ہے۔وابن السبیل: مسافر کے لیے: ایسا مسافر جو خواہ اپنے گھر میں خوشحال ہو لیکن حالت سفر میں محتاج ہو۔ On قرآنی تعلیمات کی روشنی میں زکوۃ کے مصارف بیان کیجئے: جواب: زکوۃ اسلام میں مالی عبادت ہے۔ زکوۃ سماجی فلاح و بہبود کا بہترین ذریعہ ہے، زکوۃ کے ذریعے معاشرے کے محروف ومفلس لوگوں کی کفالت ہو جاتی ہے اور اس طرح معاشرے میں نفرت،بگاڑ، انتشار و انتقام کی بجائے ہمدردی و احترام اور باہمی محبت کے جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ زکوۃ دینے والے کے دل سے مال کی محبت مٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ غریبوں سے ہمدری کا جذبہ قائم رہتا ہے اور دولت کے گردش میں آنے سے معاشرے کے افراد کی مالی حالت اور بحران کا سبب کئی گنا حد تک کم ہو جاتا ہے اور مالی حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ زکوۃ کی اہمیت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے ایک کہ جب ایک مرتبہ ایک گروہ نے بارگاہ نبوتؐ پر حاضر ہو کر اسلام کی تعلیمات دریافت کیں تو آپﷺ نے اعمال میں سب سے پہلے نماز اور پھر زکوۃ کا ذکر فرمایا:رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد جب بعض لوگوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قرآن نے سخت وعید سنائی ہے جس کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے۔”اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو۔جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو“ (التوبہ: ۳۴، ۳۵) On زکوۃ کی اہمیت پر نوٹ لکھیے؟ زکوۃ:زکوۃ کا لفظی معنی ہیں پاک ہونا، نشونما پانا، بڑھنا ، یہ مالی عبادت دین اسلام کا ایک اہم فرض رکن ہے۔اصطلاح شریعت میں زکوۃ ایک ایسی مالی عبادت ہے جو کہ ہر مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت جو صاحب نصاب ہوں پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے، اس کی ادائیگی ہر سال اس شخص کو کرنی پڑتی ہے جو دولت کی ایک مخصوص مقدار کا مالک ہو۔ اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر مشتمل ہے جن میں تیسرے نمبر پرزکوۃ ہے۔ زکوۃ ایک صاحب نصاب مسلمان پر اپنے مال میں سے ایک خاص شرح کے مطابق فرض ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور آخرت میں اس کا اجر بھی ملتا ہے۔ زکوۃ ادا نہ کرنا بڑا گناہ ہے۔زکوۃ کی فرضیت:زکوۃ رمضان 2ھ کو فرض ہوئی۔ زکوۃ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحب ثروت لوگوں کے مال میں غریبوں کا حصہ مقرر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے ”نماز قائم کرو اور زکوۃ دیتے رہو“ کا حکم بار بار دہرایا گیا ہے۔ایک اور جگہ ارشاد ہے:”اے پیغمبرؐ! ان کے مالوں میں سے زکوۃ لے کر ان کو پاک صاف بنا“نصاب و شرح زکوۃ: نصاب سے مراد مال کا وہ کم از کم اندازہ جو زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے شریعت میں مقرر ہے۔ جو مال نصاب سے کم ہو اس پر زکوۃ لازم نہیں یعنی جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باول تولے چاندی یااس کی مالیت کے برابر نقدی یا سامان تجارت اپنی حاجات ضرورت سے زائد وفارغ ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ یا اڑھائی فیصد بطور زکوۃ دینا فرض ہے۔ On سوال۱: زکوٰۃ کا مفہوم اور اس کی فرضیت بیان کریں۔ جواب: طہارت میں دو چیزیں شامل ہیں:۱) وضو۲) غسل On سوال : طہارت میں کتنی چیزیں شامل ہیں؟ نام لکھیں۔ جواب: طہارت کے معنی”پاکیزگی“کے ہیں۔طہارت کی دو قسمیں ہیں ۔ یعنی جسمانی طہارت اور روحانی طہارت۔روحانی طہارت:جسمانی طہارت سے مراد جسم اور لباس کی صفائی اور پاکی ہے۔جبکہ روحانی طہارت سے مراد دل کی صفائی اور خلوص ہے۔جسمانی طہارت کےفوائد:جسمانی طہارت کے فوائد درجذیل ہیں۔جسمانی طہارت کی بدولت انسان عبادت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، جسمانی طہارت کی بدولت انسان بہت سی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔ جسمانی طہارت کی بدولت انسان اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ جسمانی طہارت کی بدولت انسان پر وقار اور پرکشش بن جاتا ہے۔روحانی طہارت کےفوائد:روحانی طہارت کی بدولت انسان کو عرفان الہیٰ حاصل ہوجاتا ہے۔ روحانی طہارت کی بدولت انسان عبادات کی حقیقی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔روحانی طہارت کی بدولت انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہر جاتا ہے۔ On طہارت کے کیا فوائد ہیں؟ جواب:طہارت کے معنی”پاکیزگی“کے ہیں۔ اسلام میں طہارت ایک اہم چیز ہے۔ طہارت عبادت الہیٰ کےلیے اہم شرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کوئی جگہ طہارت کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰہے کہ”اللہ تعالیٰ صفائی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“طہارے کے بارے میں آیت باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور ناپاکی سے دور رہو۔ حضورﷺ بھی طہارت کو پسند کرتے تھے خود بھی طہارت کا خیال کرتے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے ہیں:ترجمہ: یعنی پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ On طہارت کے بارے میں ایک آیت اور ایک حدیث بیان کیجئے۔ جواب: نہانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جسم کا جو حصہ گندا ہے اسے دھولیا جائے اور اس کے بعد اگر ہو سکے تو وضو کر لینا بہتر ہے وگرنہ تین بار اس طرح کلی کرنا کہ پانی حلق تک پہنچے اور پھر ناک میں تین بار جہاں تک ممکن ہو آگے تک پانی لے جائے ۔ آخر میں پورے جسم پر تین بار پانی بہایا جائے اور جسم کو اچھی طرح مل کر صاف کر لیا جائے۔بہر حال مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح نہائے کہ جسم کا کوئی حصہ اور کوئی بال خشک نہ رہے۔ پانی اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے ، خواہ مخواہ پانی ضائع نہ کیا جائے۔ غسل خانے میں نہایا جائے اور اگر غسل خانہ میسر نہ ہو تو کپڑا پہن کر مرد کے لیے نہانے کے اجازت ہے۔ البتہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ پردے میں نہائے۔ غسل کرتے وقت گنگنانے اور باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ On غسل کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ جواب: وضو کرنے کا طریقہ:وضو کا مسنون طریقہ حسب ذیل ہے: (۱) اچھی طرح ہاتھوں کو دھونا (٢) تین بار کلی کرنا (۳) تین بار ناک میں اچھی طرح پانی ڈالنا (۴) چہرے کو پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک اچھی طرح دھونا (۵) کہنیوں سمیت بازووں کو دھونا (۶) سر کا مسح کرنا (۷) ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں کو دھونا (۸) وضو کرتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ پہلے جسم کا دایاں حصہ اور پھر بایاں حصہ دھویا جائے۔ (۹) جسم کے اعضا کو تین بار دھونا۔ On وضو کا طریقہ بیان کیجئے۔ طہارت کا مفہوم:طہارت کے لغوی معنی پاک ہونے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں لباس، جسم اور عبادت کی جگہ کو پاک صاف رکھنا طہارت کہلاتا ہے۔ عبادت کے لیے طہارت کا ہونا لازمی ہے۔قرآن پاک کی روشنی میں طہارت:اللہ تبارک تعالیٰ خود بھی پاک ذات ہے اور وہ طہارت کو بھی پسند فرماتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ طہارت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ارشاد فرمایا:ترجمہ: اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور ناپاکی سے دور رہو۔(المدثر:۴،۵) ایک دوسری جگہ پر بھی ارشاد ہے کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ انکو محبوب رکھتا ہے جو خوب پاک صاف رہتے ہیں۔“احادیث مبارکہ کی روشنی میں طہارت:حضورﷺ طہارت کو پسند فرماتے تھے۔ آپ نےامت کو طہارت کی تلقین کی اور فرمایا:ترجمہ: طہارت اور پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ: طہارت نصف ایمان ہے۔طہارت میں بیرونی پاکیزگی یعنی کپڑوں، بدن اور جگہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ اندرونی اور عقیدتاً صفائی بھی شامل ہے یہ کہ انسان کی کمائی ذرائع معاش وغیرہ حلال اور جائز ہو۔ On قرآن و حدیث کی روشنی میں طہارت پر ایک نوٹ لکھیں۔ جواب:قرآن و حدیث کی روشنی میں علم کی فضیلت:علم کے معنی ہیں جاننا اور آگاہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے علم کو جو فضیلت دی ہے وہ کسی دوسری چیز کو نہیں دی کیونکہ علم عظمت اور سر بلندی کا ذریعہ ہے اور علم بندے کو اپنے رب کی پہچان کرواتا اور علم سے آشنا لوگ اللہ کےزیادہ قریب ہوتے ہیں اور اللہ انہیں رفعتیں عطا کرتا ہے۔ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے، اسے علم ہی کی وجہ سے باقی مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔اہل علم کا مرتبہ:اہل علم کے بلند مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے گا۔عالم اور جاہل میں فرق:اللہ تعالیٰ نے علم اور جہالت کا موازنہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ترجمہ: کیا اہل علم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں۔جیسے تاریکی اور اجالا ایک جیسے نہیں ہو سکتے ویسے ہی جاہل اور عالم بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ On قرآن وحدیث کی روشنی میں علم کی فضیلت بیان کیجئے۔ جواب:حصول علم حدیث کی روشنی میں:حضوراطہرﷺ نے اپنے صحابہ کو علم کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:ترجمہ: جو کوئی علم حاصل کرنے کی خاطر راستہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیےجنت کا راستہ آسان فرمادیتے ہیں۔ اور دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔کیونکہ علم کے حصول ہی سے انسان جائز و ناجائز کی پہچان کر سکتا ہے اور حلال و حرام کو جان سکتا ہے۔بدر کے قیدی کا فدیہ:بدر میں قیدی ہونے والے کافر جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے مگر پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا کر اپنے لیے آزاد حاصل کر لو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم کی کتنی اہمیت ہے۔طالب علم کے لیے شہادت کا مرتبہ:حضوراکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر کوئی شخص گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں نکلتا ہے اور اگر اسے اس راستے میں موت آجائے تو وہ شہید کا رتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ On احادیث کی روشنی میں حصول علم کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔ جواب:اللہ کے ہاں علم کی بہت اہمیت ہے۔ پہلی وحی کے موقع پر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیلؑ وحی لے کر نبیﷺ کے پاس آئے تو ا سکے الفاظ یوں بیان ہیں:ترجمہ: اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھیے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھا ئیں جس کا اس کو علم نہیں تھا۔(العلق آیت ۱ تا۵)مسلمانوں کو علم کی طرف ہی زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ قرآن نے دین کے بنیادی احکام کے ساتھ ساتھ دنیاوی، فلسفہ تاریخ ، غذاا ور غذائیت اور سائنسی علوم پر غور و فکر کی بھی دعوت دی ہے۔ رزق حلال بھی اسلام کا تقاضا ہےاس لیے مومن کو معاشی علوم و فنون سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بندہ مومن کی عبادات کا مقصد تقویٰ اور رضائے الہیٰ کا حصول ہے۔قرآن کا ارشاد ہے:ترجمہ: اللہ کے بندوں میں سے اہل علم ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔(الفاطر:۲۸)ایک اور جگہ بھی ارشاد ہے:ترجمہ: کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔ On قرآن کی روشنی میں علم کی اہمیت بیان کریں۔ قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یقینی علم اور حقیقت کی بنیاد پر منبی ہے اور اس میں کسی شک کا گزر نہیں۔ اس میں ہر زمانے اور ہر خطے کے تمام انسانوں کے لیے مکمل ہدایت و رہنمائی موجود ہے اور انسان کی دنیا اور آخرت کی حقیقی فلاح کا دار و مدار اسی پرعمل کرنے میں ہے۔ اس لیے قرآن کریم کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ جس طرح یہ کلام تمام کلاموں سے بہتر ہے اس طرح وہ انسان بھی تمام انسانوں سے بہتر ہے جو خود بھی اس کا علم حاصل کرے اور اسے دوسروں کو بھی سکھائے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:ترجمہ: ”تم میں سے بہتر وہ ہےجس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔“(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۵۰۲۷)اس لیے ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کا علم حاصل کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں اور اس کے لیے کسی طرح کی محنت سے دریغ نہ کریں۔قرآن کریم کی تلاول کا اجر:قرآن کریم کی تلاول بڑی نیکی ہے۔ اس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس پر عمل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں میں عزت اور سرفرازی عطا فرماتا ہے۔ اس سے منہ پھیرنے والے ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جب تک قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے، دنیا میں غالب رہے اور جب انھوں نے اس سے غفلت برتی تو عزت و سر بلندی سے محروم ہوگئے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی سے ارشاد فرمادی تھی۔”اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو قرآن کریم کی وجہ سے سر بلند عطا فرمائے گا اور دوسری بہت سی قوموں کو اس کی وجہ سے گرادے گا۔“ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۱۸)اس لیے ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس کی تعلیمات مل کرنے کی کوشش کریں۔ On فضائل قرآن پر نوٹ لکھیں: جواب:قرآن کی حفاظت قرآن کی روشنی میں:قرآن مجید سے قبل جو بھی کتابیں موجود تھیں ان میں وقت کےساتھ ساتھ تحریف و تبدیلی ہوتی گئی مگر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ آخری کتاب ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: بلاشبہ یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے ۔ اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔(الحجر:۹) ہم دیکھتے ہیں کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا قرآن مجید کی حفاظت کا یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ پوری دنیاموجود قرآن مجید کے نسخوں میں ایک لفظ یا زیر زیر کا فرق نہیں ہے۔قرآن مجید کے نزول کا عمل:قرآن مجید رسول اللہ ﷺ پر ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا بلکہ تقریبا ۲۳ سال میں تھوڑا تھوڑا مختلف موقع پر نازل ہوا۔ جونہی کچھ آیات نازل ہوتیں، آپ نے کاتب وحی کو بلوا کر لکھوا دیتے اور یہ رہنمائی بھی فرماتے کہ انھیں کس سورت سے پہلے یا بعد کون سی سورت میں کن آیات کے ساتھ رکھا جائے۔ مسجد نبوی میں ایک جگہ متعین تھی جہاں یہ عبارت رکھ دی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ علھم اس کی نقل کر کے لے جاتے اور یاد کر لیتے۔ مختلف اوقات خصوصا نمازوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ اس طرح جوں جوں قرآن مجید نازل ہوتا گیا، لکھا بھی جاتا رہا اور حفظ بھی ہوتا رہا۔ اس عمل میں مرد اور خواتین دونوں شامل تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں مکمل قرآن کریم اکثر امہات المومنین، صحابہ کرام اور صحابیات کو یاد ہو چکا تھا اور کئی صحابہ کرام نے اس کی مکمل نقول بھی تیار کر لی تھیں۔خلفاء راشدین کے دور میں قرآن جمع کرنے کا معاملہ:رسول پاک ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھوائے ہوئے تمام اجزا کو آپ ﷺ کی مقرر کردہ ترتیب کے مطابق یک جا کرا کے محفوظ کرا دیا۔ آیات کی ترتیب اور سورتوں کے نام وہی تھے جو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے علم سے مقرر فرمائے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس کی متعدد نقول تیار کرا کے تمام صوبائی دارلحکومتوں میں ایک ایک نسخہ کے طور پر بھجوا دیں۔ On قرآن مجید کی حفاظت کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ بیان کیجئے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ، اس کی جسمانی اور فطری ضروریات پوری کرنے کے لیے مادی وسائل پیدا کیے اور اس کے ذہن اور روح کی رہنمائی کے لیے بھی اہتمام فرمایا۔ جہاں باری تعالیٰ نے کائنات کو انسان کے لیے تخلیق کیا وہاں انسان کی ہدایت کا سامان بھی مہیا کیا۔ خود انسان کو خیر وشر میں فرق کرنے کی صلاحیت اور ضمیر کی آواز عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی کامل رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تاکہ وہ اپنی عقل و خرد کو بروئے کار لا کر اپنی ہدایت کے لیے کام کریں۔قرآن نورِ ہدایت:ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو کل جہاں والوں کے لیے ہدایت بنا کر بھیجا ہے۔آپﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ یہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا دائمی ذریعہ ہے اور تمام سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔قرآن کریم میں انسان کی مکمل زندگی کو گزارنے کے اصول بتائے گئے ہیں۔قرآن کریم کی حفاظت:اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے لیے بھی انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث فرمائے تھے ۔ ان میں سے بعض پر کتابیں بھی نازل فرمائی تھیں لیکن ان کی تعلیمات اور ان پر نازل شدہ کتا ہیں اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہیں ۔مگر قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تبارک تعالیٰ نے خود لی ہے۔قرآن مجید کے بارے میں ارشادِ باری تعالی ہے:ترجمہ: اور (اے پیغمبر ) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق کرتی ہےاور ان سب پر نگہبان ہے۔(سورۃ المائدہ: ۴۸)قرآن مجید کو پچھلی کتابوں کے لیے مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کتابوں میں جو تعلیمات اور عقائد اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہ رہ سکے انھیں قرآن مجید نے اپنے اندر از سرنو بیان کر کے محفوظ کر دیا ہے۔ On قرآن مجید کا تعارف بیان کریں۔ جواب: حضور اکرمﷺ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا ابدی صحیفہ لے کر تشریف لائے۔ آپﷺ کی تشریف آوری سے ہدایت کا سلسلہ اپنے کمال کو بھی پہنچا اوراختتام کو بھی۔ جیسا کہ ارشاد ہوا۔ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔(المائدہ:۲)دین مکمل، نعمت مکمل اور اسلام پر رضائے الہیٰ کا واضح اظہار حضرت محمدﷺ کے آخری نبی اور رسول ہونے کا اعلان ہے کہ اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں رہی اس لیے کہ احکام الہیٰ مکمل ہو گئے۔ارشاد ربانی ہے:ترجمہ: محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز واقف ہے۔اب انسان کو ہدایت ایک ہی در سے ملے گی۔اب پریشان نظری ختم ہوئی اور تلاش کا مرحلہ تمام ہوا سب کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے، اس ایمان کو محبت کا جوہر عطا کرنا ہے اور رسول اکرمﷺ کی محبت و اطاعت اور اتباع سے احکام الہیٰ کا پابند بننا ہے۔ اسی میں دنیا کی بھلائی ہے اور اسی میں آخرت کی نجات ہے۔ چنانچہ ختم نبوت کی برکت سے ہمارا دین کامل اور آخری دین ہے۔ ہم آخری امت اور ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ آخری پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت سے سرفراز نہیں کیا جائیگا۔ ختم نبوت کے عقیدہ کو قرآن کریم کی تقریباً ۱۰۰آیات مبارکہ اور آپﷺ کی تقریباً ۱۲۱۰ احادیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ On سوال۳: قرآن کریم کی کسی ایک آیت کے حوالے سے ختم نبوت کا مفہوم واضح کریں۔ جواب: اطاعت:اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کا ثبوت کیسے دیا جائے؟ یہ سوال ہر انسان کے ذہن میں پیدا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے خود اس کا راستہ بتا دیا۔ارشادِ باری تعالی ہے:ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا ۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱)محبت الہی، اُسوہ رسول ﷺ کی پیروی کا نام ہے۔ اطاعت میں مکمل خود سپردگی درکار ہوتی ہے۔ ظاہری عمل کے پیچھے دلی چاہت اور قلبی میلان ضرور ہوتا ہے۔ وگرنہ یہ عمل منافقت بن جاتا ہے۔ اس لیے اس پر متنبہ فرماتے ہوئے ارشاد ہوا: ترجمہ: تمھارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تنازعات میں آپؐ کا حکم نہ مانیں اور پھر جو فیصلہ آپؐ کریں اس پر تنگ دل نہ ہوں بلکہ پورے طور پر اسے تسلیم کریں۔اطاعت ، اتباع کی عملی مشکل سے ایمان کے عملی تقاضے پورے ہوتے ہیں اور تسلیم و رضا کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ On سوال۲: رسول اللہﷺ کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ جواب: اللہ تعالی کے ساتھ محبت:سوچ کا یہ درست زاویہ محبت الہی کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کا ایک معمولی حسن سلوک ساری عمر کی احسان مندی کا باعث بنتا ہے تو جو زندگی بخشتا ہے اس کے لیے ساری عمر محبت کے جذبے پروان کیوں نہ چڑھیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ:ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔(البقرہ: ۱۶۵)ایمان کی تکمیل محبت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جس عمل میں محبت کی کارفرمائی نہ ہو وہ کھوکھلا اوربے توفیق ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت کرنے والا جس سے محبت کرتا ہے، اُس کا فرمانبردار ہوتا ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور پوری دل جمعی سے ان پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث فرمائے اور ان پاک لوگوں کو اپنے احکام کتابوں یا صحیفوں کی شکل میں عطا فرمائے۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلہ، ہدایت کے آخری پیغامبر ہیں اور قرآن جو آپ ملنے پر نازل کیا گیا ، دائی ہدایت کی کتاب ہے اور انسان کی فلاح کے لیے آخری پیغام عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ On سوال۱: اللہ تعالیٰ کی محبت سے کیا مراد ہے؟ منشی پریم چند نے افسانے "حج اکبر” میں ایک ایسے گھرانے کی کہانی کو پیش کیا ہے جن کی آمدنی کم تھی اور خرچے زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ (آیا) رکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے کم تر بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا ہر دم اس کے گلے کا ہار بنا رہتا۔بوڑھی دایہ ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی اپنا کام دل وجان سے کرتی تھی۔ اس لیے اسے نکالنے کا کوئی بہانہ نہ نہ تھا۔کہانی کے مرکزی کردار یعنی بچے نصیر کی ماں شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لوٹ رہی ہے۔ جب دایہ بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں یہ دیکھنے کے لیے چھپی رہتی کہ کہیں دایا آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی، لکڑی تو نہیں چھپا دیتی، اس کی لائی ہوئی چیز کوگھنٹوں دیکھتی اور بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں ؟ کیا بھاؤ ہے ؟کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب نرمی سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو اس کے لہجے میں بھی کڑواہٹ آ جاتی تھی۔قسمیں کھاتی صفائی کی شہادتیں پیش کرتی اسی میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی معاملہ ہوتا اور روز ڈراما دایہ کے کچھ دیر رونے کے بعد انجام پاتا تھا۔اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی وہاں دو سبزی فروشوں میں بڑے جوش وخروش سے مناظرہ تھا۔دایہ بھی کھڑی ہو گئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے پر تماشا اتنا دلآویز تھا کہ اسے وقت کا بالکل احساس نہ ہوا۔اچانک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا تو وہ بھاگتی ہوئی گھر کو چلی۔ مگر گھر پہنچتے ہی شاکرہ غصے سے بھرے بیٹھی تھی۔ آیا نے بہانہ تراشا کہ دور کے کسی رشتے دار کے مل جانے کی وجہ سے دیر ہوئی اور یہ کہنے کے بعد چھوٹے نصیر کو اٹھا لیا۔مگر شاکرہ پہلے تو آیا پر خوب برسی بعد میں نصیر کو اس سے چھین کر آیا کو نوکری سے نکال دیا۔آیا کے جان کے بعد ننھا نصیر خوب رویا۔اپنے والد اور والدہ کے بہلاوے میں وہ کسی طور نہ آتا اور ہر وقت آیا آیا کی رٹ کگائے رکھتا۔ دروازے کی آواز ہوتی یا کچھ اور وہ آیا کر کے دوڑتے ہوئے جاتا۔ آیا کی جدائی کا نصیر پر بہت گہرا اثر ہوا اور کچھ ہی دنوں میں وہ شدید بیمار ہوگیا۔دوسری جانب آیا کی حالت بھی نصیر سے مختلف نہ تھی۔شاکرہ کے خوف سے وہ نصیر کو ملنے بھی نہ آتی۔کئی بار ارادہ کیا مگر رستے سے ہی پلٹ گئی۔ نصیر کی جانب سے توجہ ہٹانے کی غرض سے آیا نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور جیسے ہی وہ اس مقدس سفر پر روانہ ہونے لگیں تو انھوں نے دیکھا کہ نصیر کے والد صابر حسین ان کو تلاش کرتے وہاں آپہنچے۔صابر حسین اپنے بچے کی بگڑتی حالت کو برداش نہ کر پایا اور آیا کو واپس لانے کے لیے آپہنچا۔دوسری جانب شاکرہ بھی آیا سے اپنے رویے کے لیے بہت پشیمان تھی اور وہ اپنے بچے کی حالت کو لے کر بہت فکر مند بھی تھی۔ آیا نے صابر حسین سے جیسے ہی نصیر کی بیماری کی خبر طائی تو فوراً حج کا ارادہ ترک کیا اور صابر حسین کے ساتھ گھر کو ہو لی۔تمام راستے وہ نصیر کے کیے دعا گو رہیں اور خود کو ملامت کرتی رہیں کہ وہ نصیر کو دیکھنے کیوں نہ آئی۔نصیر جذباتی طور پو آیا سے اس قدر جڑا ہوا تھا کہ آیا کی جدائی کو سہہ نہ پایا اور بیمار ہو گیا مگر جیسے ہی آیا واپس آئی تو اس کی واپسی سے مرجھایا ہوا نصیر دوبارہ سے کھلکھلا اٹھا۔ اس کا زرد چہرہ روشن ہو گیا۔وہ بہت جلد تندرست ہو کر دوبارہ سے آنگن میں کھیلنے لگ گیا۔ یوں مصنف نے نہایت خوبصورتی سے محبت اور خدمت خلق کے جذبے کو کہانی کے ذریعے پیش کیا۔ On افسانہ حج اکبر کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔ ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت محبت بذات خود ایک بڑی طاقت ہے۔ صرف نام کا ہیر پھیر ہے۔چنانچہ قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکرائو جب ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی ہی اداسی اور سوگ ہی سوگ چھا جاتا ہے۔مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں کہ :” میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے بچپن سے نار کلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔“بہر حال اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔آئیے ڈرامے کی فنی فکری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،کردار نگاری:انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناءپر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر ، سلیم اور انار کلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں۔ دل آرام کا کردار بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ثریا مہارانی ، بختیار، داروغہ زندان سیات، مروارید اور انار کلی کی بوڑھی ماں ایسے ضمنی کردار ہیں جو تذبذب ، تجسّس اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان ضمنی اور چھوٹے کرداروں کو بھی اپنے زور قلم کے بل بوتے پر ڈرامہ انارکلی کے شاندار کردار بنا کر پیش کیا ہے۔تاج نے اپنے کرداروں کی سیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے وقت ایسا زور قلم اور ادبی شکوہ دکھایا ہے کہ اسٹیج پر ایسے کرداروں کا دکھانا ناممکن اور محال ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارمے کے نمایاں کردار انار کلی کا تعارف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔” چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف ، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔“کردار نگاری کے اعتبار سے ڈرامہ نگار نے ایسے ادبی اور فنی لوازمات کاخیال رکھا ہے کہ کسی کردار کے قول و دفعل میں تضاد کا کھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی میں کردار نگاری اوج ثریا کو چھو رہی ہے۔اکبر اعظم:اکبر کے سینے میں باپ کا دل ہے لیکن وہ اپنے ولی عہد سلیم کو پختہ عمل کا مالک اور شاہانہ جاہ و جلال کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سلیم کو شیخو کی حیثیت سے بلاشبہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے لیکن ولی عہد کی حیثیت سے وہ اسے ملگ گیری اور جہاں بانی کے جوہر سے متصف دیکھنے کا آرزو مند ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ ولی عہد اپنی ایک ادنی کنیز کے سر پر محبت کا آنچل ڈالے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبر سلیم کی شادی کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہے جہاں سلیم کے سےاسی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔سلیم کا کردار:سلیم انار کلی کا شیدائی تو ہے لیکن دل و جاں سے نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے جسم میں گداز ہے لیکن دل اس دولت سے یکسر خالی ہے۔ بیشک وہ باتوں کے بے شمار گھوڑے دوڑاتا ہے مثال کے طور پر”اللہ پھر یہ سہمی ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یونہی چپ چاپ دیکھا کرے گا۔“سلیم کے آخری جملے نہ صرف سلیم کے مستقبل کے متعلق ممکنہ اندیشوں کا اظہار ہے بلکہ اس سے اس کی قلبی کیفیت اور فطرت کی جانب بھی ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسے محبت کے مقابلے میں شہنشاہی کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ آگے چل کر سلیم کی یہ گفتگو اس کے کردار کی وضاحت کرتی ہے۔انار کلی:جہاں تک انار کلی کا تعلق ہے وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔دل آرام :دلارام شہزادہ سلیم کی پہلی منظور نظر اور محل سرا کی خاص کنیز ہے۔ لیکن سلیم سے انار کلی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد آتش رقابت سے بری طرح جل رہی ہے۔ وہ شہزادے پرآنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ مگر انار کلی کو بہر صورت تباہ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ اس کے کردار اور جذبہ رقابت کو ظاہر کرنے کے لئے تاج نے صرف ایک جملے سے کام لیا ہے۔ اس وقت دل آرام جشن نوروز کے لئے زبردست تیاری کر رہی ہے۔ اور سازشوں کے جال پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ کہ ایک واقف حال کنیز اس سے پوچھتی ہے۔” پھر آخر کےا کرو گی؟دلا آرم جواب دیتی ہے (ناگن کی دم پر کوئی پائوں رکھ لے تو وہ کیا کرتی ہے۔مکالمہ نگاری:جہاں تک انار کلی کے مکالموں کا تعلق ہے تو یہ بھی بڑے جاندار اور پر وقار ہیں ۔ اس ڈرامے کا ہر کردار موقع و محل کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی کے مکالمے کسی موقع پر بھی نہ تو ڈھیلے اور سست پڑتے ہیں اور نہ اپنی اہمیت و حیثیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی کیفیت سے ہلچل اور تجسّس پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اس ڈرامے کی زبان پر اعتراض کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ایسے اعتراضات معمولی معمولی خامیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ جبکہ ان خامیوں کے مقابلے میں انار کلی کی خوبیاں نقطہ عروج تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چستی مکالمات ، نزاکت الفاظ اور حسن و بیان اپنی مثال آپ ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعید انار کلی کے مکالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ” الفاظ میں شاعری ہے مگر تک بندی نہیں حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت نہیں، غرض جو لفظ ہے دلنشین اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔“مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مصنف نے کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ لیکن اس ادیبانہ و فنکارانہ تدبیر گری کے باوجود وقتاً فوقتاً انارکلی اعتراضات کی زد میں آتی رہی۔مثلاً پروفیسر عبدالسلام کہتے ہیں کہ” اس ڈرامے کی ایک اہم کمی اور خامی خود کلامی کا افراط ہے“پروفیسر عبدالسلام نے ڈرامہ انار کلی میں خود کلامی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ایک دوسرے نقاد ڈاکٹر حنیف فوق اس خود کلامی کے سلسلے میں یوں فرماتے ہیں :” تاج نے خود کلامی کو خلاقانہ طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے جیتے جاگتے پیکر تراشے ہیں۔“درحقیت انار کلی میں خود کلامی کوئی فالتو چیز محسوس نہیں ہوتی۔ ڈرامہ نگار نے اسے موقع و محل کے مطابق پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ڈرامے میں خود کلامی خامی کے بجائے خوبی اور حسن معلوم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے سید تاج اپنے کرداروں کے عادات و اطوار ، ان کے مزاج اور سوچ سے گہری وقفیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے مکالموں میں ہر کردار اپنی انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کی مخصوص حالت آخر دم تک برقرار رہتی ہے۔منظر نگاری:تاج ہر منظر کی ایسی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انار کلی کی عبارت فن اور خیال کا ایک بے مثال مرقع بن گئی ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں اس کی ہوبہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مثلاً سلیم کے محل کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔” گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآرہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔“منظر کشی کے لحاظ سے مندرجہ بالا منظر بے شک لاجواب ہے لیکن درحقیقت فن ڈرامہ نگاری کے حوالے سے یہی منظر اسٹیج ڈرامے کا نقص بن جاتا ہے۔ اسٹیج پر نہ تو گھنے درختوں کے طویل سلسلے اگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی دریائے راوی کو اسٹیج پر سے گزارنا ممکن ہے۔ لیکن اس طرح کے حسین و جمیل اور جیتے جاگتے مناظر نے انارکلی کی ادبی چاشنی کو دوبالا کر تے ہوئے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔اسلوب:۔ بلاشبہ انار کلی میں زبان و بیان کا کہیں کہیں جھول ملتا ہے۔ مثلاً انار کلی کی قید کے بعد اکبر کا دلآرام کو طلب کرے پوچھنا کہ ”لڑکی تجھے شیخو اور انار کلی کے کیا تعلقات معلوم ہیں“ حالانکہ شیخو اور انارکلی کے آپس میں تعلقات کے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن الفاظ سے معنوں کاخاص پتہ نہیں چلتا ۔ عین ممکن ہے سےد تاج نے اکبر کے ذہن و قلب میں پائی جانے والی زبردست ہلچل دکھانے کے لئے جان بوجھ کر کیا ہو ۔ بہر حال ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے مکالموں میں چستی ، برجستگی ، لطافت بیان اور حسن کلام کی خو ش کن مثالیں بکثرت نظرآتی ہیں ۔ بقول پروفیسر مرزا محمد سعید،”انار کلی کے مصنف نے مناظر کو اپنے موضوع کا ہم پلہ بنانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔اور ہر ایک منظر میں اشخاص ڈرامہ کی حرکات و سکنات ،بات چیت ،تراش خراش اور منظر کی عمومی کیفیت کے عین مطابق ہے۔“فکری تجزیہ:اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ،” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔“اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گزرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی ، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس لئے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی ، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔ On ڈراما انار کلی کا فکری و فنی جائزہ پیش کیجیے۔ بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب (سکول کا نام)جناب عالی!گزارش خدمت یوں ہے کی نیازمند کو آج گھر میں نہایت ضروری کام ہے جس کے باعث میں سکول حاضر نہیں ہو سکتا۔برائے مہربانی مجھے دو دن کی چھٹی رخصت عطا فرمائے۔شکریہ!عرض نیازطلب ِعلم کا نامجماعتدستخط والد صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مورخہ 14 جنوری2022 On اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام دو دن کی رخصت کے لیے درخواست لکھیں۔ غالب اردو زبان و ادب کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جو ایک عظیم تہذیب اور روایت کی امین ہی نہیں بلکہ اسے عظیم تہذیب اور روایت کا خالق بھی کہا جاسکتا ہے۔ غالب کی شاعری ان کی روایت ہے اور ان کی تہذیب ان کی انسانیت ہے۔ دونوں کو لازوال حسن اور لازوال قدر و قیمت حاصل ہے۔ آج غالب کے انتقال کو ایک سو سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے لیکن ان کی شخصیت اور شاعری کی کرامت یہ ہے کہ ہمیں ان کی آواز، اپنے عہد کی آواز نظر آتی ہے۔ان کے احساسات پر اپنے دور کے احساسات کا گمان گزرتا ہے اور زبان کا کوئی ادیب یا شاعر یہ دعوٰی نہیں کرسکتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی انداز میں غالب سے اثر قبول نہیں کیا۔ بلاشبہ غالب فارسی اور اردو دونوں کے عظیم شاعر ہیں۔اس سلسلہ میں بہرحال اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری نظر آتا ہے کہ غالب کی جو عظت ہے اور آج جو اس عالمگیر پیمانے پر ان کی عظمت کا اعتراف کیا جارہا ہے وہ تمام تر ان کی اعلیٰ شاعری کی بناءپر ہے۔ان کے اس مرتبہ کا تعین ان کے چند سائل اور ان کے خطوط سے ہوتا ہے۔ جو اردو معلّی اور غالب کے خطوط کے نام سے مخیم جلووں میں موجود ہیں۔غالب کی شخصیت اور فن میں حقیقت اپنی جگہ ایک کمال کا درجہ رکھتی ہے کہ اردو نثر میں ان کی کوئی مستقل تصنیف نہ ہونے کے باوجود صرف اُن کے خطوط نے اردو کے نثر کے ارتقاءمیں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے اور وہ اس طرح کہ آگے چل کرجو سا دہ اور سلیس انداز اردو نثر کا معیار ٹھہرا اس کا پہلا نمونہ خطوط غالب ہی میں ملتا ہے۔خطوط غالب کی خصوصیاتغالب سے پہلے اردو میں مکتوب نگاری کی جو مثالیں ملتی ہیں ان کی حیثیت انشاء پردازی کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ دراصل اب تک اس کے غیر واضح انداز کا سبب یہ تھا کہ خطوط نجی تحریروں کا درجہ رکھتے تھے۔ غالب کی اجتہاد طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ غالب مندرجہ ذیل خصوصیات کی بناءپر اس صنف کے موجد ٹھہرے۔(۱) پُر تکلف القاب و آداب اور نیاز مندانہ ختتام کی تبدیلیغالب سے پہلے خطوط کی ابتداء کے بطور طویل پُر تضع اور پُر تکف القاب و آداب سے ہوتی تھی۔ یہ القاب و آداب کسی ناقد کے الفاظ میں شرمناک حد تک پُر تکلف ہوتے تھے اور خط کی ابتداءہی سے ایک ذہنی بوجھ پڑنا شروع ہوجاتا تھا۔ خط کا معیار یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس قدر پر تضع القاب و آداب ہوتے لکھنے والا اتنا ہی باشعور، مہذب اور لائق و فاضل سمجھا جاتا۔غالب نے اس طریقہ کو یکسر ختم کردیا اور ایک عام فہم تخاطب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے خط شروع کردیا۔ اسی طرح خط کے اختتام پر عاجزی انکساری و نیاز مندی کے اظہار کو ختم کرتے ہوئے صرف اپنا نام لکھنے پر اکتفا کیا۔(۲) اختصار اور سادگیغالب کے خطوط کی دوسری خصوصیات اختصار کے ساتھ براہ راست مقصد کا بیان ہے اس سے بیشتر خط کو معاملہ کی جزئیات میں اس قدر الجھایا جاتا تھا کہ اصل مقصد کوسوں دورجاکر کھلتا تھا۔ غالب نے سادگی کے ساتھ اپنے حف مدّعا کو تحریر کرکے پڑھنے والے کیلئے خط میں ایک کشش پیدا کردی۔(۳) ڈرامائی اندازغالب کی مکتوب نگاری کی ایک اہم خصوصیت ان کا ڈرامائی انداز ہے۔ اس سلسلہ میں غالب نے اپنے ایک خط میں (جو مرزا حاتم علی مہر کو لکھا گیا تھا) اپنے انداز بیان کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہمرزا صاحب! میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے، ہزار کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصل کے مزے لیا کرو۔مرزا غالب کے اس اندازے کے خطوط کو پُر لطف جاذبیت دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دو آدمی آمنے سامنے بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں۔(۴) مزاحغالب کے خطوط کی ایک اور خصوصیت ان کا مزاحیہ انداز ہے۔ غالب کا ذہن زندگی کی حقیقتوں سے باخبر تھا وہ جانتے تھے کہ کہ وقت کی غم پرستی زندگی کو ادھورا کردیتی ہے چنانچہ اُنہوں نے اپنی تحریروں کو مزاح سے شگفتی دی۔وہ کبھی شب و روز کی کیفیت پر ہنسے کبھی رسم و رواج پر مسکرائے مگر اس مزاح کا انداز یہ رکھا کہ وہ مذاق اور مرتبہ کے مطابق وہ وہ اپنی اس خصوصیت میں مواقع پر باکمال نظر آتے ہیں کہ تعزیت ناموں تک میں مزاحیہ شگفتگی اختیار کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر بھی ان کا مقصد قاری کو دکھ اور کرب کی فضا سے نکال کر تازہ دم مسّرت کی فضا میں لانا ہوتا ہے۔(۵) تاریخی اور معاشرتی واقعاتخطوط غالب کی اہمیت کا ایک اور پہلو اپنے عہد کی تاریخی اور معاشرتی تصویر کشی ہے انہوں نے ان تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی طرف واضح اشارے کئے ہیں خصوصاً ۷۵۸۱ءکی جنگ ِآزادی کی تاریخ کے باب میں ان کے خطوط نہایت کارآمد اور معتبر مواد فراہم کرتے ہیں۔(۶) ادبی و فنی حیثیتغالب کے خطوط کی ادبی و فنی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلمّہ ہے۔ انہوں نے ان میں فنی نکات پر بحثیں کی ہیں۔ مختلف فنی اصطلاحات کی وضاحت کی ہے۔ مشکل الفاظ کی تشریح بیان کی ہے اور اردو فارسی شعراء پر باوزن تبصرہ کیا۔ ان صورت حال میں ان کی یہ تحریریں فن اور ادب میں تنقیدی اضافہ بھی ہے۔(۷) نجی کمزوریوں کا اظہاران کے خطوط کے اس پہلو کو بھی ان کی خصوصیات ہی شمار کرنا چاہئے کہ ان میں ان کی اپنی نجی کمزوریوں کا اظہار بھی موجود ہے۔ یہ بڑے ظرف اور حوصلے کی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے وہ گوشے بھی دوسروں کے سامنے پیش کردے جو دوسروں کی نظروں میں تاریک ٹھہرتے ہیں۔ غالب نے اپنے متعلق کچھ نہیں چھپایا وہ ان کمزوریوں کا اظہار ہمدردیوں کے حصول کے لئے نہیں کرتے بلکہ اپنی ذات اور اپنے فن کی صحیح پہچان کے لئے کرتے ہیں اس لیے کہ کسی شخصی پسِ منظر کو سمجھے بغیر کسی فن کار کے فن کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔(۸) زبان کی خوبیاںان کے خطوط کی آخری خصوصیت ان کی زبان سے ہم رشتہ ہے۔ انہوں نے مسقفی اور مسجع عبارت اور بھاری بھر کم الفاظ کی جگہ سادی اور عام فہم قسم کی زبان لکھی ہے۔ ان خطوط کی زبان میں لطافت ہی لطافت ہے نہ کسی پر پھبتی ہے نہ پیچیدہ انداز متین الفاظ میں شوخ انداز ہے اور دل میں گھر کرنے والا لہجہ ہے۔ ان تمام خوبیوں کے پیش نظر خطوط غالب اردو نثر کی ایک ایسی جدت آمیز صنف ٹھہرے کہ جس کے آغاز اور انجام دونوں کا سہرا ان ہی کے سر ٹھہرا۔ لوگوں نے انداز غالب کی تقلید بھی کرنا چاہی مگر ان کی سی بات کسی میں پیدا نہ ہوسکی۔(۹) تبصرہ۰۴۸۱ءکے آس پاس مرزا غالب جو فارسی اور اردو کے متعلقہ عہد کے اکابر شعراء اور نثر نگاروں میںشمار ہوتے تھے۔خطوط نویسی کی طرف متوجہ ہوئے۔ زندگی اب بڑے مصروف ہوچلی تھی اور غالب کو قدرت کی طرف سے بطور خاص جدت پسند طبیعت ملی تھی۔ چنانچہ اُنہوں نے اردو نثر کو فارم کے اعتبار سے ایک جدید مختصر صنف سے روشناس کیا۔ اردو نثر میں اگر چہ مکتوب نگاری کی یہ صنف اپنی بے مقصد سی طویل انشائی صورت میں موجود رہی تھی اور غلام احمد شہید، غلام غوث بے خبر اور دوسروں کے مکاتیب اردو میں موجود تھے مگر بدلتے ہوئے تقاضے اور رجحانات اس کی تشکیل کو چاہتے تھے۔داکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں کہغالب ان لوگوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بیدار تھے۔ ان کی زندگی ان کے فن کاوسیلہ بن گئی اور اسی سبب غالب کے خطوط کی اہمیت غالب کے شعری نتائج فکر سے کم نظر نہیں آتی۔پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہدل کے معاملے میں غالب کو ان کے اشعار کے انتخاب نے رسوا کیا ہو یا نہیں ان کے خطوط نے یقینا ان کو سب کو محبوب بنادیا ان کی شاعری میں ان کی فکرو تخیل جاگتا ہے تو ان کے خطوط میں ز ندگی اور شخصیت کا حسن اور حرکت ہے۔اگر خطوط نویسی کو فنون لطیفہ میں جگہ دی جائے تو اردو میں اس کی مثال صرف غالب کے خطوط میں ملتی ہے۔ کسی سے بات کرنا ہو تو اس میں کتنے ہی عناصر اپنا کام کرتے ہیں۔ اچھی گفتگو میں نقش، رقص،آہنگ اورشخصیت سب کچھ ایک ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ شخص کی عدم موجودگی میں یہی کرشمہ غالب کے خطوط میں نظر آتا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی غالب نے مکتوب نگاری جیسی محدود اور نجی تحریر کو ہمہ جت بنادیا اور اپنی اس نثری تحریر میں بقولداکٹر ابواللیث صدیقیروز مرّہ کی گفتگو کو زبان کا چٹخارہ دیا۔وہ خطوط نگاری کے رمز سے بہت پہلے سے واقف تھے اور اس کے آئین اور اصول ایک مختصر فارسی رسالے میں لکھ چکے تھے البتہ یہ امر خاص طور پر قابل بیان ہے کہ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔ On مرزا اسد اللہ خان غالب کی خطوط نگاری کی خصوصیات مفصل طور پر بیان کیجیے۔ خلاصہ:مرزا محمد رفیع سوداؔ نے اپنے قصیدے شہر آشوب میں دلی کی تباہ حالی کی داستان پیش کی ہے اور بڑا مؤثر انداز بیاں اپنایا ہے۔ سودا اس قصیدے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہے اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منہ میں زبان ہے۔ اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دوں گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔آگے شاعر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سنا جو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا ہے۔ پھر میں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پوچھا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے؟ میرا سوال سن کر وہ کہنے لگا بس سودا چپ رہ جا ان کا تو خدا ہی حافظ ہے۔لوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گے۔ یہاں لوگوں کے ذرائع معاش الگ الگ ہیں۔ یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار کماتے ہیں۔اس کی کہانی آرام سے سنو کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی روٹی کمانا چاہتا ہے تو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی کیونکہ وہ مالک خود خستہ حال ہوتا ہے۔ وہ خو دکم آمدنی کا شکار ہوتا ہے، اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا۔ تمام عمر زندگی گھوڑے کے چارے کا انتظام کرنے میں گزرتی ہے، یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہے۔جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے۔ تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہیں ہے کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے۔ ایران سے مال لانا پڑتا ہے اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ (شعرا) دنیا کے حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاں بیٹے سے ملنا ہے، آج حال یہ ہے کہ شعرا کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں۔اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہیں وہاں بھی یہی سوچتے ہیں کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھوں تاکہ کچھ رقم مل جائے۔ملا کا بھی شعرا جیسا حال ہے، ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو ایک دو روپے مل سکتے ہیں۔ میں کیا بتاؤں ملا کا حال؛ دن بھر بچوں کو پڑھانے کے بعد ان کے دسترخوان پر صرف دال اور جو کی روٹی ہوتی ہے۔دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے گھر کے اخراجات کا حساب لگاتے ہیں۔اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہے۔ اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہاں کر سکے گا۔اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بننا چاہے تو اس پر فوراً شعرا طنز کرنے بیٹھیں گے۔ جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے۔پھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، کوئی پھر کودتا ہے، کوئی رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے۔ پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو وہ اصول وجد توڑ دیتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سر گوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔شاعر مزید فرماتے ہیں کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکے، اس کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں آسودگی اور اطمنان اور سکون کبھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے ہوگا مگر مجھے نہیں لگتا ہے۔ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہاں بھی نہیں مل پائے گا۔یہاں اگریہاں فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی۔اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا، وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔ On (قصیدہ شہر آشوب) کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔ سید احمد خاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839ء میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اور مختلف مقامات پر کام کیا۔1862ء میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے ایک انجمن سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے بنائی ۔اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علوم ، خاص کر سائنس کے علوم کا مطالعہ کیا جاۓ اوران علوم کو ہندوستانیوں میں عام کیاجائے۔1869ء میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے ۔ واپس آ کر انھوں نے انگریزی کے علمی اور سماجی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ انگلستان سے واپس آکر سیداحمد خاں نے علی گڑھ1875 ء میں ایک سکول کھولا۔ یہ اسکول 1878ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور پھر 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔ 1878ء میں سید احمد خاں کو سر کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں سرسید کے نام سے جانتے ہیں۔سرسید آخر عمر تک قومی کام ، کالج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ان کی متعددتصانیف میں آثارالصنادید ، اسباب بغاوت ہند اور سرکشی ضلع بجنور خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوۓ ہیں۔ان میں سائنس،فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔لمبی لمبی تحریروں کے بجاۓ چند صفحات میں کام کی بات کہنے کافن سرسید نے عام کیا۔ سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مسلح تھے اور ان کی نثر میں ، وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔ادبی خدمات:سر سید احمد خان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو انھوں نے قریباً ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ان کی ادبی خدمات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ پرانے رنگ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انگریزوں سے میل جول کی بناپر ان کے اندر مغربی طرز زندگی اور جدید خیالات کا کچھ نہ کچھ اثر دکھائی دیتا ہے۔ ریاضی، تاریخ اور تصوف کے علاوہ ان کی تصنیفی زندگی کے دور اول میں ان کی تحریروں میں مناظرہ و تقابل مذہب کا رجحان غالب ہے۔اس دور میں ان کا نقطۂ نظر علمی اور دینی تھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں وہ آثار قدیمہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس دور کی خاص خاص تصانیف ’’جام جم‘‘ (فارسی) ۱۸۳۹ء، ’’انتخاب الاخوین‘‘ ،’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ ، ’’تحفۃ حسن‘‘، ’’آثار الصنادید‘‘، ’’فوائد الافکار‘‘، ’’کلمۃ الحق‘‘ ، ’’راہ سنت و رد بدعت‘‘، ’’ضیقہ‘‘ ، ’’کیمیائے سعادت‘‘، ’’تاریخ ضلع بجنور‘‘ اورآئین اکبر کی تصحیح‘‘وغیرہ ہیں۔پہلی جنگ آزادی کے بعد ان کا تبادلہ بجنور سے مراد آباد ہوگیا ۔ اس دور میں وہ مسلمانوں کو غدر میں شرکت کے الزام سے بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس الزام سے بچانے کے لئے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’تاریخ سرکش بجنور‘‘ ، ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور ’’رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور میں انہوں نے ’’تاریخ فیرزو شاہی‘‘ ’’تبین الکلام‘‘ ، ’’سائنسٹی فک سوسائٹی اخبار‘‘ (جو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ ہوگیا) اور ’’رسالہ احکام طعام اہل کتاب‘‘ وغیرہ بھی لکھیں۔تیسرے دور میں ان کے مصلحانہ خیالات میں بڑی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنے اظہار خیال میں نڈر اور بے خوف ہوگئے تھے اور پبلک کی مخالفت کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے ذہن پر جدید انداز فکر نے غلبہ پالیا تھا۔ انگریزوں کی صحبت و رفاقت نے جو رنگ ان پر چڑھایا تھا وہ تیز تر اور شوخ ہوگیا تھا۔ اس رجحانات کو ان کی اس دور کی تصانیف میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کی اہم تصانیف اس طرح ہیں۔ ’’سفرنامہ لندن‘‘، ’’خطبات احمدیہ‘‘ ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو‘‘ وغیرہ۔ On سر سید احمد خان کی حالات زندگی اور ادبی خدمات کا جائیزہ لیجئے۔ مولانا سید علی نقی صفیؔ کے آباؤ اجداد غزنی کے رہنے والے تھے جو شہاب الدین غوری کے ساتھ ہندوستان آئے اور دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ نظام الدین اولیاء کے قریب حوضِ شمسی کے گرد و نواح میں ان کے بزرگوں کے مزار اب بھی ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ خاندان دہلی کے مضافاتی علاقہ پنگوڑ کو منتقل ہو گیا۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد صفیؔ لکھنوی کے پردادا سید احسان علی نے علاقائی جاٹوں کے ظلم سے تنگ آ کر پنگوڑ چھوڑا اور فیض آباد آ گئے۔ لیکن شجاع الدولہ کی وفات کے بعد جب نواب آصف الدولہ نے لکھنؤ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو متوسلین بھی لکھنؤ چلے آۓ۔انھیں میں صفیؔ لکھنوی کے دادا سید سلطاں حسین بھی تھے۔سید علی نقی صفیؔ 03 جنوری 1862ء کو پیدا ہوئے۔ رواجِ زمانہ کے مطابق پانچ برس کے سن میں ان کی بسم اللہ ہوئی۔ابتدا میں فارسی اور عربی درسیات مولوی احمد علی اور سید حسن سے حاصل کی ۔ کاکوری کے مولوی شمس الدین سے بھی استفادہ کیا۔ اپنی والدہ گرامی صحبت میں رہ کر آدابِ مجلس سے روشناس ہوۓ۔ 05 شوال 1310ھ کو شفقتِ سے محروم ہو گئے۔ 02 ربیع الثانی 1317ھ کو پدر بزرگوار کا سایہ سے بھی اٹھ گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کا شوق ہوا ۔ کنینگ کالجیٹ سکول لکھنؤ سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1779ء میں لال سکول اور پھر کنینگ کالج کی برانچ میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہو گئے۔ اس وقت یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ انگریزی کا یہ معلم اردو شاعری کے افق پر درخشندہ ستارہ بن کر چمکے گا۔کیننگ کالج میں دو برس ملازمت کرنے کے بعد 1881ء میں اترپردیش گورنمنٹ کے محکمہ دیوانی میں سرشتہ دار کے عہدے پر ملازم ہو گئے۔ اپنی اس ملازمت کے سلسلہ میں صفیؔ لکھنوی کو راۓ بریلی سلطان پور، پرتاب گڑھ وغیرہ میں قیام کرنا پڑا۔ مگر ملازمت کا زیادہ تر حصہ لکھنؤ میں گزرا۔ اور یہیں سے 1917ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوۓ۔صفیؔ لکھنوی کو بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا ۔ 12 برس کے سن میں پہلی غزل نظم کی تھی۔ اس بات کا تحریری ثبوت کہیں سے نہیں ملتا کہ وہ کسی کے شاگرد تھے شوکت تھانوی نے بھی انھیں تلمیذ الرحمٰن کہا ہے ۔ لیکن لکھنؤ کے ایک معمر ادیب مرزا جعفر حسین کا کہنا ہے کہ ان کے والد مرزا دلاور حسین نیرؔ جو علی میاں کاملؔ کے شاگرد تھے کہا کرتے تھے کہ صفیؔ لکھنوی نے بھی علی میاں کاملؔ کے سامنے زانوۓ ادب تہہ کیا تھا۔ لیکن شہرت حاصل کرنے کے بعد ان کی شاگردی سے انکار کر دیا ہے اسی کا نتیجہ تھا ککہ بعد میں عزیزؔ نے بھی صفیؔ کی شاگردگی سے انکار کر دیا۔صفیؔ لکھنوی نے طویل عمر پائی ۔ 75 برس اردو کی خدمت کی ۔ اس طویل مدت میں شاعری ہر صنف میں طبع آزمائی کی ۔ غزل، نظم ، مثنوی،قصیدہ ، مرثیہ ، سلام، نوحے، قطعات ، رباعیات سب کچھ نظم کیا۔ شاعری کا کوئی میدان ایسا نہیں جس میں صفیؔ نے جولانی طبع نہ دکھائی ہو۔صفیؔ لکھنوی کی زندگی مالی کشمکش میں گذری۔ ہمیشہ خاندانی پریشانیاں دامنگیر رہیں۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک عرصہ تک آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا مئی 1948ء میں 100 روپے ماہوار کا وظیفہ نواب رام پور نے مقرر کیا جو آخری عمر تک جاری رہا۔24 جون کو 1950ء کو روح و تن میں جدائی ہو گئی 25 جون کو تنِ خاکی عفران آب کے امام باڑے کے قریب راجہ نواب علی کے مقبرے کے صحن میں سپرد خاک کر دیا گیا۔نوٹ:( ممتاز حسین جونپوری کے مطابق ان کی تاریخ وفات 25 جون ہے اور سید زائر حسین کاظمی کے مطابق 24 جون ہے)منتخب کلام:ضعف میں کرتا ہوں کب قطع مسافت پاؤں سےنکلی جاتی ہے زمین راہِ غربت پاؤں سے1885ءراہِ خدا میں نفسِ حریفانہ ساتھ ہےہشیار اک ذرا سگِ دیوانہ ساتھ ہے1889ءکس قدر اچھا ہے نور اس کا خود مستور ہےجلوہ گر دل کے قریب آنکھوں سے دور ہے1890ءوہ اور کچھ نہ سہی لطف انتظار تو ہےکہ غیر کو ترے وعدے کا اعتبار تو ہے1894ءوہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوۓ عالم نکلتا ہےشبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے1899ءوہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہےیہاں رگ رگ سے کھنچ کھنچ کر ہمارا دم نکلتا ہے1899ءانتظار مرگ میں پیری نفس بردوش ہےکوئی دم میں اب چراغِ زندگی خاموش ہے1899ءجو بڑھے حدِ طریقت سے وہ تھک جائیں گےکفر و ایماں کے دو راہے پہ بھٹک جائیں گے1899ءمحشر میں جا کے آخر کیا داد خواہ کرتےکہتا اسی کی ایسی جس کو گواہ کرتے1900ءبھلا حصولِ تمنا کی جستجو کیا ہےجو زندگی میں بر آۓ وہ آرزو کیا ہےوہ بزم دیکھئے طرب افزا کہیں جسےٹوٹا ہے دل ہی ساز تمنا کہیں جسےیہ دل ہو خون شرح تمنا کہیں جسےٹپکے وہ قطرہ آنکھ سے دریا کہیں جسے1906ءمر بھی گئے ہم اور نہ ان تک خبر گئیاے آہِ واپسیں یہ بتا تو کدھر گئی1907ءکہاں تک تھی خوشی کے ساتھ وابستگی غم کیذرا شیرازہ بندی دیکھئے اجزائے عالم کی1912ءالٰہی زندگی کیا ، موت کیا بیمار ہجراں کیپریشاں خواب وہ ، تعبیر یہ خوابِ پریشاں کی1919ءدیکھیۓ کیوں کوئی تربت ہو گیدیکھ کر اور ندامت ہو گی1919ءجب تک کہ دل میں دل ہے تری آرزو ہےشل ہوں جو تھک کے پاؤں غمِ جستجو رہے1931ءدکھاۓ گا درِ صیاد شاید اسماں مجھکوقفس معلوم ہوتا ہے چمن میں آشیاں مجھکو1933ءجا کے جن تازہ مزاروں پہ چراغاں کرناایک ٹوٹی ہوئی تربت پہ بھی احساں کرنا1933ءپتا میرا بتا دے کاش بڑھ کر آرزو میریمری ناکامیوں کو دیکھتی ہے جستجو میری1938ءسواد زلیخا کی تصویر نظر آئیپاۓ مہِ کنعاں کی زنجیر نظر آئیفرقتِ میں مہِ نَو کی تنویر نظر آئیمحوِ خم ابر کو شمشیر نظر آئی1942ءدل میں سکت نہ بوند لہو کی جگر ہےنالے کی سادگی کہ فریبِ اثر میں ہے1943ءغزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دیناذرا عمرِ رفتہ کو آواز دیناقفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکےمدد اتنی اے بال و پرواز دینانہ خاموش رہنا مرے ہم صفیروجب آواز دوں ، تم بھی آواز دیناکوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کوہر انجام میں رنگِ آغاز دینادلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سےصفی ٹوٹ کر دل کا آواز دیناغزلدیدئہ اشکبار کیا کہناواہ ابرِ بہار کیا کہناحال جنت کا سن چکے واعظاب اسے بار بار کیا کہنااُڑ کے پہنچا کسی کے دامن تکآج میرا غبار کیا کہنادرد نے خوب دل کا ساتھ دیاواہ رے غم گسار کیا کہنادل سے یادِ وطن صفیؔ نہ گئی On صفی لکھنوی کی حالات زندگی اور شاعرانہ عظمت بیان کیجیے۔ بارہ ماسہ ایک ایسی صنف شاعری ہے جس میں ایک برہن کے بارہ مہینے کی دکھ بھری داستان بیان کی جاتی ہے۔ یہ صنف مثنوی کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے، اسے موسمی نظم بھی کہا جاتا ہے۔ اس صنف میں عشق اور غم عشق کا بیان تو ضرور ہوتا ہے لیکن کسی رومانی جوڑے کے بجائے خالص گھریلو میاں بیوی کے عشق اور اس کی جدائی میں گزارے لمحات کے کرب کو شعری زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔ایک برہا کی ماری عورت جس کا شوہر کہیں پردیس چلا گیا ہے۔ اس کی یادیں اسے تڑپا رہی ہیں اور پورے سال ہر مہینے میں موسم کے اعتبار سے جس جس کرب سے وہ گزرتی ہے، اس کے دل پر موسم کے جو کرب ناک اثرات ہوتے ہیں اسی کا سلسلہ وار بیان بارہ ماسہ کہلاتا ہے۔سال کے بارہ مہینوں کا بیان بکرم سمبت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ ہر مہینے کے ذیل میں اس کی موسمی کیفیات اور تیوہاروں کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن بہت سے بارہ ماسے میں تیرہ مہینوں کا بھی ذکر آیا ہے۔اکرم قطبی نے تو تیرہ مہینوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی نظم کو تیرہ ماسہ ہی لکھا ہے۔ اردو میں بارہ ماسہ ہمیشہ مثنوی کی ہیئت میں ہی لکھے گئے۔ اردو کا سب سے مشہور بارہ ماسہ افضل جھنجھانوی کا "بکٹ کہانی” ہے۔ گوہر جوہر اور مداری لال کا نام بھی بارہ ماسہ لکھنے والوں میں اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ On بارہ ماسہ کسے کہتے ہیں؟ اصطلاح میں ’’دیوان‘‘ کسی شاعر کی تخلیقات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے ردیف وار کلام شامل کیا جاتا ہے۔ اشاعت سے پہلے جو چیز بیاض ہے، اشاعت کے بعد وہی چیز دیوان ہے۔ دیوان کی جمع ’’دواوین‘‘ ہے اور ’’بیاض‘‘ اُس کاپی یا ڈائری کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے اشعار نوٹ کیا کرتا ہے۔اردو میں کلیات کا لفظ بہ طورِ واحد مستعمل ہے۔ کلیات وہ شعری مجموعہ ہے جس میں شاعر کا کُل کلام جمع کرکے شائع کر دیتا ہے۔ جیسے فیض احمد فیضؔ نے اپنے تمام مجموعوں کو یکجا کرکے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے اپنی زندگی ہی میں شائع کر دیا تھا۔ ’’کلیاتِ غزلیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کے چھے کے چھے دواوین کو یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ ’’کلیاتِ نظمیاتِ میرؔ‘‘ میں میرؔ کی غزلیات کے علاوہ ان کی باقی تمام اصناف پر مشتمل کلام شامل ہے۔ اسی طرح حسرت موہانی کے بارہ دواوین ہیں جن کو یکجا کرکے کلیاتِ حسرتؔ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔(’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ناشر ’’الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب‘‘، صفحہ 30 سے انتخاب) On دیوان اور کلیات میں کیا فرق ہے؟ انٹرنیٹ دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر نیٹ ورک ہے۔انٹرنیٹ سے دنیا میں کروڑوں افراد براہ راست آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔اس نیٹ ورک کی مدد سے ہم کسی بھی ایسے شخص سے رابطہ کر سکتے ہیں جو ہماری طرح اس نظام سے جڑا ہوا ہو۔انٹرنیٹ کی مدد سے ہمارا موبائل فون یا لیپ ٹاپ اب ایک پرنٹنگ پریس ، ٹیلی فون، ریڈیو، پوسٹ آفس، ٹیلی ویژن اور لائبریری بن چکا ہے۔انٹرنیٹ نے ہمارے فاصلے دور کیے ہیں اب ہم ایک کلک پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔انٹرنیٹ کا آج پانچواں دور یعنی فائیو جی چل رہا ہے جس کی تیز رفتار نے ہمارا وقت بچایا ہے۔انٹرنیٹ سے ہمیں دنیا بھر کی خبریں موصول ہوتی ہے۔انٹرنیٹ کا اور ایک دلچسپ حصہ سماجی میڈیا یعنی سوشل میڈیا ہے۔جس کی مدد سے ہم الگ الگ لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں اور الگ الگ معلومات حاصل کرتے ہیں۔انٹرنیٹ کی مدد سے ہم آن لائن کاروبار کر سکتے ہیں اور پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔آج کرو نا کے دور میں اس کو ورک فرام ہوم کہتے ہیں۔ On انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن پر دس جملے لکھیے۔ اردو میں ڈرامہ نگاری کی تاریخ کا جائزہ لیجئے۔ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتدا کی نشان دہی چوتھی صدی قبل مسیح کی جاتی ہے۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں، فنّی رچاؤ، اعلیٰ ادبی معیار، اخلاقی اقدار اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجۂ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے۔سنسکرت زبان اور اس کا ادب درباری سرپرستی سے محروم ہو گیا۔ اِدھر سنسکرت عوامی زبان کبھی نہ تھی۔ اس دو گونہ صورتِ حال کے نتیجے میں سنسکرت ڈرامے کا خاتمہ ہو گیا۔ دوسری علاقائی اور مقامی پراکرتوں میں ڈرامے کے آرٹ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔ لہٰذا عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا۔ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر کھیلے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔ ان میں نہ تو فنی اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور نہ دیکھنے والوں کے نزدیک تفریحِ طبع کے علاوہ کوئی اہمیت تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ دوسرے علوم و فنون کی ترویج و ترقی میں مسلمان حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بڑا سبب غالباً یہ تھا کہ نہ تو عربی وفارسی ڈرامے کی کوئی روایت ان کے سامنے تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت ہی باقی تھی، لہٰذا ڈراما ان کی سرپرستی سے محروم رہا۔ڈرامے کے اس پس منظر پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ڈراما کسی روایت کے تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے مخصوص حالات اور اسباب و عوامل کے تحت وجود میں آیا۔ اردو ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے۔ اردو کے تقریباً تمام محققین، مسعود حسن رضوی ادیب کے اس خیال سے متفق ہیں کہ نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں اور ان کا رہس "رادھا کنھیّا کا قصہ” اردو ڈرامے کا نقشِ اول۔ (1)یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں "قیصر باغ” میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ واجد علی شاہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی، رقص وسرود اور آرٹ کے بڑے دلدادہ اور مدّاح تھے۔ "رادھا کنھیّاکا قصہ” کے علاوہ واجد علی شاہ کے دوسرے رہس بھی بڑی آن بان سے شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے۔ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو "قیصر باغ” کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانتؔ کا "اندر سبھا” عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند "اندرسبھا” کے حصے میں۔ آئی مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھتے ہیں "اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اُ س کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظرِ عام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگر ی، گجراتی اور مراٹھی خطوں میں چھاپا گیا”(2)۔"اندر سبھا” کی کامیابی اور شہرت کے زیرِ اثر اسی انداز کے پلاٹ اور طرز پر لکھنؤ اور دوسرے مقامات میں کئی سبھائیں اور ناٹک لکھے گئے۔ اندر سبھا (مداری لال)،فرخ سبھا، راحت سبھا۔ (راحت)، جشن پرستان، ناٹک جہانگیر، عشرت سبھا، گلشن بہار افزا اور لیلیٰ مجنوں وغیرہ وغیرہ۔ امانت کے "اندر سبھا” کے بعد مداری لال کا”اندر سبھا” سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ڈھاکہ میں "اندر سبھا” کی بدولت اردو تھئیٹر نے ترویج و ترقی کی کئی منزلیں طے کیں،کئی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں جن کے پیشِ نظر عوام کی تفریح کے ساتھ تجارتی مفاد بھی تھا۔ شیخ پیر بخش کانپوری نے اندر سبھا کے طرز پر ایک ناٹک”ناگر سبھا” لکھا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ شیخ فیض بخش کی کمپنی فرحت افزا تھئیٹریکل کمپنی، جس نے بہت سے کھیل دکھائے تھے "ناگر سبھا” کو اسی نے کھیلا(3)۔ ماسٹر احمد حسن وافرؔ کا ڈراما "بلبلِ بیمار” ڈھاکہ کی ڈرامائی تاریخ میں نیا موڑ اور ایجاد پسندی کا نیا باب تسلیم کیا جاتا ہے، اس ڈرامے میں پہلی بار نظم کے ساتھ مکالموں میں سلیس وشستہ نثر کو شامل کیا گیا اور اس کے گانوں کا انداز بھی بدلا ہوا تھا” (4)۔اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ اور اس کے مضافات میں اندرسبھادکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی (5)۔اردو ڈراما پارسی اربابِ ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے کی قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ڈرامے کے فن سے دلچسپی اور مالی منفعت کے پیشِ نظر پارسیوں نے بڑی بڑی تھیئڑیکل کمپنیاں قائم کیں جن کے اپنے ڈراما نگار،ڈا ئرکٹر اور کام کرنے والے ہوتے تھے۔ زیادہ تر ڈراموں کا موضوع وفاداری،سچائی اور شرافت ہوتا تھا اور ان کے قصے دیومالا، قرونِ وسطیٰ کی داستانوں اور شیکسپیر کے ڈراموں پر مبنی ہوتے تھے۔انیسویں صدی کے آخر تک ڈرامے کے فن کو نہ تو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا اور نہ اسے سراہا گیا۔ امانتؔ اور مداری لال کے اندر سبھا کے تتبع میں جو ڈرامے لکھے گئے وہ زیادہ تر منظوم ہوتے تھے۔ بیچ بیچ میں دادرے اور ٹھمریاں ہوتیں۔ رقص وسرود پر زور دیا جاتا تھا۔ جن کمپنیوں کے لیے ڈرامے لکھے جاتے تھے وہ خالص تجارتی نقطۂ نظرسے شہر شہر کے دورے کرتیں۔ اس زمانے میں اردو اسٹیج پر منشی رونقؔبنارسی، حافظ عبداللہ،نظیر بیگ اورحسینی میاں ظریف چھائے ہوئے تھے۔ منشی رونقؔ بنارسی، پارسی وکٹوریہ تھیئڑیکل کمپنی کے خاص ڈراما نگار تھے۔ ان کے ڈراموں میں "بے نظیر بدرِ منیر”لیلیٰ مجنوں”نقشِ سلیمانی”سنگین بکاؤلی”عاشق کا خون” اور”فسانۂ عجائب عرف جانِ عالم انجمن آرا” وغیرہ مشہور ہوئے۔حسینی میاں ظریفؔ، پسٹن جی فرام جی کی پارسی اوریجنل کمپنی کے ڈراما نگار تھے، ان کے ڈراموں میں”خدا دوست”چاند بی بی”شیریں فرہاد”حاتم طائی”چراغ اللہ دین”لیلیٰ مجنوں” اور "علی بابا” کو خاص شہرت ملی۔حافظ عبد اللہ "لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی سے وابستہ رہے۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں "عاشق جانباز”ہیر رانجھا”نور جہاں”حاتم طائی”لیلیٰ مجنوں”جشن پرستان” وغیرہ مشہور ہوئے۔نظیر بیگ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھئیٹریکل کمپنی "دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا” کے مہتمم تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔ "نل دمن”گلشن پا کد امنی عرف چندراؤلی لاثانی” اور "نیرنگِ عشق حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیر و مہر انگیز” وغیرہ۔ان سب ڈراما نگاروں کے یہاں چند باتیں مشترک ہیں۔ موضوعات اور پلاٹ یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی تنوع نہیں پایا جاتا۔ گانوں، غزلوں اور منظوم مکالمات کی بھر مار ہے، مقفیٰ نثر کا استعمال کثرت سے ہے،کردار نگاری کا شعور اور فنی کاریگری کا احساس تقریباً مفقود ہے، البتّہ ایک با ت ضرور پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ان ڈراموں میں نظم کے ساتھ ساتھ نثر کا استعمال ہونے لگا۔بیسویں صدی کے آغاز میں پارسی تھیئٹر میں بعض ایسے ڈراما نگار شامل ہو گئے جنھوں نے اردو ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس میں چند خوش گوار اور صحت مند تبدیلیاں لا کر اسے نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ڈرامے کے معیار کو بلند کیا۔ اسے معاشرتی موضوعات اورسنجیدہ عناصر سے روشناس کرا یااورکسی حد تک فنّی شعور کا ثبوت دیا۔ اس دور کے ڈراما نویسوں میں ونائک پرشاد طالبؔ بنارسی، مہدی حسن احسنؔ لکھنوی اور پنڈت نرائن پرشاد بیتابؔ بنارسی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔طالبؔ بنارسی نے اپنے ڈراموں میں نظم سے زیادہ نثرکااستعمال کیا۔ طالبؔ وہ پہلے ڈراما نگار ہیں جنھوں نے ہندی میں گیت نہ لکھ کر اردو میں لکھے اور یہ ثابت کر دیا کہ آسان اردو میں بھی گیت لکھے جاسکتے ہیں۔ طالب کے ڈراموں میں "نگاہِ غفلت”گوپی چند”ہریش چندر” اور "لیل و نہار” مشہور ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول اور اہم ڈراما "لیل و نہار” ہے۔ امتیاز علی تاج اس ڈرامے کی کامیابی کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ "نیو الفریڈ” میں "لیل و نہار” بڑے سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کی پروڈکشن میں جو باتیں وکٹوریہ کمپنی نے پیدا کی تھیں وہ سب نیو الفریڈ میں بھی برقرار رکھی گئی تھیں”۔"سادہ زبان میں لکھا ہوا یہ ڈراما اس نوع کے ساز وسامان کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا تو اچھی خاصی گھریلو فضا پیدا ہو جاتی اور اپنی اس خصوصیت کے پیشِ نظر یہ کھیل دوسرے تماشوں میں ممتاز نظر آتا تھا۔ اس کھیل کے گانوں میں ہندی کے بجائے اردو کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے گئے تھے۔ میرے خیال میں بلا تکلف کہاجاسکتاہے کہ تھیئٹر کے گانوں میں یہ جدّت ایک قابلِ قدر تجربے کی حیثیت رکھتی ہے”۔ وہ مزید لکھتے ہیں”اس ڈرامے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اردو کے پہلے ڈراموں کی طرح اس کا تعلق بادشاہوں اور نوابوں کی زندگی سے نہیں بلکہ ایک متمول شخص کے خاندانی واقعات سے ہے اور سب واقعات اس نوع کے ہیں جن میں کوئی بھی انوکھی یا عجوبہ بات نہیں” (6)۔ابھی اسٹیج پر طالبؔ کے ڈراموں کی گونج ختم نہ ہونے پائی تھی کہ احسنؔ لکھنوی اسٹیج پر چھا گئے۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے نانا مرزا شوقؔ لکھنوی کی مثنوی "زہرِ عشق” کو "دستا و یزِ محبت” کے نام سے ڈرامے کی صورت میں 1897ء میں پیش کیا۔ ان کے ڈرامے "چند راؤلی” کی کامیابی کے بارے میں ڈاکٹر نامی تحریر کرتے ہیں کہ "احسنؔنے چند راؤلی لکھا جو لکھنؤ ہی میں پہلی بار اسٹیج ہوا اور بہت کامیاب رہا۔ احسنؔ لکھنوی کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے اپنے وطن ہی میں شہرت حاصل کی”(7)۔احسنؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شیکپیر کے ڈراموں کو اردو قالب میں ڈھال کر فنِ ڈراما نگاری کو ایک نیا موڑ دیا۔ حالانکہ احسنؔ سے پہلے ہی یہ کام شروع ہو گیا تھا مگر صحیح معنی میں شیکسپیرکو متعارف کرانے کا سہرا انھیں کے سر ہے۔ بقول امتیاز علی تاج”داستانی انداز کے ان راگ ناٹکوں کی یکساں روش سے نمایاں اختلاف مہدی حسن احسنؔ لکھنوی کے ڈراموں میں ملتا ہے۔میری دانست میں ان کی تصنیفات میں زیادہ اہمیت ان ڈراموں کو حاصل ہے جو انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ یہ اس لیے کہ انگریزی ڈرامے بھلے بُرے طور پر جیسے بھی اپنائے گئے ہیں ان کے ذریعہ ہماری زبان کم از کم پلاٹ کی صحیح تعمیر سے روشناس ہوئی۔ احسنؔ کے ڈرامے پرانے راگ ناٹکوں سے نمایاں طور پر مختلف اور زیادہ دلچسپ اور موثر ہیں۔ ان کا پلاٹ ڈرامے کا پلاٹ تھا۔ کردار نگاری میں حقیقت نظر آتی تھی۔ زبان مقابلتہً بے تکلف تھی اور ان میں ایکڑوں کے لیے ایکٹ کرنے کی گنجائش موجود تھی”(8)۔ ان کے ڈراموں میں "چند راؤلی”خونِ ناحق عرف مارِ آستین (ہیملٹ)”بزمِ فانی (رومیوجولیٹ)”دلفروش (مرچنٹ آف وینس)”بھول بھلیاں(کامیڈی آف ا یررز)” اور "اوتھیلو” بہت مشہور ہوئے۔ احسنؔ نے ڈرامے کی زبان اور نظم و نثر دونوں کو نکھارا اورسنوارا، مکالموں کو دلکش بنایا اور انھیں ادبی رنگ و آہنگ بخشا، پلاٹ کی تعمیر پر زور دیا اور فنّی تدبیر گری سے کام لیا۔بیتابؔ نے اردو،ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کر اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان کا پہلا ڈراما "قتلِ نظیر” ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیئٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔ یہ ڈراما پہلا ڈراما ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے۔اس میں شک نہیں کہ بیتابؔ کو اردو ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے میں ہندو دیومالا کے بعض اہم واقعات کو از سرِنو زندہ کیا لیکن انھوں نے مکالموں میں جہاں عربی وفارسی کے الفاظ و تراکیب کے ساتھ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے وہاں زبان بوجھل اور غیر فصیح ہو گئی ہے۔ ہا ں جہاں سادہ اردو اور ہندی اور ہلکی پھلکی زبان استعمال کی ہے وہاں لطف وا ثر نمایاں ہے۔بیتابؔ کے ڈراموں میں "قتلِ نظیر”زہری سانپ”گورکھ دھندا”امرت”میٹھا زہر”شکنتلا”مہابھارت”رامائن” اور "کرشن سداما” خاص شہرت کے مالک ہیں۔ "مہابھارت” کی مقبولیت اور پسندیدگی کے بارے میں امتیاز علی تاج کا خیال ہے "لیکن الفریڈ بڑے معرکے کا جو کھیل تیار کر کے لاہور آئی تھی وہ بیتابؔ کا مہابھارت تھا۔اس کھیل کو اعلیٰ ڈرامے اور اس کی قابلِ قدر پیش کش کے معیار پر جانچنا بیکار ہے۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے اس وقت کی تھیئٹر کی دنیا کے بہترین دماغوں سے کام لیا گیا۔ سین سینری استاد حسین بخش نے بنائی تھی جن کا ثانی برِّصغیر کا تھیئٹر پھر کبھی پیدا نہ کر سکا۔ تماشے کی طرزیں استاد جھنڈے خاں نے بنائی تھیں۔ بر صغیر کے تھیئٹر کی دنیا میں ان سے بڑا موسیقی کا استاد کوئی نہیں گزرا۔ مہا بھارت کو اگر ڈرامے اور پیشکش کے صحیح معیار پر پرکھا جائے تواس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ البتہ میوزیکل کامیڈی کی خصوصیات، نمائش، تحیر خیزی اور نغمہ سرائی کو موثر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہ تھی جو اٹھا رکھی گئی ہو (9)۔اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا ڈراما نویسوں نے اردو ڈرامے کی ترقی اور اسٹیج کی آراستگی میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ڈراما نگاروں کے یہاں فنّی مہارت اور تدبیر کاری کی خامی پائی جاتی ہے۔ اس خامی کو بڑی حد تک دور کرنے والے ڈراما نگار ہیں آغا حشرؔ کاشمیری جنھوں نے اپنے تخلیقی شعور اور جدّت پسند طبیعت کی بدولت اپنے دور کی ڈراما نگاری کی پامال روش سے بلند ہو کر فنّی ارتقا کی اعلیٰ کاریگری کے نمونے پیش کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک مخصوص دور کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔ On اردو میں ڈرامہ نگاری کا فن پورا نام شبیر حسن خاں جبکہ جوش تخلص کرتے تھے۔بشیر احمد خاں کے بیٹے اور بشیر محمد خاں گویا کے پوتے تھے۔ 1898ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ابتداء میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی۔شاعری کے ساتھ نثر میں بھی قدرت حاصل تھی۔دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ میں ملازم ہوئے۔فلمی گیتوں کے سلسلے میں پونا اور ممبئی میں مقیم رہے۔آزادی ہند کے حکومت ہند کے رسالہ "آج کل” کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ شاعری کا آغاز غزل سے کیا لیکن شہرت نظم گو شاعر کی حیثیت سے ملی۔جوش فطری،رومانوی اورسیاسی نظمیں لکھنے پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔وہ قوم پرستی،قومی یکجہتی،حب وطن اور آزادی رائے کے حامی تھے۔انھیں الفاظ کے استعمال پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ‘روح ادب’،’سرود و خروش’ ،’نقش و نگار’،’رامش و رنگ’،’شعلہ و شبنم’ ،’حرف و حکایت’، ‘سموم و صبا’،”جنون حکمت”،”فکر و نشاط”،” سنبل و سلاسل”,”سیف وسبو”،”شاعر کی راتیں”،”آیات و نغمات” وغیرہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جوش کو شاعر فطرت، شاعر شباب اور شاعر انقلاب کہا گیا ہے۔ان کی نظمیں جوش و جذبے سے پر ہیں۔ On Josh Malihabadi ki Halat e Zindagi in Urdu شمالی ہندوستان میں اردوشمالی ہندوستان میں اردو کی باقاعدہ تربیت بارہویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ اردو زبان و ادب کے ارتقا کی تاریخ میں آریوں کی ہندوستان آنے اور پھر منگولوں اور ترکوں کے قافلوں حاکموں اور سلاطین کے بغرض ہجرت حکومت آنے جانے ان کے علاوہ ہندوستانیوں پے بیرون ہند کے سفر کرنے اور حکومتی اقدامات اٹھانے کے تعلق سے ہندوستان کے شمال کا حصہ نہایت متفرق ثابت ہوا اور شمالی ہندوستان میں اخذ و قبول کی یہی تاریخ حصہ بنیں جس کی بندیوں پر قدیم وجدید اور داخلی اور خارجی معیارات کے لئے اور زبان کی تاریخ لکھنے والوں نے مختلف تاریخیوں میں اپنے مطالعے اور مشاہدے پیش کیے ییں یہاں تک کہ صوفی سنتوں اور ولیوں کی خدمات کے بعد اردو کے ارتقاء کی باقاعدہ تاریخ 1193ء اس وقت طے پائی جب دہلی پر مسلم سلطان کا قبضہ ہوگیا یعنی حکومت دہلی کو بیرون ہند کے سلطان نے آکر فتح کر لیا۔اس طرح شمالی اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت وسیع ہے یہاں اس کے اجمالی جائزے کا اشارہ ذکر کیا جانا کافی ہے جس میں ادب عالیہ کے1857 تک کے سلسلوں کو سمجھے اور جوڑنے کے لیے تین نام ہیں۔ جنہیں اردو کی بے لوث خدمت کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے اجتماعی تجربہ اور مشاہدوں سے فنکارانہ جوہروں کو نئی آب و تاب کے ساتھ پیش کیا وہ حضرت امیر خسرو، کبیر داس اور نظیر اکبر آبادی ہیں جن کے درمیان زمانی اعتبار سے صدیوں کا تفاوت ہے مگر زبان و ادب کی تاریخ میں تینوں کا مقام ومرتبہ انفرادی شناخت کا عمل رہا ہے اور تینوں میں الفاظ کے برتاؤ کا عمل بھی جداگانہ حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کی مذکورہ تینوں شخصیتیں اپنی اپنی سطح پر کمال اور ہنر دکھانے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ On شمالی ہند میں اردو کے ارتقاء پر روشنی ڈالیے۔ پورا نام محمد اسماعیل،اسماعیل تخلص کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی جبکہ میرٹھ کے ایک عالم،رحیم بیگ سے فارسی زبان کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔انگریزی زبان میں مہارت حاصل کر کے انجنئیرنگ کا کورس پاس کیا۔ قوم کے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی کی وجہ سے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ اپنے عہد کے اہم شاعروں حالی اور شبلی کی طرح اسماعیل میرٹھی نے بھی اپنی شاعری کو بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا اور درسی کتابیں بھی لکھیں۔انھوں نے سادہ اور سلیس زبان میں اردو سکھانے کے ساتھ ان کتابوں میں اخلاقی موضوعات کو اس خوبی سے پیش کیا کہ پڑھنے والے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے زیور سے بھی آراستہ ہو سکیں۔اسماعیل میرٹھی نے ایسی کئی نظمیں لکھی ہیں جو صرف بچوں کے لیے ہیں اور ہر عہد میں ان کی معنویت اور انفرادیت بر قرار رہی ہے۔ اسماعیل میرٹھی کا کلام ” کلیاتِ اسماعیل” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ On Short Biography of Ismail Merathi In Urdu آغا حشر کاشمیری اردو ڈراما نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی ڈراما نگاری کا آغاز ان ڈراموں سے ہوتا ہے جو انھوں نے الفریڈ کمپنی کے لیے لکھے۔ آغا حشر کاشمیری اردو ڈراما نگاری میں ایک بلند اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آغا حشر نے پہلی بار ڈرامے کو فن کی طرح برتا تھا اور ملک کے معاشرتی مسائل کو اپنے ڈرامے کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔اردو ڈرامے کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے انھیں اردو ڈراما نگاری کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ آغا حشر کی خوبی ہے کہ انھوں نے سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو موضوع بنایا اور ان موضوعات کو اپنے قلم کے ذریعے ڈراما کی صورت میں ناظرین تک پہنچایا۔ان کے ڈراموں کے پلاٹ سادہ ہیں اور ان کے اکثر ڈراموں میں ا چھائی اور برائی کے درمیان کی جنگ کو دکھایا گیا ہے۔ تمام تر جدوجہد کے بعد نیکی کو برائی پر فتح ملتی ہے۔عموماً آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کے تین ادوار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کے پہلے دور کے ڈرامے مغربی ڈراموں سے اخذ کردہ ہیں۔اس دور کے ڈراموں میں زیادہ تر انگریزی ڈراموں کے ترجمے ہیں۔ مرید شک ،مار آستین، آفتاب محبت ، اسیر حرص،میٹھی چھری عرف دو رنگی دنیا، دام حسن اور ٹھنڈی آگ غیرہ اس دور کی تخلیقات ہیں۔ ان ڈراموں میں آغا حشر کی بذلہ سنجی فقرے بازی ،بدیہہ گوئی عروج پر ہے ان ڈراموں کی وساطت سے آغا عوام کے ذوق سے شنا سا ہو چکے تھے۔جبکہ دوسرے دور کے ڈراموں میں بدیہہ گوئی فقرہ بازی کے علاوہ اشعار کی بھرمار ملتی ہے لیکن اس زمانے میں احسن اور بے تاب کے ڈراموں میں مقفعی ومسجع مکالمات کی بھرمار تھی۔ آغا نے بھی مقفعی ومسجع مکالمے لکھے اور ان میں بے جا اشعار کھپائے۔ اس زمانےکے ڈراموں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدھا ڈرامہ نظم میں ہوتا تھا۔ پہلے سین سے گانوں کی بھرمار شروع ہو جاتی تھی، ڈراموں کا مزاحیہ حصہ بہت سوقیانہ تھا، یہ حصہ تھرڈ کلاس کے ناظرین کے لئے تھا اور یہ بات عجیب ہے کہ ڈرامے کی کامیابی کاانحصار بھی تماشائی ہوتے تھے، اس لئے آغا ان کی تفریح کا خیال زیادہ رکھتے تھے۔تیسرے دور کے ڈراموں سے صاف طور پر عیاں ہے کہ آغا نے شعوری طور پر کوشش کی کہ وہ ڈرامے کی نہج کو بدل ڈالیں اور عوام کا ذوق بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس دور میں اشعار کی بھر مار کم ہوگئی اور مزاحیہ عناصر سے بھی عامیانہ پن اور سوقیانہ پن غائب ہو گیا۔ اس دور میں آغا کی نکتہ آفرینی اور بذلہ سنجی عیاں نظر آتی ہے۔اس کے بعد کا دور آغا حشر کی فنی ترقی کی معراج ہے۔ اس دور میں تمام ادوار سے زیادہ ڈرامے لکھے گئے آنکھ کا نشہ، دل کی پیاس، ترکی دور، رستم و سہراب جیسے شاہکار اسی دور کی تخلیقات ہیں اس دور کے ڈراموں کے پلاٹ تخیل کے بجائے حقیقی زندگی سے لیے گئے ہیں۔یوں آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کا یہ وصف ہے کہ ان کے ڈرامے ہر دور میں عوام میں بے حد مقبول رہے۔انھوں نے ڈراما نگاری کے تمام اوصاف کو مختلف ادوار میں اپنی ڈراما نگاری میں برت کر ڈرامے کے فن کو بلندیوں تک پہنچایا۔ On آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کے امتیازات پر روشنی ڈالیے۔ اصل لفظ "صحیح” ہے ، اسے بدل کر ایک لفظ "سہی” بھی بنالیا گیا ، دونوں قریب المعنی ہیں ، مگر محل استعمال میں فرق ہے۔ جہاں صرف کسی چیز کی درستی بیان کرنی ہو وہاں "صحیح” استعمال کرتے ہیں۔جہاں بات میں زور دینا ہو ، یا تقابل ہو یا گزارے کو بیان کرنا ہو تو ایسے مواقع پر "سہی” کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔مثلاً:یہ بات صحیح نہیں ہے۔یہ صحیح نہیں ہے۔اب صحیح سمجھ میں آیا۔(صحیح البخاری)ان میں سے کسی بھی جگہ "سہی” لانا صحیح نہیں۔اب یہ مثالیں دیکھیے:ایسا ہے تو یوں ہی سہیتم آؤ تو سہیابھی نہیں ، پھر سہیان جگہوں پر "سہی” آئے گا On ”صحیح“اور ”سہی“ میں کیا فرق ہے؟ نظم طلوع اسلام کی تشریحطلوع اسلام علامہ اقبال کے پہلے اردو شعری مجموعے ”بانگ درا“ کی آخری نظم ہے۔ اس نظم کو انہوں نے ١٩٢٢ء میں تخلیق کیا ہے۔ اس نظم سے قبل اقبال نے ایک بہت ہی اہم نظم ”خضر راہ“ لکھی تھی جب 1918 میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور اقبال نے 1919 میں خضر راہ لکھی جب کہ عالم اسلام مایوسیوں کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود اقبال کو امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی اور انہیں یقین کامل تھا کہ ایک دن ملت ضرور سر بلند ہوگی۔اس طرح اقبال کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، ترک رہنما مصطفی کمال پاشا نے سقاریہ کی جنگ میں یونانیوں کو شکست دے دی اور مسٹر گلیڈسٹن کا غرور خاک میں ملا دیا ، تو اقبال خوشی اور مسرت سے سرشار ہو گئے۔ اس خوشی کا اظہار 1922 میں نظم طلوع اسلام لکھ کر کیا۔ اس نظم کے عنوان سے ہی یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ملت کے عروج کا سورج ایک بار پھر طلوع ہوتا ہوا نظر آیا۔ اقبال کا ہمیشہ رجائیت پر یقین رہا ہے اس لئے وہ رجائی شاعر کہلاتے ہیں، وہ کبھی مایوس اور ناامید نہیں ہوئے، لیکن اس نظم میں ان کی کچھ اور ہی کیفیت ہے۔ انہیں قوم و ملت کا کامرانی سے ہمکنار ہونا نظر آرہا ہے۔ اس لیے تمام کی تمام نظم مسرت و شادمانی کے جذبے سے مملو ہے۔ اب ہم اس نظم کے ایک ایک بند کی تشریح کی طرف بڑھتے ہیں۔اس نظم کا مرکزی خیالاس نظم کا مرکزی خیال خود اس کے عنوان میں پوشیدہ ہے، اس کا پہلا بند مسرت اور شادمانی کے جذبات سے معمور ہے بلکہ تمام کی تمام نظم میں یہی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اقبال نے ترک رہنما مصطفی کمال پاشا کی کامیابی کو ”طلوع اسلام“ سے تعبیر کیا ہے۔ ”خضر راہ“ میں کہیں نہ کہیں نا امیدی اور مایوسی آمیزہ جھلکتا ہے لیکن اس نظم میں اقبال کا دل اس یقین سے لبریز ہے کہ اگر قوم و ملت اپنے باطن میں ایمانی قوت کو پیدا کرلے تو وہ پھر ساری دنیا کو فتح کر سکتی ہے:ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقیاس نظم کے کل نو بند ہیں۔ پہلے بند کا پہلا شعر ہی ان لفظوں میں عنوان کی وضاحت کردیتا ہے کہ ”افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی“ اسی بند میں تھوڑا آگے چل کر اس یقین کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہےشکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابییعنی پہلے بند میں شاعر نے ملت کو ترقی اور کامرانی کی خوشخبری سنائی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ملت کس طرح اپنی قوت کی معرفت حاصل کر لیتی ہے۔ اس بند کا ایک مصرعہ اس طرح اس کی وضاحت کرتا ہے:مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نےدوسرے بند میں مصطفی کمال پاشا کو ’ترک شیرازی‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی خدمت میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اس لیے انہوں نے یونانیوں اور مغربیوں کو شکست دے کر ملت کو سر بلند کر دیا تھا۔ یہ مشہور زمانہ شعر بھی اقبال نے پاشا کی شان میں کہا ہے:ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدااس نظم کے تیسرے بند میں اقبال نے ملت کو اس کی بے پناہ اور قوی صلاحیتوں سے آگاہ کیا ہے۔ اقبال نے مسلمان کو خدا کی زبان، خدا کا ہاتھ، خدا کا آخری پیغام اور اسی نسیت سے اسے جاوداں اور ایشیائی اقوم کا پاسبان اور رہنما ٹھہرایا ہے۔ اقبال نے ملت کو یہ تاکید کی ہے کہ تو اپنے ظاہر و باطن کو پاک کر کیوں کے جلد ہی تجھ سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا۔ اس کی وضاحت اس کلام کے ذریعے کی گئی ہے:سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کالیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کااس نظم کا چوتھا بند اسی تیسرے بند کی تعلیم و تربیت کی وضاحت کرتا ہے کہ جہانگیری اور جہانبانی کے لیے صداقت، عدالت اور شجاعت کی تربیت ضروری ہے۔ اخوت، محبت، اتحاد، حیدری زوربازو، ابوزرغفاری کا فقر، صدیق اکبر کی صداقت اور شاہین کی طرح پرواز؛ یہ وہ اوصاف حمیدہ ہیں جو مرد مومن کے لیے ضروری ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نےوہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانیپانچویں بند میں بھی اسی خیال و جذبے کی توسیع کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ مسلمان کو مساوی حقوق کے سبق کو یاد رکھنا چاہیے۔ بندہ اور آقا میں امتیاز کرنا بربادی کا سبب ہے۔ لالچ اور ہوس جو دلوں میں بت تراش لیتی ہے۔ ان قومی، اونچ نیچ، ذات پات، فرقہ واریت کے بتوں کو توڑنا ضروری ہے۔ بالآخر اس بات پر زور دیا ہے کہ زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے نہ ٹوٹنے والا یقین، مسلسل جدوجہد اور اخوت و محبت درکار ہے۔یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالمجہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریںنظم کا چھٹا بند خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں ترکوں کی فتح و کامرانی کا بیان ہے۔ یہی وہ فتح تھی جس نے اقبال سے یہ معرکہ آرا نظم تخلیق کرائی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے خفیہ ساز باز اور امداد پا کر یونانی اس طرح ترکوں پر جھپٹے تھے جس طرح عقاب اپنے شکار پر جھبٹتا ہے۔ ان کے پاس آبدوز کشتیاں تھیں، ان کی فوجوں کے پاس لاسلکی نظام (وائرلیس) تھا، وہ جدید ترین اسلحہ سے مسلح تھیں لیکن ترکوں کی قوت ایمانی کے سامنے کچھ بھی کام نہ آیا اور انہیں شکست فاش ہوئی۔ اقبال اہل ایمان کی قوت مخصوصہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے!یہ خاکی زندہ تر پائندہ تر پابندہ تر نکلے!جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلےساتویں بند میں مسلمان سے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی مسلمان سے خطاب کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جس طرح ترک اپنی قوت بازو کا اندازہ کر کے اندر آزاد اور سرخرو ہو گئے، اسی طرح تو بھی بری رسومات سے آزاد ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تو پیغام خداوندی کو سمجھ لے، اپنی خودی کی معرفت حاصل کر یعنی اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان لے، زندگی کی جنگ میں فولاد کی صورت سخت جاں ہو جائے، معاملات مہر وفا میں ریشم کی طرح نرم ہو جائے اور فرقہ واریت، رنگ و نسل کے امتیاز کو فراموش کرکے اتحاد و اتفاق کا راستہ اختیار کرلے۔ اس بند کے چند مخصوص شعر یہ ہیں:خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہےنکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جامصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کرشبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جاگزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سےگلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جاآٹھویں بند میں اقبال نے ملوکیت، سرمایہ داری، تہذیبِ مغرب اور سائنس کی ایجادات کو بیان کیا ہے جو دنیا کو تباہ کرنے کے لئے اسلحہ فراہم کرتی ہے۔ ان تمام کی انہوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور مسلمان کو یاد کرایا ہے کہ اصل زندگی وہ ہے جو اچھے اعمال پر مبنی ہے کیونکہ:عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھییہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہےاس بند کا آخری شعر اور نواں بند فارسی میں اقبال نے تخلیق کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد مسلمان آج دنیا تیرا پیغام سننے کے لیے گوش بر آواز ہے، اٹھ کھڑا ہو اس موقع کو غنیمت جان اور اپنی تعلیمات کو عام کر دے۔ آخری بند میں شاعر کے دل کی اضطرابی کیفیت اور جوش و جذبے کی فراوانی ہر لفظ سے پھوٹ پڑتی ہے۔ شاعر مسرت کے عالم میں جھوم رہا ہے کہ اجڑے گلشن میں پھر سے بہار آئی، آبشار پھر سے بہہ نکلے، خوش نوا پرندے ایک بار پھر سے نغمہ سنج ہو گئے۔یہ نغمے کیا ہیں؟ دراصل وہ پیغام ہے جو اس جہان رنگ و بو میں انقلاب برپا کر دے گا اور بلبل ہزار داستان کی نغمگی دوبارہ سے سنائی دینے لگی ہے۔ یہ بلبل ہزار داستان درحقیقت شاعراقبال ہے۔نظم کا فنی جائزہ:یہ نظم طلوع اسلام جو اقبال نے ترک رہنما مصطفی کمال پاشا نے جب یونانیوں پر فتح حاصل کی تھی 1922ء میں تب فرحت و خوشی کے عالم میں لکھی تھی۔ اگر اقبال کی اس نظم کو فنی اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی بہت سی اہم نظموں میں سے ایک ہے۔ خیال رہے کہ ان کی یہ تخلیق ان کے شعری مجموعہ ”بانگ درا“ کی آخری نظم ہے جس کی اشاعت 1924 میں ہوئی تھی۔ ”بال جبریل“ اس زمانے کے بعد کا شعری مجموعہ ہے۔ جو پختگی ان کی نظم ”مسجد قرطبہ“ میں ہوں اس نظم میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود طلوع اسلام ایک اہم اور کامیاب نظم ہے۔ یہ نظم اقبال کے فکر و فن کے سفر میں سنگ میل سے کم درجہ نہیں رکھتی۔ یوسف سلیم چشتی کی رائے اس نظم کے حوالے سے یہ ہے:” میری رائے میں بندش اور ترکیب، مضمون آفرینی اور بلند پروازی، رمزوکنایہ کی فراوانی اور مشکل پسندی، شوکت الفاظ اور فلسفہ طرازی غرضکہ صوری اور معنوی محاسن شعری کے اعتبار سے یہ نظم بانگ درا کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔“اس نظم کی ایک خاص صفت ہے جو اس کو دیگر نظموں سے ممتاز کرتی ہے وہ مسرت انگیز کیفیت ہے جو آغاز سے اختتام تک نظم پر چھائی ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ نظم کیف و سرور کے عالم میں تخلیق ہوئی ہے۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے لے کر 1922 تک ملت اسلامیہ پر بڑا برا وقت رہا ہے، اسی طرح دیگر ملک بھی مدت سے پریشانی کے عالم میں تھے۔ مدتوں کے بعد ملت اسلامیہ کے اقبال کا ستارہ فتح سمرنا کی شکل میں چمکا تو اقبال خوشی سے جھوم اٹھے، اسی عالم وجد میں یہ نظم انجام کو پہنچی ہے۔نظم کی ہیئت:اقبال کی پسندیدہ ہئیت ترکیب بند ہے۔ اقبال نے جس طرح اپنی بہت ساری دیگر نظموں کو ترکیب بند ہئیت میں تخلیق کیا ہے اسی طرح اس نظم طلوع اسلام کو بھی ترکیب بند ہیئت میں ڈھالا ہے۔ ترکیب بند میں متعدد بند ہوتے ہیں اور ہر بند گویا ایک علیحدہ غزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہی غزل کا سا قافیہ اور ردیف، سب مصروں کا ایک سا وزن، ہر شعر اپنی جگہ پر الگ بھی ہے اور بند کے سارے شعر کسی خیال کی ڈور میں بندھے ہوئے بھی ہیں۔ اس نظم میں پیکر تراشی کے عمدہ نمونے بھی موجود ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ شاعری موسیقی سے زیادہ مصوری ہے۔وہ شعر زیادہ دلچسپ اور دلکش ہوتا ہے جس میں شاعر اپنا تجربہ بیان نہ کرے بلکہ جو کچھ اس کی چشم تصور نے دیکھا ہے وہ لفظی پیکر تراشی کے ذریعے دوسروں کو بھی دکھا دے۔ چند اشعار دیکھیں:دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابیافق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابیہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سےتماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانیاس نظم میں استعارہ اور تشبیہ اور علامات کا حسین برتاؤ ہوا ہے۔ طلوع اسلام سے اس کی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے دوسرے اور چھٹے بند کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:سرشک چشم مسلم میں ہے نسیاں کا اثر پیداخلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیداکتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہےیہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدااگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہےکہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدااس نظم کے چند علامتی شعر ملاحظہ ہوں:نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سےکبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدابراہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہےہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریںمٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نےوہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانیاس نظم کا موضوع اگرچہ ہنگامی ہے یعنی یہ نظم مخصوص حالات و کیفیات اور ایک مخصوص واقعے یعنی ترک رہنما مصطفی کمال پاشا کی کامیابی اور فتح سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ لیکن خیالات، حالات میں انقلابات کے باوجود یہ نظم زندہ رہی ہے تو اس لیے کہ عظیم شاعری کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس میں ڈھالے افکار و جذبات بے معنی و بے مصرف بھی ہوجائیں اس کے باوجود قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے۔ اقبال کی یہ نظم آج بھی بڑے ہی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی اور سمجھی جاتی ہے یہی ایک شاعر کا فنی کارنامہ ہے۔ On نظم طلوع اسلام کی تشریح اور مرکزی خیال بیان کیجئے۔ تشریح:اس شعر میں اقبال نے اپنی محبوب علامت ” شاہین“ کو برت کر انسان کو ایک امید اور دلائی ہے، کہ تو، تو شاہین ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گھونسلے نہیں بناتا، وہ اونچی سے اونچی پہاڑی کی طرف پرواز کرتا ہے، وہ کسی کی دنیا نہیں مانگتا، وہ اپنی دنیا آپ بناتا ہے، وہ دوسرے کے کیے ہوئے شکار پر نہیں گرتا وہ اپنا شکار خود کرتا ہے، لہٰذا اے مرد مومن تیرے اندر تو شاہین کی صفت موجود ہے تو ایک منزل پر پہنچ کر کیوں اسے آخری منزل سمجھ بیٹھا ہے بلکہ ہر آنے والی منزل کو تو اپنے لئے تھوڑے عرصے کے لیے ایک پڑاؤ سمجھ ، تیری صلاحیت تو سات آسمانوں سے پار جانے کی ہے، یہی ایک آسماں تیرا نہیں فلک الافلاک بھی تیرا ہی ہے، ”تیرے سامنے آسماں “ مقامات و منازل اور بھی ہیں۔شعری محاسن:اس شعر میں اقبال نے علامتی پیرایہ اختیار کیا ہے اور اپنے مخصوص انداز اور محبوب علامت ”شاہین“ کو مرکز بنا کر معانی کو اس قدر پھیلایا ہے کہ قاری کے اندر ایک حوصلہ اور خود اعتمادی کا وصف پیدا ہونے لگتا ہے، حسن خیال کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا پیدا کرنا یہ علامہ اقبال کا انفراد ہے۔ On تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا تشریح مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کتب میں حاصل کرنے کے بعد ہندو کالج سے 1905ء میں بی ۔اے پاس کیا۔ 1907ء میں وہ حیدرآباد گئے اور مختلف ملازمتوں پر ہندوکالج مامور ہے اور ترقی کرتے کرتے اسٹمنٹ ہوم سکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔1919ء میں انھوں نے اپنا سب سے پہلا مضمون رسالہ ” افادہ آگرہ میں لکھا۔ اور 1923ء سے وہ با قاعدہ مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے تنقید ، افسانہ،سوانح حیات ، معاشرت اور اخلاق ہر موضوع پر کچھ نہ کچھ لکھا اور اچھا لکھا لیکن ان کے مزاحیہ مضامین سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین سات جلدوں میں مضامین فرحت کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ نظم کا مجموعہ ”میری شاعری“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اس میں بھی مزاحیہ رنگ نمایاں ہے۔ملنے اور ہنسانے کا کوئی اصول مقرر نہیں ہوسکتا۔ تمام مزاح نگارا اپنا انداز جدا رکھتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا بھی ایک مخصوص رنگ ہے، جسے عظمت اللہ بیگ نے خوش مذاقی کہا ہے۔ خوش مذاقی میں قہقہے کے مواقع کم اور تبسم کے زیادہ ملتے ہیں۔ ان کے یہاں ایسا انبساط ملتا ہےجسے دیرپا کہا جا سکتا ہے۔مرزا فرحت اللہ بیگ کے یہاں دلچسپی کے کئی سامان ہیں۔ ان کی مزاح نگاری میں دلی کے روز مرہ اور محاورات کا لطف پایا جا تا ہے۔ وہ اکثر ایسے محاورات اور الفاظ اپنی تحریر میں لاتے ہیں جو دلی کے لوگ گفتگو میں استعمال کر تے ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی انھیں خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔ اس کی مزید خوبی یہ ہے کہ اس سے میں اردو کے ایک بہت بڑے ادیب اورانیسویں صدی کے ہندوستان کے ایک بڑے مخلص مولوی نذیر احمد کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جوا اور کسی طرح وہ معلوم ہوسکیں۔ On Mirza Farhatullah Baig ki Khaka Nigari In Urdu تکنیکی ترقی نے لوگوں کو معلومات کے مختلف ذرائع تک جلدی سے رسائی حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کی بدولت یہ ممکن ہے ، جس کے رابطوں کا نیٹ ورک پوری دنیا کے لوگوں کو متعدد علم تک رسائی فراہم کرتا ہے۔انٹرنیٹ سے پہلے ، انسانوں تک معلومات تک کم یا زیادہ محدود رسائی تھی ، کیوں کہ یہ صرف کتب خانوں میں جاکر ہی حاصل کیا جاسکتا تھا۔لیکن اب وہ گھر سے اپنی تمام کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔اسی طرح ، بہت سارے پیشہ ور افراد نے اپنی تفتیش انجام دینے میں زیادہ وقت لیا۔ آج ان کے پاس الیکٹرانک میکانزم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جس کی مدد سے وہ اپنے کام کے لئے ضروری کتابیات کو جلدی سے حاصل کرسکتے ہیں۔اسی طرح ، کوئی بھی آن لائن کورس کرسکتا ہے اور کسی بھی عنوان کے بارے میں جان سکتا ہے جسے وہ جاننا چاہتا ہے۔موجودہ ٹکنالوجی ہمیں پوری دنیا کے لوگوں اور اداروں سے رابطے برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس سے کاروباری افراد اور مختلف کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے ، کیونکہ وہ اپنے مؤکلوں سے تیزی اور مؤثر طریقے سے بات چیت کرسکتے ہیں۔تکنیکی ترقی کی بدولت ، لوگوں کو مصنوعات کی خریداری کےلیے اب متحرک ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ وہ اسے اپنے آلے سے صرف ایک کلک سے حاصل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ، اشتہار بازی یا مارکیٹنگ جیسے شعبوں نے اپنی ترقی کو ورچوئل پلیٹ فارم (جیسے سوشل نیٹ ورک ، ویب پیجز ، دوسروں کے درمیان) سے بڑھایا ہے جن کی تخلیق سائنسی علم کے ذریعہ ممکن تھی۔ٹکنالوجی نے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا ہے ، اور ساتھ ہی وسائل کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔مثال کے طور پر: اس سے پہلے ، فصلوں کو پانی دینا اور کٹائی میں زیادہ وقت لگ سکتا تھا ، لیکن ٹکنالوجی میں ترقی کے ساتھ اس میں بہت تیزی سے کاشت کی جاسکتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ٹکنالوجی نے انسانوں کو اپنے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے قابل بنایا ہے۔ مثال کے طور پر ، جینیاتی انجینئرنگ جیسی ٹیکنالوجیز اب تک لاعلاج بیماریوں کا علاج کرسکتی ہیں ، اور سینسر اہم علامات کی نگرانی اور بیماری سے بچاؤ کو ممکن بناتے ہیں۔اسی طرح ، آج بھی بہت سارے سائنس دان مصنوعی مصنوعات کی نشوونما پر کام کر رہے ہیں جو لوگوں کو کھوئے ہوئے اعضا کی جگہ لینے یا کسی ایسے اعضا کی جگہ لے لے گا جس کو شدید نقصان پہنچا تھا۔جیسے جیسے نئی ٹیکنالوجیز ابھرتی ہیں ، نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج ایسے پیشے ہیں جن کا وجود چالیس سال پہلے موجود نہیں تھا ، جیسے ویب مصنفین ، ڈیجیٹل مارکیٹرز ، ویڈیو گیم ڈیزائنرز وغیرہ۔اسی طرح ٹیکنالوجی کی بدولت دیگر کئی میدانوں میں ترقی کے سفر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ On Essay on Importance of Information Technology in Urdu جولائی 1823ء میں قائم ہونے والی مجلسی تعلیمات عامہ کی طرف سے ہٹلر نے افغانستان کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس کے نتیجے میں میں منظوری کے بعد مدرسہ غازی الدین خان کی تاریخی عمارت میں دہلی کالج 1825ء میں قائم کیا گیا تھا۔مقصددہلی کالج کے قیام کا مقصد ہندوستانیوں کو انگریزی اور مغربی علوم سے واقف کرانا تھا۔کالج کے اساتذہ1825ء میں دہلی کالج کے قیام کے بعد مجلس تعلیمات عامہ کے، جو کالج کی انتظامی کمیٹی تھی ، سیکریٹری اور کالج کے سیکریٹری اور مسٹر جوزف ہنری ٹیلر کالج کے پرنسپل 175 روپیہ ماہانہ پر مقرر ہوئے تھے۔1837ء میں مجلس مقامی نے مسٹر ٹیلر کو کالج کے پرنسپل مقرر کرنے اور ان کی تنخوا ہ آٹھ سو روپے ماہانہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے گورنمنٹ نے ملتوی کر دیا تھا۔ سرسید نے ” آثار الصنا دیر” اور ماسٹر رام چندر نے "فوائد الناظرین” اسپر نگر کی ایماء پر تصنیف کیا تھا۔مشرقی شعبے کے اساتذہمشرقی شعبے کے مشہور اساتذہ میں مولوی مملوک علی،مولوی امام بخش صہبائی ،ماسٹر امیر علی، مولوی سبحان بخش ، ماسٹر رام چندر، وغیرہ شامل ہیں۔ ماسٹر رام چندر دہلی کالج کے ایک ممتاز طالب علم تھے جو بعد میں سائنس کے ماسٹر ہو گئے۔ماسٹر رام چندر ریاضی کے بڑے استاد تھے۔ماسٹر رام چندر نے دہلی کالج میں شروع سے آخر تک تعلیم حاصل کی تھی۔ماسٹر رام چندر نے اردو میں الجبرا پر کتاب لکھی تھی۔ ماسٹر رام چندر نے رسالہ "فوائد النا ظرین”رسالہ” محب ہند” جاری کیے تھے۔ ماسٹر رام چندر 1885ء دہلی میں ڈسٹرکٹ اسکول کے صدر مدرس ہوئے تھے۔رام چند کی مشہور کتابیں یہ ہیں : جبر و مقابلہ، کلیات وجزیات۔دہلی کالج کے طلبہماسٹر رام چندر ،شمش العلماء مولوی نذیر احمد ،شمس العلماء محمد حسین آزاد، مولوی محمد ذکا ء اللہ، ضیاءا لدین کے نام دہلی کالج کے طالب علموں میں اہمیت کے حامل ہیں۔ موتی لال دہلوی، من پھول ، میر ناصر علی ،مدن گو پال،پنڈت دھرم نارائن وغیرہ بھی دہلی کالج کے اہم طلباء میں شامل ہیں۔اردو زبان اور ادب کو ترقی دینے اور ایک زندہ علمی زبان کی حیثیت سے امکانات بخشنے میں جن تحریکوں اور اداروں نے نمائندہ کردار ادا کیا ان میں دہلی کالج کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس ادارے نے اردو زبان کو داستانوں کی طلسماتی فضاؤں سے نکال کر اعلیٰ فضا میں کھڑا کیا۔فورٹ ولیم کالج نےمقفی مسجع اسلوب کو ترک کر کے آسان اور عام فہم اسلوب کو اپنایا تھا۔ اس مقصد کو با م عروج پر دہلی کالج نے پہنچایا۔ اس کالج میں مشرقی و مغربی علوم اور سائنسی کتابوں کے ترجمے کی طرف توجہ کی گئی تھی۔دلی کالج کا قیام ١٨٢٥ ء میں قیام عمل میں آیا۔ اس کالج کو بام عروج تک پہنچانے اور اس کی تعلیمی سرگرمیوں کو صحیح سمت عطا کرنے میں جن غیر ملکی شخصیتوں نے حصہ لیا ان میں مسٹر ٹیلر، فلیکس بو تروس،مسٹرکار گل اور ڈاکٹر اسپیکر وغیرہ کے نام بہت مشہور ہیں۔ کالج پر مکمل توجہ دی جانے لگی۔١٨٢٥ء میں نواب اعتماد الدولہ نے کالج میں مشرقی علوم کےلیے ایک لاکھ ستر ہزار رقم صرف کردی جس کی وجہ سے کالج منظم طور اپنے مقصد کی جانب چل پڑا۔ تین سال کے بعد انگریزوں نے اس کالج میں ایک الگ انگریزی شعبہ کھول دیا۔ نتیجے کے طور پر مشرقی اور مغربی دونوں طرز کی تعلیم زور و شور سے آگے بڑھنے لگیں۔لیکن کالج کو باد سموم جھرنکوں سے دوچار ہونا پڑا۔اس کالج کی بنیاد غدر کے خون رنیر زمانے میں پوری طرح کمزور پڑ جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس مختصر سی مدت میں نئے اذہان کی تشکیل ممکن نہ تھی پھر بھی طلباء کالج میں چند ایسے تھے جن کے ذہنوں کی تعمیر اسی مدت میں ہوئی اور جنہوں نے کالج کے مقاصد کو آگے بڑھایا۔ نذیر احمد، مولانا حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی،مولوی ذکااللہ ، اور من پھول وغیرہ نے اردو نثر میں انقلاب پیدا کیا۔نذیر احمد نے ناولوں کا آغاز کیا۔ آزاد نے” آب حیات "لکھا اور جدید نظم کی بنیاد مولانا الطاف حسین حالی کے ساتھ مل کر ڈالی۔ذ کا اللہ نے میعاری ترجمے کیے۔اس کے علاوہ کالج کے اہم شخصیتوں میں ماسٹر رام چند ، ڈاکٹر ضاءالد ین ،پنڈت موتی لال دہلوی،موتی پیارے لال آشوب اور مولوی صوبائی وغیرہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ان ادبیوں نے ادب کو راہ پر لایا اور ایک ایسا مستحکم راستہ نکالا جس کے آگے چل کر دوسرے ادبیوں نے اس راہ کو خوبصورت بنایا۔اس کالج کے تحت 1842ء میں ور ناکو لر ٹرانسلشین سوسائٹی کا قیام عمل میں آتا ہے جس کے زیر نگرانی 125سے زائد کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوتا ہے۔ ان کتابوں کا دائرہ قانون ، ریاصی ، سائنس ،جغرافیہ ،تاریخ تک وسیع تھا۔ اسی طرح یہ اردو کے کالج کے بضا عتی کم مائیگی اور علمی افلاس کو دور کر رہی تھی کہ 1857ء کے بغاوت نے اس کالج کو بری طرح نقصان پہنچایا۔باغیوں نے کالج کے پرنسپل کو مار ڈالا ، کتب خانہ جلا دیا گیا۔اور سائنسی تجربہ گاہ کو برباد کر دیا۔سات سال کالج بند رہنے کے بعد 1864ء میں دوبارہ قائم ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ غدر کے ہنگامے نے اس قدر کمزور کر دیا کہ پہلے والی ثقل واپس نہ آ سکی۔تقریباً نصف صدی کی عمر پانے کے بعد یہ کالج 1877ء میں اپنے اختتام تک پہنچ گیا۔ دہلی کالج کو اپریل 1877ء میں توڑ کر لاہور کالج میں ضم کر دیا گیا تھا۔اس طرح اپریل 1877ء میں دہلی کالج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔دہلی کالج کے متعلق کچھ اہم معلوماتکالج کے ابتدائی زمانے میں زیادہ تر فارسی عربی کی تعلیم ہوتی تھی۔دہلی کالج میں شروع سے ہی سنکسرت، حساب ،بھی پڑھائے جاتے تھے۔دہلی کالج میں سر چارلس مٹکاف کی سفارش پر انگریزی جماعت کا اضافہ1828ء میں ہوا تھا۔اعتمادالر ولہ سید فضل علی خان بہادر، وزیر ،بادشاہ اودھ، نے دہلی کالج کے لئے ایک لاکھ ستر ہزار رقم صرف گیے تھے۔دہلی کالج کے نصاب میں جیو میٹری کا 1832ءمیں کیا گیا تھا۔دہلی کالج 1857ءکی بغاوت کے بعد بند ہو گیا تھا۔دہلی کالج دوبارہ 1864ء میں ازسر نو قائم ہوا تھا۔اور 1877میں پوری طرح سے بند ہو گیا تھا۔ On دہلی کالج کی خدمات کا جائزہ لیجئے اور دہلی کالج کے مصنفین کی خدمات کا جائزہ لیجئے؟ جہاں نظر محمدﷺ کا نشانہ ٹھر جاتا ہےتو پھر چلتا ہوا یکدم زمانہ ٹھہر جاتا ہےقسم کھا کر میں کہتی ہوں کہ غارِ ثور پہ جاکرزمانے بھر کے یارو کا یارانہ ٹھہر جاتا ہےچلا گھر سے یہ عزم لیکر نبوت کو مٹا دونگاپڑی نظرِ محمدﷺ تو دیوانہ ٹھہر جاتا ہےگواہ ہے مسجد نبوی کی دیواریں کہ سجدہ میں جوکندھوں پر نواسہ ہو تو نانا ٹھہر جاتا ہےجہاں حق کو بچانا ہو جہاں باطل مٹانا ہووہاں میرے محمدﷺ کا گھرانہ ٹھہر جاتا ہےکہا جبرئل سے رب نے میرے محبوبﷺ کو لے آتو تلیاں چوم کر انکو جگانا ٹھہر جاتا ہےنبیﷺ کے بعد محفل میں جو ذکرِ چار یار آیۓنبیﷺ کے چار یاروں کا یارانہ ٹھہر جاتا ہےخوشا قسمتِ ابوبکرؓ و عمرؓ کی حشر تک انکانبیﷺکے ساتھ روضہ میں ٹھکانا ٹھہر جاتا ہےشبِ معراج آقاﷺ بیٹھ جایئں جب سواری پرتو پھر واپس پلٹنے تک زمانہ ٹھہر جاتا ہےجہاں انکی نگاہوں کا نشانہ ٹھہر جاتا ہےوہاں اپنا تو اپنا بیگانہ بھی ٹھہر جاتا ہے۔۔۔حسنی تبسم انصاری On جہاں نظر محمدﷺ کا نشانہ ٹھر جاتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی دہلی کے ایک معزز خاندان کے فرد تھے۔ ان کا بچپن تنگ دستی میں گزرا لیکن اپنی ذاتی کوششوں سے انھوں نے بہت جلد ترقی کی۔ وہ خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کے عاشقوں میں سے تھے۔عشق و محبت کے اثرات ان کی تحریروں میں سے نمایاں نظر آتے ہیں۔اردو زبان و ادب میں ان کا مرتبہ بلند ہے۔ انھیں مصور فطرت کے لقب سے یاد کیا جا تا ہے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ‘غدر’،’ دہلی کے افسانے’ اور’ سی پارۂ دل’ کافی مشہور ہیں۔ان کے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہایت ہی معمولی چیزوں پر لکھے گئے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب نے بات میں سے بات پیدا کر کے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جو مطالب نکالے ہیں وہ بڑے سبق آموز ہیں۔ خواجہ صاحب کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔ On Short Biography of Khwaja Hasan Nizami in Urdu کلاسیکی ادب سے مراد وہ ادب ہے جسے عوامی استناد حاصل ہو جسے ہر دور میں یکساں مقبولیت ملے۔سب سے پہلے مغربی ادب میں کلاسیکیت کی اصطلاح سامنے آئی۔ مغرب میں 1660ء سے 1800ء تک کے دور کو ’’نوکلاسیکیت‘‘ کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔’’کلاسیکیت‘‘ 17ویں اور 18ویں صدی میں فرانس میں زیادہ مروج ہوئی لیکن انگلینڈ میں یہ زیادہ مستحکم شکل میں نظر آئی۔یہ اصطلاح 1920ء میں سامنے آئی۔ بڑے بڑے اور اہم انگریزی مصنفین جو کلاسیکیت کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان میں بن جانسن، ڈرائیڈن، پوپ، ایڈیسن، ڈاکٹر جانسن، سوئفٹ، گولڈ سمتھ اور ایڈمنڈ برک کو ’’کلاسیکیت‘‘ کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے۔یہ ایک ادبی اصطلاح ہے جو 19ویں صدی میں رواج پاتی ہے۔ اٹلی میں 1818ء میں، جرمنی میں 1820ء میں، فرانس میں 1822ء، روس 1830ء اور خود انگلستان میں یہ اصطلاح سب سے پہلے 1831ء میں استعمال ہوئی۔کلاسیکی ادب کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ جس ادب میں سادگی و سلاست، توازن و تناسب، اعتدال، نفاست اور عظمت پائی جائے اسے کلاسیکی ادب کہا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی میں ڈراما، فکشن اور شاعری میں کلاسیکی عناصر کی تلاش شروع ہوئی۔کلاسیکیت کو ایک اچھی روایت سے مثال دی جاتی ہے۔ کلاسیکیت کے حامیوں کے خیال میں جن بڑے ادیبوں نے ادب کے عظیم نمونے پیش کیے، انہیں کی تقلید کرکے بڑا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ On کلاسیکیت سے کیا مراد ہے؟ اردو زبان میں بالخصوص گفتگو کرتے ہوئے ہم کلاسیکیت کو ایک ساتھ قدیم اور اعلا کے معنوں میں قابلِ غور سمجھتے ہیں۔ جب ہم کسی ادبی نمونے کو کلاسیکی قرار دیتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے اور دوسرے نمونوں سے برتر اور اعلا و ارفع ہے۔ یہ بھی بات مسلّمہ ہے کہ وہ نمونہ بالعموم قابلِ اتباع ہوگا۔عام طور پر ’’کلاسیک‘‘ کا لفظ اس قدیم صنف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی حد درجہ تعریف وتوصیف ہوچکی ہو، جس کی جامعیت اور انفرادیت مسلّم ہو اور جس کی تعریف سے ہر کس وناکس واقف ہو۔ کلاسیک ایک ایسے قدیم مصنّف کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے مخصوص اسلوب میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو اور اس کی حیثیت مستند اور مسلّم ہو۔ادوار میں بھی کلاسیک سے مراد ایسی تخلیقی کاوش ہے جو حسن ترتیب کے اعتبار سے انتہائی درجہ کی موزوں و تناسب کے لحاظ سے بعینہ متوازن ہو۔ انسانی زندگی اور اس سے جڑے دو ناگزیر پہلو سچائی اور خوبصورتی کے فنکارانہ اظہار کا نام بھی کلاسکیت ہے۔ On کلاسیکیت کی تعریف. رشید احمد صدیقی نے طالب علمی کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے مضامین طنز اور ظرافت کے اعلی نمونے ہیں۔وہ عموماً اشاروں کنایوں اور چھپے ہوئے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ملتے جلتے لفظوں اور متضا دلفظوں کو وہ ایک نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ان موضوعات میں تنوع ہے۔ معاشرتی ،سیاسی اور ادبی مسائل پر جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے طر تحریر کوسمجھنے والا قاری ان کی تحریروں کی داد دیے بغیر نہیں رہتا۔ان کے یہاں دلچسپ فقروں ، نادر تشبیہوں ، معنی خیز اشاروں ، برجستہ لطیفوں اور پر لطف انداز بیان کی وجہ سے نرالی ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے ۔ رشید احمد صدیقی کو’’ادبی مزاح نگاری‘‘ کے میدان میں سب سے پہلا اور بعض لوگوں کی نظر میں اہم ترین مصنف قرار دیا جا تا ہے۔ ان دنوں مشتاق احمد یوسفی اس طرز کے بہتر ین نمائندے ہیں۔رشید احمد صدیقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 1963ء میں ‘ پدم شری‘ کا اعزاز عطا کیا۔ ان کو ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا انتقال 1977ء میں علی گڑھ میں ہوا۔ادبی خدمات:رشید احمد صدیقی طنز و مزاح نگار، اردو میں اپنے انوکھے نثری اسلوب کے لیے معروف ہیں۔ ان کی شخصیت اردو ادب میں ناقابل فراموش ہے۔ان کی نثر میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔وہ بیک وقت انشا پرداز،تنقید نگار، ظرافت وطنزومزاح نگار اور ادیب و دانشور،اپنے ہر رنگ اور ہر روپ میں ایک پختہ کار اور مشاق فنکار کی حیثیت سے اپنا مخصوص امتیاز برقرار رکھتے ہیں۔رشید صاحب نے جس صنف اور جس اسلوب میں بھی اپنا اظہار کیا اس صنف اور اس اسلوب کے ضوابط کی پابندی سے زیادہ انھوں نے صنفی اور اسلوبیاتی ضابطوں کو اپنے ذاتی پیرایۂ اظہار کا پابند رکھا۔یہی سبب ہے کہ ان کے ظریفانہ مضامین ہوںیا طنز و مزاح پر مبنی انشائیے،دوستوں اور بزرگوں پر لکھے ہوئے ان کے شخصی خاکے ہوں یا غالب اور اقبال کی شخصیت اور شاعری کے جائزے ،ہر جگہ رشید صاحب اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور ہر موضوع میں اپنے رچے ہوئے مذاق ،اخلاقی اقدار اور بذلہ سنج طبیعت کی افتاد کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ان کی تصانیف میںمضامین رشید ( مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ) خنداں ( ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ) د گنج ہائے گراں مائی اور ہم نفسان رفیہ ( خاکوں کے مجموعے طنزیات ومضحکات اور جدید غزل ( تنقید ) اور آشفتہ بیانی میری (خودنوشت ) شامل ہیں۔ On رشید احمد صدیقی کی حالات زندگی۔ انگریزی لفظ اسٹائل کے لئے ہماری زبان میں لفظ اسلوب استعمال ہوتاہے جو عام بھی ہوگیاہے۔مگر قدیم زمانے میں اسلوب کا یہ مفہوم شاید موجود نہ تھا۔اس غرض کے لئے بعض اور الفاظ تھے مثلا طرز’روش ‘انداز بیان ‘طرز ادا’طریق’گفتار۔آج کل ایران میں اسکے لئے ‘سبک’ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ نئے حالات میں اس امر کی ضرورت آپڑی ہے کہ ہم اصطلاح کے صحیح مفہوم متعین کردیں۔ اسکے لئے ان سب میں طرز یا اسلوب کو اختیار کرلیا گیا ہے اور اختیار کرلینا چاہئے۔ طرز کو نثر و نظم دونوں پر حاوی کر لیا جائے۔ اسلوب بیان کو نثر کے لئےخاص کردیا جائے۔طرز کے مفہوم میں ممتاز انفرادیشان کو بھی داخل سمجھنا چاہئے۔ مثلاً مولانا آزاد صاحب طرز انشاء پرداز تھے” یعنی انکا اسلوب ایسا تھا جس کے خصائص اور انفرادی شان انہیں دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔اسطرح ہم کہیں گے”علامہ اقبال طرز خاص کے مالک تھے” یہ اسلوب خاص کے مالک سے بہتر ہے۔جہاں تک انگریزی کے لفظ اسٹائل کا تعلق ہے، اسکا اطلاق نظم و نثر دونوں پر ہوتا ہے البتہ ممتاز کے لئے شاعرانہ طرز بیان کو prose styleکہہ دیتے ہیں۔ اس میں بھی انگریزی لفظ سٹائل کو سامنے رکھ کر عمومی بحث کر رہا ہوں اور جب نثر کی بحث آئے گی تو اسکے لئے بھی اسلوب کا لفظ استعمال کروں گا۔سٹائل کیا ہے؟والٹر پیٹر اپنے مضمون میں کہتا ہے’STyle is a certain absolute and unique mannerof expressing thing in all its intensity and clour,,گویا سٹائل؛۱۔۔۔۔کسی خیال یا معنی کے طریق اظہار کا نام ہے۔۲۔۔۔۔مگر اس طریق سےکہ وہ طریق اظہار منفرد ہو اور اپنے اندر کوئی خصوصیت یا انفرادیت رکھتا ہو۔۳۔۔۔۔۔اور اسکے اظہار کا نتیجہ یہ ہوا اصل بات اپنی پوری معنویت اور اثرات کے ساتھ ادا کی گئی ہو یعنی جو مقتضائے حال ہو وہ پورا پورا ظاہر ہوگیا ہو۔اس لحاظ سے سٹائل کے تین عناصر قرار پائے۔۱۔۔۔پیرائیہ بیان یعنی افکار و خیالات کو پیش کرنے کا ڈھنگ۔۲۔۔۔۔اس میں انفرادی خصوصیات جو ہر شخص کے پیرایہ بیان کو دوسروں سے الگ و ممتاز کرتی ہے۔۳۔۔۔پیرایہ بیان کے وہ عظیم الشان پہلو جن سے امتیاز مطلق قائم ہوتا جو یعنی ایسی خصوصیت کا جن کا جواب ممکن نہ ہو۔سٹائل کا لفظ عموماً ان تینوں میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر فی الحقیقت اگر غور سے دیکھا جائے تو سٹائل ایک جامع لفظ ہے جسکے بیان میں داخلی اور خارجی مظاہر سب شامل ہیں۔مثلا خارجی مظاہر ‘اور وہ یہ ہیں ۔۔زبان ‘قواعد کی پابندی ‘ترتیب ‘آرائش وغیرہمگر سٹائل صرف یہی نہیں اسمین یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص دوسرے سے بہتر لکھتا ہے تو وہ اسامتیاز کی وجہ کیا ہے؟؟۔ایک جواب یہ ہے کہ اسکے مصنف کے مزاج کی داخلی خصوصیت دوسروں سے الگ ہیں۔ یہ داخلی پہلو (یعنی مصنف کا ذہن ‘اسکا کریکٹر ‘اسکا مزاج ‘اسکا علم ‘رحجان طبع) بیان کے خارجی مظاہر پر اثر ڈالتا ہے اور الفاظ کے انتخاب ‘ترتیب کے خاص ڈھنگ اور دوسرے پیرایہ ہائے اظہار کو متاثر کرتا ہے۔اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ سٹائل صرف خارجی چیز نہیں بلکہ اسکا ایک داخلی پہلو بھی ہے اور اگر اسلوب مکمل ہوجائے تو ایک طرز خاص یا طرز مطلق اس سے وجود میں آجاتی ہے جو صرف اسی خاص مصنف سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہر کوئی اسکی تقلید نہیں کر سکتا۔ اس لئے بعض لوگوں نے سٹائل کی تعریف ہی یہ کردی ہے۔style is personl idiosyncrasy of expression by wich we know a writer.,,walter pater,,اس سے اسٹائل کے ”انفرادی عنصر”کی اہمیت دکھانی مقصود ہے مگر انفرادیت صرف امور ہی کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس میں انشاءپرداز یا ادیب کی داخلی شخصیت بھی بڑا حصہ لیتی ہے چنانچہ بعض نے کہا ہےstyle is the man himselfاسی طرح ہیومن نے کہا ‘style is the affluence of charecter and merely an external decoration.اسکا مطلب یہ ہوا کہ سٹائل صرف خارجی خصائص تحریر کا نام نہیں بلکہ مصنف کی شخصیت کے داخلی نقوش ‘اس کا طرز مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اس کا طرز احساس (بقول مڈلٹن مرے)بلکہ اس سے بھی آگے بڑھکر مصنف کے زمانے اور اسکی قوم بلکہ اسکی تہزیب کے نقوش کا نام ہے۔اسلوب سے مراد کسی خارجی تحریر کی خصوصیات بھی نہیں جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے اس طرح اسلوب کے باوجود حقیقت میں ایک بسیط شئے ہے جس میں اجزائے ترکیبی کے وجود سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا مگروہ سب اجزا ایک ایسی وحدت کے اجزاءہیں جسے کسی ٹکڑے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔اسلوب مصنف کی شخصیت کا عکس ہے جو الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسلوب مصنف کے ذہنی و جزباتی تجربے کا خارجی روپ ہے جس سے مصنف کے باطن اور نفس کی دنیا کی پوری تصویر نمودار ہوجاتی ہے۔مصنف کے تجربات الفاظ کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں یہ الفاظ ان تجربات میں یوں جزب ہوکر ظاہر ہوتے ہیں جس طرح شراب میں مستی پھول میں رنگ خوشبو۔اور انکا باہمی وہی تعلق ہے جو رگ و پوست کو شخص انسانی سے ہوتا ہے۔غرض کہ یہ اسلوب تحریر کی کسی ایک صنف کا نام نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ مصنف کی پوری ذات کا عکس اور نقش ہے۔ On اردو میں اسلوب سے کیا مراد ہے ؟ قطعہ اور رباعی میں فرق(1) عنوان کے لحاظ سے فرق:قطعے کا عنوان رکھا جاسکتا ہے اور رکھا جاتا ہے ، مگر رباعی کا عنوان نہیں رکھا جاتا۔س(2) تعدادِ مصارع کے لحاظ سے فرق:رباعی میں ہمیشہ چار مصرعے ہوتے ہیں ، جبکہ قطعے میں کم از کم چار مصرعے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔(3) قافیہ و ردیف کے لحاظ سے فرق:دوسرے اور چوتھے مصرع کا مقفی (اور اگر ردیف ہو تو مردَّف) ہونا قطعہ اور رباعی دونوں میں ضروری ہے ، مگر پہلے مصرع کا مقفی (اور اگر ردیف ہو تو مردَّف) ہونا صرف رباعی میں ضروری ہے ، قطعے میں نہیں۔س(4) بحر کے لحاظ سے پہلا فرق:رباعی بحر ہزج کی دو بحروں کے ساتھ مخصوص ہے: (1)مفعول مفاعیل مفاعیل فعَل (2) مفعول مفاعلن مفاعیل فعَل ، انھی دو میں تسکین اوسط اور آخر میں اضافۂ ساکن سے کل چوبیس اوزان حاصل ہوتے ہیں ، ایک رباعی کے چار مصرعوں کو ان میں سے کسی بھی ایک یا چار مصرعوں کے مطابق لکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ قطعہ کے لیے کوئی بحر مخصوص نہیں ہے ، قطعہ کسی بھی مانوس بحر میں کہہ سکتے ہیں۔(5) بحر کے لحاظ سے دوسرا فرق:پانچواں فرق چوتھے فرق سے ملتا جلتا ہے ، مگر باریک سا فرق ہونے کی وجہ سے اسے الگ سے ذکر کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ رباعی کے لیے مذکورہ بالا دو بحروں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے جبکہ قطعے میں مفعول مفاعیل مفاعیل فعَل خلاف اولیٰ ہے کیونکہ رائج مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے اور مفعول مفاعلن مفاعیل فعَل درست ہی نہیں کیونکہ یہ رائج ہی نہیں۔س(6) بحر کے لحاظ سے تیسرا فرق:رباعی میں مفعول مفاعیل مفاعیل فعَل اور مفعول مفاعلن مفاعیل فعل کو جمع کرسکتے ہیں مگر قطعے میں نہیں۔(7) غزل کے لحاظ سے فرق:قطعہ کسی غزل کا بھی حصہ ہوسکتا ہے ، مگر رباعی نہیں۔(8) مضمون کے لحاظ سے فرق:قطعے کے اشعار میں بلحاظ مضمون تسلسل ہوتا ہے ، یہی تسلسل رباعی میں بھی ہوتا ہے ، مگر رباعی کے چوتھے مصرع کا معنوی لحاظ سے سب سے زیادہ جاندار ہونا ضروری ہے ، یہاں تک کہ رباعی کے ابتدائی تینوں مصرعوں کا معنوی لحاظ سے دار و مدار چوتھے مصرع پر ہوتا ہے ، یہ قید قطعے میں ملحوظ نہیں ہوتی۔ On قطعہ اور رباعی میں کیا فرق ہے؟ وضاحت کریں۔ داستان ناول اور افسانہ دراصل ایک ہی نثری صنف کے مختلف روپ ہیں۔ان تینوں کو ملا کر ‘افسانوی ادب‘ یا ‘فکشن‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ان تینوں کی بنیادی خصوصیت ایک ہے اور وہ ہے قصہ پن۔یعنی ہر قدم پر یہ جاننے کی خواہش کے آگے کیا ہوا اور اس کے بعد کیا ہونے والا ہے۔یہ کہانی پن یا قصہ پن ہی فکشن کی جان ہے۔جب انسان کو بہت فرصت تھی تو وہ ایسے قصّے سنتا اور سناتا تھا جو بہت طویل ہوتے تھے۔اس زمانے میں وہ ایسی باتوں اور ایسی چیزوں پر یقین کر لیتا تھا جو عقل کو دنگ کردیتی ہیں۔ان کو فوق فطری عناصر کہا جاتا ہے۔داستانوں میں ان کی بہتات ہوتی تھی۔مگر زمانے کا ورق پلٹا ،انسان کی مصروفیت بڑھی اور غیر فطری باتوں پر سے اسکا ایمان اٹھ گیا۔زندگی کے حقیقی واقعات کو اس نے اپنے قصوں کا موضوع بنایا اور غیر ضروری طوالت سے دامن بچایا تو ناول وجود میں آیا۔مصروفیت اور بڑھی تو افسانہ وجود میں آیا۔افسانہ چھوٹا سا ہوتا ہے اس لیے اس میں پوری زندگی کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔اس میں زندگی کے کسی ایک رخ سے اور کردار کے کسی ایک پہلو سے سروکار ہوتا ہے۔افسانے کے اجزاے ترکیبی بھی وہی ہوتے ہیں جو ناول کے ہیں مگر افسانے کا پیمانہ چھوٹا ہوتا ہے اس لیے ان کے اجزائے ترکیبی کے برتنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔افسانے سے مراد ایسی نثری کہانی ہے جس میں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہو جس کی ابتدا ہو، ارتقاء ہو، اور خاتمہ ہو اور جو زندگی کی بصیرت میں اضافہ کرے۔دوسرے لفظوں میں وہ نثری کہانی جس میں زندگی کے کسی ایک گوشے یا رخ کو کم سے کم الفاظ میں اجاگر کیا جائے۔افسانہ مغربی ادب سے مستعار لیا گیا ہے لیکن اس کے موضوعات ابتدا سے ہی مقامی عناصر پر مشتمل رہے ہیں۔مختصر افسانے کی مختلف تعریفیں کی جاتی ہیں۔*اڈ گرالین پو کے مطابق "افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جو آدھ گھنٹے سے لے کر ایک یا دو گھنٹے کے اندر پڑھی جاسکے ۔گویا افسانہ اتنا مختصر ہونا چاہئے کہ اسے ایک نشست میں پڑھا جاسکے” لیکن اس تعریف میں افسانے کی فنی ساخت سے متعلق وضاحت نہیں ہوتی۔*واشنگٹن ارنگ جس نے انیسویں صدی کے آغاز میں مختصر افسانے کی ابتداء کی، لکھتے ہیں”مختصر افسانے کو پڑھ کر قاری کے دل پر ایک خاص کیفیت گزر جاتی ہے اور یہی مختصر افسانے کی پہچان ہے”*افسانے کی یہ بھی تعریف کی گئی ہے کہ مختصر افسانہ افسانوی ادب کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مختصر ترین صنف ہے۔*پروفیسر وقار عظیم کے مطابق”مختصر افسانہ ایک ایسی نثری داستان ہے جو بآسانی آدھ گھنٹہ سے لے کر دو گھنٹے تک پڑھ سکیں اور جس میں اختصار یا سادگی کے علاوہ اتحاد اثر،اتحاد زماں،اور اتحاد کردار بدرجہ اتم موجود ہوں”۔*افسانے کے جدید نقاد ڈاکٹر فردوس فاطمہ نصیر افسانے کی تعریف یوں کرتی ہیں”مختصر افسانہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہایت اختصار کے ساتھ نثر میں زندگی کے کسی ایک پہلو کی خیر کن جھلک فنی طریقہ پر دکھائ جائے”۔**ڈاکٹر اختر نے اپنے مضمون ‘تحقیق و تنقید‘ میں افسانے کی تعریف یوں کی ہے”ایک اچھا افسانہ ایک کامیاب ڈرامے کی طرح ہے کہ ایجاز کا جس میں حسنِ کامل ہوتا ہے اور ناظرین کے لیے ذہنی مسرت کا سامان مہیا کرتا ہے”۔افسانہ ایک حقیقت پسندانہ صنف ادب ہے اس میں زندگی کے کسی ایسے گوشے یا واقعے یا زندگی کے کسی ایک پہلو کو مؤثر طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔مختصر الفاظ میں نہایت اختصار کے ساتھ اپنی بات کو قارئین تک پہنچایا جاتا ہے۔ناول کی طرح افسانے میں بےشمار کردار بھی نہیں ہوتے، محدود تعداد میں کردار ہوتے ہیں۔یا اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ افسانے میں ایک یا ایک سے زیادہ کردار ہو سکتے ہیں۔منظر نامہ، پلاٹ، یا مکالمہ بھی ہو سکتا ہے۔لیکن ادھر افسانے میں بہت تبدیلیاں ہوئی ہیں اور افسانے کی کوئی ایک تعریف مکمل نہیں کی جاسکتی،دراصل بدلتی ہوئی زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کے ساتھ ساتھ افسانے کی پیشکش اور ہئیت میں بھی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔چناچہ افسانے کی اہم خوبی اس کا اختصار ہے۔داستان اور ناول کے مقابلے میں افسانہ بہت مختصر ہوتا ہے البتہ اس کے اختصار کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ On اردو میں افسانہ نگاری کی روایت پر سیر حاصل بحث کیجیے۔ افسانہ، کہانی، ڈرامہ، ناول، فلم، فیچر وغیرہ ان میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ کردار، ڈائیلاگ، مکالمہ، منظر کشی اور کہانی سب میں مشترکہ طور پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانے اور کہانی میں فرق یہ ہے کہ کہانی میں اصل واقعہ اور واقعیت ہوتی ہے، جبکہ افسانے میں اصل تخیل اور خیالات ہوتے ہیں۔ پلاٹ، کردار اور مکالمہ وغیرہ دونوں میں ہی ہوتا ہے۔ ناول میں کرداروں، مکالموں، منظروں، تخیلات کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ناول میں کئی کردار ہوتے ہیں۔ کئی مناظر ہوتے ہیں، کئی قسم کے مکالمے ہوتے ہیں۔ ایک خاص پلاٹ کو لے کر چلا جاتا ہے۔ کسی آئیڈیے پر لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے میں بھی کردار سازی ہوتی ہے، منظر کشی ہوتی ہے، مکالمے ہوتے ہیں، منظرنگاری ہوتی ہے۔ تخیلات ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ ”فلم“ کہانی کے لمبے اور طویل پراسیس، ڈرامہ نگاری ہویا فلم رائٹنگ کا نام ہے۔ کہانی لکھنا ہو یا افسانہ نگاری، ڈاکومینٹری کا اسکرپٹ لکھنا ہو یا کسی پروگرام کا خاکہ…. ان سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان سب کی بنیاد کہانی ہوتی ہے۔ قدرمشترک سب میں کہانی ہوتی ہے، تو آئیے! کہانی لکھنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ کہانی چونکہ گزرے ہوئے زمانے کا واقعہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ ماضی کے صیغے میں بیان کیا جاتا ہے۔ کہانی کسی خاکے اور پلاٹ پر لکھی جاتی ہے اور آخر میں سبق دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر آپ ”والدین کی نافرمانی“ پر کہانی لکھنا چاہتے ہیں۔ اب اس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ یہ ہے کہ ایک بچہ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اسے بھاری مالی و جانی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ جس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ جتنا مضبوط اور اچھا ہوگا، وہ کہانی اسی قدر عمدہ شمار ہوگی۔ دیکھیں! مکان تو ہمیشہ پلاٹ پر ہی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پلاٹ ڈیفنس میں ہے، محل وقوع اچھا ہے تو مکان بھی عمدہ تعمیر ہوگا، لیکن اگر آپ کا پلاٹ بھی بے کار جگہ پر ہے، محل وقوع بھی صحیح نہیں ہے، تو مکان بھی خواہ آپ اس پر جتنی بھی محنت کرلیں، اچھا نہیں بنے گا۔کہانی میں معلومات، تناظر، اسلوب، منظر کشی، ڈائیلاگ، مکالمہ سب ہی کچھ ہوتا ہے۔ کہانی میں تکرار کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ الفاظ کے تکرار سے بچنے کے لیے مترادف کا استعمال کریں۔ اسم ظاہر کو دوسری مرتبہ لانا ہو تو نام دوبارہ لانے کے بجائے ضمیر دوبارہ لائیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کہنا چاہیں: ”سمندر کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کی آبی حیات خشکی میں رہنے والوں کے لیے بہترین غذا ہے۔“ تو یوں نہ کہیں ”سمندر کی آبی حیات….“ سمندر کے لفظ کی جگہ اسم ضمیر ”اس“ لے آئیے۔معانی اور مفاہیم کے تکرار سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عناصر اور اشارات کی عقلی منطقی مربوط ترتیب کے مطابق مضمون کو لے کر چلیے۔ اشارات چونکہ مرتب اور غیرمکرر ہوتے ہیں، اس لیے ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔ کہانی میں کوئی ایسی ترکیب، کوئی ایسا محاورہ یا مقولہ، کوئی ایسا شعر اور مصرع ہر گز استعمال نہ کریں جس کا مفہوم اور مطلب آپ خود نہیں سمجھتے۔ کہانی نہ تو اتنی لمبی ہو کہ پوری کتاب بن جائے اور نہ ہی اتنی مختصر ہو کہ ایک پیراگراف لگے اور بات ہی مکمل نہ ہو۔ جاندار اور اچھی کہانی کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔نمبر ایک: جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی۔ نمبر دو: منظر کشی اور منظر نگاری۔ نمبر تین: مکالمہ اور ڈائیلاگ۔ نمبر چار: کہانی کا اچھا پلاٹ اور عمدہ خاکہ۔ جب کسی کہانی میں کسی منظر یا پس منظر کا ذکر آئے تو اس کو حقیقی اور واقعاتی مناظر سے قریب ترین کرکے ایسے بیان کریں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اسی جگہ محسوس کرے۔ کسی جگہ کی ایسی منظرنگاری کریں کہ جب پڑھنے والا کبھی اس جگہ جائے تو وہ محسوس کرے کہ یہی وہ جگہ ہے جس کو میں نے کہانی میں پڑھا تھا۔اسی طرح آپ کہانی کے کسی کردار سے بلوائیں تو وہ ایسے بولے جیسے اصل میں بات کررہا ہو، یعنی جذبات، دلی کیفیات اور احساسات کے موقع پر انسانی احساسات، قلبی واردات برمحل اور برجستہ بات کریں۔ اسی طرح آپ دو یا دو سے زائد افرا دکے مابین مکالمہ کروائیں تو مکالموں کی بندش بالکل حقیقی گفتگو کی طرح ہو۔ نقل مطابقِ اصل معلوم ہورہی ہو۔ بعض اوقات ایک کہانی کی تہہ میں اور پس منظر میں ایک اور کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا موقع ہو تو ان دونوں میں ربط، تسلسل اور روانی برقرار رہنی چاہیے۔ تسلسل اور ربط ٹوٹنا نہ چاہیے۔ابتدا میں چھوٹے چھوٹے سماجی اور اخلاقی موضوعات پر کہانیاں لکھنے کی کوشش کریں۔ پھر رفتہ رفتہ ہر موضوع پر لکھتے چلے جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ شروع شروع میں ازخود طبع زاد کہانی لکھنا اور کہانی کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے خاکے کی مدد سے کہانی لکھنے کی مشق کریں۔ مطالعے، محنت، مستقل مزاجی سے لکھیں او رکسی استاذ سے اصلاح لیتے رہیں۔ جب چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مشق ہوجائے، جب الفاظ کا درست استعمال آجائے۔ ضرب الامثال اور محاورات سے مزین جملے بنانے آجائیں۔ منظر کشی اور جذبات نگاری میں قلم رواں ہوجائے تو پھر طبع زاد کہانیاں لکھنے کا آغاز کریں۔(انورغازی) On افسانہ، کہانی، ڈرامہ اور ناول میں فرق بتائیں۔ شمالی ہندوستان میں اردوشمالی ہندوستان میں اردو کی باقاعدہ تربیت بارہویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ اردو زبان و ادب کے ارتقا کی تاریخ میں آریوں کی ہندوستان آنے اور پھر منگولوں اور ترکوں کے قافلوں حاکموں اور سلاطین کے بغرض ہجرت حکومت آنے جانے ان کے علاوہ ہندوستانیوں پے بیرون ہند کے سفر کرنے اور حکومتی اقدامات اٹھانے کے تعلق سے ہندوستان کے شمال کا حصہ نہایت متفرق ثابت ہوا اور شمالی ہندوستان میں اخذ و قبول کی یہی تاریخ حصہ بنیں جس کی بندیوں پر قدیم وجدید اور داخلی اور خارجی معیارات کے لئے اور زبان کی تاریخ لکھنے والوں نے مختلف تاریخیوں میں اپنے مطالعے اور مشاہدے پیش کیے ییں یہاں تک کہ صوفی سنتوں اور ولیوں کی خدمات کے بعد اردو کے ارتقاء کی باقاعدہ تاریخ 1193ء اس وقت طے پائی جب دہلی پر مسلم سلطان کا قبضہ ہوگیا یعنی حکومت دہلی کو بیرون ہند کے سلطان نے آکر فتح کر لیا۔اس طرح شمالی اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت وسیع ہے یہاں اس کے اجمالی جائزے کا اشارہ ذکر کیا جانا کافی ہے جس میں ادب عالیہ کے1857 تک کے سلسلوں کو سمجھے اور جوڑنے کے لیے تین نام ہیں۔ جنہیں اردو کی بے لوث خدمت کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے اجتماعی تجربہ اور مشاہدوں سے فنکارانہ جوہروں کو نئی آب و تاب کے ساتھ پیش کیا وہ حضرت امیر خسرو، کبیر داس اور نظیر اکبر آبادی ہیں جن کے درمیان زمانی اعتبار سے صدیوں کا تفاوت ہے مگر زبان و ادب کی تاریخ میں تینوں کا مقام ومرتبہ انفرادی شناخت کا عمل رہا ہے اور تینوں میں الفاظ کے برتاؤ کا عمل بھی جداگانہ حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کی مذکورہ تینوں شخصیتیں اپنی اپنی سطح پر کمال اور ہنر دکھانے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ On شمالی ہند میں اردو کے ارتقاء پر روشنی ڈالیے۔ تشریح:اس شعر میں اقبال نے اپنی محبوب علامت ” شاہین“ کو برت کر انسان کو ایک امید اور دلائی ہے، کہ تو، تو شاہین ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گھونسلے نہیں بناتا، وہ اونچی سے اونچی پہاڑی کی طرف پرواز کرتا ہے، وہ کسی کی دنیا نہیں مانگتا، وہ اپنی دنیا آپ بناتا ہے، وہ دوسرے کے کیے ہوئے شکار پر نہیں گرتا وہ اپنا شکار خود کرتا ہے، لہٰذا اے مرد مومن تیرے اندر تو شاہین کی صفت موجود ہے تو ایک منزل پر پہنچ کر کیوں اسے آخری منزل سمجھ بیٹھا ہے بلکہ ہر آنے والی منزل کو تو اپنے لئے تھوڑے عرصے کے لیے ایک پڑاؤ سمجھ ، تیری صلاحیت تو سات آسمانوں سے پار جانے کی ہے، یہی ایک آسماں تیرا نہیں فلک الافلاک بھی تیرا ہی ہے، ”تیرے سامنے آسماں “ مقامات و منازل اور بھی ہیں۔شعری محاسن:اس شعر میں اقبال نے علامتی پیرایہ اختیار کیا ہے اور اپنے مخصوص انداز اور محبوب علامت ”شاہین“ کو مرکز بنا کر معانی کو اس قدر پھیلایا ہے کہ قاری کے اندر ایک حوصلہ اور خود اعتمادی کا وصف پیدا ہونے لگتا ہے، حسن خیال کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا پیدا کرنا یہ علامہ اقبال کا انفراد ہے۔ On تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں غزل کا فن اور روایتغزل کی تعریفغزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ پروفیسر رشید احمد سدیقی نے اسے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اردو میں جب سے تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت سے لے کر اب تک غزل طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کم ہونے کے بجاۓ ہر بار بڑھتی ہی گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ غزل میں زمانے کے ساتھ بدلنے ، ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر طرح کے مضمون کو ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس صنفِ سخن کو کھبی زوال نہ ہو گاغزل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ اس صنف کو غزل کا نام اس لیے دیا گیا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔غزل کی ابتداء عرب میں ہوئی۔ وہاں سے یہ ایران میں پہنچی اور فارسی میں اس نے بہت ترقی کی۔ فارسی ادب کے راستے یہ اردو ادب میں داخل ہوئی اور ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئی۔غزل کی فنی خصوصیاتغزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جسے ہر شعر کے آخر میں دھرایا جاۓ۔اس سے پہلے قافیہ ہوتا ہے جس کا آخری حرف یا آخر کے چند حرف یکساں ہوتے ہیں۔ جیسے : دوا، ذرا، یا میر، پیر وغیرہ۔ بعض غزلوں میں قافیے کے ساتھ ردیف بھی ہوتی ہے ۔ بعض میں صرف قافیہ ہوتا ہے۔ غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے "مقطع” کہلا تا ہے۔ ان کی مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔دل نادان تجھے ہوا کیا ہےآخر اس درد کی دوا کیا ہےہم ہیں مشتاق اور وہ بیزاریا الہی یہ ماجرا کیا ہےہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔمفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہےپہلا شعر مطلع ہے اور تیسرا مقطع۔ "کیا ہے” ردیف ہے جو مطلع کے دونوں مصرعوں اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں دہرائی گئی ہے۔ "ہوا ،دوا ،ماجرا ،برا "قوافی ہیں۔ غزل کی دیگر اہم خصوصیات یہ ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنا الگ معانی دیتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر مل کر معنی دیتے ہیں تو انہیں "قطعہ بند” کہا جاتا ہے۔ عام طور پر غزل کے شاعر کو دو مصرعوں میں مکمل مضمون ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ اختصار اور رمز و کنایے سے کام لینے پر مجبور ہے۔دوسری خاص بات یہ ہے کہ قصیدے اور مثنوی کی طرح غزل خارجی نہیں بلکہ داخلی صنفِ سخن ہے اور شاعر اس میں وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر گزرتی ہے۔ اس لئے غزل کے خاص موضوعات حسن و عشق ہیں۔ ایک اور بات کہ غزل کا شاعر عام طور پر نرم ،سبک اور شرین الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ شاعر ہر طرح کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے لفظوں کے استعمال کا سلیقہ ہو۔ بحر حال غزل ایک غنائی صنفِ شاعری ہے اور ترنم و موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہی سبب ہے کہ مشاعرے بہت مقبول رہے اور ان میں غزلوں کی فرمائیش کی جاتی رہی ہے۔غزل کے خدوخال سے ہم سب واقف ہیں (یعنی ہئیت کے اعتبار سے اس کے اجزائے ترکیبی حسبِ ذیل ہیں: (1) مطلع (2)ردیف (3)قافیہ (4)مقطع اور (5) بحر۔ انہیں اجزائے ترکیبی سے اس کا اختصار، کیفیاتی وحدت اور موسیقیت متعین ہوتی ہے، جس کے بعد کو غزل کا مخصوص ایمائی اور مزید انداز بنتا ہے۔ہیئت کے نقطۂ نظر سے بحر اور قافیہ غزل کے محور ہیں۔ ردیف ایک مزید بندش ہے جسے اردو شاعر اکثر اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے۔ اس سے اچھے اور بُرے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ غزلیں غیرمروف بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اردو کی بیشتر غزلیں مروف ہیں۔ ردیف کے الفاظ فعل بھی ہوسکتے ہیں، جیسے:ہے۔ ہیں یا کھینچ (؏ نفس نہ انجمن نہ آرزو سے باہر کھینچ (غالؔب) اور حروف اور اسم بھی جیسے پر، نہیں شمع اور نمک۔ (؏ کیا مزا ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک (غالب) غزل کے پاؤں میں ردیف پائل) یا جھانجھن (کا حکم رکھتی ہے۔ یہ اس کی موسیقیت ترنم اور موزونیت کو بڑھاتی ہے۔ دوسری طرف اس کے تنِ نازک کو گرانباری زنجیر کا احساس بھی دلاتی ہے۔ فنی لحاظ سے ردیف کی چولیں سب سے پہلے قافیہ سے بٹھانی پڑتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی دیف کی چولیں ہر قافیہ کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ مثلاً غالؔب کی اس غزل میں۔مژہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہےدامِ خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس’’کے پاس‘‘ ردیف ہے اور اس کے ساتھ حسب ذیل قافیوں کی چولیں بٹھائی گئی ہیں خار، بیمار، غمخوار، آزار، دستار، دیوار لیکن ابھی قافیے اور بھی ہیں۔ سنئے، ذوق کے ایک قصیدہ سے۔ بیکار، زنہار، بار، سرکار، درکار، انوار، گفتار، اطوار، دربار، اظہار، تکرار، سیار، گلبار یہ تو وہ قافیے ہوئے جن کو مذکورہ بالا بحر قبول کرتی ہے ورنہ ذوق نے اپنے قصیدے میں بلامبالغہ 56 قافیے استعمال کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے سب کافیے (مثلاً زنہار، درکار وغیرہ) ’’کے پاس‘‘ کی ردیف کے ساتھ نہیں باندھے جاسکتے۔ بعض قافیے ردیف سے تال میل تو کھاتے ہیں لیکن اس طرح کے قافیہ کی پھسلن ہی پر ہزل گوئی کا مزہ آنے لگتا ہے۔ فکرِسخن میں اچھے اچھے اساتذہ بعض اوقات بولتے ہوئے قافیوں کو تابع ردیف نہ دیکھ کر باندھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے غزل گو کے لیے لازم ہے کہ حافظہ کمزور ہونے پر وہ اپنے قوافی مواد کو تخلیقی عمل کی لہر کے ساتھ ہی جمع کرلے۔ اس سے قافیہ پیمائی مقصود نہیں بلکہ اس طرح مواد کی فراہمی اور انتخاب میں مدد ملتی ہے۔ردیف غزل کے ایجاز و اختصار پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک مخصوص بحر میں پندرہ یا بیس ہم وزن قافیے دستیاب ہیں، بہت ممکن ہے کہ ان میں سے صرف دس یا بارہ تال میل ردیف سے کھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قصیدہ جو طویل ہوتا ہے اکثر غیرمروف لکھا جاتا ہے۔ چونکہ غنائی شاعری میں جذبہ شدید اور مختصر ہوتا ہے اس لیے وہ ردیف کی آرائش کو باآسانی قبول کر لیتی ہے۔ردیف کا قافیہ سے اتصال غزل کا سخت نازک مقام ہے۔ بعض اوقات فصاحت و بلاغت کے نازک ترین مرحلوں سے یہاں گزرنا پڑتا ہے۔ محاورات زبان کی لطیف ترین شکلوں کا استعمال اس جگہ ملتا ہے۔ قافیہ اگر اسم ہے تو اضافت اور تراکیب کی اعلیٰ ترین شکلیں یہاں ملتی ہیں اگر فعل ہے تو اس جگہ کیفیت زبان اور محاورہ کی ساری نزاکتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ دوم درجے کے شاعروں کے یہاں وار اکثر خالی بھی جاتا ہے۔ اس لیے انتخابِ شعر کی رسوائی غالب جیسے شاعر تک کو سر لینا پڑی۔ غزل میں ردیف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کے حالی کی ناپسندیدگی کے باوجود جدید شاعری میں بہت کم اچھی غزلیں غیرمروف ملتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ غیرمروف غزل اچھی نہیں ہوسکتی۔ غالب کینہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز ں ہوں اپنی شکست کی آوازپر کون لبیک نہیں کہے گا؟ میرا زور اس بات پر ہے کہ تعداد کے اعتبار سے غیرمروف غزلیں مروف غزلوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں نئے قافیوں کے ساتھ ساتھ نئی ردیفوں کا پیدا کرنا بھی غزل گو کا فنی فریضہ ہے۔ غزل اگر ایک لسانیاتی عمل اور فن ہے تو اس کے فن کار پر اجتہاد اور اختراع کا فرض بھی عائدہوتا ہے۔ لیکن نئی ردیفوں کے اختراع میں دو دقتیں پیش آتی ہیں۔ عام طور پر رواں دواں اور مترم ردیفیں افعال سے بنتی ہیں اور افعال کی شکلوں میں اضافہ کرنا ذرا مشکل بات ہے۔ نئے غزل گو کو اس سلسلے میں مرکب اور امدادی افعال سے زیادہ سے زیادہ مدد لینی چاہئے۔ غزل اسمی ردیفوں کی زیادہ متحمل نہیں ہوتی۔ گو ہمارے صاحبِ دیوان شعراء نے اپنی استادی کے سارے پینترے اس پر صرف کئے ہیں۔ اس کی لسانیاتی وجہ ظاہر ہے۔ افعال بہت سے اعمال کے ساتھ نتھی کیے جاسکتے ہیں جبکہ اسماء کے روابط مخصوص اور محدود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان کے دیوان دیکھ جائیے اس قسم کی ردیفیں بہت کم ملیں گی اور اگر ہیں تو غیرمترنم۔ردیف کے قافیہ کا مزید تذکرہ ضروری ہے، جس کی تنگی کا حالی کو بھی گلہ تھا۔ لیکن تنگی کافیہ کا گلہ دوسری اصنافِ شعر کے نقطہ نظر سے کتنا ہی بجا کیوں نہ ہو غزل کی صنف پر بےمحل ہے۔ قافیہ کے بغیر غزل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ شاعری بےقافیہ بھی ہوسکتی ہے۔ غزل بغیر قافیہ کے اپنے مخصوص اسلوب اور آہنگ کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ قافیہ کی بندش غنائی شاعری میں عام طور پر اور غزل میں خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کہ اس کی جھنکار میں جذبے کی شدت اور تخیل کی رنگینی دونی ہوجاتی ہے۔ یہ بےوجہ کی بندش نہیں۔ اس بندش کو اپنے اوپر عائد کرکے جس شاعر نے کامیابی حاصل کرلی اس کا وار بھرپور ہوگا۔ ادب میں جمال آزادی سے نہیں بلکہ آدابِ فن اور ادبی بندشوں سے نکھرتا ہے۔ میں اصولی طور پر فن میں بندشوں کا قائل ہوں اس لیے کہ اس سے ذہن تربیت پاتا ہے۔ اور فن نکھرتا ہے۔ ہاں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ناپختہ کار کے ہاتھوں میں روایت، قدامت پرستی میں اور آداب، تکلفات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اردو شاعری پر تنقید کرتے وقت حالی کو ایک ایسا ہی زمانہ ملا تھا۔قافیہ میں پھر انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ قصیدہ گو کا فن یہ ہے کہ وہ ہر ممکن کافیہ کو باندھ کر اپنی ’’خاقانیت‘‘ کا ثبوت دے۔ اس طرح بعض اوقات عجیب و غریب اور مضحک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ذوق کے مشہور قصیدے میں ’’زحیر و تبخیر‘‘ کہ مضحک قافیوں پر ’’نکسیر‘‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ بادشاہ سے شاعر کہہ رہا ہے۔ترے لَسَق سے نہ بالکل رہی جو خونریزیلڑائیوں میں کہیں پھوٹتی نہیں نکسیرمعلوم نہیں آخری بےدست و پا مغل بادشاہ پر ذوق کا یہ لاشعوری طنز ہے یا محض قافیہ پیمائی کا شوق!قافیہ کیوں کے غزل کا محور ہوتا ہے اس کی چولیں ایک طرف تو بار بار دہرائی جانے والی ردیف سے بٹھانی پڑتی ہیں اور دوسری طرف اس پر شعر کے پورے خیال کا بوجھ ہوتا ہے۔ اس لیے کسی حد تک قافیے کی تنگی کا گلہ بجا ہے۔ غلط انتخاب یا شعرکو ہزلیات کی حد تک لے جاتا ہے یا پورا شعر ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ مشرقی شعریات میں غنائی شاعری کے لیے قافیہ یا تُک کا تصور ہر زمانے میں اہم سمجھا گیا ہے۔ شاعر کو قوافی کا وارث بتایا گیا ہے۔ امراؤالقیس نے تخلیقی عمل میں اس کی اہمیت کو اس طرح جتایا ہے۔’’میں آتے ہوئے قافیوں کو یوں ہٹاتا اور دور کرتاہوں جیسے کوئی شریف چھوکرا ٹڈیوں کو مار مار کر ہٹاتا ہو‘‘بڑے شاعر کے یہاں وہاں قافیے ٹڈی دل بن کر آتے ہیں۔ اس لیے تخلیقی عمل کے ابتدائی مدارج میں انتخاب کو بہت دخل ہوتا ہے۔ غنائی شاعری کا موسیقی سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قافیہ غزل میں اس مقام پر آتا ہے جہاں موسیقی میں طبلے کی تھاپ۔ دونوں میں تاثر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ردیف اور قافیہ دونوں بحر کی موج پر ابھرتے ہیں۔ جس طرح بحر، وزن کے زمان میں سانس لیتی ہے اسی طرح قافیہ اور ردیف دونوں، بحر کے تابع رہتے ہیں۔ قافیہ اور ردیف بحر کی موزونیت کو افزوں تر کرتے رہیں۔ ترنم ریزی کی شدت میں شاعر اکثر اندرونی قافیوں سے بھی کام لیتا ہے۔ اقبال ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں ترنم کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔قطرۂ خونِ جگر دل کو بناتا ہے سِل خون جگر سے صدا سوزو سرورد سرودتیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشودبحر کا انتخاب غزل گو شعوری طور پر نہیں کرتا۔ یہ جذبہ اور کیفیت سے متعین ہوتی ہے۔ مشقیہ شاعری یا مصرع طرح کی بات اور ہے ورنہ کوئی بھی شاعر مصرع طرح سامنے رکھ کر غزل شروع نہیں کرتا اس کا پہلا مصرع (ضروری نہیں کہ مطلع ہی ہو) جذبے یا کیفیت کے ساتھ خودبخود ذہن میں گنگناتا ہوا نکلتا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بحر متعین ہوچکی ہے، قافیہ بھی متعین ہوچکا ہے، اور اگر ردیف ہے تو وہ بھی۔ نظم گو اس کے برعکس نسبتاً آزاد رہتا ہے۔ کیونکہ قافیہ اور ردیف کا تنوع اس کے یہاں ممکن ہے، غزل گو پہلے شعر یا مصرع کے ساتھ ہی غزل کی ہیئت کا خون پہن لیتا ہے۔ اس کا سارا فن اور سارا کمال اب یہی ہے کہ اپنے اس محدود میدان میں جولانیٔ طبع دکھائے۔ چاول پر قل ھواللہ لکھے، قطرے میں دجلہ ڈونڈے اور آنکھ کے تل میں آسمان دیکھے!ہر بحر کا مخصوص مزاج ہوتا ہے، جس کا رشتہ قومی موسیقی سے جاملتا ہے، لیکن جس کا عمل ہم غزل میں اس طرح دیکھتے ہیں کہ بعض بحریں مخصوص قسم کے جذبات کے ساتھ بہتر تال میل رکھتی ہیں۔ مثلاً بحر منقارت شانزادہ رُکنی:۔فِعلن فِعلن فِعلن فِعلنفِعلن فِعلن فِعلن فَعجس میں غالب کے منتخب دیوان میں ایک غزل بھی نہیں ملتی۔ میر نے اس میں اکثر کہا ہے ؏الٹی ہوگئی سب تدبیریں الخ‘‘ فانی کہ یہاں بھی یہ اپنی پوی آب و تاب کے ساتھ ابھی ہے۔ علم عروض میں ردّو قبول کا سلسلہ ایران سے شروع ہوتا ہےاور تاحال جاری ہے۔ اس سے دو نتائج نکلتے ہیں، پہلا یہ کہ عروض کا قومی موسیقی اور مزاج کے ساتھ گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ہر شاعر اپنے ذہن کی مخصوص افتاد کی بناء پر کچھ بحروں کو دوسری بحروں پر ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ اچھی غزل میں فکری اعتبار سے کتنی ہی ریزہ کاری کیوں نہ ملتی ہو اس میں ایک اندرونی اور کیفیاتی وحدت پائی جاتی ہے۔ بحر اس وحدت کی پہلی پہچان ہے طویل اور آہستہ رو بحروں میں نشاط اور سر خوشی کی کیفیات کا اظہار مشکل یا کم ازکم مصنوعی ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ بحریں اس قدر رواں دواں ہوتی ہیں کی فکر کا بار نہیں اٹھا سکتیں۔ردیف، قافیہ اور بحر کے اس تجزیہ کے بعد یہ باتیں خودبخود سمجھ میں آنے لگتی ہیں کہ غزل مختصر کیوں ہوتی ہے؟ (بہت کم اچھی غزلیں گیارہ یا تیرہ اشعار سے اوپر جاتی ہیں) ان میں ریزہ خیالی کیوں ہوتی ہے اور معنوی تسلسل کا فقدان کیوں پایا جاتا ہے؟ اس اندرونی وحدت کی نشاندہی میں حسبِ ذیل اجزاء سے مدد ملتی ہے۔(1)مطلع:۔ اکثر اوقات قافیہ اور ردیف کا تعین اس سے ہوتا ہے اور اس کے جذبہ کی تھرتھراہٹ اختتام غزل تک نہیں تو کم ازکم پہلے چند اشعار تک قائم رہتی ہے۔ یہاں تک وجدان شعر قافیہ پر حاوی رہتا ہے، اس کے بعد ارادی عمل شروع ہوتا ہے اور تجسس، علم اور حافظہ کام میں لائے جاتے ہیں۔ غزل کے ابتدائی اشعار پر مطلع کے اثرات بہرحال مسلم ہیں۔(2)ردیف:۔ جذباتی وحدت کا تعین، ردیف سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس کا ٹھپہ ہر شعر اور ہر خیال پر ہوتا ہے۔ مثلاً غالب کی یہ غزلنکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنےکیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنےمیں ’’نہ بنے‘‘ کا ٹھپہ اس غزل کے ہر خیال پر ہے۔ چاہے اس کا تعلق ’’بات نہ بنے‘‘ سے ہو یا ’’خط کے چھپانے‘‘ سے یا ’’آتشِ عشق کے بجھنے اور لگنے‘‘ سے۔ ’’نہ بنے‘‘ کا یہ ٹکڑا مجبوری اور عجز کی کیفیات کا حامل ہے۔ پوری غزل اٹھا کر دیکھ جائیے ہر شعر اسی خیال کے سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آئے گا۔غزل ہیئت کا اس کے اسلوب پر بھی اثر پڑتا ہے۔ غزل کا اسلوب ایجاز و اختصار، رمز و کنایہ مجاز، تمثیل، استعارہ و تشبیہ سے مرکب ہے اس لئے اس میں وہ تمام خوبیاں اور خامیاں ملتی ہیں جو ’’سخن مختصر‘‘ کی خصوصیات ہیں۔ شدت تاثر، موسیقیت اور بلاغت کے اعلیٰ ترین مدارج تک زبان اسی پیرایہ میں پہنچتی ہے۔ بادہ وساغر کا استعارہ ہو یا لالہ و گل کا پردہ، لیلٰی غزل کے لیے یہ ضروری ہیں لیکن یہ اسلوب واقعاتی ڈرامائی اور بیانیہ شاعری میں بلائے جان بن جاتا ہے۔ غزل ہمارے ہاں غنائی شاعری کی صرف ایک شکل ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسرے انداز میں نہیں گا سکتے۔ یہ کسی دوسرے اصنافِ سخن کی حریف نہیں کیونکہ اس کا اپنا دائرہ عمل ہے لیکن یہ ہئیت کے اعتبار سے بے وقت کی راگنی کبھی نہیں ہوگی۔ یہ ایک پیمانہ ہے۔ جس میں جس قسم کی کشید دل چاہیے بھر دیجئے۔ اور ہمارے شعراء بھرتے رہے ہیں۔ اردو کے ابتدائی دور میں یہ فارسی غزل کی نقل بن کر ہمارے سامنے آئی۔ میر کے ہاتھوں حسن کی نیم خوابی اور دل کے پھپھولوں کی ترجمان بنی۔ غالب نے اسے اپنی مخصوص بصیرت عطا کی۔ اس میں دھول دھپا بھی کھیلا گیا، یہ اسرار خودی اور رموز بے خودی کی عامل بھی بنی اور آج آتش و آہن کا کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ تھی اور ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ کیا یہ رہے گی؟ کیا ہماری نئی تہذیب میں اس کی ضرورت آئندہ بھی محسوس ہوگی۔ لیکن یہ سوال صرف صنفِ غزل تک محدود نہیں۔ اس کا اطلاق عام غنائی شاعری پر بھی ہوسکتا ہے۔ عہدِ جدید کے تمام معاشرتی رجحانات کسی نہ کسی قسم کے اشتراکی سماج کی طرف رہبری کررہے ہیں۔ اور اشتراکی سماج میں عوامی موسیقی کی طرح غنائی شاعری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ غزل بنیادی طور پر ایک انفرادی فنکارانہ عمل ہے۔ لیکن اس کے جذبات کی عمومیت مسلّم ہے، جوسرشتِ انسانی کی وحدت اور جبلتوں کی یکسانی پر مبنی ہے۔ اور یہ عمومیت ماضی حال اور مستقبل تینوں زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔غزل کی روایتغزل کی حیرت انگیز مقبولیت کا ایک بالکل سامنے کا سبب تو یہ ہے کہ مدح، فخر یا ہجا کے مقابلے میں تغزل کی ورائے شاعری کوئی خارجی یا نہیں ہوتی۔عربی قصیدوں کی نسیب جو عموماً مضامین غزل پر مشتمل ہوتی تھی، اسی لیے اس صنف سے منقطع ہونے کے بعد بھی بامعنی رہی کہ اس کا مدح کے مضامین سے کوئی داخلی یا تخلیقی رشتہ تھا ہی نہیں۔ بلکہ اس کے علی الرغم چونکہ مدح کا اکثر ایک مادی مقصود بھی تھا تو مدح کے اشعار اپنے مقصود کے پابند رہے جب کہ نسیب کا کوئی ورائے شعر مقصد نہیں،اس لیے شاعر کو اپنی فنکاری کے اظہار کا زیادہ سے زیادہ موقع تشبیب میں ہی ملتا رہا ؛یہ دعویٰ اس مشاہدہ پر مبنی ہے کہ عربی قصائد میں تشبیب تقریباً ہمیشہ مدح کے اجزا سے زیادہ جاذب توجہ رہی۔ نسیبوں کے فنی اعتبار سے زیادہ کامیاب ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مدح، رسایا فخر وغیرہ کے مضامین کا تعلق شاعر کے ‘حال’ سے ہے اس لیے ان موضوعات کے فوری محرکات ان کے ورائے متن مقاصد سے مربوط ہوئے جب کہ سبعہ معلقات کے تمام قصیدوں میں تشبیب ماضی کے عشق اور اس کی یاد سے متعلق ہے، اس لیے یہ حصہ ایک گذرے ہوئے زمانے کی باز تعمیر یا اس سے مربوط کیفیات کے بیان پر مشتمل ہے، جسے اپنے حال کا ضرورتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مضامین تغزل پر مشتمل یہ تشبیب قصیدوں سے الگ ہو کر یک موضوعی قطعات کی شکل میں غزل کے نام سے مقبول ہوئی لیکن اپنی عذری اور اباحی/حجازی دونوں روایتوں میں غزل کا کبھی کوئی مادی یا نہیں رہا۔فارسی کے اولین شعرا نے ان نسیبوں سے مشتق خود مکتفی اشعار کی نئی ترتیب تشکیل دی تو اس کا سبب ان کی معاشرتی ضرورت یا مادی غرض نہیں بلکہ اپنی تخلیقی اور اختراعی قوت کا فنکارانہ اظہار تھا کہ یہ صنف روز اول سے شعرا کی تخلیقی فطانت کا مقبول لسانی معمول تھی۔غزل کی اس نئی ہیئت میں صنف کا تصور مضمون /مواد کا پابند نہیں بلکہ اس کی ہیئت ہی اس کی واحد شناخت تصور کی جانے لگی۔ صنف کے اعتبار سے اشعار کی منضبط ہیئت کا تجربہ اس لحاظ سے بھی فیصلہ کن تھا کہ اس میں مضمون یا مواد کے شناختی کردار کی نفی ہوتی تھی ۔ جس سے ورائے شاعری مقاصد کے تصور کا امکان ہی باقی نہ رہا۔مادی/ معاشرتی مقاصد اپنی جغرافیائی ‘ معاشی اور معاشرتی ضرورتوں سے پیدا ہوتے اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی صنف /فن اپنے ورائے متن مقاصد سے آزاد رہ سکے تو اسے کس دوسری زبان /لسانی معاشرہ میں بھی وہ مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے جو غزل کو عربی کے بعدفارسی، ترکی اور اردو میں ہوئی۔ان تمام زبانوں میں غزل کی مقبولیت کا دوسرا اور غالباً سب سے اہم سبب ان لسانی معاشروں میں تصور کائنات کا اشتراک ہے۔ دنیا کے تمام اسلامی معاشروں میں تصور الہ اور اس سے مربوط تصور کائنات مشترک ہے۔ ان ملکوں/معاشروں میں زبان چاہے جو بولی جاتی ہو، بشمول شاعری ان کے فنون میں اس تصور کائنات کے تمام بنیادی اجزا اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ترکی میں سایہ آسا ڈراموں کی ایک مستقل روایت ہے، جس میں ڈرامہ شروع ہونے سے قبل ایک منظوم تمہید ہوتی ہے جس کو پردہ غزل کہتے ہیں۔ اس غزل اور اس کی معنویت کا بیان سنیے:It cannot be stated that the shadow theater gained popularity as the vehicle of expression of a specific mystical order. But every shadow play, down to our own-time, starts with a prologue, a highly stylized sequence, not connected with the play it-self, in which the recitation of a "poem of curtain” occupies a prominent place. These poems are literary in style and of the Ghazal type, which in varying ways express the idea of the symbolic-nature of the shadow stage: the phantasmal-character of the images on the screen symbolizes the transitory, illusory state of the things in this world as opposed to the everlasting reality of a level of consciousness transcending physical death. The spectator is advised not to see only the superficial meaning of the play but to penetrate into the depth of its symbolic meaning…عشقیہ شاعری کے حوالے سے عبد اور معبود کے رشتے کی مخصوصی نوعیت، جسے قرآن کریم کی زبان میں حب /محبت کہتے ہیں’ جب صوفیا کے کلام میں شعر کا موضوع ہوئی تو اسے عرب، ایران، ترکی، اندلس اور ہندوستان کے ان معاشروں میں مقبول ہونے میں بالکل وقت نہیں لگا، جن کے درمیان تصور کائنات مشترک تھا۔بعض مستشرقین نے خود عرب میں محبوب کے بدلتے ہوئے تصور کے متعلق یہ دلچسپ بات کہی ہے کہ عربی میں صاحب قدرت / با اختیار محبوب کا تصور قدرے تاخیر سے داخل ہوا۔ ابتدائی جاہلی شاعری کے علاوہ دوسرے شعرا مثلاً عمر بن ابی ربیعہ کے کلام میں بھی عاشق پر محبوب کو وہ اختیار حاصل نہیں ہوا جو بعد کی عربی اور پھر فارسی اور اردو غزل میں نظر آتا ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ شاعروں کا دربار سے متعلق ہونا ، یا بادشاہوں کا شاعروں کا کفیل ہونا ہو،یا خود عشق کے سبب عاشق کی کوئی نفسیاتی کیفیت ہو، جس سے ایک وفا شعار اور صاحب اقتدار محبوب کے تصور کی جہت برآمد ہوتی ہو۔اس طرح دو افراد کے درمیان ایک مخصوص تعلق جسے اہل دل "عشق” کہتے ہیں، غزل میں بیک وقت تین مختلف سطحوں پر فعال ہوا۔ ایک سطح فکری ہے دوسری جذباتی اور تیسری جسمانی؛ کہ محبوب کی صفات کی مناسبت سے محبت کی یہی وضع بنتی ہے۔لیکن ان سطحوں میں اقسام، تعریف اور صفات کی اتنی جہتیں نکلتی ہیں کہ بقول ابن الندیم عربی میں عشق کی تعریف اور صفات کے تقریباً 80 نام ہیں جو انھوں نے مرضوبانی کی فہرست سے منتخب کر کے لکھے ہیں اور اس میں بھی مرضوبانی نے ہر ایک کے لیے اشعار سے مثالیں بھی دی ہیں۔ مگر اس سے کہیں زیادہ دلچسپ یہ حقیقت ہے کہ اشعار کی ایک قابل لحاظ تعداد میں یہ تینوں سطحیں بہ یک وقت فعال ہیں۔ایک ہی شعر میں عشق / محبوب کے ایک سے زیادہ تصور نظم کرنے کی تخلیقی ضرورت کے سبب ‘تخصیص’ کے مقابلے میں ‘تعمیم’ کی صفت لازمی ہوئی۔یعنی فنی سطح پر یہ ضروری ہوا کہ محبوب کا ذکر اس زبان میں ہو جس سے اس کی ذات یا جنس کا تعین نہ ہوسکے تاکہ محبوب یا اس کے اوصاف (مثلاً بے نیازی) کے کنائے میں صوفیا کا خدا، درباری شاعروں کا بادشاہ (ظل اللہ) اور عاشق کا محبوب (بت بے رحم) تینوں شامل ہو جائیں۔ یہ تو غزل کے شعر کی معنیاتی مجبوری تھی۔ لسانی سطح پر زبان فارسی میں ضمائر اور افعال کے ہونے کے سبب شعر کی لسانیات کے تعمیمی کردا رکو فروغ ہوا یہاں تک کہ عربی اور اردو میں جہاں افعال میں تذکیر اور تانیث کے صیغے واضح ہیں۔ شعر مذکر صیغوں میں کہے گئے کہ یہی عام گفتگو میں تعمیم کا صیغہ ہے۔ اسے پردہ دار یا بے پردہ محبوب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ فارسی زبان کا ایک لسانی امتیاز تھا، جو شاعر On غزل کی تاریخ اور روایت بیان کیجیے۔ تلخیص:غزل اُردو ۔ فارسی یا عربی کی ایک صنفِ سُخن ہے۔جس کے پہلے دو مِصرے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ غزل کے لیے پہلے ریختہ لفظ استعمال میں تھا۔( امیر خسروؒ نے موسیقی کی راگ کو ریختہ نام دیا تھا) ادب کے دیگر اصناف ادب اور فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین ذریعہ اظہار بھی ہے۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے۔ غزل کا سانچا چھوٹا ہوتا ہے اسی لیے جذبے یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ اس لیے رمز، ایما ،تمثیل و استعارہ، پیکر آفرینی اور محاکات اُس کے فنی لوازم بن گئے ہیں۔ غزل متنوع موضوعات کا مرکب ہوتی ہے۔اس مقالہ کا بنیادی مقصد قدیم اور جدید غزل کی بدلتی ہئیت اور معنویت کی عکاسی کرنا ہے۔ ہیئت سے مراد ‘انداز و بیاں کی وہ صورت جو فنی اور تکنیکی خصوصیات کے سبب شعری تخلیق کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ہم نےموضوع کے تحت اُردوغزل کے آغاز کا جائزہ تاریخی پس منظرمیں لیا ہے۔ اس صنف کی ہئیت کو مستند اشعار کوثبوت میں پیش کیا ہے۔ تاکہ عنوان کی صحیح معنویت کی وضاحت ہو سکے۔ غزل قصیدے کا جزو تھی، جس کو ’’تشبیب‘‘ کہتے ہیں۔ پھر وہ الگ سے ایک صنفِ شعر بن کرقصیدے کے فارمیٹ میں تبدیل ہو گئی۔ فنی اعتبار سے بحر اور قافیہ ’’بیت‘‘ اور غزل کے لیے یکساں ہے۔اس مقالہ میں غزل کی بدلتی ہئیت کی داستان کو چار ادوار میں منقسم کیا گیاہے ۔پہلا دکنی غزل ۔ دوسرا اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک محیط ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے آخر تک ۔ تیسرا۱۸۵۷ء سے اقبال تک کا جائزہ لیا گیا ہےاور آخری میں اقبال کے بعد جدید دور تک کا احاطہ کیا گیاہے۔اس کے بعد ترقی پسند(۱۹۳۶ء تا۱۹۵۰ء) کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں غزل ہئیت اور معنویت دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئ۔ ترقی پسندوں نے بھی غزل کے متعلق اپنی اجدادی وراثت اور روایت سے بےشمار غلط سمجھوتے کیے۔ قدیم روایاتی علامات، استعاروں، تشبیوں، تلمیحات یا کتب وغیرہ کو غیر روایاتی معنیٰ اور ماہیم دینے کی کوشش کی۔ اس طرح قدیم روایت کے ملے جلے اثرات ترقی پسندوں کی روایت شکنی کے اعلانات کے باوجود جدید غزل میں شعوری اور غیر شعوری طور سے سرایت کرتے چلے گئے۔جدید تحقیق میں اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے ہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کے بغیر بہت سے صوفیائے کرام نے شاعری کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنایا لیکن غزل کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بہمنی سلطنت میں غزل کے نمونے بہت ہیں۔ لیکن گولکنڈہ کی سلطنت کے قطب شاہی اور عادل شاہی حکمران کی شعر و ادب سے دلچسپی کی وجہ سے اردو غزل بہت ترقی کی۔ مقالہ میں غزل کے بدلتی روایت کو نویں صدی کے اواخر میں فارسی غزل سے ترقی کر کے سترویں صدی میں اردو میں منتقل ہونے تک کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ فارسی سے اردو میں آئی تھی۔ اس لیے فارسی کے عصری معنویت اور تاثرات بھی اردو غزل میں کوبہ کو نظر آتے ہیں۔ابتدائی غزلوں میں ماسوائے عشق و محبت کے مضامین باندھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کیوں کہ خود غزل کے لغوی معنی بھی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا شبلی نے بھی غزل کو عشق و محبت کے جذبات کی تحریک سمجھا۔لیکن بعد حاؔلی نے مقدمہ شعر و شاعری میں غزل کے ہر مضمون کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کئے جارہے ہیں۔اس طرح کی بدلتی ہئیت کو اس کی مناسب معنویت کے ساتھ تحقیقی نقطہ نظر سے بیانیہ انداز میں تاریخی تحقیق کا طریقہ کار میں مقالہ قلم بند کیا گیاہے۔یہ مقالہ طلباء ٹیچر اور شعراء کو اردو غزل کی ہئیت اور مختصر تاریخ کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوگا۔ کلیدی الفاظ:اُردو غزل،تفہیمِ غزل، غزل کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت۔ تعارف: غزلولیت اردو شاعری کی آبرو ہے۔اگر چہ مختلف زمانوں میں شاعر کی بعض دوسری قسمیں بھی اردو میں بہت مقبول رہی ہیں۔ لیکن نہ تو ان کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکی نہ ہی اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکی۔ پھر بھی بیسویں صدی کے نصف میں اس صنف کے بہت مخالفین پیدا ہوئے لیکن مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ لفظ ’غزل‘ کے سنتےہی حواسِ خمشہ بیدار ہو جاتے ہیں۔یہ صنف ادب و سخن میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے، عام و خاص کی ابتدا د سے ہی دلچسپی کا ذریعہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے بھی اس مقام اعلیٰ ہے۔ عالمی سطح پر سیر و تفریح کرتی ہے۔ یہ ادب بھی ہے اسٹیج بھی ہے۔جذبات و احساسات کا سمندر بھی ہے۔ ناگن سی ناچتی مستی شراب کی لزت بھی اسی میں ہے۔ قوموں ‘ملکوں کے فاصلے مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔میر و غالب ہوئے ‘ حالی درد بیدل اقبال ہوئے یا پھر جگر مومن اور درد آتش ہوئے۔ حسرت اس صنف سے فیضیاب ہوئے تو جرأت نے ایسی داغ بیل ڈالی کے سب ذوق اس کے آگے فانی ہوئے۔ ناطق اپنے جوش وجگر سے بے نظیر ہوئے۔ شاد فرازا و رفراق نے شوق سے غزل کےآرزو مند ہوئے۔ ندا سے اس کی ہر کوئی سر شار ہوئے۔دکن میں قطب، خواجہ ، شوقی، عادل ،نصرتی، میرا ں،غواصی،وجہی سب اس کے جاں نثار ہوئے۔ وہیں ان کے نقش قدم پر وؔلی ، سراج اور صفی بھی متوجہ ہوئے ۔ شمال میں شاہ حاتم ، آبرو، مظہر نے لطف اور مجاز سے کوئی بہادر ہوئے کوئی ظفر ہوئے۔ ایہام گوئی کے آبرو، ناجی، مضمون، یکرنگ، سجاد، یقین، میری ، مرزا سودا، خواجہ میر درد، قائم چاندپوری، میر سوز اس صنف کے عاشق ہوئے۔ دبستان لکھنو میں جرأت،انشاء،مصحفی،رنگین،نسیم ، آتش، ناسخ،تلامذہ اور انیسؔ نے غزل گو ئی کو اپنا خون و جگر دیا۔ وہیں ناؔصر ، ناسخ، نصرتی نے بڑی آرزؤں ‘ آزادخیالی سے اس کے مجروع ہوئے۔اس طرح سے غزال کو غزل بنانے میں ہر کوئی اپنے اپنے وہت کے ساتھ اس فن کو فروغ دیتے رہے ۔لیکن روایتی طور پر سب اپنی دکھ اور درد کو ہلکا کرنے کا ذریعہ غزل کو ہی تصور کر رکھا تھا ۔ اس کے برعکس مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے روایت کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس میں انہوں نے عورتوں سے بات کرنے کے بجائے سماج کی باتیں کرڈالی۔خاص طور پر مسدس، مدوجزر اسلام لکھ کر انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی سمت دی اور نئے امکان سے روشناس کیا۔انہیں کی وجہ سے اردو غزل میں نئے رنگ و آہنگ پید اکیا۔ حالاں کہ ان کی غزلیات کا دیوان مختصر ہے لیکن تمام تر منتخبہ ہے۔ثبوت میں ان کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:بُری اور بھلی سب گذرجائے گی؛یہ کشتی یوں ہی پار اُتر جائےگیملے گا نہ گُلچیں کر گُل پَتا؛ہر ایک پنکھڑی یوں بکھر جائےگیرہیں گے نہ ملّا یہ دِن سَدا؛کوئی دن میں گنگا اُتر جائے گیبناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ؛یہ عزّت تو جائے گی پر جائےگیسنیں گے نہ حاؔلی کی کب تکصدا یہی ایک دِن کام کر جائےگیحالی ؔ کی غزل پیش کرنےکا مقصد یہ ہے کہ پچھلی صدیوں سے چلی آرہی روایت سے ہٹ کر غزل گوئی کے ذریعہ اصلاحی معاشرہ کے کام کس طرح لینا ہے یہ ہم حالی سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اس غزل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے شعر میں’ میرے احساسات اور میرے جذبات کو سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس دنیا میں کوئی میرا محرم یا رازداں نہیں ہے۔ میری زباں حال کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ میں اس بھری دنیا میں تنہا ہوں۔ دوسرے شعر میں ان کا خیال ہے شاعر خود کو ایک ایسے طاکر سے تشبیہ دیتا ہے جسے چمن سے جد کر کے قفس میں بند کر دیا گیا ہے۔ وہ کوشش کرتاہے کہ کس طرح قفس میں جی بہل جائےکیوں کہ اب ایسی زندگی گزارنی ہے۔ لیکن آشیاں کی یاد اُسے بے چین رکھتی ہے۔شاعر یاس کے عالم میں کہتا ہے کہ کوئی میرے آشیاں کو آگ لگادے۔ مجھے یقین ہوجائے گا کہ آشیاں جل چکا ہے تو پھر قفس کی زندگی چین سے گزرےگی۔ شاعر تیسرے شعر میں کہتاہے محبوب ‘ شاعر اشارے کنایہ میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو رقیب اور بو الہوس حسد کرتے ہیں۔ شاعر ایک پُر لطف طنز کے ساتھ کہتا ہے کہ ان معمولی اشاراتِ نہاں میں کیا رکھاہے۔ بوالہوس بھی چاہیں تو اس قسم کی اشارہ بازی کرلیں ۔ مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔چوتھے شعر میں شاعر کہتا ہے میری داستانِ غم بڑی طویل ہے۔ جب سناؤں تفصیلات ذہن میں آتی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ہر وقت ایک نئے عنوان کی کہانی سنارہا ہوں۔ کیا کیا جائے ۔ محبوب کے ظلم و ستم کی داستان میں اتنا تنوع ہے کہ میری داستان ہر وقت نئی کہانی معلوم ہوتی ہے۔پانچویں شعر میں شاعر کہاتا ہے۔ خدانے مجھے ایک درمند دل عطاکیا ہے۔جس میں اپنے اور انسانیت کے دُکھ درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ یہ پُر درد دِل سیری زندگی کا بڑا سرمایہ ہے ۔ اس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں ہمیشہ ایک ہیجان کارفرما ہوتا ہے ۔ خدانے مجھے فرصت دی تو میں اپنے دل درد مند سے کچھ کام لوں گا۔ اور انسانیت کے دُکھ اور آلام کو منظرِعام پر لاؤں گا۔شاعر غزل کے آخری شعر میں لکھتا ہے ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ابھی دنیا میں ایسے پاکیزہ فطرت انسان موجود ہیں۔ پہلی نظر میں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کسی انسان کی سیرت اور شخصیت میں کیا باتیں چُھپی ہوئی ہیں۔ لیکن قریب سے دیکھنے اور ملنے کا موقع ہوتو کِسی غیر معمولی اور قابلِ قدر انسان کا جوہر ہم پر کُھل جاتا ہے۔شاعر نے اس غز ل کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ غزل صرف فحش یا لغو باتیں کرنے کا ہنر نہیں ہے نہ ہی عورتوں کے جسم کی ہرہر حرکت پر غورو خوص کا کام ہے۔ اس مختصر تعارف کے راقم نے مقالہ کے بنیادی مقصد کا احاطہ کچھ اس طرح کیاہے۔ غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول اور سب سے جاندار صنف ہے۔ دوسری تمام شعری اصناف مختلف ادوار میں عروج و زوال کی دھوپ چھاؤں سے دو چار ہوئیں لیکن غزل کے آنگن میں ہمیشہ دھوپ ہی دھوپ کھلی رہی۔ غزل حقیقتاً ’’ اردو شاعری کی آبرو‘‘ ہے۔ غزل صنفِ سخن ہی نہیں معیارِ سخن بھی ہے۔‘‘لفظ غزل کا ادبی مطلب محبوب سے گفتگو ہے۔تاریخ کی رو سے یہ عربی لفظ غزل سے بنا ہے۔ جس کے معنیٰ ہرن کے ہیں ۔جو عام فہم زبان میں غزل ایک ایسی پابند منظوم صنف ہے۔ جس میں سات۔نویا درجن بھر یکساں وزن اور بحر کے جملوں کے جوڑے ہوں۔ اس کا آغاز جس جوڑے سے ہوتا ہے وہ مطلع کہلاتا ہے اور اختتام کےجوڑے کو مقطع کہتے ہیں۔ جس میں شاعر اپنا تخلص یا نام استعمال کرتا ہے۔غزل کے شعر میں ہر جوڑے ہر انفرادی جملے کا یکساں دراز ہونا لازمی ہوتا ہے۔پابند جملوں کے یہ جوڑے شعر کہلاتے ہیں.اردو میں شعر کی جمع اشعار کہلاتی ہے۔غزل کے بنیادی نظریہ اور تعریف کے مطابق اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک آزاد اور مکمل منظوم معنیٰ رکھتا ہے۔کسی بھی شعرکا خیال اگلے شعر میں تسلسل ضروری نہیں ہوتا۔ایک غزل کے اشعار کے درمیان مرکزی یکسانیت کچھ الفاظ کے صوتی تاثر یا چند الفاظ کا ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں تکرار سے ہوتا ہے۔اس سے ہٹ کر بھی کسی غزل کے ایک سے زیادہ اشعار کسی ایک ہی خیال کو مرکزی ظاہر کر سکتے ہیں۔لیکن ہر شعر اپنی جگہ منظوم قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔جن غزلوں میں ایک سے زائد اشعار ایک ہی مرکزی خیال کےلئے ہوتے ہیں ان کو نظم یا نظم نما غزل بھی کہا جا سکتا ہے۔1.1غزل کا فن:اردو میں لفظ نظم کا واضح مطلب جملوں کے اختتام پر وزن اور صوتی اثر کا مساوی ہونا ہے۔غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں آخری ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین الفاظ پوری غزل کا توازن برقرار رکھتے ہیں ۔ غزل کے مطلع کا پہلہ مصرعہ بھی انہی الفاظ پر ختم ہونا چاہیے۔اسے غزل کا ردیف کہتے ہیں ردیف سے پہلے کا لفظ منظوم ہونا ضروری ہے۔علامہ اخلاق حُسین دہلوی نے اپنی تصنیف ’فن شاعری‘ میں ردیف سے متعلق کہا ہے’’ ردیف کے بدلنے سے قافیے کی حیثیت بدل جاتی ہے اور ایک ہی قافیہ کئی طریق سے بندھ ہو سکتا ہے جس سے مضامین وسعت اور ارنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔ ردیف جتنی خوشگوار اور اچھوتی ہوتی ہے اتناہی ترنم اور موسیقی میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘قافیہ ہی غزل کی بنیادی ضرورت ہے۔ قافیہ غزل میں اس مقام پر آتا ہے جہاں موسیقی میں طبلے کی تھاپ دونوں میں تاخر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ ردیف اور قافیہ دونوں بحر کی موج پر اُبھر تے ہیں۔ بحرکا انتخاب غزل گو شعوری طور پر نہیں کرتا، یہ جذبہ اور کیفیت سے متعین ہوتی ہے۔غزل کا پہلا مصرع جذبے یا کیفیت کے ساتھ خود بخود ذہن سے گنگنا تا ہوا نکلتا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بحر معین ہو چکی ہے، قافیہ بھی معین ہو چکا ہے ، اور اگر ردیف ہے تو وہ بھی غزل کی ہئیت کا اس کے اسلوب پر بھی اثر پڑتا ہے۔ غزل کا اسلوب ایجازو اختصادر رمز و کنایہ‘مجاز، تمثیل، استعارہ و تشبیہ سے مرکب ہے اس لیے اس میں وہ تمام خوبیاں اور خامیاں ملتی ہیں جو سخنِ مختصر کی خصوصیات ہیں۔ غزل بنیادی طور پر ایک انفرادی فنکار انہ عمل ہے۔ لیکن اس کے جذبات کی عمومیت مسلّم ہے جو سرشت انسانی کی وحدت اور جبّلتوں کی یکسائی پر مبنی ہے۔ اور یہ عُمومیت ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔غزل کے فن سے متعلق اختر سعید خاں کا خیال ہے’’ غزل کا فن نرم آنچ سے جلاپاتا ہے‘ بھڑکتے ہوئے شعلوں سے نہیں۔ قدیم غزل ہو یا جدید اس کی اپنی ایک تہذیب ہے۔ وہ اشاروں اور کنایوں میں بات کرتی ہے‘اونچی آواز میں نہیں بولتی ‘اس ک اکمال گویائی برہنہ حرفی نہیں ‘پیام زیرلبی ہے۔ غزل کا فن نہ سینہ کوبی ہے نہ قہقہہ لگانا۔ وہ ایک آنسو ہے پلکوں پر ٹھہراہوا‘ایک تبسم ہونٹوں پر پھیلا ہوا۔ کبھی اس کے تبسم میں اشکوں کی نمی ہوتی ہے اور کبھی اشکوں میں تبسم کی جھلک۔‘‘غزل کے فن سے متعلق لکھا ہے’’ غزل کا فن دراصل رمزیت اور ایمائیت کا فن ہے۔ دیگر اصنافِ سخن کے مقبلہ میں غزل اپنے فن کی اسی جاذبیت کی وجہ سے ممتاز رہی ہے۔ غزل کی تبدیلیوں سے متعلق حامد کا شمیری نے اپنی تصنیف’ اردو تنقید (منتخب مقالات‘ میں الطاف حسین حالی کے نظریات پیش کیے ہیں۔ جس میں سب سے پہلے تخّیل کا ذکر ہے جس میں سب مقدّم اور ضروری چیزہے۔ جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے۔ اس کے بعد تخّیل کی تعریف کے تحت تخیل یا امیج نیشن کی تعریف کرنی بھی ایسی ہی مشکل ہے ۔جیسے کہ شعر کی تعریف اور اس کی وضاحت کی ہے۔ دوسری شرط کائنات کا مطالعہ بتا ہے ۔ جس میں اگر قوتِ متخیلہ اس حالت میں بھی جب کی شاعری کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہوا سی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتے ہیں۔لیکن شاعری میں کمال فطرتِ انسانی کا ’مطالعہ‘ نہایت غور سے کیا جائے۔ تیسری شرط تلفظ الفاظ کی بیان کی گئی ہے۔ جس میں کائنات کے مطالعہ کی عادت ڈالنے کے بعد دوسرا نہایت ضروری مطالعہ یا تفحص ان الفاظ کا ہے جن کے ذریعہ سے خاطب کو اپنے خیالات مخاطب کے روبرو پیش کرنے ہیں۔دوسرا مطالعہ بھی ویا ہی ضروری اور اہم جیسا کہ پہلا۔ان اصولوں سے متعلق چند ضروری باتیں ہیں جن کا خیال رکھانا چاہیے۔ ’’ شعر کے وقت ضروری ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اوّل خیالات کو صبر و تحّمل کے ساتھ الفاظ کا لباس پہنانا پھر ان کو جانچنا اور تولنا اور ادائے معنی کے لحاط سے ان میں جو قصور رہ جائے اس کو رفع کرنا۔ الفاظ کو ایسی ترتیب سے منظم کرنا کہ صورۃ اگر چہ نثر سے متمیز ہو مگر معنی اسی قدر ادا کرے جیسے کہ نثر میں ادا ہو سکتے۔ شاعر بشر طیکہ شاعر ہو اول تو وہ ان باتوں کا لحاظ وقت پر ضرورکرتا ہے اور اگر کسی وجہ سے بالفعل اس کو زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر جب کبھی وہ اپنے کلام کو اطمینان کے وقت دیکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اثر بڑے بڑے شاعروں کا کلام مختلف نسخوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔‘‘ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے مشرقی میں المیہ کی معنویت کی وضاحت غزل کی روح سے کیا ہے۔کیوں کے غزل کے جذبہٗ غم کو مغربی ادب کی ٹریجیڈی (المیہ) کے مساوی قراردیا ہے۔کیوں کہ لفظ غزل کے ایک معنی اس دل گداز چیخ کے ہیں جو شکاری کے طویل تعاقب، اس کے خوف اور تھکن سے گرپڑنے والے ہرن کے حلق سے نکلتی ہے۔ جس کی تاثیر سے شکاری کتا ہرن کو پاکر بھی اس سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ گویا خُز نیہ لَے اور المیہ غزل کی ہئیت ترکیبی میں شامل ہے۔ غزل کے تمام بڑے اور قابلِ ذکر شاعروں نے کسی نہ کسی رنگ میں المیہ احساسات کی ترجمانی ضروری کی ہے۔اگر چہ ایسی غزلوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوگی ، جنہوں کلی طور پر المیہ کہا جاسکے(مولانا روم کا دیوان شمس تبریز اس سے مستثنیٰ ہے۔ جس کی زیادہ تر غزلیں حزنیہ اور المیہ ہیں) کلی طور پر ’ طربیہ غزل‘ بھی شاید ہی کسی بڑے غزل گو کافنی مطمح نظر رہا ہے۔غزل کے شاعر کو روایتاً ہی سہی غم کا بیان ضرور کرنا پڑ تا ہے۔ اسی لیے رنج و الم کے جذبات و احساسات کو جو نسبت صنف غزل سے ہے کسی اور صنف شاعری سے نہیں۔ اردو غزل کا فکری و فنی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزل میں المیہ مواد اور الم پسندی کی طویل روایت کے چار نمایاں اسباب ہیں۔ہیئتی توارث فارسی غزل کی فکری ،جذباتی اور جمالیات تشکیل کے تاریخی اسباب تصوف کی روایت کے حزنیہ عناصر اُردو غزل اور اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظرعربی لفظ غزل کے معنی عورتوں سے حسن و عشق کی باتیں کرنا ہے۔ On انیسویں صدی کی اردو غزل پر ایک نوٹ تحریر کیجئے۔ بناوٹ کے لحاظ سے فعل کی اقسامبناوٹ کے لحاظ سے فعل کی درج ذیل چار اقسام ہیں۔فعل لازم اس فعل کو کہتے ہیں جو صرف فاعل کے ساتھ مل کر جملہ مکمل کر دے۔ جیسے عمران جاگا، طارق سویا، خرگوش دوڑا، سلمان بیٹھا، بچہ رویا، عرفان آیا وغیرہ اِن جملوں میں جاگا، سویا، دوڑا، بیٹھا، رویا اور آیا فعل لازم ہیں۔ فعل متعدی اس فعل کو کہتے ہیں جس کو پورا کرنے کے لیے فاعل کے علاوہ مفعول کی بھی ضرورت ہو جیسے سارہ نے نماز پڑھی، حامد نے خط لکھا، عمران نے کھانا کھایا، انیلا نے دودھ پیا، عرفان نے کتاب خریدی، اِن جملوں میں پڑھی، لکھا، کھایا، پیا، خریدی، فعل متعدی ہیں۔ فعل مثبت مثبت وہ فعل ہوتا ہے جس میں کسی فعل (کام) کے کرنے یا ہونے کا ذکرہوا ہو۔ مثبت کے معنی جمع کے ہوتے ہیں۔ جیسے حنا نے نماز پڑھی، عرفان اسکول گیا، عمران نے سیر کی، سیما نے خط لکھا، وغیرہ فعل منفی اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی فعل (کام) کے نہ کرنے یا نہ ہونے کا کا ذکر ہو۔ منفی کے معنی تفریق یا نفی کے ہوتے ہیں۔ جیسے حنا نے نماز نہیں پڑھی، عرفان اسکول نہیں گیا، عمران نے سیر نہیں کی، سیما نے خط نہیں لکھا، وغیرہ۔فعل لازمفعل لازم اس فعل کو کہتے ہیں جو صرف فاعل کے ساتھ مل کر جملہ مکمل کر دے۔یافعل لازم وہ فعل ہوتا ہے جو صرف فاعل کے ساتھ مل کر بات مکمل کر دے۔مثالیںعمران جاگا، طارق سویا، خرگوش دوڑا، سلمان بیٹھا، بچہ رویا، عرفان آیا وغیرہ اِن جملوں میں جاگا، سویا، دوڑا، بیٹھا، رویا اور آیا فعل لازم ہیں۔نوٹتمام فعل لازم ہمیشہ لازم مصادر سے بنتے ہیں جیسے جاگا، سویا، دوڑا، بیٹھا، رویا، آیا کے فعل لازم بالترتیب جاگنا، سونا، دوڑنا، بیٹھنا، رونا اورآنا لازم مصادر سے بنے ہیں۔فعل متعدیفعل متعدی اس فعل کو کہتے ہیں جس کو پورا کرنے کے لیے فاعل کے علاوہ مفعول کی بھی ضرورت ہویاایسا فعل جو مکمل ہونے کے لیے فاعل کے علاوہ مفعول کی بھی ضرورت محسوس کرے اسے فعل متعدی کہتے ہیں۔مثالیںسارہ نے نماز پڑھی، حامد نے خط لکھا، عمران نے کھانا کھایا، انیلا نے دودھ پیا، عرفان نے کتاب خریدی، اِن جملوں میں پڑھی، لکھا، کھایا، پیا، خریدی، فعل متعدی ہیں۔(نوٹ)تمام فعل متعدی مصادر سے بنتے ہیں جیسے خریدی، لکھا اورسویا بالترتیب خریدنا، لکھنا اور سونا مصادر متعدی سے بنے ہیں۔فعل معروف اور فعل مجہولفعل معروف اور فعل مجہولفعل معروف کا مفہومایسا فعل جس کا فاعل معلوم ہو اسے فعل معروف کہا جاتا ہے۔ معروف کے معنی مشہور یا جانا پہچانا کے ہیں روز مرہ زندگی میں بات کرنے کے معمول کے انداز کو فعل معروف کہتے ہیں۔مثالیںشاہدہ نمازپڑھتی ہے، عمران نےآم کھایا، عمران کتاب لائے گا، اِن جملوں میں پڑھتی ہے، کھایا اورلائے گا فعل معروف ہیں۔فعل مجہول کا مفہومایسا فعل جس کا فاعل معلوم نہ ہو اسے فعل مجہول کہا جاتا ہے۔ مجہول کے معنی ہیں نامعلوم یا ایسی بات جس میں جھول پایا جاتا ہویا بات کرنے کے غیر معروف انداز کو فعل مجہول کہتے ہیں۔مثالیںنمازپڑھی جاتی ہے، آم کھایا گیا، کتاب لائی جائے گی، اِن جملوں میں پڑھی جاتی ہے، کھایا گیا اورلائی جائے گی فعل مجہول ہیں۔فعل تامآخر میں آنے والے فعل کو فعل تام کہتے ہیںمثال۔۔ جیسے سلیم نے نماز پڑھی اس جملے میں پڑھی فعل تام ہے۔3۔ فعل ناقصفعل ناقص وہ فعل ہوتا ہے جو کسی کام کے پورا ہونے کو ظاہر نہیں کرتا ہے۔مثالیںاسلم بیما رہے، اکرم دانا تھا، عرفان بہت چالاک نکلا، چاند طلوع ہوا اِن جملوں میں ہے، تھا، نکلا اور ہوا ایسے فعل ہیں جن سے پڑھنے، لکھنے اور کھانے پینے کی طرح کسی کام کے کیے جانے یا ہونے کا تصور نہیں ملتا۔چند افعال ناقصپے، ہیں، تھا، تھے، تھیں، ہوا، ہوگا، ہوئے، ہوں گے، ہو گیا، ہو گئے، بن گیا، بن گئے نکلا، نکلے اور نکلی وغیرہ۔ On بناوٹ کے لحاظ سے فعل کی کتنی قسمیں ہیں مثالوں سے واضح کریں۔ ڈراما یا ڈراما نگاری اردو ادب کی ایک باقاعدہ صنف ہے۔ بنیادی طور پر ڈراما کیا ہے؟ ڈراما کی تعریف یہ ہے کہ ڈراما کسی قصے یا واقعے کو اداکاروں کے ذریعے ناظرین کے رو برو عملاً پیش کرنے کا نام ہے۔ بنیادی طور پر ڈراما المیہ یا ٹریجڈی دو قسم کا ہوتا ہے۔مگر اس کے علاوہ ڈریم، میلو ڈراما،فارس اور اوپیرا وغیرہ بھی ڈرامے کی اقسام ہیں۔ڈرامے کے اجزائے ترکیبی کو دیکھا جائے تو یہ درج ذیل ہیں۔پلاٹ،کرادر،مکالمہ،زبان،موسیقی اور آرائش وغیرہ یہ فنی لوازم ڈرامے کے وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن کا ڈرامے میں ہونا ضروری ہے کہ ان میں سے اگر ایک کی بھی کمی ہو تو ڈراما مکمل شکل اختیار نہیں کر سکتا ہے۔پلاٹ کے ذریعے ڈرامے میں واقعات کی عملی پیش کش کی جاتی ہے۔پلاٹ کے ذریعے ہی کہانی میں منطقی ربط و تسلسل قائم ہوتا ہے۔جس سے کہانی میں ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔ایک اچھے ڈرامے میں پلاٹ کا ایجاز و اختصار اس کی خوبی ہے۔پلاٹ میں واقعات کو یوں ترتیب دیا جاتا ہے کہ واقعات پورے تسلسل کے ساتھ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔پلاٹ کے ساتھ کردار بھی ڈرامے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ کرداروں کے ذریعے ہی ڈراما نگار اپنے ڈرامے کو ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہے۔اس لیے ڈراما نگار کو ایسے کردار تخلیق کرنے چاہیے جو کہانی میں کرادر کی اصل نفسیات اور اس کی داخلی و خارجی کیفیات کی عکاسی کو ممکن بنا سکیں۔ڈرامے میں یہ کرادر کہانی میں اصل کا رنگ بھرتے ہوئے اور جیتے جاگتے نظر آئیں۔کرداروں کی طرح مکالمہ بھی کسی ڈرامے کا اہم حصہ ہے۔مکالمہ کرداروں اور سامعین کے درمیان رابطے کی کڑی ہوتا ہے۔ کوئی بھی کرادر اپنے جذبات و احساسات کی رسائی دیکھنے والے تک اپنے مکالمات کے ذریعے ہی ممکن بنا سکتا ہے۔اس لیے مکالمے کردار کی ذہنی سطح، فطرت اور معاشرت کے عکاس ہونا چاہیے۔ مکالمہ کا کہانی کے موقع محل کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔ڈرامے کی زبان سیدھی ،صاف اور آسان ہونی چاہئے کہ ہر طبقے کے فرد تک اس کی رسائی باآسانی ممکن ہو سکے۔ڈرامے کے دیگر لوازمات میں موسیقی اورآ رائش کا ہونا بھی ضروری ہے جو ڈرامے کو پر تاثیر اور خوبصورت بنانے میں اہم کرادر ادا کرتے ہیں۔ On ڈرامے کی تعریف اور اجزائے ترکیبی کی وضاحت کیجئے۔ خلق کی جمع ہے اخلاق On خلق کی جمع کیا ہے؟ ناول:ناول مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔ اس کے معنی نیا، انوکھا، عجیب اور نمایاں کے ہیں۔یہ ایک نثری کہانی ہوتی ہے جو کسی ایک انسان کی تمام زندگی پر محیط ہوتی ہے۔داستان:اسے اردو نثر کی اولین صنف قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹی کہانی یا من گھڑت قصہ ہوتی ہے۔ داستان وہ طویل کہانی ہے جو حقیقی زندگی کے بجائے محیرالعقول واقعات سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی کہانی میں مافوق الفطرت واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ داستان میں چونکہ حواس کے اعتبار میں آنے والے واقعات نہیں ہوتے، اس لیے دلچسپی اور تجسس داستان کے اہم اجزا ہیں۔ On ناول اور داستان میں بنیادی فرق کیا ہے؟ منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ انھوں نے نواب رائے کے نام سے کچھ افسانے لکھے، پھر 1910 ء میں پریم چند نام اختیار کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ وہ بنارس کے قریب ایک گاؤں ہی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدمنشی عجائب لال ڈاک کے محکمہ میں کلرک تھے۔پریم چند آٹھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ پندرہ سال کے ہوئے تو ان کے باپ نے ان کی شادی کر دی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں انٹر پاس کرنے کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دینی پڑی۔انھوں نے محکمہ تعلیم میں نوکری کر لی۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے حق بات کے اظہار میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو ملازمت ترک کر کے ساری زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں میں صرف کر دی۔پریم چند نے تقریبا ساڑھے تین سو افسانے اور بارہ ناول لکھے۔انھیں اردو افسانے کا موجد نہیں تو پہلا بڑا افسانہ نگار ضرور کہا جاسکتا ہے اور اکثر لوگوں کے خیال میں وہ اردو کے سب سےبڑے افسانہ نگار بھی ہیں۔ انھوں نے مختصر افسانے کو ایک معیار عطا کیا۔ ان کے افسانے اور ناول اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ان کے مجموعوں میں واردات ، پریم پچیسی، پریم بتیسی، ، آخری تحفہ،نجات اور زادراہ قابل ذکر ہیں اور ان کے ناولوں میں چوگان ہستی، میدان عمل ،بیوہ،بازار حسن اور گئودان ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔پریم چند کے ناول اور افسانے بے مثل حقیقت نگاری کا نمونہ ہیں۔ ان کے افسانوں کا پس منظر مشرقی یوپی کا دیہات ہے۔ ہندوستانی کسان اپنی پوری شخصیت کے ساتھ پریم چند کی تصانیف میں نظر آ تا ہے۔ پریم چند کی نثر سادہ اور آسان ہے۔ اپنے انداز بیان سے انھوں نے افسانوں کو بہت پر لطف بنا دیا۔ On Short Biography of Premchand In Urdu (سمیہ بشیر،ریسرچ اسکالر)مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی، حیدرآبادپریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے واستو ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں وہ 31 جولائی 1880 میں پیدا ہوئے اور 8 اکتوبر 1936 میں 56 برس کی عمر میں بنارس ہی میں انتقال کر گئے۔افسانہ،حقیقت کی ایک فنی اور شاعرانہ شکل ہے۔زندگی کا کوئی واقعہ بغیر فن کی آمیزش اور تخیل کے عمل کے افسانہ نہیں بنتا۔افسانہ نگار زندگی کے کسی سچے واقعے میں کبھی مکالمہ،کبھی کوئی منظر یاکبھی کوئی خود ساختہ کردار اپنی طرف سے شامل کرکے اسے شاعرانہ حقیقت میں بدل دیتاہے اور اس طرح کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی ایک سچی زندگی سے ایک دوسری زندگی کی تعمیر ہوتی ہے۔پریم چند کے افسانوں میں بھی ہمیں اسی سچی زندگی کی تعمیر نظر آتی ہے۔ان کے افسانوں کی فضا ہمیں بہت مانوس نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے افسانوں کا پلاٹ ہمارے معاشرے کے گوناگوں پہلووں سے اخذ کیا ہے۔ ان افسانوں میں دیہاتی زندگی ہنستی بولتی اور سسکتی بلبلاتی نظر آتی ہے۔ گاؤں کے تو ہم پرست ،جاہل مرد، عورت، مغرور، چودھری، کنجوس،بنیٔے، رشوت خور، نمبردار وغیرہ اپنی ذہنی و نفسیاتی کیفیات و خصو صیات کے ساتھ ان افسانوں میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ مقدمہ بازی، مارپیٹ، عصمت فروشی، جہیز کی لعنت، بیوہ عورتوں پر توڑے جانے والے مظالم جیسے کتنے ہی سنگین مسائل حقیقت کے ساتھ ان افسانوں میں اُجاگر ہوئے ہیں۔پریم چندنے اپنے افسانوں میں بہت سے کردار پیش کئے جو حقیقت سے بہت قریب نظر آتے ہیں یہ کردار تخیل کی دنیا کے نہ ہو کر حقیقی زندگی کے جیتے جاگتے کرداریا تصویریں ہیں۔ یہ کردار مصنف کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بلکہ کہانی میں پیش آنے والے واقعات کے مطابق ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہ کردار جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں پریم چند کی زندگی کا بڑا حصہ اسی کے درمیان گزرا تھا اور انہوں نے اس طبقے کے افراد کی نفسیات کا گہرا مشاہدہ کیا تھا لہٰذا انہوں نے ان کرداروں کی جو تصویر پیش کی ہے وہ سچی اور حقیقت سے قریب تر ہے۔ امیر، غریب۔ مہاجن، وکیل، کسان، پٹواری اور زمیندار کی جو تصویریں پریم چند نے پیش کی ہیں وہ پریم چند کے گہرے مشاہدے اور حقیقت پسندی کی وجہ سے زندگی کی حرارت سے معمور نظر آتی ہے۔پریم چند کی حقیقت نگاری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے عورتوں، خاص طور پر بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کرنے پر نہ زور دیا بلکہ خود بھی دوسری شادی کرکے ایک مثال پیش کی۔ اس بات کی مثال ہمیں افسانہــ’’بدنصیب ماں‘‘ میں ملتی ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے عورت کی بے کسی، بے بسی، مجبوری اور لا چاری کو موضوع بنا کر اس حقیقت کو پیش کیا ہےکہ کس طرح سے شوہر کے مرنے کے بعد چاروں بیٹوں کا سلوک اپنی ماں کی جانب پھر جاتا ہے اور وہ ہر چیز پر قابض ہو جاتے ہیں۔ پریم چند نے روایت سے بغاوت کی اور نہایت ہی جرأت سے کام لیا۔ پریم چند کے ایک ہم عصر علامہ راشد الخیر کی تخلیقات بھی بڑی آگہی اور سماجی شعور کے ساتھ منظر عام پر آئی ہیں۔ انھوں نے بھی اُن ہی موضوعات کا انتخاب کیا جن کا پریم چند نے کیا تھا۔ انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے عورتوں کی اصلاح و ترقی کی کوشش کی۔ عورتوں کی زبوںحالی اور اُن کے دُکھ درد کو اپنے قلم سے پیش کیا۔ مسلم گھرانوں میں غلط رسم و رواج، رسومات پر تنقید کی۔ جب کہ پریم چند نے ملک کے مذاہب وہ ہندوں ہو یا مسلم دونوں کو اپنے کرداروں میں ڈھال کرتنقید کی ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے منشی پریم چند نے اپنا یہ فرض سمجھا کہ غریب محنت کش انسانوں کے دُکھ درد کو پیش کریں۔ پریم چند نے اس حوالے سے بہت سے افسانے لکھے وہ کسان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی کسان جو شہری زندگی کے لئے عیش و آرام کی دنیا فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس وہی شہری ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ پریم چند نے ’’بے غرض محسن‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا،جس میں اس کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے یہ اقتباس ملاخط ہو:’’تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور ڈنڈون کرکے زمین پر بیٹھ گیانذر نہ نیاز۔اس کی یہ گستاخی دیکھ کرہیرامن کو بخار چڑھ آیا۔ کڑک کر بولے:ابھی کسی زمیندار سے پالا نہیں پڑا ہے ایک ایک کی ہیکڑی پھلادوں گا۔۔۔۔تخت سنگھ نے ہیرامن کی طرف غور سے دیکھ کر جواب دیا۔میرے سامنے بیس زمیندار آئے اور چلے گئے مگر ابھی تک کسی نے اس طرح سے دھمکی نہیں دی۔یہ کہہ کر اس نے لاٹھی اُٹھائی اور اپنے گھر چلا آیا‘‘۔(بے غرض محسن)ایک اسامی اور زمیندار کے درمیان میں جو حد فاصل ہے وہ کتنا حقیقت پسندانہ ہے اگر ہیرامن کو زمیندارہونے کانشہ ہے تو تخت سنگھ کو اپنے عزت نفس کا پورا خیال ہے یہاں پریم چند نے حقیقت نگاری کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔پریم چند نے اپنے افسانوں کو حقیقت سے قریب کیا، انہوں نے عوامی زندگی کی ترجمانی، محنت کش طبقہ کے احساسات، جذبات اور ان کے مسائل کو پیش کیا۔ انھوں نے معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی تمام ممکنہ فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ان کا افسانہ ــ’’ کفن‘‘ ہے۔ ان کا یہ افسانہ ایک نئے طرز کی بے باک اور بے رحم حقیقت کا نمونہ ہے۔ اس میں پریم چند نے سماج کی بگڑتی ہوئی حالت، بے کسی کا عالم، غریبی اور مفلسی کی حالت اور انسانی زندگی کی بے قدری، غلامی اور مجبوری کے دور ہندوستان کے عوام کی بھر پور ترجمانی کی ہے اور وہ یہ دکھانا چا ہتے ہیں کہ استحصال اور ظلم و جبر کی قوتیں کس طرح انسان کو بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔پریم چندکی حقیقت نگاری کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے زندگی کو جیسا پایا کم و کاست ویسا ہی بیان کردیا۔ مثلاً وہ ہندوستانی دیہات کو جنت کا ٹکڑا بنا کر پیش کر سکتے تھے مگر پریم چند نے انھیں ویساہی دکھایا جیسے وہ اصلیت میں تھے۔ ان کی حقیقت نگاری ان کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اسی خصوصیت سے انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کر دیا افسانہ نگاری کے فن میں پریم چند نے جو شہرت حاصل کی وہ لوگوں کے حصے میں کم ہی آتی ہے۔ ان کے افسانے قومی، سیاسی اور سماجی رجھانات کے آئینہ دار ہیں۔پریم چند ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:ـ’’ افسانہ حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اس میں تخیلی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں ۔‘‘اور ایک خط میں بھی لکھا ہے :’’ میری قصّے اکثر کسی نہ کسی مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔‘‘ On پریم چند کے افسانوں میں حقیقت نگاری(ایک مختصر تعارف)۔ جواب:اصل نام : دھنپت رائے (کنبے کے لوگ نواب رائے بھی کہتے تھے۔)ادبی نام : پریم چندپیدائش : 1880ء لمہی گاؤں بنارس یوپیوفات : 1935ء بنارس یوپیپیشہ : ناول نگار، افسانہ نگار، انشائیہ نگاروالد : عجائب لال (ڈاک خانے میں منشی تھے)والدہ : آنندی دیویشریک حیات پریم چند : شورانی دیویپریم چند کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد 1899ء میں بنارس کے قریب چنار گڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ جولائی 1900ء میں اسکول میں ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ 1902ء میں تدریس کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد آلہ آباد کے ٹریننگ کالج میں داخلہ لے لیا اور اول درجہ سے امتحان پاس کیا۔اور 1904ء میں الہ آباد کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ اور 1920 ء میں سرکاری نوکری چھوڑ کر تصنیف و تالیف کو ہی معاش کا ذریعہ بنایا۔پریم چند کو مضامین لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ پریم چند کی پہلی تصنیف ایک ڈراما تھا جو انہوں نے 13 سال کی عمر میں لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا "ایک ماموں کا رومان” 1910ء تک یہ تصانیف نواب رائے کے نام سے چھپتی رہی۔ ہندی اور اردو ادب کے اس بے تاج بادشاہ نے 1936ء میں وفات پائی۔ بازار حسن، میدان عمل، بیوا، گودان ان کے مشہور ناول ہیں۔منشی پریم چند کی ناول نگاریاردو ناول کی سنگ بنیاد تو مولوی نذیر احمد کے مبارک ہاتھوں سے اسی دن رکھ دی گئی تھی جب انہوں نے 1869ء میں اپنی یادگار تصنیف مراۃالعروس مکمل کی تھی۔ لیکن اس عمارت کو اٹھانے اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخر کار پریم چند نے یہ کارنامہ انجام دیا۔پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں،مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔ پریم چند نے برطانوی سامراج کے مظالم، عورتوں اور دلتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو اپنا موضوع بنایا ہے۔پریم چند نے ایک درجن سے زیادہ ناول لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ناول "اسرار معابد” تھا۔ اس کے بعد پریم چند نے "ہم خرما وہم ثواب” ، "بیوہ” ، "بازار حسن” ، "نرملا” ، "غبن” ، "میدان عمل” اور "گؤدان” کے عنوان سے ناول لکھے۔گؤدان پریم چند کا آخری اور سب سے اہم ناول ہے۔ یہ ناول دیہات کی جیتی جاگتی زندگی،کسانوں کے مسائل اور مایوسیوں کا آئینہ ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں جو کردار پیش کیے ہیں وہ کردار نگاری کی بہترین مثالیں ہیں۔ پریم چند کی زبان بہت آسان ہے۔ پریم چند کے ناول ہمارے ادب کا اہم ذخیرہ ہے۔ On سوال: پریم چند کی مختصر حالات زندگی بیان کرتے ہوئے ان کی ناول نگاری کا جائزہ پیش کیجئے۔ جواب : پریم چند سے پہلے نزیر احمد، شرشار، شرر، سودا اردو ناول لکھ چکے تھے۔ لیکن اس عمارت کو اٹھانے اور بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے عظیم فنکار کی ضرورت تھی جو اس صنف میں جان ڈال دے۔ آخر کار پریم چند نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اور پلاٹ،کردار،مکالمہ،حقیقت نگاری غرض ناول کے ہر اجزائے ترکیبی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔پریم چند پلاٹ کی تیاری پر خاص توجہ دیتے تھے۔ وہ "پلاٹ کو ناول کی ریڑھ کی ہڈی” مانتے تھے۔ یہ نہ ہو تو ناول کی عمارت آٹھ ہی نہیں سکتی۔ اس لیے پریم چند ناول کے پلاٹ کو بڑے غوروفکر کے ساتھ تیار کرتے تھے۔پریم چند نے اپنے ناول کے کردار جیتے جاگتے لوگوں کو بنایا۔ مثلاً: ہوری، گوبر، سکینہ، امرت کانت یہ ایسے زندہ کردار ہیں جو رہ رہ کر ہمیں یاد آتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کے بارے میں صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ ان سے ملے ہیں۔ اور ساتھ رہے ہیں۔پریم چند نے جس مسلۂ کو پیش کرنا چاہا اس کو کردار نگاری سے نہیں بلکہ مکالمہ نگاری سے ہی پیش کر دیا۔ اور نصاب میں شامل سبق بیوہ کے مکالمے اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔پریم چند ایسے ناول نگار ہیں جنہوں نے خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔پریم چند نے خاص طور پر دیہاتی زندگی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ماحول حقیقی ہوتا ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں کسانوں، مزدوروں، محنت کش لوگوں اور سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ درد کی ترجمانی کی ہے۔اس طرح کی ناول نگاری سے پریم چند کا مقام و مرتبہ اردو ادب میں بلند بالا ہوا ہے۔ اور ان کا ناول بیوہ ایک شہکار ناول ہے۔ On سوال1: پریم چند کی ناول نگاری کی خوبیاں بیان کیجئے۔ پریم چند کا شمار اردو ادب کے اہم اور نمایاں ترین ناول نگاروں میں کیا جاتا ہے۔پریم چند نے اردو ادب کو بازار حسن،نرملا،بیوہ،گئودان،میدان عمل،سوز وطن اور غبن وغیرہ جیسے کئی شہرہ آفاق ناولوں سے نوازا ہے۔پریم چند کی ناول نگاری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے اپنی تحریروں کے ذریعے دیہی زندگی اور اس کے مسائل کی عکاسی کو ممکن بناتے ہوئے کسان کو بطور ہیرو کے پیش کیا۔ان کے ناولوں میں دیہات کی زندگی اور کسانوں پر ہونے والے مظالم،مہاجن و پروہت کی چیرہ دستیوں کے شکار کرداروں کا بیان ملتا ہے۔پریم چند کے ناولوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے معاشرے میں موجود سماجی ناانصافی اور نا برابری کو اپنے ناول میں باقاعدہ موضوع بنا کر پیش کیا۔خود ہندو ہونے کی بنیاد پر ہندوؤں کی معاشرتی نابرابری،چھوت چھات وغیرہ کے نظام سے گہری واقفیت کی بنا پر انھوں نے اس برائی کا اظہار کھل کر کیا۔ان کے ناولوں میں اخلاقیات کا گہرا درس بھی موجود ہے۔ان۔کے ناولوں کے موضوعات عورتوں اور بیواؤں کے حقوق بیان کررہے ہیں۔پریم چند کی ناول نگاری کی سب سے بڑی خصوصیت حقیقت نگاری ہے۔پریم چند نے جس حقیقت کی تصویر کشی کی ہے وہ کتابوں سے نہیں بلکہ اصل زندگی سے لی گئی ہے۔ان کے ناولوں کی کہانیاں ہندوستان کے غریب طبقے کے مسائل اور حالات کو بیان کرتی ہیں۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ پریم چند کے ناول سماجی حقیقت نگاری کے بہترین عکاس ہیں۔پریم چند کے ناولوں میں سادگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔وہ کہانی کو زندگی کے اصلی اور حقیقی انداز میں سیدھے سادھے انداز میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سادگی کا ہی وصف قاری کو ان کی تحریر کی جانب زیادہ متوجہ کرتا ہے۔ان کے ناولوں کی تحریر سادہ،بے تکلف اور فطری ہے ابتدا میں اس میں جو عربی یا فارسی کے الفاظ کا بیان ملتا تھا رفتہ رفتہ وہ خامی دور ہو کر ان کی تحریر رواں اور سلیس اردو میں بدل گئی۔پریم چند کے ناولوں میں پلاٹ نگاری پر خصوصی توجہ دکھا ئی دیتی ہے۔ان کے تمام ناولوں میں فن ناول نگاری کے مطالبات موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کمزور ناول بھی پلاٹ کے لحاظ سے اعلی نمونے کے ہیں۔پریم چند کے ناولوں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے تمام ناولوں کے کردار ان کی فنکارانہ مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ان کی تحریروں کے کردار جامد نہیں بلکہ خود کو حالات و واقعات کے مطابق ڈھالتے دکھائی دیتے ہیں وہ عام انسانوں میں سے ایسے کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں کہ قاری ایک بار بڑھ لے تو بمشکل ہی ان کرداروں کو بھلا پاتا ہے۔مجموعی طور پر پریم چند کی ناول نگاری میں سماجی حقیقت نگاری،پلاٹ کی پختگی،کردارنگاری اور موضوعات کی رنگا رنگی وغیرہ جیسی تمام صفات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ On پریم چند کی ناول نگاری کی خصوصیات پر ایک تنقیدی مضمون لکھیے۔ الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے اور ان کی ابتدائی تعلیم وطن میں ہی ہوئی۔ بعد میں دہلی چلے گئے۔ آپ اردو کے ادبی نظریہ ساز نکات، سوانح نگار اور صاحب طرز انشا پرداز ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کو نئی راہوں پر ڈالا اور غزل اور قصیدے کی خامیوں کو واضح کیا۔ان کی غزلیں اور نظمیں لطف و اثر کے اعتبار سے اعلیٰ درجے کی ہیں۔ ان کے کلام میں سادگی ،دردمندی اور جذبات کی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ ان کی چار اہم کتابیں حیات سعدی، مقدمہ شعر و شاعری، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات جاوید ہیں۔مولانا حالی شعر و ادب کو محض مسرت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو سکتی ہے اور وہ مناسب الفاظ کی جستجو کو ضروری سمجھتے تھے۔ حالی کو غالب اور سرسید کی صحبت حاصل تھی جس سے ان کے تنقیدی شعور کو جلا ملی۔ حالی نے ایک طویل نظم مدوجزر اسلام مسدس کی شکل میں لکھی جس کے بارے میں سر سید نے کہا تھا:” قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کے تو دنیا سے کیا لایا ہے تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں " On الطاف حسین حالی کی نظم نگاری مختصراً بیان کیجیے۔ افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں انوکھا،نرالا اور عجب۔افسانہ اور ناول میں بنیادی فرق1۔مختصر ہوتا ہے۔2۔ایک خیال ایک واقعہ اور ایک احساس کو پیش کرتا ہے۔3۔ایک ہی پلاٹ ہوتا ہے۔4۔اس کا انجام کچھ ایسا ہوتا ہے کہ قاری آخر میں کچھ تشنگی سی محسوس کرنے لگتا ہے۔5۔صرف ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتا ہے۔1۔طویل ہوتا ہے2۔زندگی کی رنگا رنگ اور ہمہ گیر وسعتوں کا ترجمان ہوتا ہے۔3۔ایک پلاٹ کے علاوہ کئی ضمنی پلاٹ ہو سکتے ہیں۔۔4۔ناول کا انجام بلکل واضح ہوتا ہے اور قاری کا زہن تکمیل کے احساس سے لبریز ہوتا ہے۔5۔۔اک نشست میں نہیں پڑھا جا سکتا بلکہ اس کے خاتمے کے لیے کئی دن لگ سکتے ہیں On افسانہ اور ناول میں کیا فرق ہے؟ 80 لاکھ اسرائیلی ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں خریدتے ہیں اور اس طرح دنیا میں آج انٹرنیٹ کے دور میں بھی سب سے زیادہ کتابیں خریدنے والی قوم کہلاتے ہیں۔ اسرائیل سالانہ 110 ڈالر سائنس کی تحقیق پر خرچ کرتا ہے۔ دنیا کی اعلیٰ اور بہترین یونیورسٹیوں میں 8 کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ ہر دس ہزار اسرائیلیوں کے لیے 145 سائنسدان اور انجینئر ہیں۔علم سے پیار یہودیوں کا بنیادی وصف ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی 4 سب سے زیادہ مؤثر شخصیات میں سے تین کا تعلق یہودیوں سے ہے۔چارلس ڈارون کو چھوڑ کر کارل مارکس ،سگمنڈ فرائیڈ اور آئن سٹائن تمام کے تمام یہودی قوم سے تھے۔اب تک صرف فزکس میں 45 یہودی النسل سائنسدانوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ اس طرح کیمیا میں تحقیقی کام کے صلہ میں 26 یہودی نوبل انعام پا چکے ہیں۔ میڈیسن اور فیزیالوجی میں اب تک 52 ایسے لوگ نوبل انعام جیت چکے ہیں جو پیدائشی یہودی تھے۔اس طرح یہودی النسل 12 ادیب اور 21 معیشت دان نوبل انعام جیت چکے ہیں۔ 9 یہودی اب تک امن کی کوششوں کے صلہ میں نوبل انعام سے نوازے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کا 0.3 فیصد اب تک 24 فیصد نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ مسلمان دنیا کی آبادی کا 22 فیصد ہیں اور پچلھے 800 سالوں میں ادویات ،معیشت ،طبیعیات کیمیا ،غرض کسی بھی میدان میں انکا کوئی اتنا بڑا حصہ نہیں ہے۔ایک یہودی ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا سائنسدان بنے نہ کہ کسی ریاست کا سربراہ۔ آئن سٹائن کو بھی اسرائیل کی صدارت کی آفر ہوئی تھی جو اس نے رد کر دی تھی۔تعلیم یہودیوں کے خاندانی اقدار کی بنیاد ہے ان کو علم سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے ،گھروں اور خاندانوں میں علم والے کی اہمیت ہے اسی کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی مختلف انداز سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔جو ریاست اور معاشرہ علم والوں کو عزت بخشتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا دنیا کی ترقی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کے برعکس صرف تعلیم سے محبت کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ یہودیوں کی اس سلسلے میں ان گنت کاوشیں ہیں۔ On یہودیوں کی علم دوستی پر ایک مضمون اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ سپر پاور امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2023ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جاتی، فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔سات سال سے پہلے بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہےپڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں۔بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹّا” لگواتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ:شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا On ہمارے تعلیمی نظام پر ایک پیراگراف لکھیں ۔ تشریح:میر اس شعر میں مذہب عشق کے مبلغ دکھائی دیتے ہیں، مسلک محبت کے راہی کو صرف محبوب کے کوچے سے غرض ہے، اس کے سوا ہر شے بے معنی اور ہیچ ہے، وہ چاہے اس کا مذہبی تشخص ہی کیوں نہ ہو، وہ کعبہ، قبلہ، حرم، احرام سے بے غرض ہو کر صرف محبوب کے کوچے کا مکیں ہو چکا ہے، یہی اس کی عبادت ہے اور یہی اس کا شیوہ۔اسی غزل کا مقطع یوں ہےمیر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے توقشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیااسی مفہوم کو جگر نے کچھ یوں ادا کیا ہےنہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سےترے ذکر سے تری فکر سے، تری یاد سے ترے نام سے On میر تقی میر کے اس شعر کی تشریح بیان کریں۔ آج سے دس سال پہلے میری بڑی بہن کی شادی تھی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا ہر کوئی ہر کسی کو اپنا سمجھ کر خوش گپیوں میں مصروف تھا ، شادی کو چاند لگے ہوئے تھے ، میں بھی والد صاحب کے بعد گھر میں بڑا ہونے کی وجہ سے بغیر ناشتہ کیے کام کاج میں بنا کسی سے ملے مصروف تھا ، ماں جی کے دنیا سے چلے جانے اور والد صاحب کی دوسری شادی کر لینے کے بعد ہم دونوں بہن بھائی آپس میں بے حد پیار کرتے تھے۔11 بجے آپی نے کسی سے کہہ کر مجھے اندر بلوا کر مجھ سے ناشتے کے بارے میں پوچھا اور مجھے پسینے میں شرابور دیکھ کر جب میرا ماتھا صاف کرنے لگ گئ تو شادی کے دن بھی اس کے اندر اپنے لیے ایسے جذبات دیکھ کر میری آنکھوں کا دریا ٹوٹ گیا ، میری صبر کی زنجیر کے دو ٹکڑے ہو گئے اور میں اپنی بہن سے لِپٹ کر روتے ہوئے اپنی ماں کو آوازیں دینے لگا۔میرا صبر جواب دے گیا ، ایک لمحے کے لیے سارے جہاں کے دکھ سمٹ کر میری آنکھوں میں آگۓ ، مجھے چُپ کرواتے ہوئے کہنے لگی ماں باپ کے بعد تم بھائی لوگ ہمارا سہارا ہوتے ہو ہماری ساری امیدیں تم سے وابستہ ہوتی ہیں، کبھی شوہر سے گڑ بڑ ہو بھی جائے تو ہم بہنوں کی تم بھائیوں کی آس ہوتی ہے کہ اگر 2 چار دن رہنا بھی پڑ گیا تو بھائی انکار نہیں کریں گے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی سسرال سے جھگڑ کر بہن میکے آ جاۓ تو بھائیوں کو تو خبر بھی نہیں ہوتی اور بھابھی اُس کے بدلے اپنی نند سے گھر کے سارے کام کرواتی ہے اور طرح طرح کے طعنے دینا شروع ہو جاتی ہیں۔اس لیے اگر کبھی مجھ پر ایسا وقت آ گیا تو مجھے ماں کو یاد کر کے رونے مت دینا ، تم میری محبت کی لاج رکھ لینا کیوں کہ میرا تیرے بغیر اور کوئ سہارا نہیں ، اور میرے آنسو میرا چہرا تر کیے ہوۓ تھے اور میں غور سے آپی کی باتیں سُن رہا تھا ہمارے پاس پاس کھڑی پارلر گرل بھی آنسو نہ روک سکی تھی۔یہ سب یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے کے ہر بھائی نے اپنی ہر بہن کا خیال رکھا ہوتا تو آج کبھی بھی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسی اضافی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اپنی بہنوں کے جزبات کو سمجھیے ، کبھی کبھی اکیلے میں اُن سے پوچھا کریں کہ تمہارا حال کیسا ہے ؟تم کمزور کیوں ہو رہی ہو ؟تم ہمیں مِلنے اپنے بھائ کے گھر آنے میں اتنے دن کیوں لگاتی ہو ؟ وغیرہ وغیرہ، اور کبھی بھی اپنی بہنوں کے دل میں یہ خیال مت آنے دینا کہ ماں باپ مر گئے یا سسرال والوں سے بِگڑ گئ تو دنیا میں میرا کون ہو گا جو میرے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھے گا؟اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیے۔ جزاک اللّہ On بھائی اور بہن کا رشتہ: ایک سبق آموز کہانی مفید کا متضاد غیر مفید ،جزا کا متضاد سزا اوروسیع کا متضاد تنگ ہے۔ On مفید،جزا اور وسیع کے متضاد؟ علی الصباح کا متضاد علی المساء ہے اور شدت کا متضاد نرمی ہے۔"علی الصباح سے مراد صبح صادق کا وقت ہے، اور اس کا متضاد ہوگا شام کا وقت۔” On علی الصباح کا متضاد اور شدت کا نانی نے نواسے کے لیے بڑی عمر کی دعا کی اور ماں باپ کا کہا ماننے اور دل لگا کر پڑھنے کی نصحیت کی اور یہ کہا کہ تمھیں بھی بڑا ہو کر ماموں کی طرح ڈاکٹر بننا ہے۔ On نانی نے نواسے کے لیے کیا دعا اور نصیحت کی؟ شاہین نے بچوں کو بڑوں کو سلام نہ کرنے اور رامو کاکا سے ادب سے بات نہ کرنے پر ٹوکا۔ On شاہین نے بچے کو کس بات پرٹو کا؟ ناول:ناول مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔ اس کے معنی نیا، انوکھا، عجیب اور نمایاں کے ہیں۔یہ ایک نثری کہانی ہوتی ہے جو کسی ایک انسان کی تمام زندگی پر محیط ہوتی ہے۔داستان:اسے اردو نثر کی اولین صنف قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹی کہانی یا من گھڑت قصہ ہوتی ہے۔ داستان وہ طویل کہانی ہے جو حقیقی زندگی کے بجائے محیرالعقول واقعات سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی کہانی میں مافوق الفطرت واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ داستان میں چونکہ حواس کے اعتبار میں آنے والے واقعات نہیں ہوتے، اس لیے دلچسپی اور تجسس داستان کے اہم اجزا ہیں۔ On ناول اور داستان میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اضافی مرکب ✔️ On ”صبحِ نو“ کون سا مرکب ہے؟ رسا جاودانی✔️ On ”لالہ صحرا“ جموں و کشمیر کے کس شاعر کا شعری مجموعہ ہے؟ لالہ ملک راج صراف On جموں سے پہلا اردو اخبار ”رنبیر “1924 میں کس کی ادارت میں شائع ہوا؟ 1857ء ✔️ On مہاراجہ رنبیر سنگھ نے ”بدیا بلاس پرس“ کس سن میں قائم کیا تھا؟ 1889ء✔️ On جموں و کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ کس سن میں حاصل ہوا؟ مولوی عبدالحق ✔️ On ”اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ“ کس کی کتاب ہے؟ فارسی On ”شمار کرنا“ کس زبان سے ماخوذ فعلی مرکب ہے؟ حافظ محمود شیرانی ✔️ On ”پنجاب میں اردو“ کس محقق کی کتاب ہے؟ مسعود حسین خاں✔️ On ”نواح دہلی کی بولیاں اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہیں اور حضرات دہلی اس کا صحیح مولد و منشا“ اردو زبان کی ابتداء کے متعلق یہ نظریہ کس کا ہے؟ 1000 عیسوی سے✔️ On ہند آریائی کا جدید دور کی سن سے شروع ہوتا ہے؟ برج بھاشا✔️ On مغربی ہندی کی بولیوں میں ذیل میں سے کون سے بولی شامل کی گئی ہے؟ مغربی ہندی ✔️ On کھڑی بولی کو جارج گریرسن نے کن بولیوں میں شمار کیا ہے؟ عربی میں ایک لفظ ہے نُکتہ۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے : باریک بات ، رمز کی بات،گہری بات، عقل کی بات۔ لطیفے یا چٹکلے کو بھی اردو میں نُکتہ کہتے ہیں ۔اسی سے نکتہ رَس کی ترکیب ہے یعنی گہری یا باریک بات تک پہنچنے والا ، ذہین۔ باریک بات کو سمجھنے والے کو نکتہ سنج یا نکتہ شناس کہتے ہیں۔ نکتہ سنج کی ترکیب کو سخن شناس یا خوش گفتا ر کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔نکتہ داں یعنی باریک بات یا عقل کی بات کو سمجھنے والا۔نکتہ چیں اور نکتہ چینی میں بھی یہی نکتہ ہے اور نکتہ چیں کا مطلب ہے جو عیب ڈھونڈے۔نکتہ چینی یعنی خامیاں چُننے کا عمل۔ لیکن یہ چینی اردو کی چینی یعنی شکر نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کا چیں (چُننے ولا) اور چینی (چُننے کا عمل) ہے۔نکتہ چینی اسی لیے سب کو بری لگتی ہے کہ اس میں اردو کی چینی نہیں ہوتی۔ غالب نے کہا:نکتہ چیں ہے غم ِ دل اس کو سنائے نہ بنےعربی میں ایک اور لفظ ہے نُقطہ۔ یہ اردو میں بھی مستعمل ہے اور اس کا مطلب ہے وہ باریک نشان جو کاغذپر قلم رکھنے سے بنتا ہے،جسے ہندی میں بِندی اور انگریزی میں ڈاٹ (dot) کہا جاتا ہے۔ دائرے کے مرکز کو بھی نقطہ کہتے ہیں ۔جو دائرہ پرکار بناتا ہے اس کے وسط کے نشان کو نقطۂ پرکار کہتے ہیں، اقبال کا مصرع ہے:نقطہ ٔ پرکار ِ حق مردِ خد ا کا یقیںحروف پر جو باریک نشانات لگائے جاتے ہیں ان کا نام بھی نقطہ ہے، مثلاً حرف شین (ش)کے اوپر تین نقطے ہیں لیکن سین (س) پر کوئی نقطہ نہیں۔ جس حرف یا لفظ میں نقطہ ہو اسے منقوط یا منقوطہ کہتے ہیں۔ بغیر نقطے والے حرف یا لفظ کو غیر منقوط یا غیر منقوطہ کہتے ہیں۔ بعضوں نے اپنا زورِ کلام دکھانے کے لیے غیر منقوطہ شاعری بھی کی یعنی ایسی شاعری جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں آتا۔انشا ء اللہ خاں انشا نے صنعتِ غیر منقوطہ میں خاصا کلام کہا ہے، مثلاً ایک شعر دیکھیے:سلسلہ گر کلام کا وا ہوسامع دردِ دل کو سودا ہواس شعر کے کسی لفظ میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔ یہ غیر منقوط ہے۔ جس پر نشانہ لگا یا جائے اسے بھی نقطہ کہا جاتا ہے اور اسی سے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ کی ترکیب بنی جس کا مطلب ہے نظر کا مرکز یا نشانہ اور مراد ہے دیکھنے کا زاویہ اور سوچنے کا انداز، انداز ِ نظر، انداز ِ فکر، خیال، رائے۔لیکن بعض اوقات نکتہ اور نقطہ کو گڈ مڈ کردیا جاتا ہے اوربعض لوگ نقطۂ نظر اور نقطۂ نگاہ کو نکتۂ نظر یا نکتۂ نگاہ لکھتے ہیں جو غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ۔ نقطۂ عروج اور نقطۂ جوش وغیرہ میں بھی یہی نقطہ ہے اور ایسے مواقع پر نکتہ لکھنا درست نہیں۔عربی میں نُکتہ کی جمع نِکات(نون کے نیچے زیر) ہے اور اسے نُکات (نون پر پیش )پڑھنا بالکل غلط ہے۔ میر تقی میر کی کتاب کا نام نِکات الشعرا ہے، شیخ مجیب الر حمٰن کے چھے (۶)نِکات تھے ،فلاں حکومت کا پنج نِکاتی منصوبہ تھا،ان سب جملوں میںنِکات یعنی نون کے نیچے زیر پڑھنا چاہیے، یہاں نون پر زبر یاپیش پڑھنا صحیح نہیں۔اصل میں عربی میں الفاظ کی جمع صرفی وزن پر بنائی جاتی ہے اورعربی الفاظ کی جمع کے اوزان میں سے ایک وزن ’’فِعال‘‘(فے کے نیچے زیر) ہے لہٰذا اس وزن پر جتنی بھی جمعیں بنیں گی سب کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہوگا ، مثلاً:جَبَل (یعنی پہاڑ) کی جمع جِبال، رَجُل (یعنی مرد) کی جمع رِجال، بَلَد( یعنی شہر) کی جمع بِلاد، خصلت کی جمع خِصال،روضہ( یعنی باغ )کی جمع رِیاض، کریم کی جمع کِرام ،جیسے اساتذۂ کِرام یا صحابۂ کِرام۔ اسی طرح نُکتہ کی جمع نِکات۔نُقطہ کی ایک جمع عربی میں نِقاط ہے (یہ بھی ’’فِعال‘‘ کے وزن پر ہے)اور دوسری نُقَط ،یعنی نون پر پیش اور قاف پر زبر کے ساتھ۔ گویا نِقاط اور نُقَط کا لفظی مطلب ہوگا بہت سے نقطے۔ بے نُقَط کے معنی ہیں بغیر نقطوں کے۔ اردو میں محاورہ ہے بے نُقَط سنانا ، یعنی فحش گالیاں دینا، مغلظّات بکنا ۔ اس بے نقط کی وجہ تسمیہ غالبا ً یہ ہے کہ بعض لوگ جب گالی لکھتے تھے تو اس پر احتیاطاً نقطے نہیں لگاتے تھے۔حاصل ِ کلام یہ کہ نقطہ کی جمع نِقاط اور نُقَط ہے اور نکتہ کی جمع نِکات۔نیز یہ کہ صحیح ترکیب نقطۂ نظر ہے۔از قلم : ڈاکٹر رؤف پاریکھ On نقطہ اور نکتہ میں فرق اس سبق میں اخلاقیات پر بات چیت کو مکالمے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔شاہین کے بھائی اس کے گھر کافی عرصے بعد اور اچانک آتا ہے تو سب بہت خوش ہوتے ہیں۔بچے بھی ماموں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں اور بات کرنے لگتے ہی ہیں کہ ان کی ماں یعنی شاہین ان کو ڈانٹتی ہے کہ بنا سلام دعا کے ہی شروع ہو گئے ہو۔شاہین اپنی امی جان سے بھی ملتی ہے اور انھیں بتاتی ہے کہ وہ ان کو بہت یاد کرتی ہے۔ بچے بھی نانی اماں سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور نانی نے نواسے کے لیے بڑی عمر کی دعا کی اور ماں باپ کا کہا ماننے اور دل لگا کر پڑھنے کی نصحیت کی اور یہ کہا کہ تمھیں بھی بڑا ہو کر ماموں کی طرح ڈاکٹر بننا ہے۔اس جے بعد ملازم آ کر بچوں سے ملتا ہے تو بچے اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگتے ہیں تو شاہین تب بھی بچوں کو ڈانٹتی ہے کہ بڑوں سے ادب سے پیش آؤ۔اس پر ان کا ملازم رامو کاکا رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ بچے ہی تو ان کا کل سرمایہ ہیں اس لیے انھیں کچھ مت بولو۔اسی دوران شاہین کا بڑا بھائی بھی اسے تنگ کرنے لگتا ہے کہ وہ کمزور ہوگئی ہے دبلی دکھتی ہے اس کا شوہر اس کا خیال نہیں رکھتا وغیرہ۔ شاہین کے بھائی کی بات سن کر بوا بھی اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ واقعی بیمار دکھائی دے رہی ہے۔شاہین بوا کو کہتی کہ وہ اچھی بھلی ہے اور جوابا بوا سے ان کے بچوں کی خیریت دریافت کرتی ہے۔ جس پر بوا اپنی بیٹی کا دکھڑا سناتی تو شاہین اسے تسلی دیتی ہے۔کہ آپ اپنی بیٹی کو پاس بلا لیں کہ آپ اچھا خاصا کھاتی پیتی تو ہیں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اور غم نہ کریں کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے اور وہ بہتر کرے گا۔یوں اس سبق میں بات چیت کے آداب اور بنیادی اخلاقیات کے ساتھ رشتوں کی خوبصورتی بھی جھلکتی ہے۔ On بات سے بات پر مختصر نوٹ لکھیے۔ اخبار On خبر کی جمع کیا ہے؟ امیر کی جمع امراء ہے۔ On امیر کی جمع کیا ہے؟ امیر کی جمع امراء ہے۔ On امیر کی جمع کیا ہے؟ خواب میں اپنے استاد کو دیکھنے کی بہت اچھی تعبیر ہے۔یہ خواب دیکھنے والا راہ مستقیم پر گامزن ہو گا اور اور زمانے میں اس کی عزت وقار میں بلندی اور رفعت ہوگی۔ On خواب میں استاد کو دیکھنا ۔ بلندی کا متضاد ہے پستی On بلندی کا متضاد کیا ہے ؟ اکبر کی جمع اکابر ہے۔ On اکبر کی جمع کیا ہے؟ خواب میں آیت الکرسی پڑھنا؛ یہ شیطان کے شر سے محفوظ رہنے، مال و دولت میں اضافہ ہونے، عزت و مرتبہ بلند ہونے اور ظلم سے نجات پانے، رزق بڑھنے اور دلی مقاصد پورا ہونے کی دلیل ہے۔خواب میں آیت الکرسی دشمن سے فتح پانے کے لیے پڑھنا؛ یہ دشمن پر فتح پانے ، امن حاصل ہونے اور بے فکر ہونے کی دلیل ہے۔ On خواب میں آیت الکرسی پڑھنا خواب میں آیت الکرسی پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔ خواب میں آیت الکرسی پڑھنا نفعے پر دلالت کرتا ہے۔ یہ عزت و مرتبہ بلند و بالا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ خواب میں آیت الکرسی پڑھنا؛ رزق بڑھنے اور مال میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ On خواب میں آیت الکرسی پڑھنا شاعری میں ’وزن‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ محض ردیف و قافیہ پر مشتمل جملہ شعر نہیں کہلا سکتا، میں آج ایک آسان پیرائے میں آپ کو وزن کو سیکھنے کا طریقہ بتاؤں گا۔وزن کا تعلق آواز سے ہے ، ہم جو بھی لفظ بولتے یا لکھتے ہیں وہ ایک مخصوص آواز رکھتا ہے۔ آوازیں بنیادی طور پر صرف دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک کو ہم چھوٹی آواز کہہ سکتے اور اسے 1 سے ظاہر کر سکتے جبکہ دوسری آواز کو ہم لمبی آواز کہہ لیں اور اسے 2 سے ظاہر کر لیں۔ اب مثال کے طور پر کوئی بھی لفظ لے لیں۔ چلیں یہی لفظ وزن لیتے ہیں تو جب ہم اس لفظ کو ادا کرتے ہیں تو ہمارے منہ سے دو آوازیں نکلتی ہیں۔وَزْ= یہ دو حروف پر مشتمل ایک آواز ہے جسے ہم لمبی آواز کہہ سکتے ۔ اسے ہم 2 سے ظاہر کریں گے۔ن = ن، ایک ساکن حرف ہے جس کی آواز ادائیگی کے وقت نہایت مختصر ہوتی ہے ۔ اس لیے اسے ہم مختصر آواز کہیں گے۔ اسے لیے اسے ہم 1 سے ظاہر کریں گے۔کچھ لوگ 1، 2 علامات سے کنفیوز ہوتے ہیں،اصل میں مختصر آواز کو کسی بھی علامت ظاہر کر سکتے۔ میں نے اس کو 1 سے ظاہر کیا، اور اسی طرح لمبی آواز کو بھی کسی بھی علامت سے ظاہر کر سکتے۔ میں نے اسے 2 سے ظاہر کیا۔آپ مختصر آواز کو (-) اور لمبی آواز کو (=) سے ظاہر کر لیں۔ مقصد مختصر علامت سے پہچان ہے۔۔۔ آپ علامتی طور پر کوئی اور پہچان بھی رکھ سکتے۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔اب ہم مزید مثالوں سے اس کو ذرا واضح کرتے ہیں ۔ عمومی طور پر چھوٹی آوازِاکلوتا حرف ہوتا جس پر کوئی حرکت ہوتی یعنی زیر زبر یا پیش ہوتی یا پھر وہ ساکن ہوتا۔ اسی طرح عمومی طور پر لمبی آواز دو مفرد حروف کا مجموعہ ہوتی۔مفرد = مُفْ 2 رِد =2 یعنی دو لمبی آوازوں کا مجموعہ اسے ہم 22 کہہ سکتے۔اختلاف = اِخْ =2 ، تِ=1 ، لا =2 ، ف= 1 یعنی پہلے ایک لمبی آواز پھر چھوٹی آواز، پھر لمبی آواز اور پھر چھوٹی آواز کا مجموعہ اسے ہم 1212 کہہ سکتے۔شِعْر = شع = 2، ر= 1 ایک لمبی اور پھر مختصر آواز کا مجموعہ ، اسے ہم 12 کہہ سکتے ۔ردیف= رَ =1 ، دی=2 ، ف= 1 پہلے مختصر، پھر لمبی اور پھر مختصر آواز کا مجموعہ ۔ اسے ہم 121 کہیں گے۔یاد رکھیں وزن کا تعلق صرف اور صرف الفاظ کے تلفظ ( ادائیگی ) سے ہوتا ہے۔ اور ادائیگی آواز کے ذریعے ہوتی ۔ اس لیے جب بھی ہم کسی لفظ کا وزن جاننا چاہیں گے تو ہم اس کو بول کر دیکھیں گے کہ وہ لفظ کتنی اور کون کونسی آوازوں کا مجموعہ ہے ۔ ان ہی آوازوں کی ایک خاص ترتیب بحر کہلاتی ۔ یعنی آواز کا ایک خاص ردھم ،بحور کی پہچان کے لیے جو لفظ وجود میں آئے انہیں افاعیل کہتے ہیں ۔ چند زیادہ استعمال ہونے والے افاعیلمفاعلین، فعولن ، فعلن، فاعلن ، مستفعلن، متفاعلن وغیرہ ۔ یہ افاعیل متعلقہ آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ان ہی افاعیل کو دو ، تین ، چار یا زیادہ بار رپیٹ کرنے سے بحر وجود میں آتی ۔ مثال کے طور پرپہلے ایک دفعہ چھوٹی آواز، پھردو دفعہ لمبی آواز ۔ تو یہ فعولن کی بحر ہے۔اسے ہم یوں لکھ سکتے ۔ 221 ، 221 ، 221 ، 221یاپہلے لمبی آواز پھر مختصر آواز پھر لمبی آواز ، یہ فاعلن کی بحر ہےاسے ہم یوں لکھ سکتے ۔ 212 ، 212، 212، 212تو ساری بحور آوازوں کے ایک خاص ردھم اور ترتیب سے وجود پاتی ہیں ۔مفاعیلن کی بحر = 2221 ، 2221 ،2221 ،2221فعلن کی بحر= 22، 22 ، 22 ، 22امید ہے اس وضاحت کے بعد آپ لوگ بآسانی کسی بھی لفظ کا وزن تلاش کر سکیں گے۔ On وزن اور بحر کو سمجھنے کا آسان طریقہ۔ بولنا نسل انسانی کی خاصیت ہے اور اسی بنیاد پر انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کی جاتی ہے۔ زبان کی تخلیق صوتی فلسفہ کے تحت وجود میں آتی ہے۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی ضروریات اور احساسات کے تحت اظہار مدعا کیلئے انسان کو الفاظ کی ضرورت پڑی اور یہ الفاظ مختلف آوازوں کا مجموعہ ہیں جنہیں علم لسانیات کی لغت اور اصطلاح میں حروف تہجی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ حروف بنیادی آوازیں ہیں جنہیں جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں۔ ابتدا میں انسانی تکلم یک حرفی دو حرفی ترکیبوں سے ارتقا کر کے جملوں اور مکالموں تک چلا گیا۔ زبان کے اختلاف اور تعدد کو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے وجود کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے اور زبانوں کے تنوع کو رنگ و چہرے کے تلون کے ساتھ اپنی نعمت گردانا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ فولی کے مطابق زبان پانچ لاکھ سال تک قدیم ہو سکتی ہے جبکہ دیگر ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کی عمر پچاس ہزار سال سے لے کر ایک لاکھ سال تک قدیم ہو سکتی ہے۔پیدائشی طور پر بنی انسان دو زبانوں کو خود بخود سیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ ایک اشاروں کی زبان اور مادری زبان جن کو یونیورسل زبانیں بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اندازتاً6809 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ نیوگنی میں دنیا میں سب سے زیادہ860 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا میں 742، نائجیریا میں 516، بھارت میں 412، امریکہ میں 312، آسٹریلیا میں 275، چین میں 272 جبکہ پاکستان میں 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 66 مقامی اور 8 غیر مقامی زبانیں شامل ہیں۔ ان تمام زبانوں میں نوے فیصد زبانوں کے بولنے والے ایک لاکھ سے کم ہیں۔537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے پچاس سے بھی کم ہیں۔46 زبانوں کا ایک ایک بولنے والا ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق اگر ان چھوٹی زبانوں کے بچاؤ کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور صرف چند بڑی زبانوں کوترجیح ملتی رہی تو اس صدی کے آخر تک آدھی زبانیں معدومیت کا شکار ہو جائیں گی۔ دنیا میں بولنے والوں کے تناسب سے بڑی زبان چین کی فیڈرین ہے جو ایک ارب بیس کروڑ لوگ بولتے ہیں۔دوسرے نمبر پر انگریزی ہے جو بتیس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ پینتیس کروڑ لوگوں نے اس کو ثانوی زبان کی حیثیت سے سیکھا ہے جبکہ پندرہ کروڑ لوگ اس کو بطور ضرورت بولتے ہیں۔ دنیا کی تمام زبانوں کو بارہ بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا گروپ ہند یورپی زبانوں کا ہے جس میں 450 زبانیں شامل ہیں۔ پشتو زبان بھی اسی گروپ کا حصہ ہے۔ سوات میں بولنے جانی والی بدیشی زبان کچھ عرصہ قبل معدوم ہو چکی ہے۔تیس کے قریب زبانیں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ گلگت میں ڈومیکی زبان کے بولنے والے صرف تین سو لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ زبان اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا نام ہے جبکہ نوم چومسکی کے مطابق یہ اہلیت اور صلاحیت کے درمیان تقسیم ہو کر حیاتیاتی اور ماحولیاتی انداز میں تقسیم ہو جاتی ہیں جن میں زبان کے ساتھ ہونٹ، حلق، گلا اور پھیپھڑے مل کر دماغ کو ساتھ ملا کر بالارادہ اظہار کا نام دیتے ہیں۔ زبان حسیات کے ساتھ مظاہر کائنات ابلاغ کا ذریعہ سماجی حقائق اور سیاسی مفکوروں کے ساتھ تحقیق وتنوع کا نام ہے۔ انسانی منہ سے نکلا ہوا صوت خلا میں 1235 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتا ہے۔ہر علاقہ اور ہر نسل کے لوگوں نے ہزار ہا سالوں سے اپنی اپنی ضرورت اور مزاج و ماحول کے مطابق زبانیں بنا لیں۔ خوش مزاج اور باذوق نسلوں کی زبانیں بھی شیریں اور شاعرانہ مزاج رکھتی ہیں جیسے مشرق میں فارسی زبان اور مغرب میں فرانسیسی زبان کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن کچھ قوموں نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی ان مقامی بولیوں میں تحقیق و تخلیق کا اتنا جامع اور ٹھوس کام کیا کہ یہی مادری اور علاقائی بولیاں زبان کا روپ دھار گئیں اور آج ان ہی زبانوں میں دوچار ہیں جو بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ اور جدید زبانیں کہلاتی ہیں جن میں انگریزی زبان سرفہرست دکھائی دیتی ہے۔ لہذا آج کچھ تو مادری زبانیں ہیں جیسے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، چینی، عربی اور فارسی جو بہت ترقی کر چکی ہیں۔ترقی یافتہ زبانوں اور مقامی بولیوں کے درمیان دنیا میں کچھ اور زبانیں بھی ہیں جو بولی سے زیادہ ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ زبان سے کم درجہ ہیں جن میں ترکی، اردو، ہندی، پرتگالی اور بنگالی وغیرہ ہیں۔ یہ زبانیں ادبیات میں تو خود کفیل ہیں مگر سائنسی علوم کے حصول کیلئے فی الحال ناکافی ہیں۔ افریقہ اور ایشیاء کے اکثر ممالک کو سائنسی علوم کے حصول کیلئے کسی نہ کسی جدید مغربی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر ترقی پذیر ملک مجبور ہے کہ جب تک اس کی قومی زبان ترقی یافتہ نہیں ہو جاتی اسے ترقی یافتہ مغربی زبان کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سوزین رومین کے مطابق کسی قوم کی زبان کی معدومیت اس قوم کی تمام تاریخ وتہذیب کی معدومیت کا سبب بنتی ہے اسی لئے مستقبل میں دنیا کے سامنے معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کا تحفظ ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ زبان کا مسئلہ کسی قوم کے سیاسی اختیار کا بھی مسئلہ ہے جو ریاستی کردار کے ساتھ سیاسی کردار سے باہم مربوط ہوتا ہے۔زبانوں کی معدومیت بنی نوع انسان کے تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ باہم ربط کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔ سیاسی اختیار کے ساتھ زبان کا ارتقا لازم ہوتا ہے۔ کسی قوم کے زبان کو بدنام کرنا اسے مسخرہ بنانا درحقیقت اس پوری قوم کی توہین کے مترداف ہوتا ہے۔ پشتو زبان کی اگر ہم بات کریں تو جتنی قدامت اس قوم کی ہے اتنی ہی قدامت پشتو زبان کی بھی ہے۔تاریخی طور پر ڈاکٹر نسیم خان کے مطابق پشتو زبان آرامی رسم الخط کے ساتھ پالی خروشتی یونانی اور محمود غزنوی کے بعد عربی رسم الخط میں لکھی گئی ہے۔ پشتو کے چوالیس حروف تہجی میں اٹھائیس عربی چار فارسی اور تین حروف ہندی کے ہیں۔ ہر ایک زبان میں لہجوں کا تنوع لازم ہے جبکہ دس کلومیٹر کے فاصلے کے بعد لہجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ پشتو میں معروف دو لہجے قندہاری اور پشاوری ہیں جبکہ صدیق اللہ کے مطابق پانچ سے لے کر سولہ تک لہجے پشتو میں عام استعمال میں ہیں۔ پشتو زبان دنیا کی بتیسویں بڑی زبان ہے۔ افغانستان کی قومی زبان ہے جبکہ دنیا کے اٹھارہ ممالک سے پشتو کے ریڈیو پروگرام چلتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اس زبان کو دنیا کی سولہ بڑی زبانوں میں جگہ دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں اس زبان میں تقریریں کی جاتی ہیں۔کچھ دس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ پشتو زبان دنیا کے کسی بھی زبان سے قدامت و علمی استعداد میں کم نہیں۔ دنیا کے جدید سائنسی لٹریچر کے ساتھ تمام علمی ذخیروں کو اس زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پشتو میں علم و ادب کے حوالے سے بہت بڑا کام ہوا ہے مگر ابھی اس زبان کو اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ سب سے پہلے اس کو اسکولوں کے نصاب کی زبان بنانا ہو گا۔ اس کو مارکیٹ اور ایجاد کی زبان بنانا ہو گا۔ عام بول چال کے ساتھ مارکیٹوں، دکانوں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر رسم الخط کو پشتو میں ڈالنا ہو گا جبکہ اسلام کی رو سے بچوں کا نام پشتو میں رکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ On زبان کی اہمیت اور خصوصیات افلاطون ایک مشہور فلسفی تھا اس نے اپنے دربارمیں قابل اور دانا لوگوں کو مدعو کیا ان میں سے ایک شخص دیو جأنس کلبی تھا یہ شخص عجز کا پیکر تھا ہمیشہ ایک صندوق نما گاڑی میں پھرتا جہاں رات ہوتی اسی گا ڑی میں سو جاتا.اسکا خیال تھا کہ انسان کو زمان و مکان کی قید سے آزاد رہنا چاہئے ورنہ وہ اپنےاصل جوہر سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ ایسے آزاد منش اور عجز کے پیکر شخص نے افلاطون کے دربار میں آکر اپنے گندے پاؤں افلاطون کے دربار کے قیمتی قالینوں سے رگڑنا شروع کردیئے دریافت کرنے پر فخرسے کہا کہ میں افلاطون کے غرور و تکّبرکو اپنے پیروں تلےروند رہا ہوں اس پہ افلاطون نے خندہ پیشانی سےاسے کہا "مگر میرے بھائ تم خودیہ کام کس قدر " غرور و تکبّر "سے کر رہے ہو؟؟دیو جانس افلاطون کی یہ بات سن کر لاجواب ہوگیا۔تو جناب یہی حال خود پسندی کا ہے جب انسان خود کو دوسروں سے بہتر تصّور کرنے لگتا ہے رفتہ رفتہ اسے اپنی "انا"اپنی "میں"ہر شے پہ برتر دکھائی دیتی ہے نتیجتاً جہاں اسےجھکنا ہوتا ہے وہاں وہ ٹوٹ جاتا ہے یا توڑ دیتا ہے مگر جھکتا نہیں۔ جبکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ جھک جانے میں عافیت ہے خاص کر جہاں غلطی آپکی ہو۔یاد رہے تکبّر صرف عہدہ،مال،حسن اورشہرت وغیرہ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ سادگی پہ،اپنے ہنروفن پہ علم وعمل پہ غرض کہ عبادت تک پہ ہوتا ہے یہی فخر اور غرور وتکّبر خود پسندی سے ہوتا ہوا خود پرستی تک لےجاتا ہے اور یہ "عجز کا تکبر" ہوتا ہے ۔یعنی اپنی اچھائیوں پہ فخروغروریعنی آپ جب اپنی انا میں یہ بھول جائیں کہ خود پسندی کا نعرہ لگانا اشرف المخلوقات کا نہیں بلکہ شیطان کا وطیرہ ہے۔ہمارے معاشرے میں چھوٹوں کا اپنی غلطی پہ ڈٹ کر بڑوں کی صحیح بات کو بھی رد کردینا،اسی طرح بڑوں کا اپنی بے جا اور ناحق بات زبردستی چھوٹوں سے تسلیم کرانا کیا معاشرتی بگاڑ کا سبب نہیں؟اپنی غلطی ہوتے ہوئے بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا کیا بہترین معاشرے کی راہ میں رکاوٹ نہیں؟ عجز وانکساری کامطلب جھک جانا یا دب جانا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بردباری اور شخصیت کا بڑاپن ہےکہ آپ دوسروں کی بھی ویسی ہی عزّت کرتے ہیں اورانکے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں جیسی عزْت اورحقوق کی پاسداری آپ دوسروں سے اپنےلئے چاہتے ہیں۔ایک ایسےہی مثالی معاشرے کی ہمیں اشدضرورت ہے جہاں حقوق وفرائض کی ادائیگی کا توازن ہمیشہ قائم رہے اور انسان صرف"آسمان"کےدروازے کھولنے چاند پر نہ پہنچے بلکہ "دل"کے دروازےپر پڑے تالے کھول کر ایک بہترین انسان بنے اور ایک بہترین معاشرتی کردار ادا کرے۔آو ملکر خودپسندی سے باہر نکلیں اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں۔ On خود پسندی سے خود پرستی تک سیکولرازم کی تعریفسیکولرازم، لاطینی (Latin) لفظ (Saeculum) سے ماخوذ ہے۔ سیکولر کا لغوی معنیٰ ”نامقدس“ (Unholy) ہے جو مقدس (Holy) کے مقابلے میں ہے۔ سیکولرازم، توہین (Blasphemy) اور بے حرمتی (Profanation) کے معانی پر مشتمل ہے۔اصطلاحات علمی سے کنارہ کر کے اگر ہم سیکولرازم کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں:”سیکولرازم ایک اسیا نظریہ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ دین کو زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام شعبوں سے نکال کر اسے زندگی کا ایک الگ اور مستقل شعبہ بنا دیا جائے، وہ بھی اس طرح سے کہ خود اس دینی شعبہ کا زندگی کے باقی شعبوں سے کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی ان باقی شعبوں کا شعبہ دین سے کوئی تعلق ہو“۔انسانی زندگی کے مختلف پہلو اور شعبے ہیں مثلاََ ہر انسان کی زندگی کا ایک انفرادی، ذاتی شعبہ ہے، خاندانی و عائلی شعبہ ہے، دوسرے انسانوں کے ساتھ ارتباط کا شعبہ ہے، تعلیم اور آموزش کا شعبہ ہے، تربیت کا شعبہ ہے، اسی طرح سیاست، معیشت، اقتصاد، اقوام کے مابین ارتباطات اور دیگر بیسیوں شعبے ہیں۔ بس زندگی کے تمام شعبوں سے دین کو خارج کرنا اور پھر اسکو زندگی کا مستقل شعبہ بنانا سیکولرازم کہلاتا ہے۔چونکہ ہماری بحث ”اسلام اور سیکولرازم“ کے عنوان سے ہے لہٰذا کہیں گے کہ اسلام کو ان تمام شعبوں سے باہر نکالنا اور پھر اسے مستقل شعبہ زندگی بنانا تاکہ دوسرے شعبے اس سے متاثر نہ ہوں۔ ورنہ سیکولرازم کا ہدف فقط اسلام نہیں بلکہ اسکا ہدف دین ہے کہ جو بھی دین ہو۔کتاب:- (اسلام اور سیکولرازم) On سیکولرازم سے کیا مراد ہے؟ ایک عارف سے باطنی علم کے متعلق پوچھا گیا،انہوں نے کہا کہ وہ اللہ تعالی کا راز ہے جسے وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور کسی فرشتے اور انسان کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔ہر خوشی اور غمی میں اللہ تعالی کی ایسی نعمت پوشیدہ ہے جو بحروبر میں نہیں سما سکتی۔۱۔کتنی نعمتیں ایسی ہیں جو مصائب سے گھری ہوئی ہیں۔۲۔اور کتنی مسرتیں ایسی ہیں جومصائب کی طرح نازل ہوئیں۔۳۔ہر غم کے بعد خوشی ہے اور ہر خوبی میں برائی بھی پوشیدہ ہے۔ On باطنی علم کیا ہے ؟ وادی کشمیر کی ایک جھیل سری نگر کا شہر اسی کے کنارے آباد ہے۔ دنیا کی چند ممتاز سیرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ چونکہ دریائے جہلم اس کے بیچ سے ہو کر نکلتا ہے اس لیے اس کا پانی شریں ہے۔سرینگر شہر کے بیچ 25 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی اس جھیل میں دلہن کی طرح سجائی گئی ہاؤس بوٹس اور شکارے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ڈل جھیل کو دنیا بھر میں اس خطے کی پہچان سمجھا جاتا ہے اور یہ عالمی شہرت یافتہ جھیل موسمِ گرما میں سیاحوں اور مقامی لوگوں کی چہل پہل سے کِھل اٹھتی تھی مگر اب ایک ماہ ہونے کو آیا ہے جھیل پر طاری خوفناک سناٹا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، ایسے میں دلکش جھیل ڈل بھی اداس معلوم ہوتی ہے۔ On جھیل ڈل کی تعریف نوری چھم ریاست جموں کشمیر کے ایک خوبصورت ضلع پونچھ میں واقع ایک آبشار کا نام ہے۔ اس کا یہ نام مغل ملکہ نور جہاں کے نام پر رکھا گیا ہے۔نوری چھم پیر کی گلی کے نیچے بہرام گلا کے پہاڑی گاؤں کے قریب واقع ہے۔ یہ راجوری سے تقریبا پینتالیس 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مغل روڈ اسی کے ساتھ سے ہی گزرتی ہے۔اس جگہ تعلق مغلوں کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ مقامی داستانوں کے مطابق بادشاہ جہانگیر کی بیوی جس کا نام "نورجہان” تھا ،کشمیر جاتے ہوئے اسی آبشار میں نہایا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام نوری چھم ذڑ گیا جو آجکل ریاست کے دور دراز کے سیاحوں کے آنے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ On نوری چھم کی تعریف پری محل جسے انگریزی میں Palace of Fairies کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک سات چھتوں والا باغ ہے جو سرینگر کی مشہور ڈل جھیل کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ محل اس وقت کے مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں اسلامی فن تعمیر اور فن کی سرپرستی کی عمدہ مثال ہے۔پری محل 1600 عیسوی کے وسط میں مغل شہزادا داراشکوہ کے لیے ایک لائبریری اور رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جو اب جموں و کشمیر کی ملکیت بن چکا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے سیاحوں کے لطف کا مرکز بنا ہوا ہے۔ On پری محل کی تعریف تمام احباب کو آج 21 فروری کا دن بہت بہت مبارک۔ آج کے دن کو یوم فروغ اردو کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے۔ آپ جہاں بھی جیسے بھی ہوں لوگوں میں اردو زبان سے محبت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش ضرور کریں۔ انسان کا تخیل اس کی مادری زبان میں ہی سوچ سکتا ہے بھلا کسی کو انگریزی میں بھی خواب آیا ہے؟اگر کسی قوم کو اُس کی مادری زبان میں پڑھایا اور لکھایا جائے تو وہ قوم جلد ترقی کرتی ہے۔ جس طرح کوئی بھی پودا اپنی جڑ کے بغیر نشونما نہیں پا سکتا ایسے ہی کوئی قوم اپنی مادری زبان کی ترویج کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ حالات کتنے ہی ابتر ہوں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئیے۔ دوسری زبانوں کے سیکھنے کی کوئی قباحت نہیں اور نہ میں اس کے خلاف ہوں، لیکن دوسری زبانوں کو بطور ضرورت ہی استعمال کرنا چاہئے نہ کہ بطور فیشن۔ اگر فریقین اردو جانتے ہیں تو ہمیں اردو میں ہی گفتگو، بحث اور تبصرے کرنے چاہئے۔ جو لوگ انگریزی سیکھنے کے بعد اپنی مادری زبان بولنا چھوڑ دیں اور اردو جاننے اور بولنے والوں کے ساتھ بھی *سانولے انگریز* بننے کی کوشش کرتے ہیں اور انگریزی بولتے ہیں ایسے لوگ اصل میں اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔دوسری بات ہمیں اردو اخبارات کتابیں و رسائل خرید کر پڑھنے کی عادت بنانی ہوگی۔ اس تعلق سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اردو زبان کی ترقی و ترویج کا بہترین ذریعہ بن رہا ہے۔ اس کا ہمیں مثبت استعمال کرنا چاہئے جہاں تک ممکن ہو اردو زبان اور اردو رسم ا لخط کا ہی استعمال کرنا چاہئیے۔ بلا وجہ و بلا ضرورت انگریزی چھانٹنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔آئیے آج یوم مادری زبان کے موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم اردو اخبارات کو خرید کر ہی پڑھیں گے اور آج کے دن ایک اردو کتاب ضرور خریدیں گے۔از تحریر::: حسنیٰ انصاری On 21 فروری عالمی یوم مادری زبان ﴿اردو﴾ عام طور پر اگناسٹک( Agnostic) اور اتھیسٹ کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگناسٹک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کے وجود کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ ” میں نہیں جانتا کہ خدا وجود رکھتا ہے یا نہیں "۔ یا وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے بارے میں جاننا ناممکن ہے اور خدا یا دیوتا چونکہ مادی وجود سے ماورا ہوتے ہیں، اس لیے ہم انھیں کبھی نہیں جان سکتے کہ وہ ہیں یا نہیں ہیں۔جس طرح اتھیسٹ خدا کے وجود سے کلّی طور پر انکار کرتا ہے اور مزہبی شخص مانتا ہے۔ اس طرح اگناسٹک اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتا بلکہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں متذبذب ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے لاادری کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو عربی سے لیا گیا ہے۔ On اگناسٹک (Agnostic) کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر اگناسٹک( Agnostic) اور اتھیسٹ کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگناسٹک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کے وجود کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ ” میں نہیں جانتا کہ خدا وجود رکھتا ہے یا نہیں "۔ یا وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے بارے میں جاننا ناممکن ہے اور خدا یا دیوتا چونکہ مادی وجود سے ماورا ہوتے ہیں، اس لیے ہم انھیں کبھی نہیں جان سکتے کہ وہ ہیں یا نہیں ہیں۔جس طرح اتھیسٹ خدا کے وجود سے کلّی طور پر انکار کرتا ہے اور مزہبی شخص مانتا ہے۔ اس طرح اگناسٹک اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتا بلکہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں متذبذب ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے لاادری کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو عربی سے لیا گیا ہے۔ On اگناسٹک (Agnostic) کسے کہتے ہیں؟ تھیسٹ(Theist) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت سے خداؤں یا کم از کم کسی ایک خدا کو مانتا ہو۔ تھیسٹ یہ سمجھتا ہے کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق کیا ہے۔ وہ کائنات میں خدائی عمل دخل کا قائل ہوتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا اس نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے۔تھیسٹ کے لیے مذہبی ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ مذہبی بھی ہو سکتا ہے اور غیر مذہبی بھی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مذہب کے عقائد کو تسلیم کرے اور ان پر عمل پیرا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کو جھوٹا اور فضول تصوّر کر کے ترک کردے یا کسی نئے مذہب کی بنیاد رکھ دے۔ تھیسٹ کا خدا مذہبی خدا ہوتا ہے یا اس سے مشابہ ہوتا ہے۔ On تھیسٹ (Theist) کسے کہتے ہیں؟ ڈیئسٹ(Deist) بھی خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے لیکن مذہب کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک مذاہب جھوٹے ہیں اور ان کا اصلی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈیئسٹ کے مطابق خدا نے اس کائنات کو بنایا ہے اور اس میں ارتقاء کے فطری قوانین رکھ دیے ہیں۔ اس کے بعد کائنات اس کی مداخلت کے بغیر خودکار طریقے سے جاری و ساری ہے اور اب خدا اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ اب اس کائنات کو وہ فطری قوانین چلا رہے ہیں جو تخلیق کے وقت اس میں رکھ دیے گئے تھے۔اس کی مثال ایک گھڑی سے دی جا سکتی ہے جسے چابی دی گئی ہو اور وہ خودکار طریقے سے چلتی رہے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے۔ ڈئیسٹ کائنات کو فطری قوانین کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور خدا کو ماننے کے باوجود لادین قرار دیے جاتے ہیں۔ On ڈیئسٹ (Deist) کسے کہتے ہیں؟ مذہبی بنیادوں پر لبرل(Liberal) کا مطلب ایسا شخص ہے جو روایتوں کا اسیر نہ ہو بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تجدید اور ترمیم کا حامی ہو، قدامت پسندی کے خلاف ہو۔لبرل کی اصطلاح مختلف شعبوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مذہب ، سیاست ، سماجیات اور معیشت وغیرہ لیکن اس کا مفہوم یکساں ہی ہے کہ لبرل کسی چیز کو اس کی بنیاد سے تبدیلی کا خواہاں نہیں ہوتا بلکہ بنیاد کو برقرار رکھتے ہوئے اصلاح پسند ہوتا ہے۔ اور کسی بھی عقیدے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو دوسروں کے لیے بھی برداشت اور تحمل رکھتا ہے اور ان کے عقائد اور خیالات کا احترام کرتا ہے۔ On لبرل (Liberal) کسے کہتے ہیں؟ بنیاد پرست Fundamentalist کا اردو ترجمہ ہے۔ عمومی طور پر یہ لفظ مذہبی لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ کسی بھی شعبے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے اور اس کا دائرہ کار وسیع ہے۔بنیاد پرست ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے عقائد و نظریات اور قوانین کو من وعن مانتا ہے اور ان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اور ان میں سرِ مو انحراف برداشت نہیں کرتا۔ جدّت اور تبدیلی سے گریز کرتا ہے۔وقت اور حالات کے ساتھ ان عقائد و نظریات اور قوانین میں ہونے والی تبدیلیوں کو مسترد کر کے بنیادی دستاویز یا اصول و قواعد پر اصرار کرتا ہے۔ اس میں لچک نہیں ہوتی اس لیے اسے فی زمانہ منفی رحجان سمجھا جاتا ہے۔ On بنیاد پرست (Fundamentalist) سے کیا مراد ہے؟ مارکسسٹ(Marxist) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو جرمن فلاسفر ، معیشت دان اور ماہرِ سماجیات کارل مارکس کے نظریات کا پیروکار ہو۔ مارکسسٹ انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء کی مادی توجیح کرتے ہیں اور اسے طبقاتی کشمکش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ معیشت ان کے نزدیک بنیادی عنصر ہے جس کے گرد پورا معاشرہ اور اس کے تمام ادارے تشکیل پاتے ہیں۔ انسانی محنت اور سرمائے کی سائنسی وضاحت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور فرسودہ سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے انقلاب کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے ہیں۔ ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں اور منافع اور سرمائے کو مزدوروں کی غیر ادا شدہ اجرت کہتے ہیں۔ویسے تو ماکسزم کا دائرہ تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے لیکن معیشت کو بنیاد سمجھنے کی وجہ سے ان کے مباحث میں معیشت کو اوّلیت حاصل رہتی ہے اور تمام تجزیے اور تبصرے اسی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ تاریخی اور جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کے تحت ، مارکسسٹ(کیمونسٹ) کا ملحد ہونا ضروری ہے جبکہ ملحد کیلئے مارکسسٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔ On مارکسسٹ (Marxist) کسے کہتے ہیں؟ پریگمیٹک (Pragmatic) ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو نظریات اور خیالات کو اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ عملی ہوں اور نتائج دیں۔ اردو میں اسے عملیت پسند یا نتائجیت پسند کہہ سکتے ہیں۔پریگمٹزم کی تحریک فلسفیانہ بنیادوں پر 1870 میں امریکہ میں شروع ہوئی۔ پریگمیٹک شخص کے مطابق تمام نظریات و عقائد کو عملی طور پر پرکھنا چاہیے۔ اگر عملی طور پر وہ کامیاب رہتے ہیں تو انھیں قبول کیا جائے۔ خیالات و نظریات کی درست جانچ پڑتال عمل میں ہوتی ہے اور عمل میں ان کی کامیابی ہی ان کی قدر کا تعین کرتی ہے۔ On پریگمیٹک (Pragmatic) کسے کہتے ہیں؟ قدیم وجدید۔ لکھنو کی معاشرت میں قدیم و جدید کا امتزاج پایا جاتا ہے۔رسم ورواج۔ ہندوستان اور پاکستان کے رسم و رواج میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔شوروغل۔ استاد کی غیر موجودگی میں بچے کمرہ جماعت میں شوروغل مچا رہے تھے۔خرید و فروخت۔ دن کا آغاز ہوتے ہی بازار میں خرید وفروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔فلاح و بہبود۔ ہندوستان میں غریب عوام کی فلاح وبہبود کے ادارے سرگرم ہیں۔ On ان لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے۔ میں اتر آؤں گا تو تجھے دکھا دوں گا۔بچے بھوک کے مارے چوں چوں کر کے مرجائیں گے۔اماں جی سے کہہ دوں گی۔میں اماں جی کو تمھاری شکایت لگاؤں گی۔ہم کل سیر پر جائیں گے۔ On زمانہ مستقبل کے پانچ جملے لکھیے: اوس زمین پر مائع نمی ہے جو صبح کے وقت نظر آتی ہے۔ اوس سورج کے چمکنے کے ساتھ غائب ہو جاتی ہے۔ بخارات کے گاڑھا ہونے سے اوس بنتی ہے۔ اوس پودوں پر بہت خوشنما محسوس ہوتی ہے۔ اوس تمام مخلوق کے لیے بہت صحت مند ہے۔ On اوس پر پانچ جملے لکھیے۔ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھو ڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند تاجر تھا۔ یہ اپنی دھن میں آگے جا ہی رہا تھا۔ اس نے ان کے ایک دو وار تو خالی دیے۔ اس گھوڑے نے تمہاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ On پانچ ایسے جملے لکھیے ، جن میں کسی ضمیر کا استعمال کیا گیا ہو۔ ریڈ کراس سوسائٹی سبق میں ہمیں روزمرہ زندگی میں اکثر نظر آنے والے لال نشان کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ نشان ڈاکٹروں اور بالخصوص خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والے اداروں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یوں ریڈ کراس سوسائٹی محض علاج ہی نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کا بھی ادارہ ہے۔اس ادارے کے قیام پر بات کی جائے تو سو سال قبل اٹلی کے شہر سلفرینو پر آسٹریا کی فوج قابض تھی۔فرانس نے جب آسٹریا کی فوج پر حملہ کیا تو اس خوں ریز لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔انہی دنوں فرانس سے تعلق رکھنے والا ایک بنک کا عہدے دار ہنری ڈونان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا جس کے لیے وہ نپولین سے ملنے سلفرینو گیا۔وہاں اس نے فرانس اور آسٹریا کی فوج کے لوگوں کو بڑی تعداد میں زخمی پایا۔یہاں ہزاروں سپاہیوں کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھ کر ڈونان کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔وہ قریبی دیہات کے لوگوں کو انسانیت اور بھائی چارے کا واسطہ دے کر نا سپاہیوں کی مدد کی غرض سے لے آیا۔ بہت سے زخمی سپاہیوں کو گاؤں لے جا کر ان کا علاج کیا گیا۔یہاں بہت سے لوگوں اور خواتین نے اس کی اس کام میں مدد کی۔اس سب کے بعد اس کی بے چینی ختم نہ ہوئی اور جنگ بندی کے بعد بھی وہ باقاعدہ ایک ایسی تنظیم کے قیام کے بارے میں سوچنے لگا جو عالمی سطح پر زخمیوں کی مدد کرسکے۔اس واقعے نے اس کو ریڈ کراس سوسائٹی کے قیام کی جانب آمادہ کیا۔ 1861ء میں اس نے "سلفرینو کی یاد میں” نامی ایک پرچہ شائع کروا کر اس کی ہزاروں کاپیاں چھپا کر یوروپ میں تقسیم کیں اور جنگ کی تباہ کاریوں اور اس کے بھیانک نتائج کو منظر عام پر لایا۔جس سے یہاں کا باشعور طبقہ چونک پڑا۔اس نے ایسی سوسائٹی کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا جو منظم طور سے زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ڈونان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک کمیٹی بنائی اور جنیوا میں اس کی کانفرنس بلائی۔ اس سلسلے میں ڈونان نے کئی خطوط لکھے اور کئی لوگوں کو اپنی سوسائٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔1863ء میں اس کانفرنس میں سترہ ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔پہلے جلسے میں اس سوسائٹی کے اغراض و مقاصد جبکہ دوسرے میں اس سوسائٹی کو عالمی قانون کی حیثیت دی گئی۔1864ء سے ریڈ کراس اسی سوسائٹی کی پہچان سے جانا جانے لگا۔یوں ریڈ کراس سوسائٹی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اس کی کامیابی کیلے پیچھے بڑا ہاتھ ڈونان کا تھا۔رفتہ رفتہ اس سوسائٹی نے ڈونان کو نظر انداز کر دیا مگر پندرہ سال بعد اس کے سالانہ اجلاس میں ڈونان کو نوبل انعام دیا گیا۔ تب تک ڈونان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی اور یوں 1910ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔لیکن یہ سوسائٹی آج بھی انسانیت کی خدمت کرنا جیسے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا،انھیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا،قدرتی آفات مثلاً سیلاب، زلزلہ وغیرہ میں لوگوں کی مدد کرنا اور زخمیوں کے لیے خون کی فراہمی وغیرہ جیسے مقاصد کو بخوبی نبھا رہی ہے۔ On ریڈ کراس سوسائٹی سے کیا مراد ہے؟ کلاسیکی ادب سے مراد وہ ادب ہے جسے عوامی استناد حاصل ہو جسے ہر دور میں یکساں مقبولیت ملے۔سب سے پہلے مغربی ادب میں کلاسیکیت کی اصطلاح سامنے آئی۔ مغرب میں 1660ء سے 1800ء تک کے دور کو ’’نوکلاسیکیت‘‘ کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔’’کلاسیکیت‘‘ 17ویں اور 18ویں صدی میں فرانس میں زیادہ مروج ہوئی لیکن انگلینڈ میں یہ زیادہ مستحکم شکل میں نظر آئی۔یہ اصطلاح 1920ء میں سامنے آئی۔ بڑے بڑے اور اہم انگریزی مصنفین جو کلاسیکیت کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان میں بن جانسن، ڈرائیڈن، پوپ، ایڈیسن، ڈاکٹر جانسن، سوئفٹ، گولڈ سمتھ اور ایڈمنڈ برک کو ’’کلاسیکیت‘‘ کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے۔یہ ایک ادبی اصطلاح ہے جو 19ویں صدی میں رواج پاتی ہے۔ اٹلی میں 1818ء میں، جرمنی میں 1820ء میں، فرانس میں 1822ء، روس 1830ء اور خود انگلستان میں یہ اصطلاح سب سے پہلے 1831ء میں استعمال ہوئی۔کلاسیکی ادب کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ جس ادب میں سادگی و سلاست، توازن و تناسب، اعتدال، نفاست اور عظمت پائی جائے اسے کلاسیکی ادب کہا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی میں ڈراما، فکشن اور شاعری میں کلاسیکی عناصر کی تلاش شروع ہوئی۔کلاسیکیت کو ایک اچھی روایت سے مثال دی جاتی ہے۔ کلاسیکیت کے حامیوں کے خیال میں جن بڑے ادیبوں نے ادب کے عظیم نمونے پیش کیے، انہیں کی تقلید کرکے بڑا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ On کلاسیکیت سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بہت بڑا بدنصیب ہی ہوگا جو ان نبوی بشارتوں کو پڑھنے یا سننے کے بعد بھی نماز فجر چھوڑ کر سوتا رہے گا!❍ *پہلی بشارت:**بروز قیامت اسے مکمل نور حاصل ہوگا۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ( بَشِّرْ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) رواه أبو داود (561) وصححه الألباني في صحيح أبي داود۔ترجمہ: تاریکیوں میں پیدل چل کر مسجد جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت دے دو۔❍ *دوسری بشارت:* *فجر کی سنت موکدہ دنیا ومافیہا سے افضل اور بہتر ہے تو پھر فجر کی فرض نماز کی کیا فضیلت ہوگی!*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ( رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ) رواه مسلم (725)ترجمہ: فجر کی دونوں رکعتیں یعنی سنت دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں۔❍ *تیسری بشارت:* *مسجد کی طرف زیادہ قدم چل کر آنے سے زیادہ نیکیوں کا حصول:*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو جو بندہ اپنے گھر سے مسجد کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ہر ایک قدم پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور مسجد میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے والا گویا مسلسل نماز پڑھ رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے اپنے گھر کو لوٹ جائے۔ (مسند أحمد ١٧٤٥٩)❍ *چوتھی بشارت:**نماز فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔*ارشاد باری تعالیٰ ہے:(أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (78)نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے. (سورة الإسراء : ٧٨)❍ *پانچویں بشارت: جہنم سے نجات۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لَنْ يلجَ النَّار أَحدٌ صلَّى قبْلَ طُلوعِ الشَّمْس وَقَبْل غُرُوبَها يعْني الفجْرَ، والعصْرَ.ترجمہ: وہ شخص ہرگز جہنم میں نہیں جائے گا جو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھے یعنی فجر اور عصر کی نماز۔ (صحيح مسلم ٦٣٤)❍ *چھٹی بشارت: اللہ تعالی کا دیدار۔*جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ( اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی ) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے ( فجر اور عصر ) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (صحيح البخاري ٥٧٣ ومسلم ١٨٢)❍ *ساتویں بشارت: پوری رات تہجد کا ثواب۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے پوری رات تہجد پڑھی۔. (مسلم ٦٥٦)❍ *آٹھویں بشارت: فرشتوں کی دعا۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص نماز فجر پڑھنے کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور فرشتوں کی دعا یہ ہوتی ہے: اے اللہ! اس بندے کی مغفرت فرما. اے اللہ! اس بندے پر رحم فرما۔(مسند أحمد ١٢٥١)❍ *نویں بشارت: مکمل حج اور عمرے کا ثواب۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ , تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ ) رواه الترمذي (586).ترجمہ: جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر و اذکار کرتا رہے پھر دو رکعت نماز ادا کرے تو اسے پورا پورا پورا حج اور عمرے کا ثواب اب حاصل ہوگا۔❍ *دسویں بشارت: نماز فجر آفات و مصائب سے حفاظت کی ضامن ہے۔*پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ( مَن صَلَّى الصُّبحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ ، فَلا يَطلُبَنَّكُمُ اللَّهُ مِن ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ فَيُدرِكَهُ فَيَكُبَّهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ )ترجمہ:جو صبح کی نماز ادا کرلے تو وہ اللہ کے حفظ و امان میں آجاتا ہے۔ (صحيح مسلم ٦٥٧) On نماز فجر کی دس فضیلتیں۔ دنیا میں ہر انسان کے لیے زندگی بہت قیمتی ہے- دنیا کا ہر شخص جانتا ہے کہ موت آنا برحق ہے- لیکن اس کے باوجود جتنی بھی زندگی ہے وہ ہر شخص کو دنیا میں رہ کر گزارنی ہے- اور ہر شخص اپنی زندگی کو خوشحال طریقے سے گزارنا چاہتا ہے اور خوشحال رہنے کے لیے صحت مند ہونا بہت ہی زیادہ ضروری ہے-انسان اپنی زندگی کو خوشحال اور صحت مند تو گزارنا چاہتا ہے، لیکن اپنی صحت کا ٹھیک سےخیال نہیں رکھنا چاہتا- آج کے اس ترقی پسند دور نے لوگوں کی زندگی کو بالکل الجھا کر رکھ دیا ہے- نہ تو انسان جلدی صبح اٹھتا ہے اور نہ ہی ورزش کرتا ہے اور نہ وقت پر کھانا کھاتا ہے- جس کی وجہ سے انسان کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتا ہے اور بیمار رہنے کی وجہ سے صحت بالکل خراب ہو جاتی ہے-آج کے دور میں ہر چیز میں ملاوٹ ہے- کوئی بھی چیز اصلی نہیں ہے- اس لیے ملاوٹ والی چیزیں انسان کے لئے اور بھی زیادہ خطرہ بن رہی ہیں-اچھی صحت اور تندرست رہنے کے لیے تیل کا استعمال کم کر دینا چاہیے-تیل میں چیزیں پک کر اور بھی نقصان دہ بن جاتی ہیں- زیتون یا دیسی گھی کا استعمال کھانے میں اوپر سے کرنا چاہیے- اسے پکانا نہیں چاہیے- خواتین کو بغیر تیل کے کھانا بنانا سیکھنا چاہیے- انٹرنیٹ پر بہت اچھے اور لذیذ کھانا بنانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں- ہر چیز آپ بنا تیل کے پکا سکتے ہیں- انڈے کو بنا تیل کے پانی میں پکایا جا سکتا ہے اور وہ بھی بہت مزہ دار بن کر تیار ہوتا ہے-اور اس کے علاوہ انسان کے لئے سب سے زیادہ نقصان والی چیز چینی ہے- اس لیے ہر شخص کو چینی کا استعمال بہت ہی کم تعداد میں کرنا چاہیے- چینی ہمارے جسم کے لیے سفید زہر کا کام کرتی ہے-صحت بنانا بھی اسلام یعنی ہمارے مذہب کا ایک حصہ ہے- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے-” اس لیے ہر انسان کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور صحت کی حفاظت کے لیے چینی کا استعمال چھوڑ دینا چاہیے-آجکل ہر چیز میں چینی کی تعداد زیادہ ہوتی ہے- کولڈرنک، چائے، حلوہ اور مٹھائیوں ہر چیز میں چینی ہے۔ اور اس کے علاوہ الگ سے بھی ہم سب چینی کا استعمال کرتے ہیں- اس لیے چینی کو کم استعمال کریں-چینی چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان میٹھا کھانا ہی چھوڑ دے- میٹھا نہ کھانے سے دماغ خراب ہوجاتا ہے- میٹھا دماغ کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے- چینی چھوڑنی ہے اور شہد اور پھل کا استعمال زیادہ کرنا ہے-شہد بہت ہی زیادہ فائدے مند ہوتا ہے- یہ ہمارے جسم کے زہریلے جراسیم کو ختم کر دیتا ہے اور جو جراسیم ہمارے جسم کے لئے مفید ہیں انہیں ختم نہیں کرتا، بلکہ انہیں اور طاقت دیتا ہے- شہد جتنا زیادہ جسم کے اندر جائے گا جسم کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچےگا- اس لئے بہتر یہ ہے کہ انسان جب بھی پانی پیے پانی میں شہد ملا کر پیے- اس سے شہد زیادہ سے زیادہ جسم کے اندر پہنچے گا اور صحت کے لیے فائدے مند رہے گا-پانی میں شہد ملا کر پینے کے لئے چار گلاس پانی میں کم سے کم ایک چمچہ شہد ہونا چاہیے-اسکے علاوہ انسان کو تندرست رہنے کے لئے صبح جلدی سوکر اٹھنا چاہیے اور ورزش کرنی چاہیے-پانی زیادہ سے زیادہ پینا چاہیے اور کھانا ہمیشہ وقت پر کھانا چاہیے- جتنا ہوسکے پیدل چلنا چاہیے-رات کو جلدی سونا چاہیے جس سے نیند پوری ہوسکے- نیند پوری ہونے سے انسان کے جسم کی سستی دور ہوتی ہے اور صحت اچھی رہتی ہے-اور سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ انسان کو باہر کی چیزوں سے پہریز کرنا چاہیے- ہمیشہ گھر کی بنی چیزیں ہی کھانی چاہیے- On صحت مند رہنے کا طریقۂ کار۔ ناکامی کو دعوت دینے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ کامیاب ہونے کی کوشش چھوڑ دیں۔ ناکامی بھاگتی ہوئی آئے گی اور آپ کے گلے لگ جائے گی۔ کامیابی دیر سے ملتی ہے لیکن اس کے ساتھ سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ آپ معزز اور مقبول ایک پل میں ہو جاتے ہیں۔ کامیاب انسان کی ہر طرف آو بھگت ہوتی ہے۔ اس کے لیے محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ اس کا ہر جگہ پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے۔کامیاب انسان کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ناکامی کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ ایک ناکام ہونے والے شخص کے سامنے صرف اس کی ناکامی کا صدمہ نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کے مختلف سوالات ہوتے ہیں جو اس کو مسلسل پریشان کرتے ہیں۔ حوصلہ دینے والے کم اور اس کی قابلیت پر تنقید کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں اس کا دوبارہ اپنے مقصد کی طرف قدم بڑھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنے بکھرے ہوئے اعتماد کو بحال کرکے کامیابی کی جستجو میں دوبارہ لگنا در اصل پہلے سے زیادہ محنت کرنے کا عزم مصمم کرنا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ لیکن محنت و مشقت کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے آپ کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی لوگ آپ کی محنت نہیں بلکہ آپ کا نتیجہ دیکھتے ہیں۔ آپ نے یہ مشاہدہ یا تجربہ کیا ہوگا کہ شہرت و مقبولیت صرف کامیاب شخص کے حصہ میں آتی ہے۔ دوران محنت آپ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ناکامی کے بعد از سر نو کامیابی کی طرف قدم بڑھانے والے در اصل اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کامیابی کے لیے دوبارہ کوشش کرنا ضروری ہے۔ آپ کمزور اس وقت نہیں ہوتے جب آپ ناکام ہو جاتے ہیں آپ کمزور تب ہوتے ہیں جب آپ دوبارہ کوشش نہیں کرتے۔ ایڈیسن نے بڑی اچھی بات لکھی ہے:"Our greatest weakness lies in giving up. The most certain way to succeed is always to try just one more time.”یعنی ہماری سب سے بڑی کمزوری کوشش نہیں کرنا ہے۔ کامیابی کا سب سے یقینی فارمولہ یہ ہے کہ ایک بار مزید کوشش کی جائے۔یہ صرف قول نہیں ہے بلکہ خود ایڈیسن کی زندگی کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ وہ برقی بلب بنانے میں فیل ہوتا رہا لیکن کوشش کرتا رہا۔ تقریبا ایک ہزار بار ناکام ہونے کے بعد اس نے وہ کامایابی حاصل کی جو اس وقت کے دوسرے سائنسدان حاصل نہ کر سکے۔ دوسرے سائنسدان ایک بار کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر بیٹھ گئے۔ ایڈیسن نے اپنے اندر ایسی مثبت فکر پیدا کر لی تھی کہ وہ اپنے ہر ناکام تجربے کے بارے یہی کہتا کہ جو تجربہ اس نے کیا وہ Solution نہیں تھا۔ اس طرح وہ ایک کے بعد دوسرا تجربہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ اس کی کامیابی تاریخ بن گئی۔جب آپ کوئی کام آدھا ادھورا چھوڑتے ہیں تو در اصل آپ ان لوگوں کے لیے راستہ آسان کرتے ہیں جو آپ کے بعد اس ادھورے کام کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح جس عزت و وقار کے آپ حقدار ہوتے ہیں صرف دوبارہ کوشش نہ کرنے کی وجہ سے اس کا مستحق کوئی اور ہو جاتا ہے۔ناکامی کا افسوس ہوتا ہے اور بلاشبہ ہر انسان کو ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ انسان ہیں تو جذبات سے عاری نہیں ہو سکتے۔ مثبت خبر ملتے ہی آپ کے چہرے پر خوشی دوڑ جاتی ہے۔ منفی خبر ملے تو آپ گھنٹوں اداس رہتے ہیں۔ یہ انسانی جبلت ہےاور یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ منفی Emotion کا اثر تا دیر رہتا ہے جبکہ مثبت Emotion کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔ اس لیے جب کسی کام میں ناکامی ملتی ہے تو آپ تا دیر غمگین رہتے ہیں۔ بعض دفعہ اس سے نکلنے میں بہت دیر ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ آپ نکل ہی نہیں پاتے۔ مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اچھی خبر پاکر آپ خوش ہوتے ہیں اور اس کا جشن تھوڑی دیر منایا جاتا ہے۔ بری خبر سے آپ غمزدہ ہوتے ہیں اور اس کا اثر بہت دیر تک رہتا ہے۔ خوشی آتی اور چلی جاتی ہے۔ غم آتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے۔ غم کا ٹھہر جانا ہی مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ غم کا اثر اتنا تیز ہوتا ہے کہ آپ کچھ سوچ ہی نہیں پاتے۔ ناکام ہونے کے اسباب پر غور و فکر نہیں کرتے۔ لیکن کامیاب ہونا ہے تو آپ کو سوچنا تو پڑے گا۔ کاروباری حلقہ میں یہ کہاوت بہت مشہور ہے:Think think think, there must be a way.آپ کو بار بار سوچنا ہوگا کیونکہ کامیابی کا راستہ غوروفکر کرنے سے ہی نکلتا ہے۔ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ سے چوک کہاں پر ہوئی ہے۔ آپ کو یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ آیا آپ کی محنت میں کمی رہ گئی تھی یا محنت ہی بیکار کی تھی۔ آپ کی امیدیں زیادہ تھیں یا آپ نے نے کوشش کم کی۔ اگر ایک آدمی دیوار پیچھے دھکیلنے میں ناکام ہو جائے اور اس پر وہ غمزدہ ہو تو آپ اس کی محنت کو قصوروار ٹھہرائیں گے یا اس کی غلط امید کو؟ ظاہر ہے اس کی غلط امید کو۔ ناکامی کے اسباب پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کامیاب ہونے کے دوسرے راستے کیا ہیں۔ آپ کو ایڈیسن کی طرح دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ ایک دروازہ کے بند ہونے پر دوسرا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن ہم بند دراوزے کی طرف ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹیلیفون کے موجد گراہم بیل نے لکھا ہے:"When one door closes, another opens; but we often look so long and so regretfully upon the closed door that we do not see the one which has opened for us”یعنی جب ایک دروازہ ہمارے لیے بند ہوتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے لیکن ہم اس بند دروازے کی طرف اتنی دیر تک اور اتنی مایوسی سے دیکھتے ہیں کہ جو دروازہ ہمارے لیے کھلا ہوتا اس کو نہیں دیکھ پاتے۔گراہم بیل کی مذکورہ بات در اصل نظام فطرت کی طرف اشارہ ہے۔ قران میں ایک آیت ہے "ان مع العسر یسرا”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بےشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اس میں بہت بڑا پیغام اور بہت بڑی نصیحت پوشیدہ ہے اس شخص کے لیے جو کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔جتنے بھی لوگوں نے اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کی ہے ان کے ساتھ "ان مع العسر یسرا” کا معاملہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بار بار کوشش کرنے پر زور دیا ہے۔ گراہم بیل جب یہ کہتا ہے کہ ایک دروازہ کے بند ہوتے دوسرا دروازہ کھل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک راستہ بند ہوتا ہے تو اللہ دوسرا راستہ اسی وقت پیدا کر دیتا ہے۔ جب ایڈیسن یہ کہتا ہے کہ کامیابی کا سب سے یقینی فارمولہ یہ ہے کہ آپ ایک بار مزید کوشش کریں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ تنگی کے بعد آسانی ہے۔آج آپ ناکام ہوئے کوئی بات نہیں۔ ایک بار پھر کوشش کریں کل آپ کامیاب ہوں گے۔یہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ یہ دنیا Problem سےSolution کی طرف سفر کر رہی ہے۔ آج ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے کل اس کا حل تلاش کر لیا جاتا ہے۔ آج ایک بیماری پیدا ہوتی ہے اور دوسرے دن ڈاکٹرس اس کے علاج کا طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ نے قران کو سمجھ کر نہیں پڑھا۔ کامیابی کے سارے راز وہیں دفن ہیں۔ قرانی فارمولے اپنا کر لوگ کامیابیوں کی بلندی پر پہنچ گئے اور آپ قران رکھتے ہوئے ناکامی کی طرف ہر دن ایک قدم آگے جا رہے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان کی ایک بات بہت اچھی لگی۔ انہوں نے اپنی ایک گفتگو میں کہا کہ اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو Hopeful بن جائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پیغام بھی "ان مع العسر یسرا” میں پوشیدہ ہے۔ تنگی ہے تو صبر کریں۔ ناکام ہوئے ہیں تو حوصلہ رکھیں۔ اللہ آپ سے فرما رہا ہے کہ پریشانی کے ساتھ آسانی ہے۔ مشکل وقت میں آپ اپنی امیدیں بحال رکھیں۔ کامیابی کی جستجو میں لگے رہیں۔ پرامید ہونا مثبت انرجی دیتا ہے۔ امیدی میں انسان اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ناامیدی کفر ہے، اس میں انسان شیطان کے ساتھ ہوتا ہے۔ شیطان کے ساتھی کو اللہ کی مدد نہیں پہنچتی۔ امید ہے تو سب کچھ ممکن ہے۔ امید نہیں ہے تو صرف ایک چیز ممکن ہے اور وہ ہے ناکامی۔ آپ ناکام ہوئے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوں۔ ناکامی سے ناامید نہ ہوں۔ ایک بار پھر کوشش کریں کامیابی ضرور ملے گی۔ کامیابی کوشش کرنے والوں کو ہی ملتی ہے۔ اب کامیابی پہلی کوشش میں ملے یا دوسری کوشش میں لیکن ملے گی کوشش کرنے سے ہی۔محمد ریحان، جامعہ ملیہ اسلامیہ On کوشش کرنے والے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی غیرملکی زبان سیکھی جائے۔ کیا اردو کا انتخاب کرنا بہتر نہیں ہوگا؟ (واضح رہے کہ اردو ہندوستان کے لیے بدیسی زبان نہیں ہے۔ شاہ زمن حق نے فرانسیسی عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات لکھی ہے)اردو زبان سیکھنے کے ۹ فائدے ہیں۔1- اس کلاسیکی زبان کی مدد سے، جو بارھویں صدی کے آس پاس ترقی کرنا شروع کی، آپ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے شاندار ادبی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔2- یہ بات معلوم ہے کہ اردو دوسری زبانوں کے زیر اثر وجود میں آئی۔ اس نے عربی، ہندی، فارسی، پنجابی، ترکی اور سنسکرت سے بہت سارے الفاظ لیکر اپنے دامن کو وسیع کیا۔ اردو زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مذکورہ بالا زبانوں سے بھی کچھ حد تک واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے بہت سے بنیادی محاورے یکساں ہیں۔ اردو نے تقریبا چالس فیصد الفاظ فارسی اور عربی سے ماخوذ کیے ہیں۔ سنسکرت سے 43 الفاظ لیے گئے ہیں جو روز مرہ کی اردو میں بولے جاتے ہیں۔3- اردو فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ زبان پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں تو آپ چھ دوسری زبانیں یعنی عربی، بلوچی، کشمیری، پشتو، فارسی اور پنجابی بھی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کے معنی و مفاہیم بھی سمجھ سکتے ہیں۔4- اردو دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ 160 ملین لوگ اس زبان کو دنیا کے 26 ممالک افغانستان، بحرین، بنگلہ دیش، بوٹسوانا، کینڈا، فیجی، فنلینڈ، جرمنی، گیانا، ہندوستان، ملاوی، موریشس، نیپال، ناروے، اومان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سویڈن، تھائی لینڈ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور زمبیا میں بولتے ہیں۔ اگر آپ اردو سیکھتے ہیں تو اس میں شائع ہونے والے تقریبا چار ہزار اخبارات و رسائل، 70 ریڈیو اسٹیشن اور 74 ٹی وی چینل تک آپ کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔5- اردو ہندوستانی برصغیر کی سب سے کم اہمیت دی جانے والی عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان میں مقیم 45 فیصد سے زیادہ پنجابی بولنے والے، لسانی اور دیگر گروہی طبقات کی واحد رابطے کی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے پولس تھانہ میں شکایت دہندگان اردو کا استعمال ایک دفتری زبان کی حیثیت سے کثرت سے کرتے ہیں۔6- نیورو سائنسدانوں کی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اردو پڑھنے سے انسان کے دماغ کا اگلا حصہ متحرک ہو جاتا ہے جس سے انسان کے فیصلہ لینے کی قوت بڑھ جاتی اور تجزیاتی صلاحیت نکھر جاتی ہے۔ اس کی وجہ در اصل اردو زبان کا خاص صوتی نظام اور گرافک ڈھانچہ ہے۔7- اردو ایک مہذب انسان کو مزید مہذب اور شائستہ بناتی ہے۔ یہ دنیا کی مہذب زبانوں میں سے ایک ہے۔ جب اردو میں کسی بچے کی سرزنش کی جاتی ہے تو اس وقت اس کا صوتی آہنگ اور خوش الحانی لائق شنید ہوتی ہے۔ اس زبان کی بدولت ہم "زین رویہ” Zen Attitude اپنا سکتے ہیں جس سے لوگوں سے ہمارے بہتر رشتے استوار ہو سکتے ہیں۔8- اردو کے ذریعہ ہندی فلموں کے نغمے اور مکلامے کو سمجھنا آسان ہے۔ ہندی فلموں کے اکثر و بیشتر نغمے اردو میں ہی ہوتے ہیں۔9- اردو زبان کا علم آپ کے کیرئیر میں چار چاند لگا سکتا ہے اگر آپ شمالی ہند، پاکستان، برطانیہ، عرب متحدہ امارات، اومان، قطر سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ان جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ اردو کا علم روزگار تلاش کرنے اور آپ کے سماجی رابطہ کو وسیع کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔تحریر: شاہ زمن حق، انالکو فرانسمترجم: محمد ریحان، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی On اردو زبان سیکھنے کے فوائد (١) ہمیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیئے کہ اگر ہمارے گھر میں جب کبھی ایل۔ پی ۔جی ۔گیس سلنڈر کا دھماکا ہو جائے اور اس کی وجہ سے اگر ہمارے گھر میں کوئی نقصان ہو جائے ،یا اس حادثے میں کسی کی جان چلی جائے تو سرکار کی طرف سے ہم چالیس لاکھ روپیے لے سکتے ہیں ۔(٢) ایک مرد افسر ایک عورت کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ ایک عورت افسر ہی ایک عورت کو گرفتار کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ ایک عورت شام کے چھ بجے سے لے کر صبح کے چھ بجے کے دوران پولیس سٹیشن میں جانے سے انکار کرسکتی ہے۔اور کسی سنگین جرم کی صورت میں ہی مصنف کی اجازت سے مرد افسر کسی عورت کو گرفتار کر سکتا ہے ۔(٣) ہندوستان کے موٹر ویکل ایکٹ کے مطابق کوئی بھی ٹرافیک کے قانون بغیر موٹر پر چلنے والی گاڑیوں ، جیسے سائیکل اور رکشا پر لاگو نہیں ہوتے ۔(٤) اگر کسی دن آپکو کوئی ٹرافی قانون توڑنے پر چالان ہو جاتا ہے تو ٹریفک قانون کے مطابق آپ اسی چالان کو استعمال میں لاتے ہوئے رات کے 12 بجے تک مزید چالان سے بچ سکتے ہیں۔(٥).. کسی بھی چیز کو خریدتے ہوئے ہمیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیئے کہ اس چیز پر لکھی ہوئی قیمت کو ہم دکاندار سے کم کروا سکتےہیں لیکن دکاندار لکھی ہوئی قیمت سے زیادہ پر اس چیز کو قانوناً نہیں بیچ سکتا۔(٦) ہندوستان کے قانون کے مطابق اگر کسی پولیس افسر کے سامنے کوئی جرم کیا جارہا ہے اور اگرچہ وہ پولیس افسر اس وقت وردی میں نہیں یا ڈیوٹی پر نہیں ہوتا تو بھی وہ پولیس افسر اس جرم کے لیے چشم دید قرار دیا جائے گا۔مطلب یہ کہ ایک پولیس افسر ہمیشہ ڈیوٹی پر ہوتا ہے چاہے وہ وردی میں ہو یا نہ ہو۔(٧) ہندوستان کے سارایس ایکٹ ١٨٦٧ کے مطابق کوئی بھی آدمی کسی بھی ہوٹل سے کسی بھی وقت مفت میں پانی کا استعمال کرسکتا ہے اس کے علاوہ وہ اس ہوٹل کے بیت الخلاء کو بھی مفت میں استعمال میں لا سکتے ہیں ۔(٨) ہندوستان کے قانون کے مطابق ایک عورت ہندوستان کے کسی بھی پولیس سٹیشن میں اپنی شکایت درج کرا سکتی ہے اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کس جگہ پر رہتی ہے۔(٩) ہندوستان کے قانون کے مطابق کسی بھی مجرم کو گرفتار کرنے کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پولیس والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس مجرم کو منصف کے سامنے پیش کیا جائے۔(١٠) ایک مجرم کے گرفتار ہونے پر اس کا یہ قانونی حق ہے کہ اس اس کی گرفتاری کی وجہ بتائی جائے ۔ On ہندوستان کے چند ضروری قوانین جانیے۔ ﷽"اشرف الانبیاء جناب محمد مصطفٰیﷺکے حضور میں”"اے مدینہ کے تاجدار! اے بیکسوں کے مددگار! اے دوعالم کے مختار!”"آپﷺ پر مجھ عاصی کی جانب سے درود و سلام”آپﷺ نے دین متین کی اشاعت کے لیۓ اور ہم گنہگاروں کی اصلاح کے لیۓ اور ہماری نجات کے لیۓ جو جو تکالیف اور اذیتیں برداشت فرمایئ۔انہیں آپﷺ کی امت فراموش نہی کر سکتی۔حضورﷺ کے فضائل و مناقب کو بشر کی کیا مجال ہے؛جو بیاں کر سکیں۔"نعت احمد میں کروں کیا؛میرا رتبہ کیا ہے”"وصف خالق ہی جو فرماۓ تو بندہ کیا ہے”لیکن افسوس صد افسوس ہم نے آپﷺ کی تعلیمات کو دل سے بھلا دیا۔آپﷺ کے اخلاقِ حمیدہ کو دیکھ کر دشمن بھی دوست ہو جاتے تھے۔لیکن ہماری بد اخلاقی کا یہ حال ہیکہ دوستوں کو بھی دشمن بنا رہیں ہیں۔ آپﷺ کی خوش معاملگی نے آپﷺ کو "امین” کا لقب دلوایا۔لیکن ہماری بد معاملگی آج ہمیں اپنوں اور غیروں میں رسواء کر رہی ہے۔ہر برایئ سے ہم مانوس ہو چکیں ہیں۔ہر بھلایئ کو ہم نے ترک کر دیا ہے۔آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کر رہیں خلوص اور محبت ہم میں مطلق باقی نہی رہا۔انہی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم دنیا میں ذلیل اور رسواء ہو رہیں ہیں۔"آقا ﷺ جلد ہم گنہگاروں کی خبر لیجیئے”"فریاد ہے اے کشتئ امت کے نگہباں”"بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے”*🌹🌹حسنی تبسم انصاری مرادآباد* On ﷽ مناجات رسول اللہﷺ "اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا۔۔۔ ماضی تو سنہرا تھا مگر حال کھو گیا۔۔۔ اقبال کاترانہ بانگِ درا ہے گویا۔۔۔ ہوتا ہے جادۀ پیما کارواں ہمارا۔۔۔ حسنی تبسم انصارہ 🌹 On یومِ اقبال 🌹🌹🌹عورت کون ہے؟؟؟🌹🌹*مرد کی بیٹی**اور**مرد کی بہن**اور**مرد کی معلمہ* ..!ایک نوجوان نے کسی لڑکی کو تنگ کرنا چاہا,تو اس کی طرف ایک خاص پیغام بھیجا: *شائد ہم ایک دوسرے کو جانتے ہوں؟*تو اس پر اس لڑکی کا جواب تھا:*شائد کیوں* ؟مجھے یقین ہے میرے بھائیتم کیسے نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟یقینا اس لڑکی کا جواب بہت حیرت انگیز تھا۔۔۔اس نے اس سے کہا:🍃 میں حوا ہوں وہ جو تمہاری پسلی سے پیدا کی گئ تاکہ تم اسے اذیت نہ دو اور نہ ہی یہ بھولو کہ وہ تمہارا ایک ٹکڑا ہے۔🍃 میں وہ ہوں جسے اللہ نے تمہیں تحفہ دیا جب تم جنت میں اکیلے تھے تم ڈھونڈ رہے تھے کہ وہ کون ہو جو تمہاری وحشت سے تمہیں انس دے۔🍃 میں تمہاری ماں, تمہاری بہن, تمہاری بیٹی, تمہاری بیوی ہوں جو تمہارے گھر کی حفاظت کرتی ہے۔🍃 میں سورہ النسآء,المجادلہ,النور,الطلاق اور مریم ہوں۔🍃 میں وہ جنت ہوں جو میرے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی جب میں تمہاری ماں بنتی ہوں۔🍃 میں وہ ہوں جسے اللہ نے تمہاری آدھی وراثت دی تو مجھے حقیر نہ سمجھنا بلکہ تم تو میرے سارے امور کے نگران بنائے گئے ہو۔🍃 میں وہ ہوں جس کے بارے میں الحبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی اور فرمایا(تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو)🍃 میں وہ ہوں جس کے بارے میں میرے رب نے فرمایا:”کھاٶ اور پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو“🍃 میں وہ ہوں جو زیورات میں پالی جاتی ہے۔🍃 میں وہ ہوں جو نیک ہو تو وہ غیر صالح ہزار مردوں سے افضل ہے۔اگر تم تفریح کی تلاش میں ہو تو لہو ولعب کے صفحات کی طرف جاٶ۔۔۔بےشک میں اور میری جیسی تو “وسائل التواصل“ میں داخل ہیںاللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل پھیلانے کے لیےاور ان لوگوں کا راستہ درست کرنے کے لیے جنہوں نے اپنا آپ شیطان کو بیچ ڈالا*تو اب تم بتاؤ تم کون ہو اے بھائی؟*نوجوان نے دو جملوں میں جواب دیا:”میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوں,اور مبارک ایسی ماں کے لیے جس نے تمہیں جنااور اس باپ کے لیے جس نے تمہاری پرورش کی“اس پیغام کو اپنے بیٹوں کو بھیجو اور اپنی بیٹیوں کو، تاکہ وہ نیکی کرنے نیکی بتانے والے بنیں۔۔۔!!!بقلم حسنی تبسم انصاری 🌹 On عورت کون ہے؟؟؟ بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں🌺🌺 بہن کی محبت صبح صبح چائے کی دکان پہ میرا دوست میرے پاس بیٹھا مجھے سلام کیا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے میرا ہاتھ پکڑا روتے ہوئے بولا فارس میں آج خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا ہوں میں حیران تھا اس کی کمر پہ تھپکی دی ارے ایسا کیا ہوا گیا شیر کو وہ مجھ سے نظریں نہ ملا رہا تھا پھر زور زور سے رونے لگا سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے میں اس کو چپ کروایا ارے پاگل سب دیکھ رہے ہیں میرے سینے سے لگ گیا روتے ہوئے بولا فارس بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں میں سوچ میں گم ۔۔۔کیا ہو گیا تم کو ایسا کیوں بول۔رہے ہو کہنے لگا فارس پتا ہے بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی میں ابو یا امی جاتے ہیں میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی آپ کی بہن جب بھی آتی ہے اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں خرچ ڈبل ہو جاتا ہے اور تمہاری ماں ہم۔سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے کبھی کپڑے کبھی صرف کے ڈبے اور کبھی کبھی تو چاول کا تھیلا بھر دیتی ہے اپنی ماں کو بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں فارس مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھا ماں بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس اور یہ جو آپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں سب ماں چپ رہی لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں میری بہن کچھ نہ بولی 4 بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ او میں نے جھوٹے منہ کہا رہ لیتی کچھ دن لیکن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو میں نے صاف انکار کیا بھائی میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا بہن سامنے بیٹھی تھی وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے گالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی وہ بیچاری خاموش تھی کورنا کے دن ہیں فارس کام کاج ہے نہیں میرے بڑے بیٹے کو ٹی بی ہو گئی میرے پاس اس کا علاج کروانے کے پیسے نہیں بہت پریشان تھا میں قرض بھی لے لیا تھا لاکھ دو بھوک سر پہ تھی میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا شاید رو رہا تھا حالات پہ کے اتنے میں بہن گھر آگئی میں غصے سے بولا اب یہ آ گئی ہے منحوس بیوی میرے پاس آئی کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانے کی اس ک لیئے پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی بھائی پریشان ہو میں مسکرایا نہیں تو بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا بڑی بہن ہوں تمہاری گود میں کھیلتے رہے ہو اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو پھر میرے قریب ہوئی اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے ہاتھ میں رکھے آہستہ سے بولی پاگل توں اویں پریشان ہوتا ہے تیرا بھائی شہر گیا ہوا تھا بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل۔آوں یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر بیٹے کا علاج کروا اور جا اٹھ نائی کی دکان پہ جا داڑھی بڑھا رکھی ہے شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنا رکھی تم۔نے میں خاموش تھا بہن کی طرف دیکھے جا رہا تھا وہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانا کنگن کے بارے میں تم۔کو میری قسم ہے میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے شاید اس کی جمع پونجی تھی میری جیب میں ڈال۔کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا پریشان نہ ہوا کر تیرے بھائی کو تنخواہ ملے گی تو آوں گئ پھر جلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا دیکھ اس نے بال سفید ہو گئے اب بازار جاو اور داڑھی منڈوا کر آو وہ جلدی سے جانے لگی اس کے پیروں کی طرف میں دیکھا ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی فارس بہن کی اس محبت میں مر گیا تھا ہم۔بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں بہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں اور بہنیں بھائیوں کا ذرا سا دکھ برداشت نہیں کر سکتیں وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا اس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھیں اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہہ رہی ہوتی ہیں کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ لیا کریں شاید کے ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیئے ایک سکون آ جائے،🌷🌷🌷🌷🌷🌷 حسنی تبسم انصاری On بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں تاریخ نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عہدہ ومنصب کے حصول کے لیے کیا کیا نہیں کرتے۔ کرسی کے لئے کیا کیا نہیں کرتے اور پھر کرسی کے حصول کے بعد اس پر تا حیات برقرار رہنے کے لئے کیا کیا جائز و نا جائز حربے استعمال نہیں کرتے۔ اپنے اصول، اپنی شخصیت، اپنے کردار اور اپنی عزت وناموس تک کو داؤں پر لگادیتے ہیں۔ در اصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی عہدہ ومنصب کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ کسی کرسی کا استحقاق رکھتے ہی نہیں۔ کرسی انہیں عزت دیتی ہے انہیں شرف بخشتی ہے لیکن حب وہ کرسی سے اترتے ہیں تو کیڑے مکوڑوں کی طرح بے نام ونشاں بن جاتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس ہر دور اور ہر سماج میں کچھ ایسے زندہ کردار رہے ہیں جنہوں نے اپنے اصولوں کے مقابلے میں کرسی کو کبھی ترجیح نہیں دی۔ اپنے اصولوں کو کبھی کسی عہدے کی گھاٹ پر قربان نہیں کیا۔ اپنے علم، مقام ومرتبے، کردار اور شخصیت سے ہمیشہ اپنے عہدے کو نکو نام کیا۔ ڈاکٹر طه حسین بھی انہیں شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ ان کے افکار ونظریات کی تائید وتردید سے قطع نظر مقصود یہ ہے کہ حکومت وقت نے ایک حکم نامہ صادر کرکے آرٹس فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر طه حسین سے کہا کہ وہ فلاں اور فلاں سیاسی شخصیات کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کی سفارش کردیں۔ طه حسین کی غیرت نے اس حکم نامے پر دستخط کے بجائے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔حکومت کی تبدیلی کے بعد ان کے عہدے کو بحال کردیا گیا۔ مشہور مصری ادیب احمد امین اور طه حسین کے دوست بھی انہیں میں سے ایک تھے جنہوں نے کرسی کو کبھی اپنی شان نہیں سمجھا۔ نہ اس سے چپکے رہنا اپنی شخصیت کا اعزاز سمجھا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ جب وہ آرٹس فیکلٹی کے ڈین تھے تو اس وقت کے وزیر تعلیم نے ان کی فیکلٹی میں کچھ ایسے تصرفات کیے جن میں ان کی رائے نہیں لی گئی۔ انہوں نے اس پر احتجاج کیا مگر لا حاصل۔ اس کے بعدانہی کی فیکلٹی کے کچھ اساتذہ کو ان کی اجازت کے بغیر اسکندریہ یونیورسٹی منتقل کیے جانے کا حکم نامہ صادر کر دیا گیا۔ وزیر تعلیم کے اس آمرانہ حکمنامے کے بعد انہوں نے اپنی ڈین شپ سے استعفیٰ دے دیا جسے قبول کرلیا گیا۔ استعفیٰ کے بعد ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا ”انا أکبر من العمید وأصغر من الاستاد“ یعنی میں ڈین سے درجہا بڑا ہوں مگر استاد کے مرتبے سے کہیں چھوٹا ہوں۔ یہ میرے بچپن کاواقعہ ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اترپردیش میں الیکشن تھا۔ ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کے نمائندے ہمارے گھر والد صاحب کے پاس تشریف لائے تاکہ ان کا ووٹ اور سپورٹ حاصل کرسکیں۔ اس امیدوار کے سسر یوپی کے وزیر اعلی تھے اور قوی امید تھی کہ ان کی پارٹی کے جیتنے کے بعد ایک بار پھر وہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ انھوں نے کہا مولانا آپ ہمیں سپورٹ کریں آپ کے دونوں بیٹوں حماد انجم اور سہیل انجم کو سرکاری نوکری دلا دی جائے گی۔آپ جانتے ہیں میرے سسر وزیر اعلیٰ ہیں۔ ابا نے کہا حماد انجم اور سہیل انجم کے رزق کا ذمے دار وہ ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔میں آپ کی پارٹی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اور وہ صاحب خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے اور ہار بھی گئے۔اس واقعے کو تفصیل سے میں نے نقوش جاوداں میں ذکر کیا ہے۔ در اصل علم بے نیازی سکھاتا ہے۔آدمی جس قدر علم کے بحر زخار کی شناوری میں مہارت حاصل کرتا ہے اس کے سامنے سارے عہدہ ومنصب، دنیاوی جاہ وحشمت، مقام ومرتبے کوتاہ قد نظر آتے ہیں۔ تاریخ نے ایسے بے شمار علماء کی سرگزشتوں کو محفوظ رکھا ہے جنہوں نے کبھی بھی دنیاوی عہدہ ومراتب اور جاہ وحشم کو در خور اعتنا نہیں سمجھا اور وہ پوری تندہی کے ساتھ علم وادب کی خدمت میں مصروفِ عمل رہے۔ آج ایسے ہی علماء کا نام اور کام زندہ ہے۔باقی عہدہ ومنصب والے بے نام ونشان ہوکر رہ گئے۔ رہے نام اللہ کا!!!از تحریر : ڈاکٹر شمس کمال انجم ﴿صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری﴾ On اپنے اصول پر قائم رہنے کا فائدہ: ایک تحریر شرمندہ ہوناٹیپو سلطان سے انگریزوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ On منہ کی کھانا افلاطون ایک مشہور فلسفی تھا اس نے اپنے دربارمیں قابل اور دانا لوگوں کو مدعو کیا ان میں سے ایک شخص دیو جأنس کلبی تھا یہ شخص عجز کا پیکر تھا ہمیشہ ایک صندوق نما گاڑی میں پھرتا جہاں رات ہوتی اسی گا ڑی میں سو جاتا.اسکا خیال تھا کہ انسان کو زمان و مکان کی قید سے آزاد رہنا چاہئے ورنہ وہ اپنےاصل جوہر سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ ایسے آزاد منش اور عجز کے پیکر شخص نے افلاطون کے دربار میں آکر اپنے گندے پاؤں افلاطون کے دربار کے قیمتی قالینوں سے رگڑنا شروع کردیئے دریافت کرنے پر فخرسے کہا کہ میں افلاطون کے غرور و تکّبرکو اپنے پیروں تلےروند رہا ہوں اس پہ افلاطون نے خندہ پیشانی سےاسے کہا "مگر میرے بھائ تم خودیہ کام کس قدر " غرور و تکبّر "سے کر رہے ہو؟؟دیو جانس افلاطون کی یہ بات سن کر لاجواب ہوگیا۔تو جناب یہی حال خود پسندی کا ہے جب انسان خود کو دوسروں سے بہتر تصّور کرنے لگتا ہے رفتہ رفتہ اسے اپنی "انا"اپنی "میں"ہر شے پہ برتر دکھائی دیتی ہے نتیجتاً جہاں اسےجھکنا ہوتا ہے وہاں وہ ٹوٹ جاتا ہے یا توڑ دیتا ہے مگر جھکتا نہیں۔ جبکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ جھک جانے میں عافیت ہے خاص کر جہاں غلطی آپکی ہو۔یاد رہے تکبّر صرف عہدہ،مال،حسن اورشہرت وغیرہ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ سادگی پہ،اپنے ہنروفن پہ علم وعمل پہ غرض کہ عبادت تک پہ ہوتا ہے یہی فخر اور غرور وتکّبر خود پسندی سے ہوتا ہوا خود پرستی تک لےجاتا ہے اور یہ "عجز کا تکبر" ہوتا ہے ۔یعنی اپنی اچھائیوں پہ فخروغروریعنی آپ جب اپنی انا میں یہ بھول جائیں کہ خود پسندی کا نعرہ لگانا اشرف المخلوقات کا نہیں بلکہ شیطان کا وطیرہ ہے۔ہمارے معاشرے میں چھوٹوں کا اپنی غلطی پہ ڈٹ کر بڑوں کی صحیح بات کو بھی رد کردینا،اسی طرح بڑوں کا اپنی بے جا اور ناحق بات زبردستی چھوٹوں سے تسلیم کرانا کیا معاشرتی بگاڑ کا سبب نہیں؟اپنی غلطی ہوتے ہوئے بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا کیا بہترین معاشرے کی راہ میں رکاوٹ نہیں؟ عجز وانکساری کامطلب جھک جانا یا دب جانا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بردباری اور شخصیت کا بڑاپن ہےکہ آپ دوسروں کی بھی ویسی ہی عزّت کرتے ہیں اورانکے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں جیسی عزْت اورحقوق کی پاسداری آپ دوسروں سے اپنےلئے چاہتے ہیں۔ایک ایسےہی مثالی معاشرے کی ہمیں اشدضرورت ہے جہاں حقوق وفرائض کی ادائیگی کا توازن ہمیشہ قائم رہے اور انسان صرف"آسمان"کےدروازے کھولنے چاند پر نہ پہنچے بلکہ "دل"کے دروازےپر پڑے تالے کھول کر ایک بہترین انسان بنے اور ایک بہترین معاشرتی کردار ادا کرے۔آو ملکر خودپسندی سے باہر نکلیں اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں۔ On خود پسندی سے خود پرستی تک۔ 9 نومبر، شاعر مشرق علامہ اقبال کا جنم دن ہے۔ اب یہ عالمی یومِ اردو کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ محض رسماً ایک پروگرام کے انعقاد پر اکتفا نہ کریں بلکہ اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوئی مضبوط ومستحکم لائحہ عمل تیار کریں، کیونکہ آزادی کے بعد سے ہماری اردو تعصب کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے اور اقبال اشہر کی زبان میں یہ پوچھ رہی ہے کہ؛کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ؟میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں ماناسیاسی جلسوں سے لیکر پارلیمنٹ تک اردو اشعار پڑھ کر داد وصول کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بھی اردو کو اس کا حق دلوانے کی کبھی کامیاب کوشش نہیں کی۔ شب وروز اردو کی قصیدہ خوانی کرنے والے لوگ بھی اب اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلوانا نہیں چاہتے۔اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ موجودہ ہندوستان میں اردو کی صورتحال اس حسین وجمیل محبوبہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے جس کی حسن ونزاکت اور لطافت ونفاست کی تعریف تو سب کرتے ہیں لیکن کوئی اسے اپنانا نہیں چاہتا۔ ایسے افراد سے سوال کیا جانا چاہئے کہ آخر کیوں؟محبت کا سبھی اعلان کرجاتے ہیں محفل میںکہ اس کے واسطے جذبہ ہے ہمدردی کا ہر دل میںمگر حق مانگنے کے وقت یہ بیگانہ پن کیوں ہے؟وطن میں بے وطن کیوں ہے، یہ اردو وطن میں بے وطن کیوں ہے؟جواب شاید یہ ملے کہ اردو محض عشق ومحبت کی زبان ہے، اس کے سہارے کلام میں حسن تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں رنگ نہیں بھرا جاسکتا۔ اب اہل اردو کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حقیقت کو ہر فرد کے ذہن و دل میں بٹھائے کہ اردو نہ صرف ایک زندہ جاوید زبان ہے بلکہ اردو ایک تہذیب ہے، ایک کلچر ہے۔ اردو سے ہماری جتنی گہری وابستگی ہوگی تہذیب سے رشتہ اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ؛اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہےوہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئیاور میں یہ عرض کروں تو شاید مبالغہ آرائی کا الزام میرے سر آئے کہ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد ہے، یہ الگ بات کہ اس بنیاد کو ہلانے اور اس علامت کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو کو مٹانے کی سازشیں کرنے والے بھی اردو ہی بولتے ہیں؛اردو کو ہم ایک روز مٹادیں گے جہاں سےکمبخت نے یہ بات بھی اردو میں کہی تھیسامعین اکرام ! اگر ہم اردو زبان اور اپنی تہذیب وثقافت کا فروغ چاہتے ہیں تو اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء وطالبات کے ذہن سے اس خوف کو نکالنا ہوگا کہ ہم اردو سبجیکٹ میں ایڈمیشن لیکر کچھ کر نہیں سکتے۔ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ سبجیکٹ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، شرط یہ ہے کہ اپنے سبجیکٹ پر آپ کو عبور حاصل ہونا چاہئے، آپ کے اندر صلاحیت اور انفرادیت ہونی چاہئے ورنہ تو انگلش لٹریچر سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کو بھی ہم نے بے روزگار پھرتے اور اردو ادب کے ریسرچ اسکالرس کو اسسٹنٹ پروفیسر بنتے دیکھا ہے۔ایک بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ کامیاب وہ طلباء اور طالبات نہیں ہوتے جو اپنے سبجیکٹ کو بہت اچھا کہتے ہیں، کامیاب وہ ہوتے ہیں جو اپنے سبجیکٹ میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔اگر ہم اردو زبان کی ترقی چاہتے ہیں تو برادران وطن خصوصاً نسل نو کے ذہن سے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ اردو کسی مخصوص قوم کی زبان ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پریم چند، کرشن چندر، فراق، جوگیندر پال، گیان چند جین، کنہیا لال کپور، کالی داس گپتا، وشوناتھ طاؤس اور گلزار جیسی سینکڑوں شخصیات کا نام اردو کے شعرا وادباء کی فہرست میں نہ آتا۔حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی فرقہ یا مذہب کی زبان نہیں، یہ ہندوستان اور بھارت کی زبان ہے، یہ پیار اور محبت کی زبان ہے۔ عالمی یومِ اردو زبان کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم زمینی سطح پر، تقریر وتحریر، درس وتدریس اور کتب ورسائل کے سہارے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو زبان کے فروغ اور اس سے جڑی تہذیب کی بقا کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ اردو کے طلباء وطالبات اور ہماری آئندہ آنیوالی نسلیں اردو لکھتے یا پڑھتے ہوئے کبھی احساس کمتری کے شکار نہ ہوں بلکہ پراعتماد لب ولہجے میں دنیا کے سامنے وہ یہ کہہ سکیں کہ؛ہم ہیں تہذیب کے علمبردارہم کو اردو زبان آتی ہے On یوم اردو پر ایک تقریر لکھیں۔ یہ مسئلہ ہماری آنے والی نسل کا مسئلہ ہے۔ آئس یا کرسٹل میتھ کچھ عرصے سے ہمارے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور یہ نشہ کی ایک خطرناک قسم ہے۔ دیگر نشہ آور اشیا جیسا کہ چرس،ہیروئن کو پودوں سے تیار کیا جاتا ہے جب کہ آئس ایک ایسانشہ ہے کیمیکل سے تیار کیا جاتا ہے۔ادویات میں ایک کیمیکل ایفیڈرین استعمال ہوتا ہے جو کہ اس نشہ کا اہم جزو ہے۔نشہ کا کاروبار کرنے والے زائد المعیاد ادویات کو سستے ترین داموں میں خریدتے ہیں اور ان میں موجودا یفیڈرین اور میتھ ایمفٹامین سے آئس نشہ تیار کرتے ہیں۔یہ نمک یا چینی کے دانوں کی مانند ہوتی ہے اور فرد اس کو سگریٹ،ناک سے اور انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں اس کے استعمال کے کیا کیا نقصانات ہیں۔۔اس سے وقتی طور پر انسان میں عارضی خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔۔ اس سے فرد میں وقتی طور پر توانائی بھر جاتی ہے اورفرد چوبیس (24)گھنٹے سے لے کر اڑتالیس (48)گھنٹے تک جاگ سکتا ہے۔۔وقتی طور پر انسان کا حافظہ تیز کام کرتا ہے۔طلبہ میں اس کا استعمال اس لیے ہی بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی گریڈ کو بہترین کرنے کے لیے آئس کا سہارا لیتے ہیں اور اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور اس کے مضر اثرات کی وجہ سے وہ اپنی ڈگر ی بھی مکمل نہیں کر پا تے۔۔ وقتی طور پر جنسی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ اس نشہ کا اثر بارہ (12) گھنٹے تک رہتا ہے اور اس کے بعد انسان کی جسمانی حالت میں تبدیلیا ں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔۔ آنکھ کی پتلی کا سائز بڑھ جاتاہے۔۔ منہ کا خشک ہو جانا/پسینہ آ نا۔ بلڈپریشر کا بڑھ جانا/متلی اور قے کا آنا۔ حرکت قلب میں بے تربیتی۔۔ بے چینی،چڑاچڑا پن اور جارحانہ پن کا مظاہرہ کرنا/نیند کا ڈسڑب ہونا۔۔ پریشانی،ڈیپریشن اور وہمات کا شکار ہونا۔۔ بھوک نہ لگنے کی وجہ سے وزن میں تیزی سے کمی ہونا۔۔ اس کے مسلسل استعمال سے دماغ اور دل کی شریانیں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔۔ گردے،جگر اورپھیپھڑے شدید متاثر ہوتے ہیں۔۔ آئس کے زیادہ استعمال سے ہارٹ اٹیک ہونے سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔۔ آ ئس کے زیا د ہ استعما ل سے بر ین ہیمرج ہو جاتا ہے۔۔ آئس کے ناک کے ذریعے استعمال کرنے سے ناک کے ٹشومتاثر ہوتے ہیں اور ناک میں سے خون نکلتا رہتا ہے۔۔ وہ کبھی بھی نا ر مل زند گی نہیں گزا ر سکتے۔۔ اس کا مسلسل استعمال پاگل پن پیدا کرتا ہے۔آئس نشہ کے حوالے سے کام کرنے والے دوستوں کو سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔ سکول کالیج یونیورسٹی میں ہم خیال اساتذہ سے مل کر گروپ بنائیں اور پھر تمام اساتذہ سے بارے گروپ میٹنگ کریں۔حکومت یعنی پولیس پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی ناک کی نیچے یہ بھیانک کام سر انجام دیے جارہے ہیں ، فورس میں موجود دردِ دل رکھنے والے لوگ یا اپنے پیشے سے سچے لوگ اس پر ضرور کام کریں۔ ورنہ خدا نے تو ضرور پوچھنا ہے۔تعلیمی اداروں میں ایک اچھا استاد فوراً پہچان سکتا ہے کہ کون سا بچہ نارمل ہے اور کون کسی دوا کے اثر ہے ۔ کون کتنا تعلیم میں وقت دے رہا ہے کون اچانک بہت اچھا ہوگیا ہے اور پھر اچانک سے کسی کام کا نہیں رہا۔اسی طرح تعلیمی اداروں میں آئس بیچنے کے لیے طلبہ و طالبات سے ہی کام لیا جاتا ہے ، یونیورسٹی میں تو صرف اسی کام کے لیے لڑکے اور لڑکیوں کو داخلہ دلوایا جاتا ہے جو دوستی رکھ کر طلبہ و طالبات کو اس نشہ پر لگاتے ہیں۔اپنے آس پاس اور اپنے بچوں پر نظر رکھیے۔تعلیمی حوالے سے ایک حد تک ان پر زور دیں ، ایسا نہ ہو آپ کے شوق اور بے جا مطالبے کے لیے وہ اس نشے کا استعمال شروع کردیںبچہ اگر اکیلا رہنے کی کوشش کر رہا تو وجہ جانیے ، واش روم میں زیادہ وقت لگاتا ہے تو اس پر دھیان دیں ، اس کے دوستوں کو جانیے کہ وہ کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے۔اپنے بچے کی مدد سب سے بڑھ کر آپ خود کر سکتے ہیں۔آئیے مل کر کر اپنے اور دوسروں کے بچوں کی حفاظت کریں ۔ اس سے پہلے کہ وقت سے پہلے موت کا فرشتہ ان معصوموں کو لے اُڑے۔یہ مفاد عامہ کے لیے لکھا گیا مضمون ہو سکے تو اپنی اپنی وال پر کاپی کر کے لگائیے یا پھر شیئر بھی کر سکتے ہیں۔خیر اندیشذوالفقار علی ملک On کرسٹل میتھ یا آئس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟ Crop