ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتانسانی حقوق اور حسن سلوک کے بارے میں خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات قلمبند کریں:
beingsajid Staff asked 7 مہینے ago
beingsajid Staff replied 7 مہینے ago

جواب: رسولﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد گمراہ بن کر ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا بلکہ اسلامی اخوت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا لیکن میرے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسولﷺ کی سنے تمہاری رہنمائی کرے گی۔“
رسولﷺ نے خطبہ کے دوران صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیامیں نے حق ادا کر دیا اور حق کو تم تک پہنچا دیا؟ تو صحابہ کرامؓ نے بیک آواز عرض کیا کہ آپؐ نے حق پہنچا دیا۔ آپؐ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ آپ گواہ رہیں۔

آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک آدمی اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور مختلف جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو۔ تم میں زیادہ عزت اور تکریم والو خدا کی نظرؤں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کوکسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عرب پر، نہ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت حاصل ہے نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت ہے بلکہ فضیلت کا معیار تقویٰ ہے۔
امانت میں خیانت نہ کرنا: رسولﷺ فرمایا کہ اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی چیز امانت کےطور پر رکھوائی ہے تو اس میں ہرگز خیانت نہ کرنا بلکہ اس امانت کی حفاظت کرنا اور اسی حالت میں واپس لوٹادینا اور اللہ سے ڈرتے رہنا۔

سود سے بچنا:

رسولﷺ نے تمام سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا ہے لیکن تمہارا اصل زر تم پر حلال ہے اور پہلا شخس جس کا سود میں چھوڑ دیتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے وہ کل کا کل اٹھایا گیا۔
میراث کی تقسیم: آپﷺ نے فرمایا: اے لوگوں اللہ تعالیٰ نے وراث کے لیے میراث سے ایک حصہ مقرر کیا ہوا ہے جس ہر حقدار کو ضرور ملنا چاہئے لہٰذا کوئی ایسی وصیت نہ کرنا کہ ایک وارث کو اس کے حصے سے زیادہ ملے ۔ اور وراثت کی تقسیم میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور کوئی خیانت نہ کرنا۔

مزید ارشادات:

قرض قابل واپسی ہے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تھنے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے تو اسے تاوان ادا کرنا چا ہے۔ دیکھو ایک مجرم اپنے جرم کا خود ہی ذمے دار ہے، نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ تمھاری بیویوں کا تم پر اور ان پر تمھارا حق ہے۔ بیویوں پر تمھارا حق اتنا ہے کہ وہ تمھارے بستر کو کسی غیر مرد سے آلودہ نہ کریں اور ایسے لوگوں کو تمھاری اجازت کے بغیر تمھارے گھروں میں داخل نہ ہونے دیں جنھیں تم نا پسند کرتے ہو۔ انھیں (عورتوں کو) کوئی معیوب کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمھیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم ان کی سرزنش کرو اور ان سے بستر میں علیحدگی اختیار کرو اور (اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں ) انھیں ایسی مار مارو کہ نمودار نہ ہو۔ اگر وہ باز آجائیں تو تم پر واجب ہے کہ انھیں اچھا کھلاؤ اور رواج کے مطابق اچھا پہناؤ۔ عورتوں کے معاملے میں فراخ دلی سے کام لو کیونکہ در حقیقت وہ ایک طرح سے تمھاری پابند ہیں۔ ان کی کوئی املاک نہیں اور تم نے انھیں خدا کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ان کے وجود سے حظ اُٹھاتے ہو۔ سو خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور ان سے نیک سلوک کرو اور کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔

لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جسے اس کا بھائی برضا ورغبت عطا کر دے۔ اپنے نفس پر اور دوسروں پر زیادتی نہ کرو اور ہاں تمھارے غلام، ان کا خیال رکھو۔ جو تم کھاؤ اس میں سے ان کو کھلاؤ، جو تم پہنو اسی میں ان کو پہناؤ۔ اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو اللہ کے بندو ! انھیں فروخت کردو اور سزا نہ دو۔