8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد دنیا بھر میں مردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے ۔دنیا میں سب سے پہلا عالمی یومِ خواتین19مارچ سن 1911 ء کومنایا گیا پھر سن 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال آٹھ مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔
عظیم الشان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں۔
تعصب کی عینک اتار کر بہ نظر غائر دیکھاجائے تو اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اورحقوق کے تحفظ کا جوآسمانی بل پیش کیا ہے اسکی مثال آزاد، سیکولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصرہیں اور رہیں گے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا ؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے ، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔
آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ،؛ کیوں کہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعترافِ حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں۔
صنف نازک کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تومجموعی طورپر اس کی چار حیثیتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں :(1)ماں (2) بہن(3) بیوی (4)بیٹی
اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ !میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا کہ زندہ ہے ، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو پھراسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے ۔ (نسائی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺمیرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے ۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے ۔ حضر ت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے ، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔
قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ۔ بہ حیثیت ہمشیرہ، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے ، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔(ترمذی)
اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ان میں خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی ، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا،خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حق عطاء کیا،جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا پورا اختیار دیا ۔اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ،جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ یوم خواتین منانے والوں کے نام :
جو لوگ آزادئ نسواں ، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلواناچاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھادیں ،چند دانشوروں کو بلاکرکسی بزم میں تقریریں کروادیں،خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروادی بلکہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے ،کتاب کا فقط دیباچہ ہے ،عمارت کی محض بنیاد ہے ،اصل کام تو ابھی باقی ہے ۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
خوب ہو جو اس یوم یادگار کو عمل و کردار کا جامہ پہنایا جائے ،عملی میدان میں خواتین کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ،ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ کیا جائے ،بڑھتی ہوئی بے راہ روی اورہوس پرستی پر قدغن لگائی جائے ،عزت و ناموس کی حفاظت ہو،خلوص ومحبت کی جلوہ ارزائی ہو،تقدس وپاکیزگی کو فروغ ملے تاکہ سال کاہردن یوم خواتین بن جائے ۔
8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد دنیا بھر میں مردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے ۔دنیا میں سب سے پہلا عالمی یومِ خواتین19مارچ سن 1911 ء کومنایا گیا پھر سن 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال آٹھ مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔
عظیم الشان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں۔
تعصب کی عینک اتار کر بہ نظر غائر دیکھاجائے تو اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اورحقوق کے تحفظ کا جوآسمانی بل پیش کیا ہے اسکی مثال آزاد، سیکولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصرہیں اور رہیں گے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا ؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے ، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔
آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ،؛ کیوں کہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعترافِ حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں۔
صنف نازک کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تومجموعی طورپر اس کی چار حیثیتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں :(1)ماں (2) بہن(3) بیوی (4)بیٹی
اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ !میں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا کہ زندہ ہے ، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو پھراسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے ۔ (نسائی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺمیرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے ۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے ۔ حضر ت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ میری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے ، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔
قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ۔ بہ حیثیت ہمشیرہ، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے ، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔(ترمذی)
اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ان میں خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی ، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا،خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حق عطاء کیا،جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا پورا اختیار دیا ۔اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ،جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ یوم خواتین منانے والوں کے نام :
جو لوگ آزادئ نسواں ، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلواناچاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھادیں ،چند دانشوروں کو بلاکرکسی بزم میں تقریریں کروادیں،خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروادی بلکہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے ،کتاب کا فقط دیباچہ ہے ،عمارت کی محض بنیاد ہے ،اصل کام تو ابھی باقی ہے ۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
خوب ہو جو اس یوم یادگار کو عمل و کردار کا جامہ پہنایا جائے ،عملی میدان میں خواتین کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ،ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ کیا جائے ،بڑھتی ہوئی بے راہ روی اورہوس پرستی پر قدغن لگائی جائے ،عزت و ناموس کی حفاظت ہو،خلوص ومحبت کی جلوہ ارزائی ہو،تقدس وپاکیزگی کو فروغ ملے تاکہ سال کاہردن یوم خواتین بن جائے ۔
بشکریہ : عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ