1 Answers
Best Answer
ہجرت کے نتیجے میں ایک مسلمان کو دنیا میں بھی فائدہ ہے اور آخرت میں بھی جیساکہ ارشاد پاک ہے کہ:
”جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، کاش وہ (اسے) جانتے یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
اس طرح ہجرت کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے بھی حق دار قرار پاتے ہیں، اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر جن لوگوں نے بلائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا پھر جہاں کیا اور ثابت قدم رہے، بے شک تمہارا پروردگار ان کے بعد بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے ہجرت کرنے والوں کےلیے مغفرت، جنت اور بہترین اجر کا انعام رکھا ہے، اور انہیں یقین دلایا ہے کہ انہیں بخش دیا جائے گا، ان کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کچھ اس انداز میں ہوا ہےکہ:
”تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، تم ایک دوسرے کی جنس ہو۔تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے ہیں ان کے گناہ دور کر دونگا، اور ان کو جنت میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ اللہ کے ہاں بدلا ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلا ہے۔“
اس لیے بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا اس وقت تک سب سے افضل اور بڑا عمل یہی ہجرت کا عمل تھا۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہجرت اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین پر قایم رہنے اور اس کی دعوت و اشاعت کے لیے ہو۔
”جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، کاش وہ (اسے) جانتے یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
اس طرح ہجرت کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے بھی حق دار قرار پاتے ہیں، اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر جن لوگوں نے بلائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا پھر جہاں کیا اور ثابت قدم رہے، بے شک تمہارا پروردگار ان کے بعد بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے ہجرت کرنے والوں کےلیے مغفرت، جنت اور بہترین اجر کا انعام رکھا ہے، اور انہیں یقین دلایا ہے کہ انہیں بخش دیا جائے گا، ان کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کچھ اس انداز میں ہوا ہےکہ:
”تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، تم ایک دوسرے کی جنس ہو۔تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے ہیں ان کے گناہ دور کر دونگا، اور ان کو جنت میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ اللہ کے ہاں بدلا ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلا ہے۔“
اس لیے بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا اس وقت تک سب سے افضل اور بڑا عمل یہی ہجرت کا عمل تھا۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہجرت اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین پر قایم رہنے اور اس کی دعوت و اشاعت کے لیے ہو۔
Please login or Register to submit your answer