حسد کے متعلق لکھیں۔

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتحسد کے متعلق لکھیں۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
beingsajid Staff answered 1 سال ago
انسان دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن حسد وہ بری خصلت ہے۔ جو کسی کو خوش حال اور پر سکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی ہے، اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دل ہی دل میں جلتا اور گڑھتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ دوسروں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، خود اپنے لیے پریشانی مول لے لیتا ہے۔

یوں تو حسد ایک اخلاقی بیماری ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان کئی دوسری اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً جب وہ دوسروں کو بہتر حالت میں دیکھنے کا روادار نہیں ہو تا تو اپنے بہت سے عزیزوں سے ترک تعلق کر لیتا ہے جو ایک نا پسندیدہ بات ہے۔ اسی طرح جس شخص کی طبیعت میں حسد پیدا ہو جائے، وہ کبھی قانع نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر اپنی حالت زار پر کف افسوس ملتا رہتا ہے۔ اس کی وہ صلاحیتیں جو اپنی حالت بہتر بنانے پر صرف ہو سکتی ہیں، ہمیشہ دوسروں کی حالت کو بگاڑنے ہی کی فکر میں ضائع ہوتی رہتی ہیں۔

حاسد اپنی بھڑکائی ہوئی آگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے۔ گو اسلام اپنے پیروکاروں کو باہمی محبت اور احسان کی تلقین کرتا ہے، تاکہ معاشرتی اعتبار سے اجتماعی فلاح حاصل ہو سکے لیکن حاسد کے دل میں سوائے نفرت اور جلن کے کوئی شریفانہ جذبہ جگہ نہیں پاسکتا۔اجتماعی فلاح کے معانی یہ ہیں کہ معاشرے کے جملہ افراد معزز اور خوشحال ہوں۔ لیکن حاسد لوگوں کی نیک نامی اور خوشحالی کو ذلت و خواری میں بدلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ پس ایک نہ ایک دن وہ معاشرے کی نظروں میں ذلیل ہو کر رہتا ہے۔ مسلمانوں کو ان تمام نقصانات سے بچانے کے لیے نبی کریمﷺ نے حسد سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد فرمایا:
ترجمہ: دیکھو! حسد سے بچو۔ کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو۔ (سنن ابی داؤد)

اگر انسان حسد اور اس جیسے دوسرے اخلاق رذیلہ سے بچنا چاہتا ہے تو اسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین کی سادگی و قناعت کی تاریخی مثالوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی چاہیے کہ دولت واقتدار سے پیدا ہونے والی برائیوں اور مفاسد پر نظر رکھے۔