خود پسندی سے خود پرستی تک

ادبی محفلخود پسندی سے خود پرستی تک
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

افلاطون ایک مشہور فلسفی تھا اس نے اپنے دربارمیں قابل اور دانا لوگوں کو مدعو کیا ان میں سے ایک شخص دیو جأنس کلبی تھا یہ شخص عجز کا پیکر تھا ہمیشہ ایک صندوق نما گاڑی میں پھرتا جہاں رات ہوتی اسی گا ڑی میں سو جاتا.اسکا خیال تھا کہ انسان کو زمان و مکان کی قید سے آزاد رہنا چاہئے ورنہ وہ اپنےاصل جوہر سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ ایسے آزاد منش اور عجز کے پیکر شخص نے افلاطون کے دربار میں آکر اپنے گندے پاؤں افلاطون کے دربار کے قیمتی قالینوں سے رگڑنا شروع کردیئے دریافت کرنے پر فخرسے کہا کہ میں افلاطون کے غرور و تکّبرکو اپنے پیروں تلےروند رہا ہوں اس پہ افلاطون نے خندہ پیشانی سےاسے کہا “مگر میرے بھائ تم خودیہ کام کس قدر ” غرور و تکبّر “سے کر رہے ہو؟؟

دیو جانس افلاطون کی یہ بات سن کر لاجواب ہوگیا۔

تو جناب یہی حال خود پسندی کا ہے جب انسان خود کو دوسروں سے بہتر تصّور کرنے لگتا ہے رفتہ رفتہ اسے اپنی “انا”اپنی “میں”ہر شے پہ برتر دکھائی دیتی ہے نتیجتاً جہاں اسےجھکنا ہوتا ہے وہاں وہ ٹوٹ جاتا ہے یا توڑ دیتا ہے مگر جھکتا نہیں۔ جبکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ جھک جانے میں عافیت ہے خاص کر جہاں غلطی آپکی ہو۔

یاد رہے تکبّر صرف عہدہ،مال،حسن اورشہرت وغیرہ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ سادگی پہ،اپنے ہنروفن پہ علم وعمل پہ غرض کہ عبادت تک پہ ہوتا ہے یہی فخر اور غرور وتکّبر خود پسندی سے ہوتا ہوا خود پرستی تک لےجاتا ہے اور یہ “عجز کا تکبر” ہوتا ہے ۔یعنی اپنی اچھائیوں پہ فخروغروریعنی آپ جب اپنی انا میں یہ بھول جائیں کہ خود پسندی کا نعرہ لگانا اشرف المخلوقات کا نہیں بلکہ شیطان کا وطیرہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں چھوٹوں کا اپنی غلطی پہ ڈٹ کر بڑوں کی صحیح بات کو بھی رد کردینا،اسی طرح بڑوں کا اپنی بے جا اور ناحق بات زبردستی چھوٹوں سے تسلیم کرانا کیا معاشرتی بگاڑ کا سبب نہیں؟اپنی غلطی ہوتے ہوئے بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا کیا بہترین معاشرے کی راہ میں رکاوٹ نہیں؟ عجز وانکساری کامطلب جھک جانا یا دب جانا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بردباری اور شخصیت کا بڑاپن ہےکہ آپ دوسروں کی بھی ویسی ہی عزّت کرتے ہیں اورانکے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں جیسی عزْت اورحقوق کی پاسداری آپ دوسروں سے اپنےلئے چاہتے ہیں۔

ایک ایسےہی مثالی معاشرے کی ہمیں اشدضرورت ہے جہاں حقوق وفرائض کی ادائیگی کا توازن ہمیشہ قائم رہے اور انسان صرف”آسمان”کےدروازے کھولنے چاند پر نہ پہنچے بلکہ “دل”کے دروازےپر پڑے تالے کھول کر ایک بہترین انسان بنے اور ایک بہترین معاشرتی کردار ادا کرے۔آو ملکر خودپسندی سے باہر نکلیں اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں۔