تشریح:
میر اس شعر میں مذہب عشق کے مبلغ دکھائی دیتے ہیں، مسلک محبت کے راہی کو صرف محبوب کے کوچے سے غرض ہے، اس کے سوا ہر شے بے معنی اور ہیچ ہے، وہ چاہے اس کا مذہبی تشخص ہی کیوں نہ ہو، وہ کعبہ، قبلہ، حرم، احرام سے بے غرض ہو کر صرف محبوب کے کوچے کا مکیں ہو چکا ہے، یہی اس کی عبادت ہے اور یہی اس کا شیوہ۔
اسی غزل کا مقطع یوں ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اسی مفہوم کو جگر نے کچھ یوں ادا کیا ہے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے، تری یاد سے ترے نام سے
تشریح:
میر اس شعر میں مذہب عشق کے مبلغ دکھائی دیتے ہیں، مسلک محبت کے راہی کو صرف محبوب کے کوچے سے غرض ہے، اس کے سوا ہر شے بے معنی اور ہیچ ہے، وہ چاہے اس کا مذہبی تشخص ہی کیوں نہ ہو، وہ کعبہ، قبلہ، حرم، احرام سے بے غرض ہو کر صرف محبوب کے کوچے کا مکیں ہو چکا ہے، یہی اس کی عبادت ہے اور یہی اس کا شیوہ۔
اسی غزل کا مقطع یوں ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اسی مفہوم کو جگر نے کچھ یوں ادا کیا ہے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے، تری یاد سے ترے نام سے