ناول فسانہ آزاد کا تنقیدی جائزہ لکھیں

ادبی محفلناول فسانہ آزاد کا تنقیدی جائزہ لکھیں
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
beingsajid Staff answered 1 سال ago
فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ در سرشار کا لکھا ہوا ناول ہے- پنڈت رتن ناتھ در سرشار کی پیدائش 1847ء میں لکھنؤ میں ہوئی- ان کا نام پنڈت رتن ناتھ در تھا اور تخلص سرشار تھا- ان کے والد کا نام پنڈت بیج ناتھ در تھا- پنڈت رتن ناتھ سرشار کے والد کشمیر کے رہنے والے تھے- لیکن روزی روٹی کی تلاش میں لکھنؤ چلے آئے اور یہیں آکر بس گئے- سرشار چار سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا- سرشار نے عربی فارسی اور انگریزی کی تعلیم لکھنؤ سے ہی حاصل کی اور پھر ایک مدرسہ کی خدمات میں ملازم ہو گئے- اور پھر "اودھ اخبار” میں قسطوں میں مضامین لکھنے لگے- لوگوں کو ان کے مضامین بےحد پسند آنے لگے اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کا معیار اونچا ہونے لگا- فسانہ آزاد کے چھوٹے چھوٹے قصے قسطوں میں اودھ اخبار میں 1878ء سے شائع ہونے لگے- اور سرشار اودھ اخبار کے ایڈیٹر بن گئے- پھر اس کے بعد سرشار 1895ء میں حیدرآباد آ گئے- اور مہاراجا کشن پرساد نے دو سو روپے ماہوار پر ان کے اخبار (دبدبہ آصفیہ) میں کام کرنے لگے- اور پھر انہیں شہرت اور دولت نصیب ہوئی تو شراب کی لت بھی لگ گئی- جس کی وجہ سے صحت خراب ہوئی اور بیمار رہنے لگے – 1902ء میں انتقال کر گئے- پنڈت رتن ناتھ در سرشار کی تصانیف سرشار کی سب سے پہلی تصنیف چار حصوں پر مشتمل ہے- یہ 1879ء میں شائع ہوئی- سرشار کی دوسری تصنیف فسانہ آزاد (ناول) 1880ء میں شائع ہوا- (اعمال نامہ) جو "ہسٹری آف رشیا” کا اردو ترجمہ ہے 1887ء میں شاہکار ہوا- جام سرشار (ناول) 1887ء میں اودھ پنج اخبار میں فسانہ جرید کے نام سے قسط میں شائع ہوتا رہا- اس کے علاوہ سیر کو ہسار، کامنی، خدائی فوجدار بہترین تصانیف ہیں- اور الف لیلیٰ کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی- فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کا یہ ناول بہت ہی زیادہ طویل ہے جو چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے- 1878ء میں لکھا گیا یہ ناول اودھ پنج اخبار میں فنی جائزہ سے شائع کیا- اس کے بعد 1880ء میں نول کشور لکھنؤ نے پہلی بار اس کو کتابی شکل میں چھاپ کر اس کا مقام اور زیادہ اونچا کردیا- فسانہ آزاد میں تقریباََ ٥ پلاٹ موجود ہیں- اس کا پلاٹ بالکل ہی ڈھیلا ڈھالا ہے- واقعیات بالکل ایک دوسرے سے جدا ہیں- بلکہ کہیں کہیں پر تو ایسے واقعات پیش کئے ہیں جس کا اس قصے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے- سرشار کا اس ناول کو لکھنے کا ایک ہی مقصد تھا- لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کو سامنے لانا اور لوگوں کو فنی لطافت سے خوش کرنا- فسانہ آزاد بہترین ناولوں میں سے ایک ہے- جس کا شمار کلاسکی ناولوں میں ہوتا ہے- سرشار کا لکھا ہوا یہ ناول جسے لکھے ہوئے سو سال سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں آج بھی بہت زیادہ مقبولیت رکھتا ہے- پلاٹ کے بارے میں ڈاکٹر احسن فاروقی لکھتے ہیں- "حقیقت میں یہاں سیکڑوں پلاٹ ہیں جن پر غوروفکر کرنے کے بعد ایک مرکب پلاٹ کی ناول بن سکتی تھی- مگر اس تصنیف میں ایسا کرنے کی طرف کوئی توجہ دکھائی نہیں دیتی-” ڈاکٹر احسن فاروقی کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اگر سرشار چاہتے تو ایک مضبوط پلاٹ تیار کر سکتے تھے- مگر ان کے بے ساختہ لکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا ناول صرف اور صرف فنی اعتبار سے لکھا- کردار فسانہ آزاد میں کرداروں کی بھرمار ہے- قریب تین ہزار کردار شامل ہیں جن میں کچھ کردار اہم ہیں- سب سے اہم کردار آزاد کا ہے جو اس ناول کا ہیرو ہے اور دوسرا اہم کردار خوجی ہے- جو مزاحیہ کردار اور اس ناول کی جان ہے- حسن آرا اس ناول کی ہیروئن ہے – اس کے علاوہ حسن آرا کی بہن سہر آرا اور اس کا عاشق ہمایوں فر، نواب صاحب، اچھے مرزا، ثرئیا بیگم، بڑی بیگم، ذالفقار علی خاں وغیرہ بھی شامل ہیں- مکالمہ نگاری- سرشار نے بھلے ہی اس ناول کو قلم برداشتہ لکھا ہے- لیکن انہوں نے مکالمہ نگاری کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے- انہوں نے لکھنؤ کی معاشرت کو روزمرہ کے واقعات بناکر ایسے پیش کیا ہے کہ ان کی بات چیت سے جو شخص جیسا ہے بالکل ویسا ہی محسوس ہوتا ہے- اگر کوئی شخص عالم فاضل ہے تو اس کے منھ سے تہذیب کے ساتھ الفاظ نکلتے ہیں اور جو شخص برباد ہے عیش و آرام میں مبتلا ہے تو وہ ویسا ہی الفاظ نکالتا ہے- بانکا ہے اگر تو ویسا ہی غصہ ظاہر ہوتا ہے- اور اگر کوئی نشے کا عادی ہے تو وہ ویسا ہی محسوس ہوتا ہے-اس لئے تو ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں سرشار کی قابلیت کا قائل ہونا پڑا ہے- منظر نگاری- سرشار نے لکھنؤ کے معاشرے کو روزمرہ کے واقعات میں ڈھال کر منظر نگاری کا بہت ہی بہترین نمونہ پیش کیا ہے- آزاد جب بازار سے گزرتا ہے تو بالکل بازاری منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے- "بازار بھر میں سناٹا- حلوائی بھٹی میں سو رہا ہے- مگر تابنائی برتن دھو رہا ہے- کپڑے کی دکانیں بند جوہریوں کی دکان میں تالا لگا ہوا ہے- مگر تمباکو والا جاگ رہا ہے- خاکروب سڑک پر جھاڑو دے رہا ہے-” ایسے جملوں اور الفاظوں کا استعمال کیا ہے جس سے منظر آنکھوں سے واضح ہوتے ہیں- موضوع فسانہ آزاد کا اہم موضوع لکھنؤ کے معاشرے کو سامنے لانا اور لکھنؤ کی بگڑتی ہوئی تہذیب کو دکھانا تھا- جس طرح سے اس قصے میں بانکوں کا نام آتا ہے- انہیں بانکوں میں سے آزاد بھی ہیں- آزاد بھلے ہی اس ناول کے ہیرو ہیں لیکن پھر بھی وہ ایک بگڑے ہوئے آوارہ لڑکے ہیں جس کا کوئی ٹھکانا نہیں- آج کہیں ہیں توکل اور کہیں اور دھوکا دینے میں تو بہت ہی زیادہ اول ہیں- اس ناول میں خوجی کے کردار کو بھی دکھایا ہے- وہ ایک کردار تو ہے مگر اس کی عادتوں سے مٹتی ہوئی تہذیب دکھتی ہے- حقیقت نگاری سرشار نے حقیقت نگاری کا بہت ہی کمال دکھایا ہے- انہوں نے بعض ناول نگاروں کی طرح سوچی ہوئی کہانی نہیں دکھائی- بلکہ لکھنؤ کے روزمرہ کے ہونے والے واقعات کی حقیقت کو ہی اپنا موضوع بنایا- سرشار کے ناول میں ربط و تسلسل کی بہت زیادہ کمی ہے- واقعات ایک دوسرے سے بالکل نہیں ملتے- اس کی وجہ یہ ہے کہ سرشار نے ناول کو چھوٹی چھوٹی قسطوں میں شائع کیا- اس لئے یہ چھوٹے چھوٹے قصے بالکل بے رابطہ ہیں- لیکن ان سب کے باوجود جو مقبولیت اور شہرت فسانہ آزاد کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں مل پائی- اتنے سالوں بعد بھی آج بھی لوگ اسے پڑھ کر اتنا ہی لطف اٹھاتے ہیں جتنا کہ کل اٹھاتے تھے-