کرشن ‏چندر ‏کے ‏افسانے ‏کچرا ‏بابا ‏کا تنقیدی ‏جائزہ پیش کیجئے۔

ادبی محفلکرشن ‏چندر ‏کے ‏افسانے ‏کچرا ‏بابا ‏کا تنقیدی ‏جائزہ پیش کیجئے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
2 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
کرشن چندر کا تعارف کرشن چندر 1914ء میں وزیر آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول مہندره (کشمیر) میں حاصل کی ، میٹرک وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول پونچھ سے حاصل کیا ۔ ایف اے سے ایم اے تک ایف سی کا لج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1937ء میں یو نیورسٹی لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے ملازمت کا آغاز ہوا۔1943ء میں پونا چلے گئے اور شالیمار فلم کمپنی سے وابستہ ہو گئے ، 1945ء میں بمبئی ٹاکیز میں چلے گئے ،1953ء میں سلمی صدیقی سے ملاقات ہوئی اور 1960ء میں ان سے دوسری شادی کی ۔ 8 مارچ 1977 کو 62 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ کرشن چندر کے چند اہم افسانوی مجموعے یہ ہیں: طلسم خیال ،نظارے ،ان دانا ،ہم وحشی ہیں ،کالا سورج کتاب کا کفن ،مینا بازار، پانی کا درخت ،ٹوٹے ہوئے تارے ، سپنوں کا قیدی ، میں انتظار کروں گا ،تین غنڈے ، نئے غلام، انسانوں کا چڑیا گھر، زندگی موڑ ،تاش کا کھیل، مس نینی تال، گل میرے محبت کی رات۔ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کرشن چند فکری طور پر ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک سے تعلق رکھنے والے فنکار نچلے طبقوں کی نمائندگی کو معاشرتی تبدیلیوں کے لئے ضروری سمجھتے تھے کرشن چندر نے ایک تاریخی شعور کے ساتھ انسان دوست ، مظلوم طبقوں کی دادرسی ، دردمندی اور ظلم کے خلاف ایک باغیانہ رویے سے اپنی کہانیوں کا خمیر تیار کیا ، وہ ساج کے ایسے نباض تھے جنہوں نے معاشرتی برائیوں کو اس کی جڑوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور اپنی کہانیوں میں انفرادی کرداروں کے ساتھ ساتھ معاشرتی ظلم کی ایک مجموعی تصویر بھی پیش کی انہوں نے سماجی رویوں ، سیاسی اور تہذیی اتار چڑھاؤ کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا کہ پورے برصغیر کے کلبلا تے سماج کی عکا سی ہوگئی کرشن چندر بنیادی طور پر تو ترقی پسند افسانہ نگار ہیں لیکن رومانیت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اس رومانی مزاج نے ان کی ترقی پسندی میں ایک اعتدال پیدا کر دیا ہے اور ان کے اظہار میں ایک ایسا نکھار آیا ہے کہ معاشرتی کرختگی کے اظہار میں ایک مٹھاس پیدا ہوگئی ہے، رومانیت کی بنیادی عناصر جوش و خروش تخیل کی رنگینی ، ماضی کی بازگشت اور تخیلاتی فضا ان کے اکثر افسانوں میں مو جو د ہو تا ہے۔ لیکن ترقی پسند نظریے کی وجہ سے ان کے تخیل میں مشاہدے کی حقیقت بینی موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کے کردار رومانی فضا میں پروان چڑھتے ہوئے بھی حقائق سے فرار اختیار کرنے کی بجائے تلخ حقیقتوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان سے آنکھیں چار کر کے اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے افسانہ کچرا بابا کا تنقیدی جائزہ: تمام بڑے افسانہ نگاروں کی طرح کرشن چندر کا فن محبت،دیانت،بے تعصبی،رواداری اور انسانیت جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کی عکاسی کرتا ہے جو اسکے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔ وہ معاشرتی اقدار اور مسائل کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ کچرا بابا میں عام انسان زندگی کی جدوجہد کرتا اور روٹی کپڑا مکان کے لئے آخری سانس تک لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔اس انسان کی سب سے حسین خواہش یہ ہے کہ دنیا سے غربت کا خاتمہ ہو، امن قائم ہو اور نئے سماج کی بنیاد رکھی جا ئے۔ ان کی رومانیت زندگی سے پیار سکھاتی ہے۔ایک عام آدمی بھی محبت کرسکتا ہے۔ خوبصورت دنیا کے تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے ایسے کرداروں اور ماحول کا ذکر کرتے ہیں جن سے یہ حسن متاثر ہو رہا ہے گویا وہ چاہتے ہیں کہ بدصورتی کسی بھی شکل میں جو ہماری نگاہ میں آ جائے اور ہم اسے دور کر سکیں ۔ اس کے لئے وہ اکثر طنز سے بھی کام لیتے ہیں اور دنیا کی خود غرضی کو ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری کے اندر اس کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہو جاتاہے " کچرا بابا" ان کا اسی طرح کا ایک افسانہ ہے جس میں کرشن چندر نے دنیا کی ریا کاری اور خود غرضی کو طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے اس افسانے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انسان ، انسان کیلئے زندہ رہے اور خراب سے خراب حالات میں بھی انسان بقاء کی جد و جہد جاری رہتا ہے۔ کچرار ابابا‘‘ کے بنیادی کردار کا نام کچرا بابا اس لئے پڑ گیا کہ وہ کچرے کے ٹب میں رہتا ہے اور وہیں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے کبھی یہ بھی ایک زندہ کردار تھا لیکن مسلسل بییماریوں، آپریشن اور زندگی کے دکھوں نے اسے کچرے کے ٹب تک پہنچا دیا، لوگوں کو اگر اسے کچھ دینا ہوتو خوراک کی چیزیں اس کے ہاتھ میں دینے کے بجائے اسی ٹب میں پھینک دیتے۔ اگرض ناؤ نوش کی ہر نعمت اسے اس ٹب سے مل جاتی تھی۔ در حقیقت اس کردار نے تارک الدنیاہو کر راہبی اختیار کرلی تھی۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ یہ معاشرے کے افراد کے ساتھ مل کر باہم زندگی گزارتا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوتا ہے۔ کچرا بابا کو مصیبت کے وقت نہ صرف اپنی بیوی سے ہے وفائی ملی بلکہ ناگفتہ بہ حالت میں سماج نے بھی اس کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا۔ یہ زندگی کے لطائف اور محبتوں کے رشتوں پر سے اس کا اعتماد نیست ہو چکا تھا۔ وہ زندگی اور پیار و محبت کے لفظوں سے شعوری طور پر کنارہ کش ہو چکا تھا۔ اس کے سارے جذبات و احساسات مردہ پڑ چکے تھے۔ نہ بیوی ہے نہ بچہ ہے نہ نوکری ہے اور نہ معاشرہ اس کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے کچرے کا ٹب ہی اس کی پوری دنیا بن چکی ہے۔ اسی ٹب کے کنارے اس نے زندگی کے پیں سال بسر کئے۔ آنسہ احمد سعید اس افسانے کا تجزیہ کرتی ہوئی کہتی ہیں’’ کچرا بابا‘‘ لوگوں سے کچھ نہیں کہتا تھا دراصل اسے ایک طرح کی خود کلامی ہوتی ہے۔ یہ دنیا ایک بہت بڑا کچرے کا ڈھیر ہے جس میں ہرشخص اپنی غرض کا کوئی ٹکرا فائدہ کا کوئی چھلکا یا منافع کا کوئی پچھڑاد دبوچنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور کہتا ہوگا۔ یہ لوگ جو مجھے حقیر فقیر یا ذلیل سمجھتے ہیں ذرا اپنی روح کے پچھواڑے میں تو جھانک کر دیکھیں وہاں اتنی غلاظت بھری ہے جسے صرف موت کا فرشتہ ہی اٹھا کر لے جائے گا۔" کرشن چندر چونکہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار تھے انہوں نے کچرا بابا میں بھی مثالی منظر نگاری کی ہے جس سے معاشرہ کا چہرہ سامنے آجاتا ہے وہ لکھتے ہیں: کچرا بابا اُن لوگوں سے کہتا کچھ نہیں تھا، مگر ان کی حیرت کو دیکھ کر دل میں سوچتا ضرور ہو گا کہ اس دنیا میں کون ہے جو کسی دوسرے سے گفتگو کرتا ہے ،اس دنیا میں جتنی گفتگو ہوتی ہے انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ اکثر اپنی ذات اور اس کی کسی غرض کے درمیان ہوتی ہے ،وہ دوستوں کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے وہ در اصل ایک طرح کی خود کلامی ہوتی ہے ، اس کہانی میں موڑ اس وقت آتا ہے جب کچرے بابا‘‘ کو اس ڈھیر میں ایک دن ایک نوزائیدہ بچہ پڑاملتا ہے۔ "کچرے کے ٹب کے پاس جا کر اس نے ٹٹولا، تو اس کا ہاتھ کسی نرم نرم لوتھڑے سے جا ٹکرایا اور پھر ایک زور کی چخی بند ہو گئی۔ کچرا بابا نے دیکھا کہ ٹب کے اندر ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، چچوڑی ہوئی ہڈیوں، پرانے جوتوں ، کانچ کے ٹکڑوں ، آم کے چھلکوں، باسی وبینیوں اور ٹھرے کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے در میان ایک نوزائیدہ بچہ ننگا پڑا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں ہلا ہلا کر زور زور سے چخی رہا ہے۔ " یہ بچہ کچرا بابا کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے اور اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کی بے مقصد زندگی میں ایک مقصد پیدا ہو گیا ہے۔ افسانے کا اختتام یوں ہوتا ہے۔ رات بھر کچرا بابا‘‘ اس نوزائیدہ بچے کو اپنی گود میں لئے بے چین و بے قرار فٹ پاتھ پر ٹہلتا رہا اور۔جب صبح ہوئی اور سورج نکلا تو لوگوں نے دیکھا کہ کچرا بابا آج کچرے کے ٹب کے قریب کہیں نہیں بیٹھا ہے بلکہ سڑک کے پار تعمیر ہونے والی عمارت کے نیچے کھڑا اینٹیں ڈھو رہا ہے اس عمارت کے قریب گل مہر کے پیڑ کی چھاؤں میں ایک پھولدار کپڑے میں لپیٹا ایک ننھا بچہ منہ میں دودھ کی چوسنی لئے مسکررہا تھا۔اس افسانے میں کرشن چندر نے بدصورتی میں سے مستقبل کی خوبصورتی کی نوید دی ہے۔ کچرے کے ڈھیر سے ایک نیا انسان جنم لے رہا ہے جس کا مستقبل کچرا بابا سے بہتر اور خوش آئند ہے۔ کرشن چندر نے ایک حقیقت بیاں کی ہے کہ انسان جذبوں پر جيتا ھے اور مقصد نہ ھو تو جيتے جی اُس ميں زندگی نہیں ہوتی جیسے کہ پنڈت برج نرائن چکبست نے کہا تھا کہ "انسان کے تخلیقی رشتے قائم نہ ہوں تو انسان اپنی شکتی کو محض خلاصی کیلئے ضائع کر دیتا ہے "
beingsajid Staff answered 1 سال ago
کرشن چندر کا تعارف کرشن چندر 1914ء میں وزیر آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول مہندره (کشمیر) میں حاصل کی ، میٹرک وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول پونچھ سے حاصل کیا ۔ ایف اے سے ایم اے تک ایف سی کا لج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1937ء میں یو نیورسٹی لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے ملازمت کا آغاز ہوا۔1943ء میں پونا چلے گئے اور شالیمار فلم کمپنی سے وابستہ ہو گئے ، 1945ء میں بمبئی ٹاکیز میں چلے گئے ،1953ء میں سلمی صدیقی سے ملاقات ہوئی اور 1960ء میں ان سے دوسری شادی کی ۔ 8 مارچ 1977 کو 62 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ کرشن چندر کے چند اہم افسانوی مجموعے یہ ہیں: طلسم خیال ،نظارے ،ان دانا ،ہم وحشی ہیں ،کالا سورج کتاب کا کفن ،مینا بازار، پانی کا درخت ،ٹوٹے ہوئے تارے ، سپنوں کا قیدی ، میں انتظار کروں گا ،تین غنڈے ، نئے غلام، انسانوں کا چڑیا گھر، زندگی موڑ ،تاش کا کھیل، مس نینی تال، گل میرے محبت کی رات۔ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کرشن چند فکری طور پر ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ اس تحریک سے تعلق رکھنے والے فنکار نچلے طبقوں کی نمائندگی کو معاشرتی تبدیلیوں کے لئے ضروری سمجھتے تھے کرشن چندر نے ایک تاریخی شعور کے ساتھ انسان دوست ، مظلوم طبقوں کی دادرسی ، دردمندی اور ظلم کے خلاف ایک باغیانہ رویے سے اپنی کہانیوں کا خمیر تیار کیا ، وہ ساج کے ایسے نباض تھے جنہوں نے معاشرتی برائیوں کو اس کی جڑوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور اپنی کہانیوں میں انفرادی کرداروں کے ساتھ ساتھ معاشرتی ظلم کی ایک مجموعی تصویر بھی پیش کی انہوں نے سماجی رویوں ، سیاسی اور تہذیی اتار چڑھاؤ کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا کہ پورے برصغیر کے کلبلا تے سماج کی عکا سی ہوگئی کرشن چندر بنیادی طور پر تو ترقی پسند افسانہ نگار ہیں لیکن رومانیت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اس رومانی مزاج نے ان کی ترقی پسندی میں ایک اعتدال پیدا کر دیا ہے اور ان کے اظہار میں ایک ایسا نکھار آیا ہے کہ معاشرتی کرختگی کے اظہار میں ایک مٹھاس پیدا ہوگئی ہے، رومانیت کی بنیادی عناصر جوش و خروش تخیل کی رنگینی ، ماضی کی بازگشت اور تخیلاتی فضا ان کے اکثر افسانوں میں مو جو د ہو تا ہے۔ لیکن ترقی پسند نظریے کی وجہ سے ان کے تخیل میں مشاہدے کی حقیقت بینی موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کے کردار رومانی فضا میں پروان چڑھتے ہوئے بھی حقائق سے فرار اختیار کرنے کی بجائے تلخ حقیقتوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان سے آنکھیں چار کر کے اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے افسانہ کچرا بابا کا تنقیدی جائزہ: تمام بڑے افسانہ نگاروں کی طرح کرشن چندر کا فن محبت،دیانت،بے تعصبی،رواداری اور انسانیت جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کی عکاسی کرتا ہے جو اسکے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔ وہ معاشرتی اقدار اور مسائل کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ کچرا بابا میں عام انسان زندگی کی جدوجہد کرتا اور روٹی کپڑا مکان کے لئے آخری سانس تک لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔اس انسان کی سب سے حسین خواہش یہ ہے کہ دنیا سے غربت کا خاتمہ ہو، امن قائم ہو اور نئے سماج کی بنیاد رکھی جا ئے۔ ان کی رومانیت زندگی سے پیار سکھاتی ہے۔ایک عام آدمی بھی محبت کرسکتا ہے۔ خوبصورت دنیا کے تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے ایسے کرداروں اور ماحول کا ذکر کرتے ہیں جن سے یہ حسن متاثر ہو رہا ہے گویا وہ چاہتے ہیں کہ بدصورتی کسی بھی شکل میں جو ہماری نگاہ میں آ جائے اور ہم اسے دور کر سکیں ۔ اس کے لئے وہ اکثر طنز سے بھی کام لیتے ہیں اور دنیا کی خود غرضی کو ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری کے اندر اس کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہو جاتاہے " کچرا بابا" ان کا اسی طرح کا ایک افسانہ ہے جس میں کرشن چندر نے دنیا کی ریا کاری اور خود غرضی کو طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے اس افسانے کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انسان ، انسان کیلئے زندہ رہے اور خراب سے خراب حالات میں بھی انسان بقاء کی جد و جہد جاری رہتا ہے۔ کچرار ابابا‘‘ کے بنیادی کردار کا نام کچرا بابا اس لئے پڑ گیا کہ وہ کچرے کے ٹب میں رہتا ہے اور وہیں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے کبھی یہ بھی ایک زندہ کردار تھا لیکن مسلسل بییماریوں، آپریشن اور زندگی کے دکھوں نے اسے کچرے کے ٹب تک پہنچا دیا، لوگوں کو اگر اسے کچھ دینا ہوتو خوراک کی چیزیں اس کے ہاتھ میں دینے کے بجائے اسی ٹب میں پھینک دیتے۔ اگرض ناؤ نوش کی ہر نعمت اسے اس ٹب سے مل جاتی تھی۔ در حقیقت اس کردار نے تارک الدنیاہو کر راہبی اختیار کرلی تھی۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ یہ معاشرے کے افراد کے ساتھ مل کر باہم زندگی گزارتا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوتا ہے۔ کچرا بابا کو مصیبت کے وقت نہ صرف اپنی بیوی سے ہے وفائی ملی بلکہ ناگفتہ بہ حالت میں سماج نے بھی اس کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا۔ یہ زندگی کے لطائف اور محبتوں کے رشتوں پر سے اس کا اعتماد نیست ہو چکا تھا۔ وہ زندگی اور پیار و محبت کے لفظوں سے شعوری طور پر کنارہ کش ہو چکا تھا۔ اس کے سارے جذبات و احساسات مردہ پڑ چکے تھے۔ نہ بیوی ہے نہ بچہ ہے نہ نوکری ہے اور نہ معاشرہ اس کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے کچرے کا ٹب ہی اس کی پوری دنیا بن چکی ہے۔ اسی ٹب کے کنارے اس نے زندگی کے پیں سال بسر کئے۔ آنسہ احمد سعید اس افسانے کا تجزیہ کرتی ہوئی کہتی ہیں’’ کچرا بابا‘‘ لوگوں سے کچھ نہیں کہتا تھا دراصل اسے ایک طرح کی خود کلامی ہوتی ہے۔ یہ دنیا ایک بہت بڑا کچرے کا ڈھیر ہے جس میں ہرشخص اپنی غرض کا کوئی ٹکرا فائدہ کا کوئی چھلکا یا منافع کا کوئی پچھڑاد دبوچنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور کہتا ہوگا۔ یہ لوگ جو مجھے حقیر فقیر یا ذلیل سمجھتے ہیں ذرا اپنی روح کے پچھواڑے میں تو جھانک کر دیکھیں وہاں اتنی غلاظت بھری ہے جسے صرف موت کا فرشتہ ہی اٹھا کر لے جائے گا۔" کرشن چندر چونکہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار تھے انہوں نے کچرا بابا میں بھی مثالی منظر نگاری کی ہے جس سے معاشرہ کا چہرہ سامنے آجاتا ہے وہ لکھتے ہیں: کچرا بابا اُن لوگوں سے کہتا کچھ نہیں تھا، مگر ان کی حیرت کو دیکھ کر دل میں سوچتا ضرور ہو گا کہ اس دنیا میں کون ہے جو کسی دوسرے سے گفتگو کرتا ہے ،اس دنیا میں جتنی گفتگو ہوتی ہے انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ اکثر اپنی ذات اور اس کی کسی غرض کے درمیان ہوتی ہے ،وہ دوستوں کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے وہ در اصل ایک طرح کی خود کلامی ہوتی ہے ، اس کہانی میں موڑ اس وقت آتا ہے جب کچرے بابا‘‘ کو اس ڈھیر میں ایک دن ایک نوزائیدہ بچہ پڑاملتا ہے۔ "کچرے کے ٹب کے پاس جا کر اس نے ٹٹولا، تو اس کا ہاتھ کسی نرم نرم لوتھڑے سے جا ٹکرایا اور پھر ایک زور کی چخی بند ہو گئی۔ کچرا بابا نے دیکھا کہ ٹب کے اندر ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، چچوڑی ہوئی ہڈیوں، پرانے جوتوں ، کانچ کے ٹکڑوں ، آم کے چھلکوں، باسی وبینیوں اور ٹھرے کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے در میان ایک نوزائیدہ بچہ ننگا پڑا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں ہلا ہلا کر زور زور سے چخی رہا ہے۔ " یہ بچہ کچرا بابا کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے اور اسے ایسا لگتا ہے جیسے اس کی بے مقصد زندگی میں ایک مقصد پیدا ہو گیا ہے۔ افسانے کا اختتام یوں ہوتا ہے۔ رات بھر کچرا بابا‘‘ اس نوزائیدہ بچے کو اپنی گود میں لئے بے چین و بے قرار فٹ پاتھ پر ٹہلتا رہا اور۔جب صبح ہوئی اور سورج نکلا تو لوگوں نے دیکھا کہ کچرا بابا آج کچرے کے ٹب کے قریب کہیں نہیں بیٹھا ہے بلکہ سڑک کے پار تعمیر ہونے والی عمارت کے نیچے کھڑا اینٹیں ڈھو رہا ہے اس عمارت کے قریب گل مہر کے پیڑ کی چھاؤں میں ایک پھولدار کپڑے میں لپیٹا ایک ننھا بچہ منہ میں دودھ کی چوسنی لئے مسکررہا تھا۔اس افسانے میں کرشن چندر نے بدصورتی میں سے مستقبل کی خوبصورتی کی نوید دی ہے۔ کچرے کے ڈھیر سے ایک نیا انسان جنم لے رہا ہے جس کا مستقبل کچرا بابا سے بہتر اور خوش آئند ہے۔ کرشن چندر نے ایک حقیقت بیاں کی ہے کہ انسان جذبوں پر جيتا ھے اور مقصد نہ ھو تو جيتے جی اُس ميں زندگی نہیں ہوتی جیسے کہ پنڈت برج نرائن چکبست نے کہا تھا کہ "انسان کے تخلیقی رشتے قائم نہ ہوں تو انسان اپنی شکتی کو محض خلاصی کیلئے ضائع کر دیتا ہے "