یوم اردو پر ایک تقریر لکھیں۔

ادبی محفلیوم اردو پر ایک تقریر لکھیں۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

9 نومبر، شاعر مشرق علامہ اقبال کا جنم دن ہے۔ اب یہ عالمی یومِ اردو کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ محض رسماً ایک پروگرام کے انعقاد پر اکتفا نہ کریں بلکہ اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوئی مضبوط ومستحکم لائحہ عمل تیار کریں، کیونکہ آزادی کے بعد سے ہماری اردو تعصب کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے اور اقبال اشہر کی زبان میں یہ پوچھ رہی ہے کہ؛

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ؟
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

سیاسی جلسوں سے لیکر پارلیمنٹ تک اردو اشعار پڑھ کر داد وصول کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بھی اردو کو اس کا حق دلوانے کی کبھی کامیاب کوشش نہیں کی۔ شب وروز اردو کی قصیدہ خوانی کرنے والے لوگ بھی اب اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلوانا نہیں چاہتے۔
اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ موجودہ ہندوستان میں اردو کی صورتحال اس حسین وجمیل محبوبہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے جس کی حسن ونزاکت اور لطافت ونفاست کی تعریف تو سب کرتے ہیں لیکن کوئی اسے اپنانا نہیں چاہتا۔ ایسے افراد سے سوال کیا جانا چاہئے کہ آخر کیوں؟

محبت کا سبھی اعلان کرجاتے ہیں محفل میں
کہ اس کے واسطے جذبہ ہے ہمدردی کا ہر دل میں
مگر حق مانگنے کے وقت یہ بیگانہ پن کیوں ہے؟
وطن میں بے وطن کیوں ہے، یہ اردو وطن میں بے وطن کیوں ہے؟

جواب شاید یہ ملے کہ اردو محض عشق ومحبت کی زبان ہے، اس کے سہارے کلام میں حسن تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں رنگ نہیں بھرا جاسکتا۔ اب اہل اردو کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حقیقت کو ہر فرد کے ذہن و دل میں بٹھائے کہ اردو نہ صرف ایک زندہ جاوید زبان ہے بلکہ اردو ایک تہذیب ہے، ایک کلچر ہے۔ اردو سے ہماری جتنی گہری وابستگی ہوگی تہذیب سے رشتہ اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ؛

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

اور میں یہ عرض کروں تو شاید مبالغہ آرائی کا الزام میرے سر آئے کہ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد ہے، یہ الگ بات کہ اس بنیاد کو ہلانے اور اس علامت کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو کو مٹانے کی سازشیں کرنے والے بھی اردو ہی بولتے ہیں؛

اردو کو ہم ایک روز مٹادیں گے جہاں سے
کمبخت نے یہ بات بھی اردو میں کہی تھی

سامعین اکرام ! اگر ہم اردو زبان اور اپنی تہذیب وثقافت کا فروغ چاہتے ہیں تو اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء وطالبات کے ذہن سے اس خوف کو نکالنا ہوگا کہ ہم اردو سبجیکٹ میں ایڈمیشن لیکر کچھ کر نہیں سکتے۔ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ سبجیکٹ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، شرط یہ ہے کہ اپنے سبجیکٹ پر آپ کو عبور حاصل ہونا چاہئے، آپ کے اندر صلاحیت اور انفرادیت ہونی چاہئے ورنہ تو انگلش لٹریچر سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کو بھی ہم نے بے روزگار پھرتے اور اردو ادب کے ریسرچ اسکالرس کو اسسٹنٹ پروفیسر بنتے دیکھا ہے۔

ایک بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ کامیاب وہ طلباء اور طالبات نہیں ہوتے جو اپنے سبجیکٹ کو بہت اچھا کہتے ہیں، کامیاب وہ ہوتے ہیں جو اپنے سبجیکٹ میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔
اگر ہم اردو زبان کی ترقی چاہتے ہیں تو برادران وطن خصوصاً نسل نو کے ذہن سے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ اردو کسی مخصوص قوم کی زبان ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پریم چند، کرشن چندر، فراق، جوگیندر پال، گیان چند جین، کنہیا لال کپور، کالی داس گپتا، وشوناتھ طاؤس اور گلزار جیسی سینکڑوں شخصیات کا نام اردو کے شعرا وادباء کی فہرست میں نہ آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی فرقہ یا مذہب کی زبان نہیں، یہ ہندوستان اور بھارت کی زبان ہے، یہ پیار اور محبت کی زبان ہے۔ عالمی یومِ اردو زبان کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم زمینی سطح پر، تقریر وتحریر، درس وتدریس اور کتب ورسائل کے سہارے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو زبان کے فروغ اور اس سے جڑی تہذیب کی بقا کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ اردو کے طلباء وطالبات اور ہماری آئندہ آنیوالی نسلیں اردو لکھتے یا پڑھتے ہوئے کبھی احساس کمتری کے شکار نہ ہوں بلکہ پراعتماد لب ولہجے میں دنیا کے سامنے وہ یہ کہہ سکیں کہ؛

ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے

1 Answers
beingsajid Staff answered 1 سال ago

9 نومبر، شاعر مشرق علامہ اقبال کا جنم دن ہے۔ اب یہ عالمی یومِ اردو کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ محض رسماً ایک پروگرام کے انعقاد پر اکتفا نہ کریں بلکہ اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوئی مضبوط ومستحکم لائحہ عمل تیار کریں، کیونکہ آزادی کے بعد سے ہماری اردو تعصب کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے اور اقبال اشہر کی زبان میں یہ پوچھ رہی ہے کہ؛

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ؟
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

سیاسی جلسوں سے لیکر پارلیمنٹ تک اردو اشعار پڑھ کر داد وصول کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بھی اردو کو اس کا حق دلوانے کی کبھی کامیاب کوشش نہیں کی۔ شب وروز اردو کی قصیدہ خوانی کرنے والے لوگ بھی اب اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلوانا نہیں چاہتے۔
اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ موجودہ ہندوستان میں اردو کی صورتحال اس حسین وجمیل محبوبہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے جس کی حسن ونزاکت اور لطافت ونفاست کی تعریف تو سب کرتے ہیں لیکن کوئی اسے اپنانا نہیں چاہتا۔ ایسے افراد سے سوال کیا جانا چاہئے کہ آخر کیوں؟

محبت کا سبھی اعلان کرجاتے ہیں محفل میں
کہ اس کے واسطے جذبہ ہے ہمدردی کا ہر دل میں
مگر حق مانگنے کے وقت یہ بیگانہ پن کیوں ہے؟
وطن میں بے وطن کیوں ہے، یہ اردو وطن میں بے وطن کیوں ہے؟

جواب شاید یہ ملے کہ اردو محض عشق ومحبت کی زبان ہے، اس کے سہارے کلام میں حسن تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں رنگ نہیں بھرا جاسکتا۔ اب اہل اردو کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حقیقت کو ہر فرد کے ذہن و دل میں بٹھائے کہ اردو نہ صرف ایک زندہ جاوید زبان ہے بلکہ اردو ایک تہذیب ہے، ایک کلچر ہے۔ اردو سے ہماری جتنی گہری وابستگی ہوگی تہذیب سے رشتہ اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ؛

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

اور میں یہ عرض کروں تو شاید مبالغہ آرائی کا الزام میرے سر آئے کہ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد ہے، یہ الگ بات کہ اس بنیاد کو ہلانے اور اس علامت کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو کو مٹانے کی سازشیں کرنے والے بھی اردو ہی بولتے ہیں؛

اردو کو ہم ایک روز مٹادیں گے جہاں سے
کمبخت نے یہ بات بھی اردو میں کہی تھی

سامعین اکرام ! اگر ہم اردو زبان اور اپنی تہذیب وثقافت کا فروغ چاہتے ہیں تو اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء وطالبات کے ذہن سے اس خوف کو نکالنا ہوگا کہ ہم اردو سبجیکٹ میں ایڈمیشن لیکر کچھ کر نہیں سکتے۔ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ سبجیکٹ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، شرط یہ ہے کہ اپنے سبجیکٹ پر آپ کو عبور حاصل ہونا چاہئے، آپ کے اندر صلاحیت اور انفرادیت ہونی چاہئے ورنہ تو انگلش لٹریچر سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کو بھی ہم نے بے روزگار پھرتے اور اردو ادب کے ریسرچ اسکالرس کو اسسٹنٹ پروفیسر بنتے دیکھا ہے۔

ایک بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ کامیاب وہ طلباء اور طالبات نہیں ہوتے جو اپنے سبجیکٹ کو بہت اچھا کہتے ہیں، کامیاب وہ ہوتے ہیں جو اپنے سبجیکٹ میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔
اگر ہم اردو زبان کی ترقی چاہتے ہیں تو برادران وطن خصوصاً نسل نو کے ذہن سے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ اردو کسی مخصوص قوم کی زبان ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پریم چند، کرشن چندر، فراق، جوگیندر پال، گیان چند جین، کنہیا لال کپور، کالی داس گپتا، وشوناتھ طاؤس اور گلزار جیسی سینکڑوں شخصیات کا نام اردو کے شعرا وادباء کی فہرست میں نہ آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی فرقہ یا مذہب کی زبان نہیں، یہ ہندوستان اور بھارت کی زبان ہے، یہ پیار اور محبت کی زبان ہے۔ عالمی یومِ اردو زبان کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم زمینی سطح پر، تقریر وتحریر، درس وتدریس اور کتب ورسائل کے سہارے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو زبان کے فروغ اور اس سے جڑی تہذیب کی بقا کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ اردو کے طلباء وطالبات اور ہماری آئندہ آنیوالی نسلیں اردو لکھتے یا پڑھتے ہوئے کبھی احساس کمتری کے شکار نہ ہوں بلکہ پراعتماد لب ولہجے میں دنیا کے سامنے وہ یہ کہہ سکیں کہ؛

ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے