یہودیوں کی علم دوستی پر ایک مضمون

ادبی محفلCategory: اردو جنرل نالجیہودیوں کی علم دوستی پر ایک مضمون
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

80 لاکھ اسرائیلی ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں خریدتے ہیں اور اس طرح دنیا میں آج انٹرنیٹ کے دور میں بھی سب سے زیادہ کتابیں خریدنے والی قوم کہلاتے ہیں۔ اسرائیل سالانہ 110 ڈالر سائنس کی تحقیق پر خرچ کرتا ہے۔ دنیا کی اعلیٰ اور بہترین یونیورسٹیوں میں 8 کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ ہر دس ہزار اسرائیلیوں کے لیے 145 سائنسدان اور انجینئر ہیں۔

علم سے پیار یہودیوں کا بنیادی وصف ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی 4 سب سے زیادہ مؤثر شخصیات میں سے تین کا تعلق یہودیوں سے ہے۔چارلس ڈارون کو چھوڑ کر کارل مارکس ،سگمنڈ فرائیڈ اور آئن سٹائن تمام کے تمام یہودی قوم سے تھے۔

اب تک صرف فزکس میں 45 یہودی النسل سائنسدانوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ اس طرح کیمیا میں تحقیقی کام کے صلہ میں 26 یہودی نوبل انعام پا چکے ہیں۔ میڈیسن اور فیزیالوجی میں اب تک 52 ایسے لوگ نوبل انعام جیت چکے ہیں جو پیدائشی یہودی تھے۔

اس طرح یہودی النسل 12 ادیب اور 21 معیشت دان نوبل انعام جیت چکے ہیں۔ 9 یہودی اب تک امن کی کوششوں کے صلہ میں نوبل انعام سے نوازے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کا 0.3 فیصد اب تک 24 فیصد نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ مسلمان دنیا کی آبادی کا 22 فیصد ہیں اور پچلھے 800 سالوں میں ادویات ،معیشت ،طبیعیات کیمیا ،غرض کسی بھی میدان میں انکا کوئی اتنا بڑا حصہ نہیں ہے۔

ایک یہودی ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا سائنسدان بنے نہ کہ کسی ریاست کا سربراہ۔ آئن سٹائن کو بھی اسرائیل کی صدارت کی آفر ہوئی تھی جو اس نے رد کر دی تھی۔تعلیم یہودیوں کے خاندانی اقدار کی بنیاد ہے ان کو علم سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے ،گھروں اور خاندانوں میں علم والے کی اہمیت ہے اسی کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی مختلف انداز سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

جو ریاست اور معاشرہ علم والوں کو عزت بخشتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا دنیا کی ترقی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کے برعکس صرف تعلیم سے محبت کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ یہودیوں کی اس سلسلے میں ان گنت کاوشیں ہیں۔