داستان سب رس کا خلاصہ

0

سب رس اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے جو 1045ھ بمطابق 1635ء میں عبداللہ قطب شاہ والئی گولکنڈہ (دکن) کی فرمائش پر اس کے درباری شاعر اسد اللہ وجہی نے تالیف کی تھی۔اس داستان میں حسن و عشق کے معرکے کو ایک تمثیلی قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ وجہی نے اس سے بیشتر عبداللہ قطب شاہ کے دادا محمد قلی قطب شاہ کے آخری زمانے میں ایک مثنوی ‘قطب مشتری’ بھی لکھی تھی جس میں خود بادشاہ محمد قلی قطب شاہ کی بھاگ متی کے ساتھ داستان عشق استعارے کے پیرائے میں بیان کی ہے۔اس کا سن تصنیف 1609ء ہے اور یہ مثنوی بھی اپنے دلکش اسلوب اور رومانی تخیل کی وجہ سے قدیم دکنی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار ہوتی ہے۔

سب رس کی اہمیت لسانی بھی ہے اور ادبی بھی۔ لسانی اس حیثیت سے کہ اس میں وہ زبان ہمیں ملتی ہے جو آج سے تقریباً ساڑھے تین سو برس پہلے دکن میں بولی جاتی تھی۔ اس کے املا کا انداز بھی آجکل کے انداز سے قدرے مختلف تھا۔الفاظ کی غربت کے باوجود وجہی کے انداز بیان میں بڑی روانی اور دلکشی ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی معنی خیز باتیں کہہ جاتا ہے۔ اگرچہ اس نے مقفعٰ اور مسجعٰ عبارت لکھنے کا انتظام کیا ہے لیکن یہ قید اس کے انداز بیان کو گنجلک یا پیچیدہ نہیں بناتی۔ اس میں جو تمثیلی قصہ بیان کیا گیا ہے مولوی عبدالحق صاحب کی تحقیق کے مطابق وجہی نے محمد یحییٰ سیبک فتاحی نیشاپوری کی نثری تصنیف ‘قصہ حسن و دل’سے لیا ہے اگرچہ اپنے دیباچہ میں تو کچھ ایسا ظاہر کیا ہے گویا یہ قصہ خود اسی کی ایجاد ہو۔

فتاحی شاہ رخ مرزا کے عہد میں ایران کے مشہور شعرا میں سے تھا۔ پہلے اس نے اس قصے کو مثنوی کی صورت میں 1436ء میں “دستور عشاق” کے نام سے نظم کیا تھا۔پھر اسی کو ‘شبستان خیال’ اور ‘حسن و دل’ کے نام سے بھی نثر میں لکھا۔قصہ حسن و دل اس مثنوی میں مندرج قصے کا خلاصہ ہے اور اس میں اس نے مسجعٰ اور مقفیٰ نثر لکھی ہے اور صنائع لفظی و معنی بھی خوب کھپائے ہیں اور اسی کی تقلید میں وجہی نے بھی مقفیٰ اور مسجعٰ عبارت میں “سب رس” کو لکھا ہے۔

سب رس کی زبان

سب رس کی زبان کوئی ساڑھے تین سو سال پرانی ہے۔اس میں عربی و فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی کے الفاظ بھی کثرت سے استعمال کئے گئے ہیں۔ بہت سے الفاظ کا تلفظ اور املا بھی مختلف تھا۔جہاں کہیں اسم ضمیر آئے ہیں وہ آج کل کی زبان سے مختلف ہیں مثلاً ‘وہ’ کو وو لکھا جاتا تھا۔ ‘یہ’ کو ‘یو’ اسی طرح انہوں نے کو ‘انو’ لکھتے تھے۔

مونث کی صورت میں حرف اضافت کی بھی جمع لاتے تھے۔’دل کے فائدے کیاں بہت تاباں ہیں’

‘کو’ کے بجائے کوں ‘سے’ کے بجائے تے سوں یا سی کا لفظ مستعمل تھا۔

اسی طرح بہت سے الفاظ آج کی زبان سے مختلف طور پر اس داستان میں استعمال کیے گئے ہیں۔

سب رس کا خلاصہ

دو بادشاہ ہیں عقل اور عشق نام۔عقل مغرب کا بادشاہ ہے عشق مشرق کا۔عقل کا ملک یونان تھا۔حسن عشق کی بیٹی ہے اور دل عقل کا فرزند۔بیٹا جب بڑا ہوا تو عقل بادشاہ نے اسے شہر تن کا والی بنا دیا۔ایک رات دل کے ایک ندیم نے آب حیات کا قصہ سنایا۔دل آب حیات کا ذکر سن کر اس کے حاصل کرنے کی دھن میں ایسا دیوانہ ہوا کہ کھانا پینا حرام ہو گیا۔آخر دل کے ایک خدمت گار نظر نے حامی بھری کہ وہ آب حیات کو تلاش کر لائے گا۔چنانچہ وہ روانہ ہو گیا پہلے شہر عافیت کے بادشاہ ناموس سے جا کر پوچھا اس نے کہا کہ آب حیات کوئی چیز نہیں اصل آب حیات انسان کی آبرو ہے۔نظر مایوس ہو کر آگے بڑھا۔زہد نام کے پہاڑ پر ایک بوڑھے زرق نامی سے پوچھا اس نے کہا آب حیات کو عاشقوں کے آنسوؤں میں تلاش کرو۔نظر مطمئن نہ ہوا آگے چلا۔ہدایت نام کا ایک قلعہ نظر آیا اس کے بادشاہ ہمت سے پوچھا اس نے ہمت بندھائی اور بتایا کہ کوہ کاف کے ادھر ایک شہر ہے دیدار نام کا اس میں ایک باغ ہے جس کا نام رخسار ہے اس باغ میں ایک چشمہ دہن ہے اسی چشمے میں آب حیات ہے جس کی تجھے تلاش ہے اور ایک سفارشی خط اپنے بھائی قامت کے نام لکھ دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ راستے میں شہر دیدار کا نگہبان ایک دیو رقیب نامی ہے اس سے ہوشیار رہنا وہ کسی غیر آدمی کو وہاں جانے نہیں دیتا۔

بہرحال نظر وہاں سے چل دیتا ہے۔ رقیب کو ایک ایسا جھانسہ دیتا ہے کہ رقیب خود اس کو شہر دیدار لے جاتا ہے۔ وہاں پہنچا تو قامت سے ملاقات ہوئی اس نے ہمت کا خط اسے دیا تب اس نے نظر کو کہیں چھپا دیا۔اس طرح رقیب کے پنجے سے رہائی پانے کے بعد وہ رخسار کے گلزار میں پہنچا۔ وہاں پہلے زلف نے اسے ٹوکا پھر اس کی معذرت سنکر مہربان ہو گئی اور اپنے کچھ بال دے دیے کہ جب مصیبت پڑے ان بالوں کو آگ پر جلانا میں مدد کے لئے پہنچ جاؤں گی۔اس سے رخصت ہو کر پھر یہ شہر دیدار کی طرف چلا۔وہاں کے نگہبان غمزہ نے اسے پکڑ لیا اور نظر کو مار ڈالنا چاہتا تھا کہ نظر کے بازو پر ایک لعل نظر آیا جو اس کی ماں نے بچپن میں نشانی کے لئے اپنے دونوں بیٹوں نظر اور غمزہ کے بازو پر ایک ایک لعل باندھ دیا تھا اسے دیکھتے ہی غمزہ نظر سے لپٹ کر رونے لگا۔دونوں بھائی ملے ، نظر نے اپنا سب احوال سنایا۔ غمزہ حُسن کا مصاحب تھا وہ اسے حُسن کے پاس لے گیا۔حسن کے پاس ایک خوش رنگ بیش قیمت لعل تھا جس پر ایک خوبصورت اورموہنی صورت بنی ہوئی تھی۔اس نے پرکھنے کے لئے اسے نظر کو دکھایا ، نظر نے کہا کہ یہ تو دل کی تصویر ہے اور پھر دل کی اتنی تعریفیں کیں کہ حُسن دل پر عاشق ہو گئی۔

نظر نے کہا کہ دل کو آب حیات کی تلاش ہے اور وہ تمہارے پاس ہے۔ اگر اسے یہ مل جائے تو میں دل کو تیرے پاس لے آتا ہوں۔حسن نے اپنے غلام خیال کو نظر کے ساتھ کیا اور ایک یاقوت کی انگوٹھی اس کو دی جس سے آب حیات کے چشمے پر مہر کی جاتی تھی۔خیال اور نظر دونوں شہر تن میں پہنچ کر دل سے ملتے ہیں۔ نظر اپنے سفر کا سب حال سناتا ہے اور خیال حسن کی تصویر کھینچ کر دل کو دکھاتا ہے۔ وہ دیکھتے ہی ہزار جان سے حسن پر عاشق ہو جاتا ہے اور کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔

آخر دل نظر کے مشورے سے شہر دیدار کے سفر کا قصد کرتا ہے۔ ادھر عقل بادشاہ کے ایک وزیر وہم کو جب اس بات کی خبر ہوتی ہے تو وہ عقل سے جا کر کہتا ہے کہ نظر ایک خانہ خراب خیال کو ساتھ لایا ہے اور وہ دونوں دل (شہزادے) کو شہر دیدار کی طرف لئے جا رہے ہیں۔ اس سے بڑا فتنہ پیدا ہو گا اور عشق بادشاہ سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہو جائے گا۔عقل اس خبر کو سن کر بہت پریشان ہوا اور اس نے وہم کے مشورے کے مطابق دل اور نظر کو قید کر کے پہرے بٹھا دیے۔

یاقوت کی وہ انگوٹھی جو حسن نے دل کو بھجوائی تھی اور جسے دل نے نظر کے پاس رکھوا دی تھی اس کی ایک خاصیت یہ تھی کہ جو کوئی اسے منہ میں رکھ لے وہ دوسروں کی نظر سے اوجھل ہو جائے۔چناچہ نظر اسے منہ میں رکھ کر قید خانہ سے باہر نکل آیا اور شہر دیدار جا پہنچا۔وہاں رخسار کے گلزار میں سیر کر رہا تھا کہ اسے آب حیات کا چشمہ نظر آیا۔ چاہتا تھا ایک گھونٹ پانی پی لے کہ انگوٹھی منہ سے نکل کر چشمے میں جا گری اور وہ آب حیات کا چشمہ نظر سے غائب ہو گیا۔اتنے میں رقیب کی نظر اس پر پڑی تو وہ تاک میں تھا۔ فوراً نظر کو پکڑ کر گھر لے گیا اور قید کر لیا۔قید میں نظر کو زلف کے بالوں کا خیال آیا۔ ایک دو بال آگ پر رکھے زلف نمودار ہوگئ۔حال پوچھ کر کسی ترکیب سے اسے قید سے چھوڑا کر شہر دیدار اور رخسار کے گلزار کے راستے پر ڈال دیا۔

نظر وہاں پہنچ کر حسن سے ملا۔ سب حال بیان کیا۔ وہ تو انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ حال سن کر اور بے قرار ہو ئی اور غمزہ کو بلا کر کہا کہ تم اور نظر دونوں جاؤ اور جس طرح بن پڑے دل کو یہاں لے کر آؤ۔نظر اور غمزہ چیدہ اور تجربہ کار لوگوں کو ساتھ لے کر شہر تن کی طرف سدھارے۔ادھر عقل بادشاہ نے نظر کی فراری کی خبر تمام سرحدی حکام کو ہدایت بھیج دی تھی کہ مفرور نظر جہاں ملے اسے قید کر لیا جائے۔زرق کے بیٹے توبہ کو جو ایک سرحدی حاکم تھا ، یہ اطلاع ملی کہ نظر لشکر لیے قریب کی پہاڑی کے نیچے پڑا ہے۔ وہ فوراً اپنا لشکر لے کر چپٹ پڑا لیکن غمزہ اور نظر ایسی بہادری سے لڑے کہ توبہ کو شکست کھا کر فرار ہونا پڑا۔اس نے جاکر عقل بادشاہ کو اس حزمیت اور غمزہ کی سفاکی خبریں سنائیں تو عقل بادشاہ نے دل شہزادے کو قید خانہ سے نکلوا کر یہ سب باتیں بتائیں اور کہا کہ تم ایک لشکر جرار لےجاکر غمزہ سے مقابلہ کرو اور کچھ عرصہ کے بعد خود بھی ایک بڑی فوج لے کر دل کی مدد کو روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد لڑائی کے دوران بہت سے پیچ در پیچ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقل کی ابتدائی معرکوں میں تو جیت ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ عشق بادشاہ سے ہار جاتا ہے۔

ہمت بادشاہ بیچ میں پڑھتا ہے۔ دونوں میں صلح کرا دیتا ہے۔طے یہ ہوتا ہے کہ عشق بادشاہ رہے اور عقل اس کا وزیر رہے۔ رقیب کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔دل کی شادی حسن کے ساتھ کردی جاتی ہے۔ایک روز دل ہمت اور نظر رخسار کے گلزار میں پہنچے۔ وہاں آب حیات کا چشمہ دہن دیکھا۔ وہاں ایک پیر سبز پوش نظر آئے یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے ہمت کے کہنے پر دل نے ان کی قدم بوسی کی۔ ادب سے نزدیک بیٹھا۔ حضرت حضر نے آنکھوں کے اشارے سے سب راز کھول دیے اور دل حضرت حضر کے فیض سے اپنی مراد کو پہنچا۔حسن و دل خوب پھولے پھلے، فرزندوں والے ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا فرزند یہ کتاب سب رس ہے جو اپنے وقت کا افلاطون ولقمان ہے، روشن ضمیر، صاحب تدبیر ہے۔ جو کوئی صاحب نظر ہو گا اسے یہ سخن بھائے گا اور قدر کرے گا۔

اس طرح کہا جائے تو اب اس کتاب “سب رس” کو حسن و دل کا فرزند ہونا سزاوار ہے اس پر وجہی نے قصے کا خاتمہ کیا ہے۔

وجہی نے سب رس میں عشق پر 11ا انشائیے لکھے ہیں۔سب رس کے متعلق نصیرالدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ یہ تصوف کی بہترین کتاب ہے جس کو فرضی قصے کے طور پر لکھا ہے۔سب رس میں عشق، عقل،دل، حسن، ہمت، وفا، مہر اور وہم وغیرہ مجرد خیالات کو انسانی کردار میں ڈال کر رمزیہ انداز میں تصوف کے مسائل کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔وجہی نے اس قصے کا عنوان سب رس اس لیے رکھا ہے کہ اس نے زندگی خصوصاً عشق سے متعلق سارے ‘رس’ (سب رس یعنی سارے جذبات) محبت، اطاعت، قربانی، رشک و رقابت، ہجر وصال، خوشی اور غم کو ان جذبوں کے ماخذات یعنی حسن ، عشق دل نظر، عقل کے کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔