ایک بیوقوف گدھے کی کہانی

0

ایک گدھا کسی جنگل میں رہتا تھا وہ ہر جگہ گھومتا رہتا اور جہاں ہری ہری گھاس نظر آجاتی پیٹ بھر کر کھاتا اور پھر پانی پی لیتا۔ یوں اس کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ مگر اسے ہمیشہ ایک جانور (شیر) کا ڈر رہتا تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں کی طرح وہ بھی شیر سے بہت ڈرتا تھا۔

ایک دن کی بات ہے کہ اس کا پیٹ بہت اچھی طرح بھرا ہوا تھا۔ اسے ایک لومڑی مل گئی۔ گدھا اس دن بہت خوش ہو رہا تھا۔ اچھی اچھی گھاس نے اس میں نئی طاقتور بھر دی تھی۔ اس نے لومڑی کو دیکھا تو ذرا آواز بھاری بنا کر بولا

“اے بی لومڑی! اگر آج شیر مل جائے تو بس میں ایک دولتی میں اس کا کام تمام کر دوں”

لومڑی اس دن نیکی کے موڈ میں تھی۔ اس نے سمجھایا کہ وہ ایسی غلطی نہ کرے ورنہ مارا جائے گا۔ لومڑی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

“تم ہو تو گدھے مگر گدھے پن کی بات مت کرنا۔ تم دیکھتے ہو بڑے بڑے جانور بھی شیر سے ڈرتے ہیں” لومڑی کی بات گدھے کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے سوچا کہ لومڑی جیسا چالاک جانور بھی شیر سے ڈرتا ہے۔ اس لیے اسے بھی اپنے دل کی تمنّا اپنے دل میں رکھنی چاہیے۔وہ چپ ہوگیا مگر اس کا دل چاہا کہ کبھی وہ بھی شیر بن جائے تاکہ سب جانور اس سے ڈریں۔

وہ اکثر دیکھتا تھا کہ جب شیر تالاب پر پانی پینے آتا تو سب جانور وہاں سے بھاگ جاتے اور شیر اکیلا مزے لے لے کر پانی پیتا۔ اس کے برعکس گدھا جب تالاب پر پانی پینے جاتا تو اسے بڑی مشکل سے پانی پینے کو ملتا۔ ایک بار تو ایک بھالو نے اسے اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ تالاب میں گر گیا اور پھر بڑی مشکل سے باہر نکلا۔

گدھا بیچارا ہمیشہ کی طرح گھومنے پھرنے میں لگ گیا۔ ایک روز وہ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شیر کی کھال زمین پر پڑی ہے۔پہلی نظر میں تو گدھا خوفزدہ ہوگیا مگر جب اس نے غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ اصلی شیر نہیں ہے بلکہ شیر کی صرف کھال ہی ہے۔

گدھے کی مراد بر آئی۔ آس پاس کوئی تھا بھی نہیں۔ اس نے جھٹ پٹ کھال پہن لی۔ کھال پہن کر اس نے تالاب کا رخ کیا۔ اس کا مقصد تھا کہ پانی میں اپنا عکس دیکھے۔

ابھی وہ تالاب سے تھوڑی دور تھا کہ جانور بھاگنے لگے۔ گدھا خود بھی چوکنا ہو گیا اور ایک طرف کو دوڑا۔ وہ سمجھا تھا کہ شاید شیر آگیا۔ اسے حیرت ہوئی کہ جس طرف بھی وہ جاتا جانور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ سارے جانور تو اسے شیر سمجھ رہے ہیں۔ اس بات سے گدھے کی ہمت بڑھ گئی۔

اب تو گدھے کے مزے ہو گئے۔ وہ جہاں جاتا اکیلا ہوتا۔ تالاب پر اطمینان سے پانی پیتا۔ جب سوتا تو اسے کوئی تنگ نہ کرتا۔ سارے جانور اس کے آرام کا خیال رکھتے۔ گدھے نے شیر کی کھال کیا پہنی تھی کہ اس کے تو دن ہی بدل گئے۔

گدھا بہت خوش تھا اور ہر طرح یہ کوشش کرتا کہ جنگل کے جانوروں کو پتہ نہ چلے۔ وہ خاص طور پر لومڑی سے بچتا تھا کیونکہ اسے خبر تھی کہ لومڑی بہت چالاک ہے۔

لومڑی بہت چالاک تھی۔ وہ اس ٹوہ میں لگی رہتی تھی کہ یہ نیا شیر جنگل میں کہاں سے آگیا ہے؟ مگر گدھے کو اس بات کی بالکل خبر نہیں تھی۔

ایک دن گدھے نے خوب کھانا کھایا۔ سیر ہو کر پانی پیا پھر گہری نیند سو گیا۔ جب جاگا تو بھول گیا کہ اس نے شیر کی کھال پہن رکھی ہے۔ لگا اپنی آوازیں نکالنے۔

لومڑی کہیں قریب ہی تھی۔ وہ بھاگی بھاگی آئی دیکھا تو شیر ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازیں نکال رہا ہے۔وہ حیران ہوگئی کہ شیر گدھے کی آواز کیسے نکال سکتا ہے!

اب اسے معلوم ہوا کہ شیر کی کھال میں ایک گدھا چھپا ہوا ہے۔ وہ کہنے لگی “ارے گدھے! جب شیر بننا تھا تو آواز بھی شیر والی لے کر آتا۔ تو بولنے سے پکڑا گیا”

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ نقل کرنے والا اصل نہیں ہوتا اور جھوٹ کبھی نہ کبھی کھل ہی جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ گدھے کی طرح بیوقوفی کا ثبوت ہرگز نہ دیں بلکہ ایک چالاک لومڑی کی طرح ہر وقت نئی نئی کھوج میں لگے رہیں تاکہ نئی نئی ایجادات سے ہمارے ذہن میں کشادگی آئے۔

Moral


نقل کرنے والا اصل نہیں ہوتا