Wali Dakni In Urdu

حالاتِ زندگی

شاہ محمّد اللّه ولیؔ ْجو ولیؔ دکنی اور ولیؔ گجراتی کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں، اورنگ آباد (دکن) کے رہنے والے تھے۔ ولیؔ 1079ھ بمطابق 1668ء میں پیدا ہوئے اور 1720ء میں وفات پا گئے۔

ولیؔ کے خاندان کا سلسلہ شیوخ قادریہ سے ملتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دکنی نہیں بلکہ گجراتی تھے، انھیں ولی دکنی اور ولی گجراتی ثابت کرنے کے لئے لوگ مختلف دلائل دیتے ہیں، در اصل دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

شاعرانہ عظمت

ولیؔ کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ اپنے زمانے کے مشہور اُستاد آزادؔ نے ولی کو ”آبِ حیات “ میں اردو کا پہلا صاحب دیوان اور شمالی ہندوستان کا پہلا اردو شاعر کہا ہے۔ ایک زمانے تک اس بات کو سچ بھی مانا جاتا رہا مگر جدید تحقیق نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ محمّد قلی قطب شاہ کی کُلیات مل جانے کے بعد ، جو ولیؔ سے تقریباً سو سال پہلے وفات پا چکے تھے، یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے۔

ولیؔ محض تاریخی اہمیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان کی شاعرانہ عظمت بھی جواب نہیں رکھتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہر صنفِ سخن میں قادر تھے جیسے شاعری ان کے خاندان میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہو۔ انہوں نے غزل، قصیدہ، رباعی، مستزاد، قطعہ اور مثنوی کے علاوہ کچھ ایسی اصناف پر بھی طبع آزمای کی ہے جو آج کل رائج نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ولی کو غزل نے اور غزل کو ولی نے جو شہرت عطا کی وہ دوسری اصناف کے حصّے میں نہیں آ سکی۔

ولیؔ نے اردو غزل کو نئی وسعتوں سے آشنا کیا اور اسے ایک نیا وقار عطا کیا۔ اس کے علاوہ ولیؔ کا ایک اور ادبی کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے شمال اور جنوب کو شعری روایات کے رشتے میں منسلک کر دیا۔ انہوں نے پہلی بار اردو کو جغرافیائی حدود سے آزاد کر کے اسے سارے ہندوستان میں ادبی ابلاغ و ترسیل کے ایک مؤثر وسیلے کی حیثیت سے روشناس کروایا، اسے ملک گیر اہمیت کا حامل بنا دیا۔ شمالی ہند میں ریختہ کی ساکھ کو بنایا۔ ولی نے اپنے ہم عصر تمام شعراء کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔ غزل پر انھوں نے اتنے گہرے نقش مرتب کیے ہیں کہ انکی حیثیت تاریخی ہو گئی ہے۔

ولی کا کلام بہت مقبول ہوا انکے کلام کی اثر پذیری اور مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے کلام میں ہندی الفاظ کی گھلاوٹ اور فارسی کی رنگینی و شرینی بھی موجود تھی۔ یہی نہیں بلکہ ولی ہندی شاعری کی روایات سے بھی کافی متاثر تھے۔ ہندی شاعری کی روایت ہے کہ اظہار محبت عورت کی طرف سے کیا جاتا ہے، ولی نے اپنی ایک غزل میں عورت ہی سے اظہار محبت کروایا غزل کا مطلع ہے؀

پرت کنھٹا جن نے لی اسے گھر بار کرنا کیا
ہوئی جوگن جوگی پی کے اسے سنسار کرنا ہے

ولیؔ کی غزلوں کی زبان صاف اور شرین ہے۔ گو غزلوں میں خارجی پہلو نمایاں ہے مگر بر جستگی اور کیف کی وجہ سے بیان میں مزہ موجود ہے۔ ان کے کلام میں دل کے سوز و گداز کا اثر ملتا ہے اور زبان سادہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں؀

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
پایا ہے جو کوئی دولت کا فقیر
مشتاق نہیں سکندری کا

ولیؔ کی تشبیہات اور استعارات میں جدّت موجود ہے۔ ولیؔ کے قصیدے بھی خوب ہیں، قصیدے میں جتنی بھی خوبیاں ہونی چاہیے وہ سب ولی کے قصیائد میں موجود ہیں۔ شوکت الفاظ، زور، روانی اور تخیل کی بلندی وغیرہ سب موجود ہیں اور طرّہ یہ ہے کہ مشکل زمین کے ہوتے ہوئے بھی روانی میں فرق نہیں آنے دیا۔ ولیؔ نے اپنی غزلوں میں سیدھی سادھی باتیں پیش کی ہیں جن میں تغزل کے ساتھ ساتھ بعض جگہ اخلاقی مضامین بھی موجود ہیں۔ مضمون آفرینی میں تخیّل کی گہرائی قابلِ داد ہے۔

ہر زبان پر ہے مثل شانہ مدام
ذکر تجھ زلف کی درازی کا
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

اردو شاعری کا با ضابطہ آغاز ولیؔ دکنی سے ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کے محمّد حسیں آزادؔ نے انہیں اردو شاعری کا ”بابا آدم“ قرار دیا ہے اور انہیں اردو شاعری میں وہی مقام دیا ہے جو انگریزی شاعری میں چاسرؔ اور فارسی شاعری میں رودگیؔ کو حاصل ہے۔

ولیؔ نے نہ صرف دکنی روایت کی پاسداری کی بلکہ امیر خسروؔ کی قائم کردہ ریختہ کی بنیاد پر شعر و سخن کی وہ عالیشان عمارت تیار کی کہ جس نے کلاسیکی اردو شاعری کی بنیاد کو مستحکم کیا اور اس میں آنے والے عہد کے سارے امکانات سمٹ گئے۔ دوسرے الفاظ میں ولیؔ کا کمال یہ ہے انہوں نے اردو غزل کے ساز پر جو نغمے چھیڑے، دنیائے غزل میں ان کی صدائے بازگشت آج تک سنائی دی جا رہی ہے۔

ولیؔ نے زبان و بیان اور شعر ی مزاج کے لحاظ سے اردو شاعری کو وہ معیار اور مرکزیت عطا کی جس نے شمال و جنوب کی شعری روایات کو ایک کر دیا۔ اس ضمن میں جمیل جالبی لکھتے ہیں؛

”ولی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شمالی ہند کی زبان کو دکنی ادب کی طویل روایت سے ملا کر ایک کر دیا ……ولیؔ کی غزل میں اردو غزل کی کم و پیش وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو سراجؔ سے لے کر داغؔ تک مختلف شاعروں کی نشانیاں بنی اور جن سے آج تک بزمِ معنی کی شمع روشن ہے “

مجموعی طور پر ولی نے ایک ایسا رنگِ شاعری ایجاد کیا جس پر ایرانی اثرات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فضا کی خوشبو بھی موجود ہے۔انکی شاعری میں ہند ایرانی کلچر اور روایات کا وہی دلکش امتزاج و مزاج ملتا ہے جس نے ہندوستان میں اردو اور تاج محل کو جنم دیا ہے۔

Quiz On Wali Dakni

Wali Dakni In Urdu 1

غزلیات

منتخب اشعار