آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کے امتیازات پر روشنی ڈالیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتآغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کے امتیازات پر روشنی ڈالیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

آغا حشر کاشمیری اردو ڈراما نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی ڈراما نگاری کا آغاز ان ڈراموں سے ہوتا ہے جو انھوں نے الفریڈ کمپنی کے لیے لکھے۔ آغا حشر کاشمیری اردو ڈراما نگاری میں ایک بلند اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آغا حشر نے پہلی بار ڈرامے کو فن کی طرح برتا تھا اور ملک کے معاشرتی مسائل کو اپنے ڈرامے کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

اردو ڈرامے کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے انھیں اردو ڈراما نگاری کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ آغا حشر کی خوبی ہے کہ انھوں نے سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو موضوع بنایا اور ان موضوعات کو اپنے قلم کے ذریعے ڈراما کی صورت میں ناظرین تک پہنچایا۔ان کے ڈراموں کے پلاٹ سادہ ہیں اور ان کے اکثر ڈراموں میں ا چھائی اور برائی کے درمیان کی جنگ کو دکھایا گیا ہے۔ تمام تر جدوجہد کے بعد نیکی کو برائی پر فتح ملتی ہے۔

عموماً آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کے تین ادوار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کے پہلے دور کے ڈرامے مغربی ڈراموں سے اخذ کردہ ہیں۔اس دور کے ڈراموں میں زیادہ تر انگریزی ڈراموں کے ترجمے ہیں۔ مرید شک ،مار آستین، آفتاب محبت ، اسیر حرص،میٹھی چھری عرف دو رنگی دنیا، دام حسن اور ٹھنڈی آگ غیرہ اس دور کی تخلیقات ہیں۔ ان ڈراموں میں آغا حشر کی بذلہ سنجی فقرے بازی ،بدیہہ گوئی عروج پر ہے ان ڈراموں کی وساطت سے آغا عوام کے ذوق سے شنا سا ہو چکے تھے۔

جبکہ دوسرے دور کے ڈراموں میں بدیہہ گوئی فقرہ بازی کے علاوہ اشعار کی بھرمار ملتی ہے لیکن اس زمانے میں احسن اور بے تاب کے ڈراموں میں مقفعی ومسجع مکالمات کی بھرمار تھی۔ آغا نے بھی مقفعی ومسجع مکالمے لکھے اور ان میں بے جا اشعار کھپائے۔ اس زمانےکے ڈراموں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدھا ڈرامہ نظم میں ہوتا تھا۔ پہلے سین سے گانوں کی بھرمار شروع ہو جاتی تھی، ڈراموں کا مزاحیہ حصہ بہت سوقیانہ تھا، یہ حصہ تھرڈ کلاس کے ناظرین کے لئے تھا اور یہ بات عجیب ہے کہ ڈرامے کی کامیابی کاانحصار بھی تماشائی ہوتے تھے، اس لئے آغا ان کی تفریح کا خیال زیادہ رکھتے تھے۔

تیسرے دور کے ڈراموں سے صاف طور پر عیاں ہے کہ آغا نے شعوری طور پر کوشش کی کہ وہ ڈرامے کی نہج کو بدل ڈالیں اور عوام کا ذوق بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس دور میں اشعار کی بھر مار کم ہوگئی اور مزاحیہ عناصر سے بھی عامیانہ پن اور سوقیانہ پن غائب ہو گیا۔ اس دور میں آغا کی نکتہ آفرینی اور بذلہ سنجی عیاں نظر آتی ہے۔

اس کے بعد کا دور آغا حشر کی فنی ترقی کی معراج ہے۔ اس دور میں تمام ادوار سے زیادہ ڈرامے لکھے گئے آنکھ کا نشہ، دل کی پیاس، ترکی دور، رستم و سہراب جیسے شاہکار اسی دور کی تخلیقات ہیں اس دور کے ڈراموں کے پلاٹ تخیل کے بجائے حقیقی زندگی سے لیے گئے ہیں۔

یوں آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری کا یہ وصف ہے کہ ان کے ڈرامے ہر دور میں عوام میں بے حد مقبول رہے۔انھوں نے ڈراما نگاری کے تمام اوصاف کو مختلف ادوار میں اپنی ڈراما نگاری میں برت کر ڈرامے کے فن کو بلندیوں تک پہنچایا۔