اردو میں ڈرامہ نگاری کا فن

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتاردو میں ڈرامہ نگاری کا فن
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

اردو میں ڈرامہ نگاری کی تاریخ کا جائزہ لیجئے۔

ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتدا کی نشان دہی چوتھی صدی قبل مسیح کی جاتی ہے۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں، فنّی رچاؤ، اعلیٰ ادبی معیار، اخلاقی اقدار اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجۂ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب و معاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے۔

سنسکرت زبان اور اس کا ادب درباری سرپرستی سے محروم ہو گیا۔ اِدھر سنسکرت عوامی زبان کبھی نہ تھی۔ اس دو گونہ صورتِ حال کے نتیجے میں سنسکرت ڈرامے کا خاتمہ ہو گیا۔ دوسری علاقائی اور مقامی پراکرتوں میں ڈرامے کے آرٹ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔ لہٰذا عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلا اور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا۔

ان تماشوں اور کھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر کھیلے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔ ان میں نہ تو فنی اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور نہ دیکھنے والوں کے نزدیک تفریحِ طبع کے علاوہ کوئی اہمیت تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ دوسرے علوم و فنون کی ترویج و ترقی میں مسلمان حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بڑا سبب غالباً یہ تھا کہ نہ تو عربی وفارسی ڈرامے کی کوئی روایت ان کے سامنے تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت ہی باقی تھی، لہٰذا ڈراما ان کی سرپرستی سے محروم رہا۔

ڈرامے کے اس پس منظر پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ڈراما کسی روایت کے تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے مخصوص حالات اور اسباب و عوامل کے تحت وجود میں آیا۔ اردو ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے۔ اردو کے تقریباً تمام محققین، مسعود حسن رضوی ادیب کے اس خیال سے متفق ہیں کہ نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں اور ان کا رہس “رادھا کنھیّا کا قصہ” اردو ڈرامے کا نقشِ اول۔ (1)

یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں “قیصر باغ” میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ واجد علی شاہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی، رقص وسرود اور آرٹ کے بڑے دلدادہ اور مدّاح تھے۔ “رادھا کنھیّاکا قصہ” کے علاوہ واجد علی شاہ کے دوسرے رہس بھی بڑی آن بان سے شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے۔

ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو “قیصر باغ” کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانتؔ کا “اندر سبھا” عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند “اندرسبھا” کے حصے میں۔ آئی مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھتے ہیں “اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اُ س کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظرِ عام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگر ی، گجراتی اور مراٹھی خطوں میں چھاپا گیا”(2)۔

“اندر سبھا” کی کامیابی اور شہرت کے زیرِ اثر اسی انداز کے پلاٹ اور طرز پر لکھنؤ اور دوسرے مقامات میں کئی سبھائیں اور ناٹک لکھے گئے۔ اندر سبھا (مداری لال)،فرخ سبھا، راحت سبھا۔ (راحت)، جشن پرستان، ناٹک جہانگیر، عشرت سبھا، گلشن بہار افزا اور لیلیٰ مجنوں وغیرہ وغیرہ۔ امانت کے “اندر سبھا” کے بعد مداری لال کا”اندر سبھا” سب سے زیادہ مقبول ہوا۔

ڈھاکہ میں “اندر سبھا” کی بدولت اردو تھئیٹر نے ترویج و ترقی کی کئی منزلیں طے کیں،کئی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں جن کے پیشِ نظر عوام کی تفریح کے ساتھ تجارتی مفاد بھی تھا۔ شیخ پیر بخش کانپوری نے اندر سبھا کے طرز پر ایک ناٹک”ناگر سبھا” لکھا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ شیخ فیض بخش کی کمپنی فرحت افزا تھئیٹریکل کمپنی، جس نے بہت سے کھیل دکھائے تھے “ناگر سبھا” کو اسی نے کھیلا(3)۔ ماسٹر احمد حسن وافرؔ کا ڈراما “بلبلِ بیمار” ڈھاکہ کی ڈرامائی تاریخ میں نیا موڑ اور ایجاد پسندی کا نیا باب تسلیم کیا جاتا ہے، اس ڈرامے میں پہلی بار نظم کے ساتھ مکالموں میں سلیس وشستہ نثر کو شامل کیا گیا اور اس کے گانوں کا انداز بھی بدلا ہوا تھا” (4)۔

اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکز بمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ اور اس کے مضافات میں اندرسبھادکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی (5)۔

اردو ڈراما پارسی اربابِ ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے کی قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ڈرامے کے فن سے دلچسپی اور مالی منفعت کے پیشِ نظر پارسیوں نے بڑی بڑی تھیئڑیکل کمپنیاں قائم کیں جن کے اپنے ڈراما نگار،ڈا ئرکٹر اور کام کرنے والے ہوتے تھے۔ زیادہ تر ڈراموں کا موضوع وفاداری،سچائی اور شرافت ہوتا تھا اور ان کے قصے دیومالا، قرونِ وسطیٰ کی داستانوں اور شیکسپیر کے ڈراموں پر مبنی ہوتے تھے۔

انیسویں صدی کے آخر تک ڈرامے کے فن کو نہ تو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا اور نہ اسے سراہا گیا۔ امانتؔ اور مداری لال کے اندر سبھا کے تتبع میں جو ڈرامے لکھے گئے وہ زیادہ تر منظوم ہوتے تھے۔ بیچ بیچ میں دادرے اور ٹھمریاں ہوتیں۔ رقص وسرود پر زور دیا جاتا تھا۔ جن کمپنیوں کے لیے ڈرامے لکھے جاتے تھے وہ خالص تجارتی نقطۂ نظرسے شہر شہر کے دورے کرتیں۔ اس زمانے میں اردو اسٹیج پر منشی رونقؔبنارسی، حافظ عبداللہ،نظیر بیگ اورحسینی میاں ظریف چھائے ہوئے تھے۔ منشی رونقؔ بنارسی، پارسی وکٹوریہ تھیئڑیکل کمپنی کے خاص ڈراما نگار تھے۔ ان کے ڈراموں میں “بے نظیر بدرِ منیر”لیلیٰ مجنوں”نقشِ سلیمانی”سنگین بکاؤلی”عاشق کا خون” اور”فسانۂ عجائب عرف جانِ عالم انجمن آرا” وغیرہ مشہور ہوئے۔

حسینی میاں ظریفؔ، پسٹن جی فرام جی کی پارسی اوریجنل کمپنی کے ڈراما نگار تھے، ان کے ڈراموں میں”خدا دوست”چاند بی بی”شیریں فرہاد”حاتم طائی”چراغ اللہ دین”لیلیٰ مجنوں” اور “علی بابا” کو خاص شہرت ملی۔

حافظ عبد اللہ “لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی سے وابستہ رہے۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں “عاشق جانباز”ہیر رانجھا”نور جہاں”حاتم طائی”لیلیٰ مجنوں”جشن پرستان” وغیرہ مشہور ہوئے۔

نظیر بیگ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھئیٹریکل کمپنی “دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا” کے مہتمم تھے۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔ “نل دمن”گلشن پا کد امنی عرف چندراؤلی لاثانی” اور “نیرنگِ عشق حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیر و مہر انگیز” وغیرہ۔

ان سب ڈراما نگاروں کے یہاں چند باتیں مشترک ہیں۔ موضوعات اور پلاٹ یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی تنوع نہیں پایا جاتا۔ گانوں، غزلوں اور منظوم مکالمات کی بھر مار ہے، مقفیٰ نثر کا استعمال کثرت سے ہے،کردار نگاری کا شعور اور فنی کاریگری کا احساس تقریباً مفقود ہے، البتّہ ایک با ت ضرور پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ان ڈراموں میں نظم کے ساتھ ساتھ نثر کا استعمال ہونے لگا۔

بیسویں صدی کے آغاز میں پارسی تھیئٹر میں بعض ایسے ڈراما نگار شامل ہو گئے جنھوں نے اردو ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس میں چند خوش گوار اور صحت مند تبدیلیاں لا کر اسے نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ڈرامے کے معیار کو بلند کیا۔ اسے معاشرتی موضوعات اورسنجیدہ عناصر سے روشناس کرا یااورکسی حد تک فنّی شعور کا ثبوت دیا۔ اس دور کے ڈراما نویسوں میں ونائک پرشاد طالبؔ بنارسی، مہدی حسن احسنؔ لکھنوی اور پنڈت نرائن پرشاد بیتابؔ بنارسی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

طالبؔ بنارسی نے اپنے ڈراموں میں نظم سے زیادہ نثرکااستعمال کیا۔ طالبؔ وہ پہلے ڈراما نگار ہیں جنھوں نے ہندی میں گیت نہ لکھ کر اردو میں لکھے اور یہ ثابت کر دیا کہ آسان اردو میں بھی گیت لکھے جاسکتے ہیں۔ طالب کے ڈراموں میں “نگاہِ غفلت”گوپی چند”ہریش چندر” اور “لیل و نہار” مشہور ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول اور اہم ڈراما “لیل و نہار” ہے۔ امتیاز علی تاج اس ڈرامے کی کامیابی کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ “نیو الفریڈ” میں “لیل و نہار” بڑے سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کی پروڈکشن میں جو باتیں وکٹوریہ کمپنی نے پیدا کی تھیں وہ سب نیو الفریڈ میں بھی برقرار رکھی گئی تھیں”۔

“سادہ زبان میں لکھا ہوا یہ ڈراما اس نوع کے ساز وسامان کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا تو اچھی خاصی گھریلو فضا پیدا ہو جاتی اور اپنی اس خصوصیت کے پیشِ نظر یہ کھیل دوسرے تماشوں میں ممتاز نظر آتا تھا۔ اس کھیل کے گانوں میں ہندی کے بجائے اردو کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے گئے تھے۔ میرے خیال میں بلا تکلف کہاجاسکتاہے کہ تھیئٹر کے گانوں میں یہ جدّت ایک قابلِ قدر تجربے کی حیثیت رکھتی ہے”۔ وہ مزید لکھتے ہیں”اس ڈرامے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اردو کے پہلے ڈراموں کی طرح اس کا تعلق بادشاہوں اور نوابوں کی زندگی سے نہیں بلکہ ایک متمول شخص کے خاندانی واقعات سے ہے اور سب واقعات اس نوع کے ہیں جن میں کوئی بھی انوکھی یا عجوبہ بات نہیں” (6)۔

ابھی اسٹیج پر طالبؔ کے ڈراموں کی گونج ختم نہ ہونے پائی تھی کہ احسنؔ لکھنوی اسٹیج پر چھا گئے۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے نانا مرزا شوقؔ لکھنوی کی مثنوی “زہرِ عشق” کو “دستا و یزِ محبت” کے نام سے ڈرامے کی صورت میں 1897ء میں پیش کیا۔ ان کے ڈرامے “چند راؤلی” کی کامیابی کے بارے میں ڈاکٹر نامی تحریر کرتے ہیں کہ “احسنؔنے چند راؤلی لکھا جو لکھنؤ ہی میں پہلی بار اسٹیج ہوا اور بہت کامیاب رہا۔ احسنؔ لکھنوی کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے اپنے وطن ہی میں شہرت حاصل کی”(7)۔

احسنؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شیکپیر کے ڈراموں کو اردو قالب میں ڈھال کر فنِ ڈراما نگاری کو ایک نیا موڑ دیا۔ حالانکہ احسنؔ سے پہلے ہی یہ کام شروع ہو گیا تھا مگر صحیح معنی میں شیکسپیرکو متعارف کرانے کا سہرا انھیں کے سر ہے۔ بقول امتیاز علی تاج”داستانی انداز کے ان راگ ناٹکوں کی یکساں روش سے نمایاں اختلاف مہدی حسن احسنؔ لکھنوی کے ڈراموں میں ملتا ہے۔

میری دانست میں ان کی تصنیفات میں زیادہ اہمیت ان ڈراموں کو حاصل ہے جو انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ یہ اس لیے کہ انگریزی ڈرامے بھلے بُرے طور پر جیسے بھی اپنائے گئے ہیں ان کے ذریعہ ہماری زبان کم از کم پلاٹ کی صحیح تعمیر سے روشناس ہوئی۔ احسنؔ کے ڈرامے پرانے راگ ناٹکوں سے نمایاں طور پر مختلف اور زیادہ دلچسپ اور موثر ہیں۔ ان کا پلاٹ ڈرامے کا پلاٹ تھا۔ کردار نگاری میں حقیقت نظر آتی تھی۔ زبان مقابلتہً بے تکلف تھی اور ان میں ایکڑوں کے لیے ایکٹ کرنے کی گنجائش موجود تھی”(8)۔ ان کے ڈراموں میں “چند راؤلی”خونِ ناحق عرف مارِ آستین (ہیملٹ)”بزمِ فانی (رومیوجولیٹ)”دلفروش (مرچنٹ آف وینس)”بھول بھلیاں(کامیڈی آف ا یررز)” اور “اوتھیلو” بہت مشہور ہوئے۔ احسنؔ نے ڈرامے کی زبان اور نظم و نثر دونوں کو نکھارا اورسنوارا، مکالموں کو دلکش بنایا اور انھیں ادبی رنگ و آہنگ بخشا، پلاٹ کی تعمیر پر زور دیا اور فنّی تدبیر گری سے کام لیا۔

بیتابؔ نے اردو،ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کر اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان کا پہلا ڈراما “قتلِ نظیر” ہے جو 1910ء میں الفریڈ تھیئٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا۔ یہ ڈراما پہلا ڈراما ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بیتابؔ کو اردو ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے میں ہندو دیومالا کے بعض اہم واقعات کو از سرِنو زندہ کیا لیکن انھوں نے مکالموں میں جہاں عربی وفارسی کے الفاظ و تراکیب کے ساتھ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے وہاں زبان بوجھل اور غیر فصیح ہو گئی ہے۔ ہا ں جہاں سادہ اردو اور ہندی اور ہلکی پھلکی زبان استعمال کی ہے وہاں لطف وا ثر نمایاں ہے۔

بیتابؔ کے ڈراموں میں “قتلِ نظیر”زہری سانپ”گورکھ دھندا”امرت”میٹھا زہر”شکنتلا”مہابھارت”رامائن” اور “کرشن سداما” خاص شہرت کے مالک ہیں۔ “مہابھارت” کی مقبولیت اور پسندیدگی کے بارے میں امتیاز علی تاج کا خیال ہے “لیکن الفریڈ بڑے معرکے کا جو کھیل تیار کر کے لاہور آئی تھی وہ بیتابؔ کا مہابھارت تھا۔

اس کھیل کو اعلیٰ ڈرامے اور اس کی قابلِ قدر پیش کش کے معیار پر جانچنا بیکار ہے۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے اس وقت کی تھیئٹر کی دنیا کے بہترین دماغوں سے کام لیا گیا۔ سین سینری استاد حسین بخش نے بنائی تھی جن کا ثانی برِّصغیر کا تھیئٹر پھر کبھی پیدا نہ کر سکا۔ تماشے کی طرزیں استاد جھنڈے خاں نے بنائی تھیں۔ بر صغیر کے تھیئٹر کی دنیا میں ان سے بڑا موسیقی کا استاد کوئی نہیں گزرا۔ مہا بھارت کو اگر ڈرامے اور پیشکش کے صحیح معیار پر پرکھا جائے تواس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ البتہ میوزیکل کامیڈی کی خصوصیات، نمائش، تحیر خیزی اور نغمہ سرائی کو موثر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہ تھی جو اٹھا رکھی گئی ہو (9)۔

اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا ڈراما نویسوں نے اردو ڈرامے کی ترقی اور اسٹیج کی آراستگی میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ڈراما نگاروں کے یہاں فنّی مہارت اور تدبیر کاری کی خامی پائی جاتی ہے۔ اس خامی کو بڑی حد تک دور کرنے والے ڈراما نگار ہیں آغا حشرؔ کاشمیری جنھوں نے اپنے تخلیقی شعور اور جدّت پسند طبیعت کی بدولت اپنے دور کی ڈراما نگاری کی پامال روش سے بلند ہو کر فنّی ارتقا کی اعلیٰ کاریگری کے نمونے پیش کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک مخصوص دور کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔