افسانہ حج اکبر کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتافسانہ حج اکبر کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

منشی پریم چند نے افسانے “حج اکبر” میں ایک ایسے گھرانے کی کہانی کو پیش کیا ہے جن کی آمدنی کم تھی اور خرچے زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ (آیا) رکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک تو بچے کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے کم تر بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔

بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا ہر دم اس کے گلے کا ہار بنا رہتا۔بوڑھی دایہ ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی اپنا کام دل وجان سے کرتی تھی۔ اس لیے اسے نکالنے کا کوئی بہانہ نہ نہ تھا۔

کہانی کے مرکزی کردار یعنی بچے نصیر کی ماں شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لوٹ رہی ہے۔ جب دایہ بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں یہ دیکھنے کے لیے چھپی رہتی کہ کہیں دایا آٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی، لکڑی تو نہیں چھپا دیتی، اس کی لائی ہوئی چیز کوگھنٹوں دیکھتی اور بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں ؟ کیا بھاؤ ہے ؟کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب نرمی سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو اس کے لہجے میں بھی کڑواہٹ آ جاتی تھی۔

قسمیں کھاتی صفائی کی شہادتیں پیش کرتی اسی میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی معاملہ ہوتا اور روز ڈراما دایہ کے کچھ دیر رونے کے بعد انجام پاتا تھا۔اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی وہاں دو سبزی فروشوں میں بڑے جوش وخروش سے مناظرہ تھا۔دایہ بھی کھڑی ہو گئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے پر تماشا اتنا دلآویز تھا کہ اسے وقت کا بالکل احساس نہ ہوا۔

اچانک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا تو وہ بھاگتی ہوئی گھر کو چلی۔ مگر گھر پہنچتے ہی شاکرہ غصے سے بھرے بیٹھی تھی۔ آیا نے بہانہ تراشا کہ دور کے کسی رشتے دار کے مل جانے کی وجہ سے دیر ہوئی اور یہ کہنے کے بعد چھوٹے نصیر کو اٹھا لیا۔مگر شاکرہ پہلے تو آیا پر خوب برسی بعد میں نصیر کو اس سے چھین کر آیا کو نوکری سے نکال دیا۔

آیا کے جان کے بعد ننھا نصیر خوب رویا۔اپنے والد اور والدہ کے بہلاوے میں وہ کسی طور نہ آتا اور ہر وقت آیا آیا کی رٹ کگائے رکھتا۔ دروازے کی آواز ہوتی یا کچھ اور وہ آیا کر کے دوڑتے ہوئے جاتا۔ آیا کی جدائی کا نصیر پر بہت گہرا اثر ہوا اور کچھ ہی دنوں میں وہ شدید بیمار ہوگیا۔

دوسری جانب آیا کی حالت بھی نصیر سے مختلف نہ تھی۔شاکرہ کے خوف سے وہ نصیر کو ملنے بھی نہ آتی۔کئی بار ارادہ کیا مگر رستے سے ہی پلٹ گئی۔ نصیر کی جانب سے توجہ ہٹانے کی غرض سے آیا نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور جیسے ہی وہ اس مقدس سفر پر روانہ ہونے لگیں تو انھوں نے دیکھا کہ نصیر کے والد صابر حسین ان کو تلاش کرتے وہاں آپہنچے۔

صابر حسین اپنے بچے کی بگڑتی حالت کو برداش نہ کر پایا اور آیا کو واپس لانے کے لیے آپہنچا۔دوسری جانب شاکرہ بھی آیا سے اپنے رویے کے لیے بہت پشیمان تھی اور وہ اپنے بچے کی حالت کو لے کر بہت فکر مند بھی تھی۔ آیا نے صابر حسین سے جیسے ہی نصیر کی بیماری کی خبر طائی تو فوراً حج کا ارادہ ترک کیا اور صابر حسین کے ساتھ گھر کو ہو لی۔تمام راستے وہ نصیر کے کیے دعا گو رہیں اور خود کو ملامت کرتی رہیں کہ وہ نصیر کو دیکھنے کیوں نہ آئی۔

نصیر جذباتی طور پو آیا سے اس قدر جڑا ہوا تھا کہ آیا کی جدائی کو سہہ نہ پایا اور بیمار ہو گیا مگر جیسے ہی آیا واپس آئی تو اس کی واپسی سے مرجھایا ہوا نصیر دوبارہ سے کھلکھلا اٹھا۔ اس کا زرد چہرہ روشن ہو گیا۔وہ بہت جلد تندرست ہو کر دوبارہ سے آنگن میں کھیلنے لگ گیا۔ یوں مصنف نے نہایت خوبصورتی سے محبت اور خدمت خلق کے جذبے کو کہانی کے ذریعے پیش کیا۔