تجارت میں کافر کو دھوکہ دینا کیسا ہے؟

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتتجارت میں کافر کو دھوکہ دینا کیسا ہے؟
beingsajid Staff asked 6 مہینے ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 6 مہینے ago
کافر کو بھی دھوکہ دینا گناہ ہے کوفہ کے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک لشکر بھیجا تھا۔ اس کے امیر کو یہ خط لکھا: ”مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہارے کچھ ساتھی کبھی موٹے تازے کافر کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔ وہ کافر دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جاتاہے اور خود کو محفوظ کرلیتا ہے تو پھر اس سے تمہارا ساتھی (فارسی میں) کہتا ہے ”مطرس“ یعنی مت ڈرو (یہ کہہ کر اسے امان دے دیتا ہے وہ کافر خود کو اس مسلمان کے حوالے کردیتا ہے) پھر یہ مسلمان اس کافر کو پکڑ کر قتل کردیتا ہے (یہ قتل دھوکہ دے کرکیا ہے) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! آئندہ اگر مجھے کسی کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے ایسا کیا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا۔“ [ مؤطالامام مالک، باب ماجاء فی الوفاء بالأمان: ۴۶۶] حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کسی نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کسی مشرک کو امان دے دی اور وہ مشرک اس وجہ سے اس مسلمان کے پاس آگیا اور پھر مسلمان نے اسے قتل کردیا تو (یوں دھوکہ سے قتل کرنے پر) میں اس مسلمان کو ضرور قتل کروں گا۔ [ کنزالعمال، الثانی، الجہاد الامان ۴/ ۲۰۹ رقم ۱۱۴۵] حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ہم نے ”تستر“ (شہر) کا محاصرہ کیا (آخر محاصرہ اور جنگ سے تنگ آکر تستر کے حاکم) ہرمزان نے اپنے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلہ پر اترنا قبول کیا۔ میں اس کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے اس سے فرمایا: ”کہو کیا کہتے ہو؟“ اس نے کہا: ”زندہ رہنے والے کی طرح بات کروں “ یا ” مرجانے والے کی طرح؟“ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ”لَا بَأسَ“ یعنی تم اپنے بارے میں مت ڈرو۔ ہرمزان نے کہا اے قوم عرب! جب تک اللہ تعالٰی خود تمہارے ساتھ نہ تھے بلکہ اللہ نے معاملہ ہمارے اور تمہارے درمیان چھوڑ رکھا تھا اس وقت تک تو ہم تمہیں اپنا غلام بناتے تھے، تمہیں قتل کرتے تھے اور تم سے سارا مال چھین لیا کرتے تھے لیکن جب سے اللہ تعالٰی تمہارے ساتھ ہوگئے ہیں اس وقت سے ہم میں تم سے مقابلہ کی طاقت باقی نہیں رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے (مجھ سے) پوچھا: ”(اے انس!) تم کیا کہتے ہو؟“ ☜ میں نے کہا: ”اے امیرالمؤمنین! میں اپنے پیچھے بڑی تعداد میں دشمن اور ان کا بڑا دبدبہ چھوڑ کر آیا ہوں۔ اگر آپ اسے قتل کر دیں گے تو پھر اس کی قوم اپنی زندگی سے ناامید ہوکر مسلمانوں سے لڑنے میں اور زیادہ زور لگائے گی (اس لیے آپ اس کو قتل نہ کریں)“ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ”میں بڑاء بن مالک اور مجزأۃ بن ثور رضی اللہ تعالٰی عنہما (جیسے بہادر صحابہ) کے قاتل کو کیسے زندہ چھوڑ دوں؟“ میں نے کہا: ”آپ اسے قتل نہیں کرسکتے کیوں کہ آپ اس سے ”لَابَأسَ“ تم مت ڈرو اور بات کرو کہہ چکے ہیں (اور لاَبَأسَ کہنے سے جان کی امان مل جاتی ہے لہٰذا آپ تو اسے امان دے چکے ہیں)۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ”معلوم ہوتا ہے تم نے اس سے کوئی رشوت لی ہے اور اس سے کوئی مفاد حاصل کیا ہے؟“ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم! میں نے اس سے نہ رشوت لی ہے اور نہ کوئی مفاد (میں تو ایک حق بات کہہ رہا ہوں)“ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ”تم اپنے اس دعویٰ (”لَابَأسَ“ کہنے سے کافر کو امان مل جاتی ہے) کی تصدیق کرنے والا کوئی اور گواہ اپنے علاوہ لاؤ ورنہ میں تم سے ہی سزا کی ابتداء کروں گا۔“ چنانچہ میں گیا، مجھے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ ملے، میں ان کو لے کر آیا انہوں نے میری بات کی تصدیق کی، جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے لیے بیت المال میں سے وظیفہ مقرر کیا۔ [ کنزالعمال، الجہاد الامان الثانی ۴/ ۲۰۸ رقم ۱۱۴۴۳]