جموں سے پونچھ تک کے سفر کے احوال ۔

ادبی محفلCategory: اردو جنرل نالججموں سے پونچھ تک کے سفر کے احوال ۔
beingsajid Staff asked 10 مہینے ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 10 مہینے ago
تحریر:  جاوید اقبال علیمی   ۲۰جون ۲۰۲۳ء مطابق ۱ ذی الحجہ ۱۴۴۴ھ بروز منگل 'اسلام آباد پونچھ میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمی تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جامعات المدینہ جموں کے اساتذہ وناظمین اور دیگر عملہ کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہوا اور اسی موقع پر اسلام آباد میں ایک نئے جامعۃ المدینہ کی افتتاحی تقریب بھی منعقد ہوئی ۔جموں کے خطے میں دعوت اسلامی کے زیر انتظام قائم ہونے والا یہ پانچواں جامعۃ المدینہ للبنین (بوائز ) تھا۔ جامعۃ المدینہ جموں کے اساتذہ کا چھ رکنی قافلہ مذکورہ ورکشاپ میں شرکت کی نیت سے ۱۹ جون کو تقریبا ۳ بجے جامعۃ چھوڑ چکا تھا ۔ مفتی شکیل احمد ثقافی 'مفتی محمد توصیف مصباحی 'ناظم جامعۃ مولانا سراج احمد مصباحی 'مولانا اویس رضا مصباحی 'قاری غلام محی الدین برکاتی اور راقم جاوید اقبال علیمی 'مفتی شکیل صاحب کی Ecosport میں سوار تھے ۔ ویسے گاڑی میں پانچ ہی افراد بآسانی بیٹھ سکتے تھے اور ابتداء پانچ ہی لوگوں کا پروگرام تھا لیکن ناظم جامعۃ مولانا سراج صاحب نے جب اپنی خواہش ظاہر کی تو کوئی کیوں کر انکار کرسکتا تھا لہذا اس امید پر حضرت کا خیر مقدم کر لیا گیا کہ راستے میں جہاں کہیں گاڑی جمپ لے گی تو تین کی جگہ چار کو کفایت کرجاۓ گی ۔ جموں 'پونچھ نیشنل ہائی وے پر پہنچتے پہنچتے کافی وقت ہوچکا تھا۔اس کا ایک سبب تو راستے میں ٹریفک کا جام ہونا تھا 'دوسرا گاڑی میں تیل ڈلوانے کے لیے لمبی قطار میں دیر تک کھڑا رہنا اور تیسرا ہمارے ناظم صاحب کا اپنے فرائض منصبی کے تئیں حد درجہ حساس ہونا تھا ۔لہذا انھوں نے اپنے فرائض کے تقاضے کے پیش نظر راستے میں لذت کام ودہن سے آشنائی کے لیے تین چار کلو آم کا انتظام کرلیا ۔ تھوڑی دیر بعد گھڑی پر نظر ڈالی تو پورے چار بج چکے تھے 'گاڑی مفتی شکیل صاحب کی شان جلالت کا مظہر بنی فلائی اوور پر ہوا سے باتیں کررہی تھی اور قاری غلام محی الدین برکاتی صاحب صیغے بدل بدل کر استغفار پڑھ رہے تھے۔ جموں سے پونچھ تک کا سفر خاصا طویل اور دشوار گزار ہے ۔کہیں نہ کہیں ہم سب راستے کی دشواریوں سے مرعوب تھے مگر مولانا اویس صاحب پہلے ہی سے بار بار سفر کی مشکلات کو یاد کرکے جزع فزع کررہے تھے جس کا ان پر نفسیاتی اثر یہ پڑا کہ وہ سفری ٹیبلٹ کھانے کے باوجود گاڑی میں بیٹھتے ہی بےبس ہوگئے۔آنکھیں بند کرکے سیٹ پر نیم دراز ہوگئے ۔وہ نہ تو پورے طور پر نیند سے ہم آغوش تھے اور نہ ہی بیدار 'بس آنکھیں بند تھیں البتہ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر چشم حیرت زدہ سے ہمیں گھورتے اور پھر دوبارہ آنکھیں موند لیتے۔۔۔۔۔مفتی توصیف صاحب سفر کے ابتدائی لمحات میں مجھے اور ثقافی صاحب کو مخاطب کرکے مختلف حالات و واقعات پر غور وفکر کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں ہی سانپ کی طرح بل کھاتی کالی دھار کی روڈ پر گاڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگی تو حضرت کے قواۓ جسمانی وفکری بھی جواب دے گئے اور آپ پر بھی نیم بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ لیکن حضرت کو ایک فکر یہ لاحق تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو 'وہ سوتے رہ جائیں اور ناظم صاحب کے خریدے گئے آم لقمہ اجل بن جائیں ۔اس لیے کبھی کبھار دزدیدہ نگاہوں سے ہمیں دیکھتے اور آموں کی سلامتی پر الحمدللہ کہہ کر سکون کا سانس چھوڑتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ لمبیڑی 'لب سڑک پر واقع مسجد نظامیہ میں ہم نے نماز عصر ادا کی ۔اس مسجد کے آس پاس مسلم آبادی بالکل نہیں ہے ۔تقریبا دوکلومیٹر کی دوری سے آکر ایک سن رسیدہ بزرگ اس کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی کسی بزرگ کا مزار بھی ہے ۔ نمازیوں کے لیے یہ بڑی سہولت کی بات ہے کہ یہاں حاجت ضروری سے فراغت حاصل کرنے اور وضو وغیرہ کا بہترین انتظام ہے ۔ کیوں کہ اس سے پہلے کہیں سڑک کے کنارے کوئی مسجدمیری معلومات میں نہیں ہے ۔ یہاں نماز عصر کی ادائیگی کے بعد ناظم صاحب نے آم سے لطف اندوز ہونے کی دعوت پیش کی جس کو سب نے بسر وچشم قبول کیا اور مسجد کے شمالی جانب اوقاف ہی کی ہموار زمین پر بیٹھے ہم آم چوستے رہے جبکہ بڑے بڑے مچھر ہمارا خون چوستے رہے ۔ اس تھوڑے سے وقفے اور قتل آم کے بعد مفتی توصیف اور مولانا اویس صاحبان کے نئے رنگ وآہنگ تھے 'دونوں سفر کے لیے اچھی خاصی انرجی اسٹور کر چکے تھے ۔آم کھاتے وقت مسجد نظامیہ کے خادم بزرگ کو ہم سب نے مشترکہ طور پر دعوت شرکت پیش کی تھی لیکن وہ شریک نہیں ہوئے تھے 'لہذا قاری صاحب نے باقی ماندہ آم ان کی خدمت میں پیش کرنے کا عندیہ دیا 'مولانا سراج صاحب نے اگر چہ سب سے زیادہ آم کھاۓ تھے 'لیکن پھر بھی ان کی نیت اچھی نہیں تھی ۔وہ سوالیہ لب ولہجے میں گویاہوۓ"سارے ان کو دیں گے " قاری صاحب نے بھر پور قلقلہ کرتے ہوئے ایسا جواب دیا کہ ساری محفل زعفران زار ہوگئ۔ مغرب کا وقت ہونے میں ابھی تقریبا بیس منٹ باقی تھے جب ہم لمبیڑی سے آگے بڑھے۔دن بھر کا تھکا ہارا سورج اپنی آخری کرنوں کو سمیٹ رہا تھا جبکہ مفتی شکیل صاحب اپنی گاڑی کوغیرمعمولی اسپیڈ کے ساتھ منزل مقصود کی طرف پیہم دوڑا رہے تھے ۔ٹھیک چالیس منٹ کے بعد ہمارا قافلہ چنگس کی مسجد کے گیٹ پر تھا ۔یہاں نماز مغرب ادا کی گئی۔اس کے بعد قریبی ہوٹل پر چاۓ نوشی ہوئی اور پھر جادہ منزل پر رواں دواں ہوگئے لیکن ابھی تقریبا ایک ہی کلو میٹر چلے تھے کہ ایک ہوٹل کو دیکھ کر مفتی شکیل صاحب نےگاڑی روک دی اور کچھ ہی دیر کے انتظار کے بعد فرائی چکن ہماری ٹیبل پر تھا 'جس سے سب لطف اندوز ہوۓ۔یہاں غیر شعوری طور پر تقریبا ایک گھنٹے کا وقفہ آرام ہوگیا ۔ اب رات سیاہ ہوچکی تھی ۔سڑک پر ٹرکوں کی آمد ورفت میں اضافہ ہو گیا تھا اور ہم بھی پھر سے محو سفر ہوگئے ۔ گاڑی درمیانی رفتار کے ساتھ چل رہی تھی ۔ہنستے بولتے ببیجی گلی تک کا سفر کیسے کٹ گیا 'احساس تک نہ ہوا۔ہاں یاد آیا 'بیجی گلی سے تھوڑا پہلے ایک ہوٹل پر کھانا کھانے کے لیے رکے بھی تھے اور یہاں تقریبا ایک گھنٹہ صرف ہوگیا تھا۔ بیجی گلی میں ہمیں رات کے بارہ بج چکے تھے ۔سیکیورٹی پر تعینات ایک پولیس والے نے مختصر پوچھ گچھ کے بعد ہمارا راستہ چھوڑ دیا ۔یہاں سے آگے بڑھے تو مہنڈر کا علاقہ ہماری نظروں کے سامنے تھا ۔رات کے وقت یہاں کا منظر نہایت دلفریب تھا ۔ جھلملاتی لائٹوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ آسمان اپنی کہکشاؤں کے ساتھ زمین پر اتر آیا ہو ۔یہ نظارہ کرتے وقت ہمارے دلوں کی جو کیفیات تھیں انھیں لفظوں کا جامہ پہنانا میرے بس کی بات نہیں ۔سب کی خواہش تھی کہ یہاں گاڑی سے اتر کر رات کے ان حسین مناظر کو کیمرے میں قید کرلیا جاۓ نیز روح کی تسکین کا مزید سامان کیاجاۓ لیکن گذشتہ ایک سال میں اس مقام پر جو واقعات پیش آئے ان کی طرف نظر کرتے ہوئے یہاں بغیر رکے آگے بڑھنے میں عافیت سمجھی۔ مفتی شکیل صاحب کی ڈرائیور والی حس اب پوری طرح بیدار تھی ۔یہاں سے پونچھ تک کا سفر نہایت تیزی کے ساتھ طے ہوا ۔مجھے عموما سفر میں نیند بہت زیادہ آتی ہے ۔جموں سے راجوری آنا ہو تو میں دو ہی بار جاگتا ہوں 'ایک بھاملہ میں اور دوسرے راجوری پہنچ کر ۔لیکن آج پورے سفر میں مجھے آنکھ تک نہیں لگی تھی ۔ جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی کہ میں فرنٹ سیٹ پر تھا اگر سوتا تو ثقافی صاحب کے عتاب کا شکار ہوتا ۔خیر سرنکوٹ کے بعد میں مکمل طور پر نیند کی آغوش میں تھا 'اگر مولانا سراج صاحب میرے چٹکی نہ بھرتے تو منزل سے پہلے نہ جاگتا ۔ رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے ۔پورا شہر پونچھ 'شہرخموشاں میں تبدیل ہو چکا تھا اور ہم اس میں داخل ہورے تھے ۔پونچھ جو ادیبوں 'شاعروں صوفیوں 'سنتوں' لیڈروں اور عالموں کی دھرتی ہے ۔اردو ادب کے جانے پہچانے دو نام اسی دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں 'کرشن چندر اور چراغ حسن حسرت۔اس شہر کی تاریخ خاصی پرانی اور دلچسپ ہے ۔پونچھ کبھی ریاست ہوا کرتی تھی ۔یہاں یکے بعد دیگرے مسلمانوں 'سکھوں اور ڈوگروں سب نے حکمرانی کی ہے ۔پھر ملک آزاد ہوکر تقسیم ہوا تو اس پونچھ کے سینے پر ایک خونی لکیر کھینچ دی گئ 'اس کے درد سے ابھی تک یہ دھرتی کراہ رہی ہے 'یہ دو ٹکڑے ہوکررہ گئ ۔اس کی پہلے پانچ تحصیلیں تھیں 'جن میں سے دو اب پاکستان کا حصہ ہیں اور تین انڈیا کا ۔خیر یہ ایک المناک داستان ہے جس کو بیان کرنے کا یہ محل نہیں ۔ ہاں تو ہم پونچھ میں داخل ہوچکے تھے 'سواۓ کتوں کی بھوں بھوں کے کسی اور چیز کی اگر آواز تھی تو وہ آس پاس بہتےان ندی نالوں کا شور تھا'جو ہماری طرح رات کے اندھیرے میں بھی تلاش منزل میں سرگرداں تھے ۔یہ بات پہلے سے طے ہوچکی تھی کہ رات کو ہمارا قیام پونچھ میں رہے گا اور وہ بھی ثقافی صاحب کے دولت خانہ پر ۔ ثقافی صاحب کو اللہ پاک نے آسودہ حال کیا ہے 'ان کے والد صاحب زونل ایجوکیشن آفیسر ریٹائرڈ ہیں ۔ ایک بھائی فیملی کے ساتھ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر مقیم ہیں 'خود بھی کئی سال الجزیرہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ان کا اصل مکان تو لورن منڈی میں ہے لیکن پونچھ شہر میں بھی ایک مکان اور غالبا دو یاتین دکانیں ہیں ۔ہم رات کو آپ کے پونچھ شہر والے مکان میں وارد ہوۓ جہاں فی الحال کوئی بھی نہیں تھا۔رات کے دو بج چکے تھے ۔ سفر کی تھکان کے اثرات سب پر نمایاں تھے ۔نماز عشاء ادا کرنے بعد جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں دراز ہوگیا۔ دوسرے روز بعد فجر تھوڑا آرام کرکے ہم اسلام آباد روانہ ہوگئے ۔اسلام آباد پونچھ شہر سے لگ بھگ ۱۵ کلو میٹر ہوگا ۔سائیں میراں بخش علیہ الرحمہ کے مزار کی طرف جاتے ہوئے پہلے اسلام آباد ہی آتا ہے ۔یہیں پر جامعہ جیلانیہ حسینیہ کی خوب صورت اور دیدہ زیب منزل ہماری منتظر تھی جہاں تربیتی اجتماع اور جامعہ کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہونا تھا ۔یہ جامعہ دراصل حضرت مولانا بشارت خان صاحب کی محنتوں کاثمرہ ہے ۔اس کی عالیشان تین منزلہ بلڈنگ ان کے خلوص کار کی گواہی دے رہی تھی۔مولانا صاحب بمبئی میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور مولانا کشمیری کےنام سے جانے جاتے ہیں ۔انھوں نے اپنے احباب کے تعاون سے یہ دینی قلعہ تیار کیا تھا جس کو اب دعوت اسلامی کے سپرد کردیا گیا ہے ۔دعوت اسلامی اس وقت دو سو سے زائد ممالک میں مختلف شعبہ جات کے ذریعے دینی خدمات انجام دے رہی ہے ۔اس کا ایک شعبہ جامعۃ المدینہ بھی ہے جس میں درس نظامی یعنی عالم کورس کروایا جاتا ہے ۔جامعۃ المدینہ جیلانیہ حسینیہ اسلام آباد 'پونچھ میں مذکورہ شعبے کی دوسری جبکہ خطہ جموں میں پانچویں شاخ ہے۔ اسلام آباد جامعہ میں پہنچتے ہی ہمیں پہلے ناشتہ کرایا گیا اس کے بعد ظہر تک دعوت اسلامی کے مختلف شعبوں کے نگران 'مدنی علماء کے تربیتی بیانات ہوۓ ۔جن میں درس وتدریس 'دعوت وتبلیغ کی اہمیت 'طریقہ کار اور فوائد پر روشنی ڈالی گئ۔ اذان ظہر سے کچھ پہلے وقفہ طعام ہوا 'اس کے بعد نماز اور پھر جامعہ کی افتتاحی تقریب عمل میں آئی جس میں مبلغین 'وہاں کے طلبا 'وہاں کی کچھ مقامی شخصیات اور خود مولانا بشارت خان صاحب نے شرکت کی اور سب نے دعوت اسلامی کی دعوتی وتبلیغی خدمات کو سراہا اور آگے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ نماز عصرکے بعد مختصر سی تربیتی نشست اور دعا ہوئی۔یوں تربیتی ورکشاپ بھی اپنے اختتام کو پہنچی ۔ جامعہ سے نظر آرہا مزار سائیں میراں بخش علیہ الرحمہ کا گنبد اپنی طرف متوجہ کررہا تھا ۔آپ کامزار لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ہے ۔ہمارے رفقا میں مولانا اویس 'مفتی توصیف اور مولانا سراج صاحبان وہاں جانے کے لیے اس لیے بھی بے چین تھے کہ وہاں سے لائن آف کنٹرول کا مشاہدہ کریں گے ۔ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی جس نے ہمارے سفر کو اور دلچسپ بنادیا تھا۔ہمارا قافلہ مزار شریف پر حاضری کے لیے روانہ ہوا۔دوسرے علماء ومبلغین بھی اپنی اپنی سواریوں سے پہنچے ۔چونکہ بارش تیز ہوگئ تھی اس لیے ہم سیڑھیوں سے جانے کے بجائے ذرا گھوم کر مشرق کی طرف سے احاطہ مزار میں داخل ہوۓ ۔ یہ مزار شریف غالبا اوقاف کے تحت نہیں ہے ۔بلکہ اس کا اپنا ٹرسٹ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایک مدرسہ بھی قائم ہے اور بہت سے مدرسوں اور مسجدوں کا یہاں سے تعاون بھی ہوتا ہے ۔ آنے والے مہمانوں کے لیے لنگر بھی جاری رہتا ہے۔ خیر مزار شریف پر حاضری ودعا کے بعد صحن مزار میں کچھ دیر ٹھہرے رہے ۔ بارش ہونے کی وجہ سے ہوا میں خنکی پیدا ہوگئ تھی ۔ ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے دل ودماغ کو تسکین بہم پہنچا رہے تھے ۔ یہاں سے دائیں بائیں نظریں گھماؤ تو ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے ۔نیچرل بیوٹی کی حقیقی تصویریں آنکھوں کے راستے دلوں میں اتر رہی تھیں ۔غروب ہوتے سورج کی آخری اور مدھم مدھم شعاعوں نے اس منظر کو اور حسین بنادیا تھا۔ان فطری نظاروں پر شہروں کی مصنوعی زندگی کو قربان کرنے کا دل کرتا ہے ۔ شہروں کی نمائشی زندگی جسم وصورت کا سکون تو ہوسکتی ہے لیکن دل کی تازگی اور روح کی بالیدگی انہیں مناظر فطرت میں پوشیدہ ہے ۔یہاں کے چشموں کا ٹھنڈا اور میٹھاپانی آب حیات سے کم نہیں 'پولیوشن سے پاک یہاں کی صاف ہوا ہزار نعمت ' یہاں کی شادابی آنکھوں کا نور 'یہاں کے خوشبو دار بیل بوٹے دل کا سرور۔ یہاں آکر غم کے بادل چھٹتے محسوس ہوتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو قدرت کے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ مزار شریف والی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد ہم جامعہ جیلانیہ حسینیہ سے اپنے بیگ وغیرہ لے کر پونچھ کی طرف واپس ہوئے۔راستے میں بابا غلام قادر درویش علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری ہوئی۔ پھر نماز عشاء ادا کی ۔یہاں کھانا کھانے کا ارادہ بھی تھا ۔اس مزار شریف کے قرب میں ایک دلکش مسجد اور اس کے پہلو میں ایک مدرسہ بھی ہے ۔جہاں ساٹھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں ۔پونچھ میں اکثر خانقاہوں کی آمدنی سے وہاں مدرسوں کا قیام ہوا ہے ۔ان کا یہ عمل دوسری خانقاہوں کے لیےلائق تقلید ہے ۔ بابا درویش علیہ الرحمہ کی نسبت ثقافی صاحب نے بتایا کہ پونچھ کا مشہور ادارہ 'انوار العلوم انھوں نے قائم کیا ہے ۔یہ ادارہ اپنے تعلیمی نظم ونسق کے اعتبار سے پونچھ کے مدرسوں میں سر فہرست ہے ۔اس کے ناظم اعلی حافظ عبد المجید مدنی صاحب سے جب بھی جموں میں ملاقات ہوتی 'آپ انوار العلوم آنے کی دعوت ضرور پیش فرماتے لیکن واۓ محرومی کہ ہم ان کی محبتیں سمیٹنے میں نامراد رہے۔ہاں تو ہم تکیہ شریف یعنی بابا درویش علیہ الرحمہ کے مزار پر تھے ۔کھانا کھانے کے ارادے سے لنگر کی طرف بڑھنے لگے تو چھوٹی عمر کے چند طلبا نے گھیر لیا ۔سلام ودعا کے بعد بولے حضرت آپ سب یہیں بیٹھیں ہم آپ کے لیے کھانا یہیں لاتے ہیں ۔ان طلبا نے وہ حق میزبانی ادا کیا کہ سب کے دل جیت لیے ۔ان کا اصرار تھا کہ ہم ان کے استاذ صاحب(جو فی الوقت وہاں موجود نہ تھے)کے روم میں بیٹھیں 'مگر ہم نے مسجد شریف کے قریب ننگے فرش پر بیٹھ کر دال چاول کھاۓ اور بچوں کو دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔رات کے دس بج چکے تھے ۔گذشتہ رات کی نیند بھی باقی تھی اور آج کے دن قیلولہ بھی نہیں کرپاۓ تھے ۔لہذا تھکاوٹ تو ہونی ہی تھی ۔ثقافی صاحب کے دولت کدے پر پہنچے اور سوگئے۔ دوسرے روز نو بجے کے قریب ہم نے رخت سفر باندھا ' متفقہ رائے سے یہ طے ہوا کہ شاہدرہ شریف حاضری دیتے ہوئے جائیں گے ۔لہذا اس نیت کے ساتھ وہاں نکلے ۔راستے میں مولانا فاروق حسین مصباحی صاحب کا ادارہ "مدینۃ الاسلام "کی زیارت سے شادکام ہوئے۔قلیل عرصے میں آپ نے نہایت خوبصورت اور وسیع عمارت کھڑی کی ہے جو آپ کے ذوق لطیف کی ترجمان ہے۔آپ خود تو وہاں موجود نہ تھے لیکن ایک استاذ صاحب جو شاید کہ ابھی ابتدائی تعلیم پر مامور ہیں 'نے خندہ پیشانی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور ادارے سے متعلق معلومات فراہم کیں ۔انہوں نے چاۓ کے لیے اصرار کیا لیکن ہم نے اجازت لی اور رخصت ہوئے۔ ہم نے بفلیاز کے راستے شاہدرہ جانا تھا ۔اور خاص بفلیاز میں میرے سنیئر ساتھی حضرت مولانا عبدالرشید علیمی اور محب محترم حضرت مولانا حافظ نصیر علیمی صاحبان ادارہ چلاتے ہیں ۔ہم نے پونچھ سے نکلتے وقت اپنے آنے کی اطلاع انہیں دے دی تھی جس پر انہوں نے مسرت کا اظہار کیا تھا اور ہم سے کہا کہ دن کا کھانا ہمارے پاس کھائیں لیکن ہم قبل ظہر شاہدرہ پہنچنا چاہتے تھے اس لیے مفتی شکیل صاحب کی تجویز پر نمکین چائے پر سمجھوتہ ہوا ۔مگر بفلیاز پہنچنے پر ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ۔وہ یوں کہ علیمی برادران نے ناشتہ کے نام پر ہمیں کھانا کھلادیا ۔گوشت اور روٹی دیکھ کر ہم سے بھی صبر نہ ہوسکا۔ہمارے ناظم صاحب مولانا سراج صاحب نے تو کچھ اضافی راشن اسٹور کرلیا ۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے دن کے کھانے کی نیت سے کھایا ہے ۔خیر ان کا عمل بھی ان کی نیت کے مطابق تھا ۔بہر حال علیمی برادران نے ہمارا پر جوش استقبال کیا ۔اپنے ادارے کا تعارف کروایا۔ماشاءاللہ حفظ وناظرہ کی بہترین تعلیم کے ساتھ بچوں کو درس نظامی کے لیے تیار کرنے کی نیت سے ایک خاص نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس کو چار سمسٹروں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اتنا جامع نصاب ہے کہ اس کی تکمیل کے بعددرس نظامی کے ابتدائی درجات میں طلبا کو لکھنے پڑھنے کے حوالے سے جو پریشانیاں ہوتی ہیں وہ ختم ہو جائیں۔ہمیں ان کا یہ طریقہ تعلیم بہت پسند آیا ۔ساتھ میں انہوں نے پانچویں کلاس تک اکیڈمی کا رجسٹریشن بھی کرالیا ہے جو ان حضرات کی دور اندیشی اور فکری مضبوطی کی دلیل ہے ۔پونچھ میں ایک صاحب نے ہمارے ساتھ بے رخی کا مظاہرہ کیا'جن کے بدلے کی صلواتیں مفتی شکیل صاحب سے ہمیں سننے کی ملیں لیکن علیمی صاحبان کے حسن اخلاق نے ایسا رنگ جمایا کہ سب بھول گئے۔ شاہدرہ پہنچتے پہنچتے ہمیں تین بج گئے تھے ۔یہاں نماز ظہر 'دعا وفاتحہ کرتے ایک گھنٹہ گزر گیا ۔شاہدرہ شریف راجوری سے تقریبا ۲۵ کلو میڑ کی دوری پر واقع ہے ۔یہاں شہنشاہ جبال 'حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ علیہ الرحمہ کا مزار مبارک مرجع خاص وعام ہے ۔ہر وقت زائرین کی آمد ورفت کا سلسلہ رہتا ہے۔راجوری میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی انہیں کے نام پر ہے ۔یہاں سے سال کا غالبا دوکروڑ روپیہ یونیورسٹی کو جاتا ہے ۔یہاں لنگر بھی ہر وقت جاری رہتا ہے ۔کاش !یہاں کسی دینی مدرسہ کا قیام بھی ہوتا جہاں سے اشاعت قرآن وسنت کاکام ہوتا تو کیا بات ہوتی !!! یہاں سے فارغ ہوکر راجوری ہوتے ہوئے خوشگوار احساسات کے ساتھ ہم جموں لوٹ آۓ لیکن آتے آتے رات کے بارہ بج گئے تھے۔ اللہ عزوجل نے قرآن میں سیرو فی الارض فرماکر سیر وسیاحت   کا حکم دیا ہے ۔ رب تعالی کی قدرت کے نظاروں'دریاؤں 'پہاڑوں اور دیگر عجائبات قدرت کا مشاہدہ کرنا قلبی اطمینان اور تقویت ایمان کا سبب ہے ۔ لہذا ہجوم غم دنیا سے فرصت کے لمحات نکال کر بطور خاص  پہاڑی علاقوں کا سفر ضرور کرنا چاہیے ۔ اس سفر میں اگر ایسے رفقا مل جائیں جو نیکیوں پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے والے ہوں تو ایسا سفردنیا وآخرت کی بھلائیوں اور جسمانی وروحانی لذتوں کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔