دہلی کالج کی خدمات کا جائزہ لیجئے اور دہلی کالج کے مصنفین کی خدمات کا جائزہ لیجئے؟

ادبی محفلCategory: Jkbose Urdu Questions Answersدہلی کالج کی خدمات کا جائزہ لیجئے اور دہلی کالج کے مصنفین کی خدمات کا جائزہ لیجئے؟
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

جولائی 1823ء میں قائم ہونے والی مجلسی تعلیمات عامہ کی طرف سے ہٹلر نے افغانستان کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس کے نتیجے میں میں منظوری کے بعد مدرسہ غازی الدین خان کی تاریخی عمارت میں دہلی کالج 1825ء میں قائم کیا گیا تھا۔

مقصد

دہلی کالج کے قیام کا مقصد ہندوستانیوں کو انگریزی اور مغربی علوم سے واقف کرانا تھا۔

کالج کے اساتذہ

1825ء میں دہلی کالج کے قیام کے بعد مجلس تعلیمات عامہ کے، جو کالج کی انتظامی کمیٹی تھی ، سیکریٹری اور کالج کے سیکریٹری اور مسٹر جوزف ہنری ٹیلر کالج کے پرنسپل 175 روپیہ ماہانہ پر مقرر ہوئے تھے۔1837ء میں مجلس مقامی نے مسٹر ٹیلر کو کالج کے پرنسپل مقرر کرنے اور ان کی تنخوا ہ آٹھ سو روپے ماہانہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے گورنمنٹ نے ملتوی کر دیا تھا۔ سرسید نے ” آثار الصنا دیر” اور ماسٹر رام چندر نے “فوائد الناظرین” اسپر نگر کی ایماء پر تصنیف کیا تھا۔

مشرقی شعبے کے اساتذہ

مشرقی شعبے کے مشہور اساتذہ میں مولوی مملوک علی،مولوی امام بخش صہبائی ،ماسٹر امیر علی، مولوی سبحان بخش ، ماسٹر رام چندر، وغیرہ شامل ہیں۔ ماسٹر رام چندر دہلی کالج کے ایک ممتاز طالب علم تھے جو بعد میں سائنس کے ماسٹر ہو گئے۔ماسٹر رام چندر ریاضی کے بڑے استاد تھے۔ماسٹر رام چندر نے دہلی کالج میں شروع سے آخر تک تعلیم حاصل کی تھی۔ماسٹر رام چندر نے اردو میں الجبرا پر کتاب لکھی تھی‌۔ ماسٹر رام چندر نے رسالہ “فوائد النا ظرین”رسالہ” محب ہند” جاری کیے تھے۔ ماسٹر رام چندر 1885ء دہلی میں ڈسٹرکٹ اسکول کے صدر مدرس ہوئے تھے۔رام چند کی مشہور کتابیں یہ ہیں : جبر و مقابلہ، کلیات وجزیات۔

دہلی کالج کے طلبہ

ماسٹر رام چندر ،شمش العلماء مولوی نذیر احمد ،شمس العلماء محمد حسین آزاد، مولوی محمد ذکا ء اللہ، ضیاءا لدین کے نام دہلی کالج کے طالب علموں میں اہمیت کے حامل ہیں۔ موتی لال دہلوی، من پھول ، میر ناصر علی ،مدن گو پال،پنڈت دھرم نارائن وغیرہ بھی دہلی کالج کے اہم طلباء میں شامل ہیں۔

اردو زبان اور ادب کو ترقی دینے اور ایک زندہ علمی زبان کی حیثیت سے امکانات بخشنے میں جن تحریکوں اور اداروں نے نمائندہ کردار ادا کیا ان میں دہلی کالج کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس ادارے نے اردو زبان کو داستانوں کی طلسماتی فضاؤں سے نکال کر اعلیٰ فضا میں کھڑا کیا۔فورٹ ولیم کالج نےمقفی مسجع اسلوب کو ترک کر کے آسان اور عام فہم اسلوب کو اپنایا تھا۔ اس مقصد کو با م عروج پر دہلی کالج نے پہنچایا۔ اس کالج میں مشرقی و مغربی علوم اور سائنسی کتابوں کے ترجمے کی طرف توجہ کی گئی تھی۔

دلی کالج کا قیام ١٨٢٥ ء میں قیام عمل میں آیا‌۔ اس کالج کو بام عروج تک پہنچانے اور اس کی تعلیمی سرگرمیوں کو صحیح سمت عطا کرنے میں جن غیر ملکی شخصیتوں نے حصہ لیا ان میں مسٹر ٹیلر، فلیکس بو تروس،مسٹرکار گل اور ڈاکٹر اسپیکر وغیرہ کے نام بہت مشہور ہیں۔ کالج پر مکمل توجہ دی جانے لگی۔١٨٢٥ء میں نواب اعتماد الدولہ نے کالج میں مشرقی علوم کےلیے ایک لاکھ ستر ہزار رقم صرف کردی جس کی وجہ سے کالج منظم طور اپنے مقصد کی جانب چل پڑا۔ تین سال کے بعد انگریزوں نے اس کالج میں ایک الگ انگریزی شعبہ کھول دیا۔ نتیجے کے طور پر مشرقی اور مغربی دونوں طرز کی تعلیم زور و شور سے آگے بڑھنے لگیں۔

لیکن کالج کو باد سموم جھرنکوں سے دوچار ہونا پڑا۔اس کالج کی بنیاد غدر کے خون رنیر زمانے میں پوری طرح کمزور پڑ جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس مختصر سی مدت میں نئے اذہان کی تشکیل ممکن نہ تھی پھر بھی طلباء کالج میں چند ایسے تھے جن کے ذہنوں کی تعمیر اسی مدت میں ہوئی اور جنہوں نے کالج کے مقاصد کو آگے بڑھایا۔ نذیر احمد، مولانا حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی،مولوی ذکااللہ ، اور من پھول وغیرہ نے اردو نثر میں انقلاب پیدا کیا۔

نذیر احمد نے ناولوں کا آغاز کیا۔ آزاد نے” آب حیات “لکھا اور جدید نظم کی بنیاد مولانا الطاف حسین حالی کے ساتھ مل کر ڈالی۔ذ کا اللہ نے میعاری ترجمے کیے۔اس کے علاوہ کالج کے اہم شخصیتوں میں ماسٹر رام چند ، ڈاکٹر ضاءالد ین ،پنڈت موتی لال دہلوی،موتی پیارے لال آشوب اور مولوی صوبائی وغیرہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ان ادبیوں نے ادب کو راہ پر لایا اور ایک ایسا مستحکم راستہ نکالا جس کے آگے چل کر دوسرے ادبیوں نے اس راہ کو خوبصورت بنایا۔

اس کالج کے تحت 1842ء میں ور ناکو لر ٹرانسلشین سوسائٹی کا قیام عمل میں آتا ہے جس کے زیر نگرانی 125سے زائد کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوتا ہے۔ ان کتابوں کا دائرہ قانون ، ریاصی ، سائنس ،جغرافیہ ،تاریخ تک وسیع تھا۔ اسی طرح یہ اردو کے کالج کے بضا عتی کم مائیگی اور علمی افلاس کو دور کر رہی تھی کہ 1857ء کے بغاوت نے اس کالج کو بری طرح نقصان پہنچایا۔باغیوں نے کالج کے پرنسپل کو مار ڈالا ، کتب خانہ جلا دیا گیا۔اور سائنسی تجربہ گاہ کو برباد کر دیا۔سات سال کالج بند رہنے کے بعد 1864ء میں دوبارہ قائم ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ غدر کے ہنگامے نے اس قدر کمزور کر دیا کہ پہلے والی ثقل واپس نہ آ سکی۔تقریباً نصف صدی کی عمر پانے کے بعد یہ کالج 1877ء میں اپنے اختتام تک پہنچ گیا۔ دہلی کالج کو اپریل 1877ء میں توڑ کر لاہور کالج میں ضم کر دیا گیا تھا۔اس طرح اپریل 1877ء میں دہلی کالج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔

دہلی کالج کے متعلق کچھ اہم معلومات

کالج کے ابتدائی زمانے میں زیادہ تر فارسی عربی کی تعلیم ہوتی تھی۔
دہلی کالج میں شروع سے ہی سنکسرت، حساب ،بھی پڑھائے جاتے تھے۔دہلی کالج میں سر چارلس مٹکاف کی سفارش پر انگریزی جماعت کا اضافہ1828ء میں ہوا تھا۔
اعتمادالر ولہ سید فضل علی خان بہادر، وزیر ،بادشاہ اودھ، نے دہلی کالج کے لئے ایک لاکھ ستر ہزار رقم صرف گیے تھے۔
دہلی کالج کے نصاب میں جیو میٹری کا 1832ءمیں کیا گیا تھا۔
دہلی کالج 1857ءکی بغاوت کے بعد بند ہو گیا تھا۔
دہلی کالج دوبارہ 1864ء میں ازسر نو قائم ہوا تھا۔اور 1877میں پوری طرح سے بند ہو گیا تھا۔