رشید احمد صدیقی کی حالات زندگی۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاترشید احمد صدیقی کی حالات زندگی۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

رشید احمد صدیقی نے طالب علمی کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے مضامین طنز اور ظرافت کے اعلی نمونے ہیں۔وہ عموماً اشاروں کنایوں اور چھپے ہوئے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ملتے جلتے لفظوں اور متضا دلفظوں کو وہ ایک نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ان موضوعات میں تنوع ہے۔ معاشرتی ،سیاسی اور ادبی مسائل پر جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے طر تحریر کوسمجھنے والا قاری ان کی تحریروں کی داد دیے بغیر نہیں رہتا۔

ان کے یہاں دلچسپ فقروں ، نادر تشبیہوں ، معنی خیز اشاروں ، برجستہ لطیفوں اور پر لطف انداز بیان کی وجہ سے نرالی ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے ۔ رشید احمد صدیقی کو’’ادبی مزاح نگاری‘‘ کے میدان میں سب سے پہلا اور بعض لوگوں کی نظر میں اہم ترین مصنف قرار دیا جا تا ہے۔ ان دنوں مشتاق احمد یوسفی اس طرز کے بہتر ین نمائندے ہیں۔

رشید احمد صدیقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 1963ء میں ‘ پدم شری‘ کا اعزاز عطا کیا۔ ان کو ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا انتقال 1977ء میں علی گڑھ میں ہوا۔

ادبی خدمات:
رشید احمد صدیقی طنز و مزاح نگار، اردو میں اپنے انوکھے نثری اسلوب کے لیے معروف ہیں۔ ان کی شخصیت اردو ادب میں ناقابل فراموش ہے۔ان کی نثر میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔وہ بیک وقت انشا پرداز،تنقید نگار، ظرافت وطنزومزاح نگار اور ادیب و دانشور،اپنے ہر رنگ اور ہر روپ میں ایک پختہ کار اور مشاق فنکار کی حیثیت سے اپنا مخصوص امتیاز برقرار رکھتے ہیں۔

رشید صاحب نے جس صنف اور جس اسلوب میں بھی اپنا اظہار کیا اس صنف اور اس اسلوب کے ضوابط کی پابندی سے زیادہ انھوں نے صنفی اور اسلوبیاتی ضابطوں کو اپنے ذاتی پیرایۂ اظہار کا پابند رکھا۔یہی سبب ہے کہ ان کے ظریفانہ مضامین ہوںیا طنز و مزاح پر مبنی انشائیے،دوستوں اور بزرگوں پر لکھے ہوئے ان کے شخصی خاکے ہوں یا غالب اور اقبال کی شخصیت اور شاعری کے جائزے ،ہر جگہ رشید صاحب اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور ہر موضوع میں اپنے رچے ہوئے مذاق ،اخلاقی اقدار اور بذلہ سنج طبیعت کی افتاد کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔

ان کی تصانیف میں
مضامین رشید ( مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ) خنداں ( ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ) د گنج ہائے گراں مائی اور ہم نفسان رفیہ ( خاکوں کے مجموعے طنزیات ومضحکات اور جدید غزل ( تنقید ) اور آشفتہ بیانی میری (خودنوشت ) شامل ہیں۔