زبان کی اہمیت اور خصوصیات

ادبی محفلزبان کی اہمیت اور خصوصیات
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

بولنا نسل انسانی کی خاصیت ہے اور اسی بنیاد پر انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کی جاتی ہے۔ زبان کی تخلیق صوتی فلسفہ کے تحت وجود میں آتی ہے۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی ضروریات اور احساسات کے تحت اظہار مدعا کیلئے انسان کو الفاظ کی ضرورت پڑی اور یہ الفاظ مختلف آوازوں کا مجموعہ ہیں جنہیں علم لسانیات کی لغت اور اصطلاح میں حروف تہجی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ حروف بنیادی آوازیں ہیں جنہیں جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں۔ ابتدا میں انسانی تکلم یک حرفی دو حرفی ترکیبوں سے ارتقا کر کے جملوں اور مکالموں تک چلا گیا۔ زبان کے اختلاف اور تعدد کو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے وجود کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے اور زبانوں کے تنوع کو رنگ و چہرے کے تلون کے ساتھ اپنی نعمت گردانا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ فولی کے مطابق زبان پانچ لاکھ سال تک قدیم ہو سکتی ہے جبکہ دیگر ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کی عمر پچاس ہزار سال سے لے کر ایک لاکھ سال تک قدیم ہو سکتی ہے۔

پیدائشی طور پر بنی انسان دو زبانوں کو خود بخود سیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ ایک اشاروں کی زبان اور مادری زبان جن کو یونیورسل زبانیں بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اندازتاً6809 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ نیوگنی میں دنیا میں سب سے زیادہ860 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا میں 742، نائجیریا میں 516، بھارت میں 412، امریکہ میں 312، آسٹریلیا میں 275، چین میں 272 جبکہ پاکستان میں 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 66 مقامی اور 8 غیر مقامی زبانیں شامل ہیں۔ ان تمام زبانوں میں نوے فیصد زبانوں کے بولنے والے ایک لاکھ سے کم ہیں۔537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے پچاس سے بھی کم ہیں۔46 زبانوں کا ایک ایک بولنے والا ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق اگر ان چھوٹی زبانوں کے بچاؤ کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور صرف چند بڑی زبانوں کوترجیح ملتی رہی تو اس صدی کے آخر تک آدھی زبانیں معدومیت کا شکار ہو جائیں گی۔ دنیا میں بولنے والوں کے تناسب سے بڑی زبان چین کی فیڈرین ہے جو ایک ارب بیس کروڑ لوگ بولتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر انگریزی ہے جو بتیس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ پینتیس کروڑ لوگوں نے اس کو ثانوی زبان کی حیثیت سے سیکھا ہے جبکہ پندرہ کروڑ لوگ اس کو بطور ضرورت بولتے ہیں۔ دنیا کی تمام زبانوں کو بارہ بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا گروپ ہند یورپی زبانوں کا ہے جس میں 450 زبانیں شامل ہیں۔ پشتو زبان بھی اسی گروپ کا حصہ ہے۔ سوات میں بولنے جانی والی بدیشی زبان کچھ عرصہ قبل معدوم ہو چکی ہے۔

تیس کے قریب زبانیں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ گلگت میں ڈومیکی زبان کے بولنے والے صرف تین سو لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ زبان اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا نام ہے جبکہ نوم چومسکی کے مطابق یہ اہلیت اور صلاحیت کے درمیان تقسیم ہو کر حیاتیاتی اور ماحولیاتی انداز میں تقسیم ہو جاتی ہیں جن میں زبان کے ساتھ ہونٹ، حلق، گلا اور پھیپھڑے مل کر دماغ کو ساتھ ملا کر بالارادہ اظہار کا نام دیتے ہیں۔ زبان حسیات کے ساتھ مظاہر کائنات ابلاغ کا ذریعہ سماجی حقائق اور سیاسی مفکوروں کے ساتھ تحقیق وتنوع کا نام ہے۔ انسانی منہ سے نکلا ہوا صوت خلا میں 1235 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتا ہے۔ہر علاقہ اور ہر نسل کے لوگوں نے ہزار ہا سالوں سے اپنی اپنی ضرورت اور مزاج و ماحول کے مطابق زبانیں بنا لیں۔ خوش مزاج اور باذوق نسلوں کی زبانیں بھی شیریں اور شاعرانہ مزاج رکھتی ہیں جیسے مشرق میں فارسی زبان اور مغرب میں فرانسیسی زبان کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن کچھ قوموں نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی ان مقامی بولیوں میں تحقیق و تخلیق کا اتنا جامع اور ٹھوس کام کیا کہ یہی مادری اور علاقائی بولیاں زبان کا روپ دھار گئیں اور آج ان ہی زبانوں میں دوچار ہیں جو بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ اور جدید زبانیں کہلاتی ہیں جن میں انگریزی زبان سرفہرست دکھائی دیتی ہے۔ لہذا آج کچھ تو مادری زبانیں ہیں جیسے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، چینی، عربی اور فارسی جو بہت ترقی کر چکی ہیں۔

ترقی یافتہ زبانوں اور مقامی بولیوں کے درمیان دنیا میں کچھ اور زبانیں بھی ہیں جو بولی سے زیادہ ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ زبان سے کم درجہ ہیں جن میں ترکی، اردو، ہندی، پرتگالی اور بنگالی وغیرہ ہیں۔ یہ زبانیں ادبیات میں تو خود کفیل ہیں مگر سائنسی علوم کے حصول کیلئے فی الحال ناکافی ہیں۔ افریقہ اور ایشیاء کے اکثر ممالک کو سائنسی علوم کے حصول کیلئے کسی نہ کسی جدید مغربی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر ترقی پذیر ملک مجبور ہے کہ جب تک اس کی قومی زبان ترقی یافتہ نہیں ہو جاتی اسے ترقی یافتہ مغربی زبان کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سوزین رومین کے مطابق کسی قوم کی زبان کی معدومیت اس قوم کی تمام تاریخ وتہذیب کی معدومیت کا سبب بنتی ہے اسی لئے مستقبل میں دنیا کے سامنے معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کا تحفظ ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ زبان کا مسئلہ کسی قوم کے سیاسی اختیار کا بھی مسئلہ ہے جو ریاستی کردار کے ساتھ سیاسی کردار سے باہم مربوط ہوتا ہے۔

زبانوں کی معدومیت بنی نوع انسان کے تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ باہم ربط کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔ سیاسی اختیار کے ساتھ زبان کا ارتقا لازم ہوتا ہے۔ کسی قوم کے زبان کو بدنام کرنا اسے مسخرہ بنانا درحقیقت اس پوری قوم کی توہین کے مترداف ہوتا ہے۔ پشتو زبان کی اگر ہم بات کریں تو جتنی قدامت اس قوم کی ہے اتنی ہی قدامت پشتو زبان کی بھی ہے۔

تاریخی طور پر ڈاکٹر نسیم خان کے مطابق پشتو زبان آرامی رسم الخط کے ساتھ پالی خروشتی یونانی اور محمود غزنوی کے بعد عربی رسم الخط میں لکھی گئی ہے۔ پشتو کے چوالیس حروف تہجی میں اٹھائیس عربی چار فارسی اور تین حروف ہندی کے ہیں۔ ہر ایک زبان میں لہجوں کا تنوع لازم ہے جبکہ دس کلومیٹر کے فاصلے کے بعد لہجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ پشتو میں معروف دو لہجے قندہاری اور پشاوری ہیں جبکہ صدیق اللہ کے مطابق پانچ سے لے کر سولہ تک لہجے پشتو میں عام استعمال میں ہیں۔ پشتو زبان دنیا کی بتیسویں بڑی زبان ہے۔ افغانستان کی قومی زبان ہے جبکہ دنیا کے اٹھارہ ممالک سے پشتو کے ریڈیو پروگرام چلتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اس زبان کو دنیا کی سولہ بڑی زبانوں میں جگہ دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں اس زبان میں تقریریں کی جاتی ہیں۔

کچھ دس کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ پشتو زبان دنیا کے کسی بھی زبان سے قدامت و علمی استعداد میں کم نہیں۔ دنیا کے جدید سائنسی لٹریچر کے ساتھ تمام علمی ذخیروں کو اس زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پشتو میں علم و ادب کے حوالے سے بہت بڑا کام ہوا ہے مگر ابھی اس زبان کو اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ سب سے پہلے اس کو اسکولوں کے نصاب کی زبان بنانا ہو گا۔ اس کو مارکیٹ اور ایجاد کی زبان بنانا ہو گا۔ عام بول چال کے ساتھ مارکیٹوں، دکانوں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر رسم الخط کو پشتو میں ڈالنا ہو گا جبکہ اسلام کی رو سے بچوں کا نام پشتو میں رکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔