سر سید احمد خان کی حالات زندگی اور ادبی خدمات کا جائیزہ لیجئے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتسر سید احمد خان کی حالات زندگی اور ادبی خدمات کا جائیزہ لیجئے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

سید احمد خاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839ء میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اور مختلف مقامات پر کام کیا۔1862ء میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے ایک انجمن سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے بنائی ۔اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علوم ، خاص کر سائنس کے علوم کا مطالعہ کیا جاۓ اوران علوم کو ہندوستانیوں میں عام کیاجائے۔

1869ء میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے ۔ واپس آ کر انھوں نے انگریزی کے علمی اور سماجی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ انگلستان سے واپس آکر سیداحمد خاں نے علی گڑھ1875 ء میں ایک سکول کھولا۔ یہ اسکول 1878ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور پھر 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔ 1878ء میں سید احمد خاں کو سر کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں سرسید کے نام سے جانتے ہیں۔

سرسید آخر عمر تک قومی کام ، کالج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ان کی متعددتصانیف میں آثارالصنادید ، اسباب بغاوت ہند اور سرکشی ضلع بجنور خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوۓ ہیں۔ان میں سائنس،فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔

جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔لمبی لمبی تحریروں کے بجاۓ چند صفحات میں کام کی بات کہنے کافن سرسید نے عام کیا۔ سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مسلح تھے اور ان کی نثر میں ، وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔

ادبی خدمات:
سر سید احمد خان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو انھوں نے قریباً ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ان کی ادبی خدمات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ پرانے رنگ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انگریزوں سے میل جول کی بناپر ان کے اندر مغربی طرز زندگی اور جدید خیالات کا کچھ نہ کچھ اثر دکھائی دیتا ہے۔ ریاضی، تاریخ اور تصوف کے علاوہ ان کی تصنیفی زندگی کے دور اول میں ان کی تحریروں میں مناظرہ و تقابل مذہب کا رجحان غالب ہے۔

اس دور میں ان کا نقطۂ نظر علمی اور دینی تھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں وہ آثار قدیمہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس دور کی خاص خاص تصانیف ’’جام جم‘‘ (فارسی) ۱۸۳۹ء، ’’انتخاب الاخوین‘‘ ،’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ ، ’’تحفۃ حسن‘‘، ’’آثار الصنادید‘‘، ’’فوائد الافکار‘‘، ’’کلمۃ الحق‘‘ ، ’’راہ سنت و رد بدعت‘‘، ’’ضیقہ‘‘ ، ’’کیمیائے سعادت‘‘، ’’تاریخ ضلع بجنور‘‘ اورآئین اکبر کی تصحیح‘‘وغیرہ ہیں۔

پہلی جنگ آزادی کے بعد ان کا تبادلہ بجنور سے مراد آباد ہوگیا ۔ اس دور میں وہ مسلمانوں کو غدر میں شرکت کے الزام سے بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس الزام سے بچانے کے لئے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’تاریخ سرکش بجنور‘‘ ، ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور ’’رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور میں انہوں نے ’’تاریخ فیرزو شاہی‘‘ ’’تبین الکلام‘‘ ، ’’سائنسٹی فک سوسائٹی اخبار‘‘ (جو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ ہوگیا) اور ’’رسالہ احکام طعام اہل کتاب‘‘ وغیرہ بھی لکھیں۔

تیسرے دور میں ان کے مصلحانہ خیالات میں بڑی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنے اظہار خیال میں نڈر اور بے خوف ہوگئے تھے اور پبلک کی مخالفت کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے ذہن پر جدید انداز فکر نے غلبہ پالیا تھا۔ انگریزوں کی صحبت و رفاقت نے جو رنگ ان پر چڑھایا تھا وہ تیز تر اور شوخ ہوگیا تھا۔ اس رجحانات کو ان کی اس دور کی تصانیف میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کی اہم تصانیف اس طرح ہیں۔ ’’سفرنامہ لندن‘‘، ’’خطبات احمدیہ‘‘ ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو‘‘ وغیرہ۔