صفی لکھنوی کی حالات زندگی اور شاعرانہ عظمت بیان کیجیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتصفی لکھنوی کی حالات زندگی اور شاعرانہ عظمت بیان کیجیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

مولانا سید علی نقی صفیؔ کے آباؤ اجداد غزنی کے رہنے والے تھے جو شہاب الدین غوری کے ساتھ ہندوستان آئے اور دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ نظام الدین اولیاء کے قریب حوضِ شمسی کے گرد و نواح میں ان کے بزرگوں کے مزار اب بھی ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ خاندان دہلی کے مضافاتی علاقہ پنگوڑ کو منتقل ہو گیا۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد صفیؔ لکھنوی کے پردادا سید احسان علی نے علاقائی جاٹوں کے ظلم سے تنگ آ کر پنگوڑ چھوڑا اور فیض آباد آ گئے۔ لیکن شجاع الدولہ کی وفات کے بعد جب نواب آصف الدولہ نے لکھنؤ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو متوسلین بھی لکھنؤ چلے آۓ۔انھیں میں صفیؔ لکھنوی کے دادا سید سلطاں حسین بھی تھے۔

سید علی نقی صفیؔ 03 جنوری 1862ء کو پیدا ہوئے۔ رواجِ زمانہ کے مطابق پانچ برس کے سن میں ان کی بسم اللہ ہوئی۔ابتدا میں فارسی اور عربی درسیات مولوی احمد علی اور سید حسن سے حاصل کی ۔ کاکوری کے مولوی شمس الدین سے بھی استفادہ کیا۔ اپنی والدہ گرامی صحبت میں رہ کر آدابِ مجلس سے روشناس ہوۓ۔ 05 شوال 1310ھ کو شفقتِ سے محروم ہو گئے۔ 02 ربیع الثانی 1317ھ کو پدر بزرگوار کا سایہ سے بھی اٹھ گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔

فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کا شوق ہوا ۔ کنینگ کالجیٹ سکول لکھنؤ سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1779ء میں لال سکول اور پھر کنینگ کالج کی برانچ میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہو گئے۔ اس وقت یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ انگریزی کا یہ معلم اردو شاعری کے افق پر درخشندہ ستارہ بن کر چمکے گا۔

کیننگ کالج میں دو برس ملازمت کرنے کے بعد 1881ء میں اترپردیش گورنمنٹ کے محکمہ دیوانی میں سرشتہ دار کے عہدے پر ملازم ہو گئے۔ اپنی اس ملازمت کے سلسلہ میں صفیؔ لکھنوی کو راۓ بریلی سلطان پور، پرتاب گڑھ وغیرہ میں قیام کرنا پڑا۔ مگر ملازمت کا زیادہ تر حصہ لکھنؤ میں گزرا۔ اور یہیں سے 1917ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوۓ۔

صفیؔ لکھنوی کو بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا ۔ 12 برس کے سن میں پہلی غزل نظم کی تھی۔ اس بات کا تحریری ثبوت کہیں سے نہیں ملتا کہ وہ کسی کے شاگرد تھے شوکت تھانوی نے بھی انھیں تلمیذ الرحمٰن کہا ہے ۔ لیکن لکھنؤ کے ایک معمر ادیب مرزا جعفر حسین کا کہنا ہے کہ ان کے والد مرزا دلاور حسین نیرؔ جو علی میاں کاملؔ کے شاگرد تھے کہا کرتے تھے کہ صفیؔ لکھنوی نے بھی علی میاں کاملؔ کے سامنے زانوۓ ادب تہہ کیا تھا۔ لیکن شہرت حاصل کرنے کے بعد ان کی شاگردی سے انکار کر دیا ہے اسی کا نتیجہ تھا ککہ بعد میں عزیزؔ نے بھی صفیؔ کی شاگردگی سے انکار کر دیا۔

صفیؔ لکھنوی نے طویل عمر پائی ۔ 75 برس اردو کی خدمت کی ۔ اس طویل مدت میں شاعری ہر صنف میں طبع آزمائی کی ۔ غزل، نظم ، مثنوی،قصیدہ ، مرثیہ ، سلام، نوحے، قطعات ، رباعیات سب کچھ نظم کیا۔ شاعری کا کوئی میدان ایسا نہیں جس میں صفیؔ نے جولانی طبع نہ دکھائی ہو۔

صفیؔ لکھنوی کی زندگی مالی کشمکش میں گذری۔ ہمیشہ خاندانی پریشانیاں دامنگیر رہیں۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک عرصہ تک آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا مئی 1948ء میں 100 روپے ماہوار کا وظیفہ نواب رام پور نے مقرر کیا جو آخری عمر تک جاری رہا۔

24 جون کو 1950ء کو روح و تن میں جدائی ہو گئی 25 جون کو تنِ خاکی عفران آب کے امام باڑے کے قریب راجہ نواب علی کے مقبرے کے صحن میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

نوٹ:( ممتاز حسین جونپوری کے مطابق ان کی تاریخ وفات 25 جون ہے اور سید زائر حسین کاظمی کے مطابق 24 جون ہے)

منتخب کلام:
ضعف میں کرتا ہوں کب قطع مسافت پاؤں سے
نکلی جاتی ہے زمین راہِ غربت پاؤں سے
1885ء

راہِ خدا میں نفسِ حریفانہ ساتھ ہے
ہشیار اک ذرا سگِ دیوانہ ساتھ ہے
1889ء

کس قدر اچھا ہے نور اس کا خود مستور ہے
جلوہ گر دل کے قریب آنکھوں سے دور ہے
1890ء

وہ اور کچھ نہ سہی لطف انتظار تو ہے
کہ غیر کو ترے وعدے کا اعتبار تو ہے
1894ء

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوۓ عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے
1899ء

وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
یہاں رگ رگ سے کھنچ کھنچ کر ہمارا دم نکلتا ہے
1899ء

انتظار مرگ میں پیری نفس بردوش ہے
کوئی دم میں اب چراغِ زندگی خاموش ہے
1899ء

جو بڑھے حدِ طریقت سے وہ تھک جائیں گے
کفر و ایماں کے دو راہے پہ بھٹک جائیں گے
1899ء

محشر میں جا کے آخر کیا داد خواہ کرتے
کہتا اسی کی ایسی جس کو گواہ کرتے
1900ء

بھلا حصولِ تمنا کی جستجو کیا ہے
جو زندگی میں بر آۓ وہ آرزو کیا ہے

وہ بزم دیکھئے طرب افزا کہیں جسے
ٹوٹا ہے دل ہی ساز تمنا کہیں جسے
یہ دل ہو خون شرح تمنا کہیں جسے
ٹپکے وہ قطرہ آنکھ سے دریا کہیں جسے
1906ء

مر بھی گئے ہم اور نہ ان تک خبر گئی
اے آہِ واپسیں یہ بتا تو کدھر گئی
1907ء

کہاں تک تھی خوشی کے ساتھ وابستگی غم کی
ذرا شیرازہ بندی دیکھئے اجزائے عالم کی
1912ء

الٰہی زندگی کیا ، موت کیا بیمار ہجراں کی
پریشاں خواب وہ ، تعبیر یہ خوابِ پریشاں کی
1919ء

دیکھیۓ کیوں کوئی تربت ہو گی
دیکھ کر اور ندامت ہو گی
1919ء

جب تک کہ دل میں دل ہے تری آرزو ہے
شل ہوں جو تھک کے پاؤں غمِ جستجو رہے
1931ء

دکھاۓ گا درِ صیاد شاید اسماں مجھکو
قفس معلوم ہوتا ہے چمن میں آشیاں مجھکو
1933ء

جا کے جن تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا
ایک ٹوٹی ہوئی تربت پہ بھی احساں کرنا
1933ء

پتا میرا بتا دے کاش بڑھ کر آرزو میری
مری ناکامیوں کو دیکھتی ہے جستجو میری
1938ء

سواد زلیخا کی تصویر نظر آئی
پاۓ مہِ کنعاں کی زنجیر نظر آئی
فرقتِ میں مہِ نَو کی تنویر نظر آئی
محوِ خم ابر کو شمشیر نظر آئی
1942ء

دل میں سکت نہ بوند لہو کی جگر ہے
نالے کی سادگی کہ فریبِ اثر میں ہے
1943ء

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا

نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا

کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا

دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے
صفی ٹوٹ کر دل کا آواز دینا

غزل
دیدئہ اشکبار کیا کہنا
واہ ابرِ بہار کیا کہنا

حال جنت کا سن چکے واعظ
اب اسے بار بار کیا کہنا

اُڑ کے پہنچا کسی کے دامن تک
آج میرا غبار کیا کہنا

درد نے خوب دل کا ساتھ دیا
واہ رے غم گسار کیا کہنا

دل سے یادِ وطن صفیؔ نہ گئی