عہدِ صدیقی میں قرآن کی جمع و تدوین پر نوٹ لکھیں۔

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتعہدِ صدیقی میں قرآن کی جمع و تدوین پر نوٹ لکھیں۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
جمع و تدوین قرآن مجید حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں:

جس طرح قرآن مجید حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے بتائے ہوئے الفاظ اور ترتیب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی حیات طیبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں محفوظ ہوا۔ اسی طرح نزول کی تکمیل اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد کتابی صورت میں جمع ہونے کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ اس مہم کی طرف سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب جنگ یمامہ میں کئی سو حفاظ و قراء شہید ہو گئے۔ اس پر انھوں نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ :

ترجمہ : میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کرنے کا حکم فرمائیں۔
شروع میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس بار عظیم کا اٹھانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے خود ایسا نہیں کیا تو ہمارے لیے ایسا کام کرنا کب درست ہو سکتا ہے۔ مگر بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار توجہ دلانے سے ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ کتابت قرآن مجید تو عین سنت نبوی ہے اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم خود مختلف اشیاء پر قرآن مجید کی کتابت کروا چکے ہیں۔ اس لیے اس کاایک مصحف میں جمع کرنا عین منشاء نبوی کے مطابق ہے۔

جب اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اس رائے پر متفق ہو گئے تو کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس خدمت کے انجام دینے پر مامور کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ اگر چہ حافظ قرآن تھے اور ان کے پاس اپنا مصحف بھی موجود تھا۔ تاہم فقط یاداشت کی بنیا د پر قرآن مجید کو جمع کرنے کی بجائے طریقہ یہ مقرر کیا گیا کہ جن لوگوں کے پاس مختلف نوشتے تھے۔ ان سے منگوا کر دو گواہوں کے سامنے یہ شہادت کی جاتی کہ یہ نوشتہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے روبر و لکھا گیا ہے۔

کتابت قرآن کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ۷۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مستقل کمیٹی بنائی گئی تھی جن میں ۲۵ مہاجر اور ۵۰ انصاری صحابہ شامل تھے۔ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی فصاحت اور لہجہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ وا صحابہ و سلم سے مشابہ تھا۔ اس لیے املا کا کام ان کے ذمے ڈالا گیا۔ اس طرح اجماع صحابہ سے قرآن مجید کا نسخہ تیار کر کے اُم المومنین حضرت خفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رکھ دیا گیا۔