غزل کی تاریخ اور روایت بیان کیجیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتغزل کی تاریخ اور روایت بیان کیجیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

غزل کا فن اور روایت

غزل کی تعریف

غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ پروفیسر رشید احمد سدیقی نے اسے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اردو میں جب سے تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت سے لے کر اب تک غزل طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کم ہونے کے بجاۓ ہر بار بڑھتی ہی گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ غزل میں زمانے کے ساتھ بدلنے ، ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر طرح کے مضمون کو ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس صنفِ سخن کو کھبی زوال نہ ہو گا

غزل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ اس صنف کو غزل کا نام اس لیے دیا گیا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔

غزل کی ابتداء عرب میں ہوئی۔ وہاں سے یہ ایران میں پہنچی اور فارسی میں اس نے بہت ترقی کی۔ فارسی ادب کے راستے یہ اردو ادب میں داخل ہوئی اور ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئی۔

غزل کی فنی خصوصیات

غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جسے ہر شعر کے آخر میں دھرایا جاۓ۔

اس سے پہلے قافیہ ہوتا ہے جس کا آخری حرف یا آخر کے چند حرف یکساں ہوتے ہیں۔ جیسے : دوا، ذرا، یا میر، پیر وغیرہ۔ بعض غزلوں میں قافیے کے ساتھ ردیف بھی ہوتی ہے ۔ بعض میں صرف قافیہ ہوتا ہے۔ غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے “مقطع” کہلا تا ہے۔ ان کی مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے

ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

پہلا شعر مطلع ہے اور تیسرا مقطع۔ “کیا ہے” ردیف ہے جو مطلع کے دونوں مصرعوں اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں دہرائی گئی ہے۔ “ہوا ،دوا ،ماجرا ،برا “قوافی ہیں۔ غزل کی دیگر اہم خصوصیات یہ ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنا الگ معانی دیتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر مل کر معنی دیتے ہیں تو انہیں “قطعہ بند” کہا جاتا ہے۔ عام طور پر غزل کے شاعر کو دو مصرعوں میں مکمل مضمون ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ اختصار اور رمز و کنایے سے کام لینے پر مجبور ہے۔

دوسری خاص بات یہ ہے کہ قصیدے اور مثنوی کی طرح غزل خارجی نہیں بلکہ داخلی صنفِ سخن ہے اور شاعر اس میں وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر گزرتی ہے۔ اس لئے غزل کے خاص موضوعات حسن و عشق ہیں۔ ایک اور بات کہ غزل کا شاعر عام طور پر نرم ،سبک اور شرین الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ شاعر ہر طرح کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے لفظوں کے استعمال کا سلیقہ ہو۔ بحر حال غزل ایک غنائی صنفِ شاعری ہے اور ترنم و موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہی سبب ہے کہ مشاعرے بہت مقبول رہے اور ان میں غزلوں کی فرمائیش کی جاتی رہی ہے۔

غزل کے خدوخال سے ہم سب واقف ہیں (یعنی ہئیت کے اعتبار سے اس کے اجزائے ترکیبی حسبِ ذیل ہیں: (1) مطلع (2)ردیف (3)قافیہ (4)مقطع اور (5) بحر۔ انہیں اجزائے ترکیبی سے اس کا اختصار، کیفیاتی وحدت اور موسیقیت متعین ہوتی ہے، جس کے بعد کو غزل کا مخصوص ایمائی اور مزید انداز بنتا ہے۔

ہیئت کے نقطۂ نظر سے بحر اور قافیہ غزل کے محور ہیں۔ ردیف ایک مزید بندش ہے جسے اردو شاعر اکثر اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے۔ اس سے اچھے اور بُرے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ غزلیں غیرمروف بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اردو کی بیشتر غزلیں مروف ہیں۔ ردیف کے الفاظ فعل بھی ہوسکتے ہیں، جیسے:ہے۔ ہیں یا کھینچ (؏ نفس نہ انجمن نہ آرزو سے باہر کھینچ (غالؔب) اور حروف اور اسم بھی جیسے پر، نہیں شمع اور نمک۔ (؏ کیا مزا ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک (غالب) غزل کے پاؤں میں ردیف پائل) یا جھانجھن (کا حکم رکھتی ہے۔ یہ اس کی موسیقیت ترنم اور موزونیت کو بڑھاتی ہے۔ دوسری طرف اس کے تنِ نازک کو گرانباری زنجیر کا احساس بھی دلاتی ہے۔ فنی لحاظ سے ردیف کی چولیں سب سے پہلے قافیہ سے بٹھانی پڑتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی دیف کی چولیں ہر قافیہ کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ مثلاً غالؔب کی اس غزل میں۔

مژہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے

دامِ خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس

’’کے پاس‘‘ ردیف ہے اور اس کے ساتھ حسب ذیل قافیوں کی چولیں بٹھائی گئی ہیں خار، بیمار، غمخوار، آزار، دستار، دیوار لیکن ابھی قافیے اور بھی ہیں۔ سنئے، ذوق کے ایک قصیدہ سے۔ بیکار، زنہار، بار، سرکار، درکار، انوار، گفتار، اطوار، دربار، اظہار، تکرار، سیار، گلبار یہ تو وہ قافیے ہوئے جن کو مذکورہ بالا بحر قبول کرتی ہے ورنہ ذوق نے اپنے قصیدے میں بلامبالغہ 56 قافیے استعمال کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے سب کافیے (مثلاً زنہار، درکار وغیرہ) ’’کے پاس‘‘ کی ردیف کے ساتھ نہیں باندھے جاسکتے۔ بعض قافیے ردیف سے تال میل تو کھاتے ہیں لیکن اس طرح کے قافیہ کی پھسلن ہی پر ہزل گوئی کا مزہ آنے لگتا ہے۔ فکرِسخن میں اچھے اچھے اساتذہ بعض اوقات بولتے ہوئے قافیوں کو تابع ردیف نہ دیکھ کر باندھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے غزل گو کے لیے لازم ہے کہ حافظہ کمزور ہونے پر وہ اپنے قوافی مواد کو تخلیقی عمل کی لہر کے ساتھ ہی جمع کرلے۔ اس سے قافیہ پیمائی مقصود نہیں بلکہ اس طرح مواد کی فراہمی اور انتخاب میں مدد ملتی ہے۔

ردیف غزل کے ایجاز و اختصار پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک مخصوص بحر میں پندرہ یا بیس ہم وزن قافیے دستیاب ہیں، بہت ممکن ہے کہ ان میں سے صرف دس یا بارہ تال میل ردیف سے کھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قصیدہ جو طویل ہوتا ہے اکثر غیرمروف لکھا جاتا ہے۔ چونکہ غنائی شاعری میں جذبہ شدید اور مختصر ہوتا ہے اس لیے وہ ردیف کی آرائش کو باآسانی قبول کر لیتی ہے۔

ردیف کا قافیہ سے اتصال غزل کا سخت نازک مقام ہے۔ بعض اوقات فصاحت و بلاغت کے نازک ترین مرحلوں سے یہاں گزرنا پڑتا ہے۔ محاورات زبان کی لطیف ترین شکلوں کا استعمال اس جگہ ملتا ہے۔ قافیہ اگر اسم ہے تو اضافت اور تراکیب کی اعلیٰ ترین شکلیں یہاں ملتی ہیں اگر فعل ہے تو اس جگہ کیفیت زبان اور محاورہ کی ساری نزاکتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ دوم درجے کے شاعروں کے یہاں وار اکثر خالی بھی جاتا ہے۔ اس لیے انتخابِ شعر کی رسوائی غالب جیسے شاعر تک کو سر لینا پڑی۔ غزل میں ردیف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کے حالی کی ناپسندیدگی کے باوجود جدید شاعری میں بہت کم اچھی غزلیں غیرمروف ملتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ غیرمروف غزل اچھی نہیں ہوسکتی۔ غالب کی

نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز ں ہوں اپنی شکست کی آواز

پر کون لبیک نہیں کہے گا؟ میرا زور اس بات پر ہے کہ تعداد کے اعتبار سے غیرمروف غزلیں مروف غزلوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں نئے قافیوں کے ساتھ ساتھ نئی ردیفوں کا پیدا کرنا بھی غزل گو کا فنی فریضہ ہے۔ غزل اگر ایک لسانیاتی عمل اور فن ہے تو اس کے فن کار پر اجتہاد اور اختراع کا فرض بھی عائدہوتا ہے۔ لیکن نئی ردیفوں کے اختراع میں دو دقتیں پیش آتی ہیں۔ عام طور پر رواں دواں اور مترم ردیفیں افعال سے بنتی ہیں اور افعال کی شکلوں میں اضافہ کرنا ذرا مشکل بات ہے۔ نئے غزل گو کو اس سلسلے میں مرکب اور امدادی افعال سے زیادہ سے زیادہ مدد لینی چاہئے۔ غزل اسمی ردیفوں کی زیادہ متحمل نہیں ہوتی۔ گو ہمارے صاحبِ دیوان شعراء نے اپنی استادی کے سارے پینترے اس پر صرف کئے ہیں۔ اس کی لسانیاتی وجہ ظاہر ہے۔ افعال بہت سے اعمال کے ساتھ نتھی کیے جاسکتے ہیں جبکہ اسماء کے روابط مخصوص اور محدود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان کے دیوان دیکھ جائیے اس قسم کی ردیفیں بہت کم ملیں گی اور اگر ہیں تو غیرمترنم۔

ردیف کے قافیہ کا مزید تذکرہ ضروری ہے، جس کی تنگی کا حالی کو بھی گلہ تھا۔ لیکن تنگی کافیہ کا گلہ دوسری اصنافِ شعر کے نقطہ نظر سے کتنا ہی بجا کیوں نہ ہو غزل کی صنف پر بےمحل ہے۔ قافیہ کے بغیر غزل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ شاعری بےقافیہ بھی ہوسکتی ہے۔ غزل بغیر قافیہ کے اپنے مخصوص اسلوب اور آہنگ کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ قافیہ کی بندش غنائی شاعری میں عام طور پر اور غزل میں خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کہ اس کی جھنکار میں جذبے کی شدت اور تخیل کی رنگینی دونی ہوجاتی ہے۔ یہ بےوجہ کی بندش نہیں۔ اس بندش کو اپنے اوپر عائد کرکے جس شاعر نے کامیابی حاصل کرلی اس کا وار بھرپور ہوگا۔ ادب میں جمال آزادی سے نہیں بلکہ آدابِ فن اور ادبی بندشوں سے نکھرتا ہے۔ میں اصولی طور پر فن میں بندشوں کا قائل ہوں اس لیے کہ اس سے ذہن تربیت پاتا ہے۔ اور فن نکھرتا ہے۔ ہاں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ناپختہ کار کے ہاتھوں میں روایت، قدامت پرستی میں اور آداب، تکلفات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اردو شاعری پر تنقید کرتے وقت حالی کو ایک ایسا ہی زمانہ ملا تھا۔

قافیہ میں پھر انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ قصیدہ گو کا فن یہ ہے کہ وہ ہر ممکن کافیہ کو باندھ کر اپنی ’’خاقانیت‘‘ کا ثبوت دے۔ اس طرح بعض اوقات عجیب و غریب اور مضحک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ذوق کے مشہور قصیدے میں ’’زحیر و تبخیر‘‘ کہ مضحک قافیوں پر ’’نکسیر‘‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ بادشاہ سے شاعر کہہ رہا ہے۔

ترے لَسَق سے نہ بالکل رہی جو خونریزی

لڑائیوں میں کہیں پھوٹتی نہیں نکسیر

معلوم نہیں آخری بےدست و پا مغل بادشاہ پر ذوق کا یہ لاشعوری طنز ہے یا محض قافیہ پیمائی کا شوق!

قافیہ کیوں کے غزل کا محور ہوتا ہے اس کی چولیں ایک طرف تو بار بار دہرائی جانے والی ردیف سے بٹھانی پڑتی ہیں اور دوسری طرف اس پر شعر کے پورے خیال کا بوجھ ہوتا ہے۔ اس لیے کسی حد تک قافیے کی تنگی کا گلہ بجا ہے۔ غلط انتخاب یا شعرکو ہزلیات کی حد تک لے جاتا ہے یا پورا شعر ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ مشرقی شعریات میں غنائی شاعری کے لیے قافیہ یا تُک کا تصور ہر زمانے میں اہم سمجھا گیا ہے۔ شاعر کو قوافی کا وارث بتایا گیا ہے۔ امراؤالقیس نے تخلیقی عمل میں اس کی اہمیت کو اس طرح جتایا ہے۔

’’میں آتے ہوئے قافیوں کو یوں ہٹاتا اور دور کرتا

ہوں جیسے کوئی شریف چھوکرا ٹڈیوں کو مار مار کر ہٹاتا ہو‘‘

بڑے شاعر کے یہاں وہاں قافیے ٹڈی دل بن کر آتے ہیں۔ اس لیے تخلیقی عمل کے ابتدائی مدارج میں انتخاب کو بہت دخل ہوتا ہے۔ غنائی شاعری کا موسیقی سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قافیہ غزل میں اس مقام پر آتا ہے جہاں موسیقی میں طبلے کی تھاپ۔ دونوں میں تاثر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

ردیف اور قافیہ دونوں بحر کی موج پر ابھرتے ہیں۔ جس طرح بحر، وزن کے زمان میں سانس لیتی ہے اسی طرح قافیہ اور ردیف دونوں، بحر کے تابع رہتے ہیں۔ قافیہ اور ردیف بحر کی موزونیت کو افزوں تر کرتے رہیں۔ ترنم ریزی کی شدت میں شاعر اکثر اندرونی قافیوں سے بھی کام لیتا ہے۔ اقبال ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں ترنم کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

قطرۂ خونِ جگر دل کو بناتا ہے سِل خون جگر سے صدا سوزو سرورد سرود

تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود

بحر کا انتخاب غزل گو شعوری طور پر نہیں کرتا۔ یہ جذبہ اور کیفیت سے متعین ہوتی ہے۔ مشقیہ شاعری یا مصرع طرح کی بات اور ہے ورنہ کوئی بھی شاعر مصرع طرح سامنے رکھ کر غزل شروع نہیں کرتا اس کا پہلا مصرع (ضروری نہیں کہ مطلع ہی ہو) جذبے یا کیفیت کے ساتھ خودبخود ذہن میں گنگناتا ہوا نکلتا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بحر متعین ہوچکی ہے، قافیہ بھی متعین ہوچکا ہے، اور اگر ردیف ہے تو وہ بھی۔ نظم گو اس کے برعکس نسبتاً آزاد رہتا ہے۔ کیونکہ قافیہ اور ردیف کا تنوع اس کے یہاں ممکن ہے، غزل گو پہلے شعر یا مصرع کے ساتھ ہی غزل کی ہیئت کا خون پہن لیتا ہے۔ اس کا سارا فن اور سارا کمال اب یہی ہے کہ اپنے اس محدود میدان میں جولانیٔ طبع دکھائے۔ چاول پر قل ھواللہ لکھے، قطرے میں دجلہ ڈونڈے اور آنکھ کے تل میں آسمان دیکھے!

ہر بحر کا مخصوص مزاج ہوتا ہے، جس کا رشتہ قومی موسیقی سے جاملتا ہے، لیکن جس کا عمل ہم غزل میں اس طرح دیکھتے ہیں کہ بعض بحریں مخصوص قسم کے جذبات کے ساتھ بہتر تال میل رکھتی ہیں۔ مثلاً بحر منقارت شانزادہ رُکنی:۔

فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن

فِعلن فِعلن فِعلن فَع

جس میں غالب کے منتخب دیوان میں ایک غزل بھی نہیں ملتی۔ میر نے اس میں اکثر کہا ہے ؏الٹی ہوگئی سب تدبیریں الخ‘‘ فانی کہ یہاں بھی یہ اپنی پوی آب و تاب کے ساتھ ابھی ہے۔ علم عروض میں ردّو قبول کا سلسلہ ایران سے شروع ہوتا ہےاور تاحال جاری ہے۔ اس سے دو نتائج نکلتے ہیں، پہلا یہ کہ عروض کا قومی موسیقی اور مزاج کے ساتھ گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ہر شاعر اپنے ذہن کی مخصوص افتاد کی بناء پر کچھ بحروں کو دوسری بحروں پر ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ اچھی غزل میں فکری اعتبار سے کتنی ہی ریزہ کاری کیوں نہ ملتی ہو اس میں ایک اندرونی اور کیفیاتی وحدت پائی جاتی ہے۔ بحر اس وحدت کی پہلی پہچان ہے طویل اور آہستہ رو بحروں میں نشاط اور سر خوشی کی کیفیات کا اظہار مشکل یا کم ازکم مصنوعی ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ بحریں اس قدر رواں دواں ہوتی ہیں کی فکر کا بار نہیں اٹھا سکتیں۔

ردیف، قافیہ اور بحر کے اس تجزیہ کے بعد یہ باتیں خودبخود سمجھ میں آنے لگتی ہیں کہ غزل مختصر کیوں ہوتی ہے؟ (بہت کم اچھی غزلیں گیارہ یا تیرہ اشعار سے اوپر جاتی ہیں) ان میں ریزہ خیالی کیوں ہوتی ہے اور معنوی تسلسل کا فقدان کیوں پایا جاتا ہے؟ اس اندرونی وحدت کی نشاندہی میں حسبِ ذیل اجزاء سے مدد ملتی ہے۔

(1)مطلع:۔ اکثر اوقات قافیہ اور ردیف کا تعین اس سے ہوتا ہے اور اس کے جذبہ کی تھرتھراہٹ اختتام غزل تک نہیں تو کم ازکم پہلے چند اشعار تک قائم رہتی ہے۔ یہاں تک وجدان شعر قافیہ پر حاوی رہتا ہے، اس کے بعد ارادی عمل شروع ہوتا ہے اور تجسس، علم اور حافظہ کام میں لائے جاتے ہیں۔ غزل کے ابتدائی اشعار پر مطلع کے اثرات بہرحال مسلم ہیں۔

(2)ردیف:۔ جذباتی وحدت کا تعین، ردیف سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس کا ٹھپہ ہر شعر اور ہر خیال پر ہوتا ہے۔ مثلاً غالب کی یہ غزل

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں ’’نہ بنے‘‘ کا ٹھپہ اس غزل کے ہر خیال پر ہے۔ چاہے اس کا تعلق ’’بات نہ بنے‘‘ سے ہو یا ’’خط کے چھپانے‘‘ سے یا ’’آتشِ عشق کے بجھنے اور لگنے‘‘ سے۔ ’’نہ بنے‘‘ کا یہ ٹکڑا مجبوری اور عجز کی کیفیات کا حامل ہے۔ پوری غزل اٹھا کر دیکھ جائیے ہر شعر اسی خیال کے سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آئے گا۔

غزل ہیئت کا اس کے اسلوب پر بھی اثر پڑتا ہے۔ غزل کا اسلوب ایجاز و اختصار، رمز و کنایہ مجاز، تمثیل، استعارہ و تشبیہ سے مرکب ہے اس لئے اس میں وہ تمام خوبیاں اور خامیاں ملتی ہیں جو ’’سخن مختصر‘‘ کی خصوصیات ہیں۔ شدت تاثر، موسیقیت اور بلاغت کے اعلیٰ ترین مدارج تک زبان اسی پیرایہ میں پہنچتی ہے۔ بادہ وساغر کا استعارہ ہو یا لالہ و گل کا پردہ، لیلٰی غزل کے لیے یہ ضروری ہیں لیکن یہ اسلوب واقعاتی ڈرامائی اور بیانیہ شاعری میں بلائے جان بن جاتا ہے۔ غزل ہمارے ہاں غنائی شاعری کی صرف ایک شکل ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسرے انداز میں نہیں گا سکتے۔ یہ کسی دوسرے اصنافِ سخن کی حریف نہیں کیونکہ اس کا اپنا دائرہ عمل ہے لیکن یہ ہئیت کے اعتبار سے بے وقت کی راگنی کبھی نہیں ہوگی۔ یہ ایک پیمانہ ہے۔ جس میں جس قسم کی کشید دل چاہیے بھر دیجئے۔ اور ہمارے شعراء بھرتے رہے ہیں۔ اردو کے ابتدائی دور میں یہ فارسی غزل کی نقل بن کر ہمارے سامنے آئی۔ میر کے ہاتھوں حسن کی نیم خوابی اور دل کے پھپھولوں کی ترجمان بنی۔ غالب نے اسے اپنی مخصوص بصیرت عطا کی۔ اس میں دھول دھپا بھی کھیلا گیا، یہ اسرار خودی اور رموز بے خودی کی عامل بھی بنی اور آج آتش و آہن کا کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ تھی اور ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ کیا یہ رہے گی؟ کیا ہماری نئی تہذیب میں اس کی ضرورت آئندہ بھی محسوس ہوگی۔ لیکن یہ سوال صرف صنفِ غزل تک محدود نہیں۔ اس کا اطلاق عام غنائی شاعری پر بھی ہوسکتا ہے۔ عہدِ جدید کے تمام معاشرتی رجحانات کسی نہ کسی قسم کے اشتراکی سماج کی طرف رہبری کررہے ہیں۔ اور اشتراکی سماج میں عوامی موسیقی کی طرح غنائی شاعری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ غزل بنیادی طور پر ایک انفرادی فنکارانہ عمل ہے۔ لیکن اس کے جذبات کی عمومیت مسلّم ہے، جوسرشتِ انسانی کی وحدت اور جبلتوں کی یکسانی پر مبنی ہے۔ اور یہ عمومیت ماضی حال اور مستقبل تینوں زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔

غزل کی روایت

غزل کی حیرت انگیز مقبولیت کا ایک بالکل سامنے کا سبب تو یہ ہے کہ مدح، فخر یا ہجا کے مقابلے میں تغزل کی ورائے شاعری کوئی خارجی یا نہیں ہوتی۔عربی قصیدوں کی نسیب جو عموماً مضامین غزل پر مشتمل ہوتی تھی، اسی لیے اس صنف سے منقطع ہونے کے بعد بھی بامعنی رہی کہ اس کا مدح کے مضامین سے کوئی داخلی یا تخلیقی رشتہ تھا ہی نہیں۔ بلکہ اس کے علی الرغم چونکہ مدح کا اکثر ایک مادی مقصود بھی تھا تو مدح کے اشعار اپنے مقصود کے پابند رہے جب کہ نسیب کا کوئی ورائے شعر مقصد نہیں،اس لیے شاعر کو اپنی فنکاری کے اظہار کا زیادہ سے زیادہ موقع تشبیب میں ہی ملتا رہا ؛یہ دعویٰ اس مشاہدہ پر مبنی ہے کہ عربی قصائد میں تشبیب تقریباً ہمیشہ مدح کے اجزا سے زیادہ جاذب توجہ رہی۔ نسیبوں کے فنی اعتبار سے زیادہ کامیاب ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مدح، رسایا فخر وغیرہ کے مضامین کا تعلق شاعر کے ‘حال’ سے ہے اس لیے ان موضوعات کے فوری محرکات ان کے ورائے متن مقاصد سے مربوط ہوئے جب کہ سبعہ معلقات کے تمام قصیدوں میں تشبیب ماضی کے عشق اور اس کی یاد سے متعلق ہے، اس لیے یہ حصہ ایک گذرے ہوئے زمانے کی باز تعمیر یا اس سے مربوط کیفیات کے بیان پر مشتمل ہے، جسے اپنے حال کا ضرورتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مضامین تغزل پر مشتمل یہ تشبیب قصیدوں سے الگ ہو کر یک موضوعی قطعات کی شکل میں غزل کے نام سے مقبول ہوئی لیکن اپنی عذری اور اباحی/حجازی دونوں روایتوں میں غزل کا کبھی کوئی مادی یا نہیں رہا۔

فارسی کے اولین شعرا نے ان نسیبوں سے مشتق خود مکتفی اشعار کی نئی ترتیب تشکیل دی تو اس کا سبب ان کی معاشرتی ضرورت یا مادی غرض نہیں بلکہ اپنی تخلیقی اور اختراعی قوت کا فنکارانہ اظہار تھا کہ یہ صنف روز اول سے شعرا کی تخلیقی فطانت کا مقبول لسانی معمول تھی۔غزل کی اس نئی ہیئت میں صنف کا تصور مضمون /مواد کا پابند نہیں بلکہ اس کی ہیئت ہی اس کی واحد شناخت تصور کی جانے لگی۔ صنف کے اعتبار سے اشعار کی منضبط ہیئت کا تجربہ اس لحاظ سے بھی فیصلہ کن تھا کہ اس میں مضمون یا مواد کے شناختی کردار کی نفی ہوتی تھی ۔ جس سے ورائے شاعری مقاصد کے تصور کا امکان ہی باقی نہ رہا۔

مادی/ معاشرتی مقاصد اپنی جغرافیائی ‘ معاشی اور معاشرتی ضرورتوں سے پیدا ہوتے اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی صنف /فن اپنے ورائے متن مقاصد سے آزاد رہ سکے تو اسے کس دوسری زبان /لسانی معاشرہ میں بھی وہ مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے جو غزل کو عربی کے بعدفارسی، ترکی اور اردو میں ہوئی۔

ان تمام زبانوں میں غزل کی مقبولیت کا دوسرا اور غالباً سب سے اہم سبب ان لسانی معاشروں میں تصور کائنات کا اشتراک ہے۔ دنیا کے تمام اسلامی معاشروں میں تصور الہ اور اس سے مربوط تصور کائنات مشترک ہے۔ ان ملکوں/معاشروں میں زبان چاہے جو بولی جاتی ہو، بشمول شاعری ان کے فنون میں اس تصور کائنات کے تمام بنیادی اجزا اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ترکی میں سایہ آسا ڈراموں کی ایک مستقل روایت ہے، جس میں ڈرامہ شروع ہونے سے قبل ایک منظوم تمہید ہوتی ہے جس کو پردہ غزل کہتے ہیں۔ اس غزل اور اس کی معنویت کا بیان سنیے:

It cannot be stated that the shadow theater gained popularity as the vehicle of expression of a specific mystical order. But every shadow play, down to our own-time, starts with a prologue, a highly stylized sequence, not connected with the play it-self, in which the recitation of a “poem of curtain” occupies a prominent place. These poems are literary in style and of the Ghazal type, which in varying ways express the idea of the symbolic-nature of the shadow stage: the phantasmal-character of the images on the screen symbolizes the transitory, illusory state of the things in this world as opposed to the everlasting reality of a level of consciousness transcending physical death. The spectator is advised not to see only the superficial meaning of the play but to penetrate into the depth of its symbolic meaning…

عشقیہ شاعری کے حوالے سے عبد اور معبود کے رشتے کی مخصوصی نوعیت، جسے قرآن کریم کی زبان میں حب /محبت کہتے ہیں’ جب صوفیا کے کلام میں شعر کا موضوع ہوئی تو اسے عرب، ایران، ترکی، اندلس اور ہندوستان کے ان معاشروں میں مقبول ہونے میں بالکل وقت نہیں لگا، جن کے درمیان تصور کائنات مشترک تھا۔

بعض مستشرقین نے خود عرب میں محبوب کے بدلتے ہوئے تصور کے متعلق یہ دلچسپ بات کہی ہے کہ عربی میں صاحب قدرت / با اختیار محبوب کا تصور قدرے تاخیر سے داخل ہوا۔ ابتدائی جاہلی شاعری کے علاوہ دوسرے شعرا مثلاً عمر بن ابی ربیعہ کے کلام میں بھی عاشق پر محبوب کو وہ اختیار حاصل نہیں ہوا جو بعد کی عربی اور پھر فارسی اور اردو غزل میں نظر آتا ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ شاعروں کا دربار سے متعلق ہونا ، یا بادشاہوں کا شاعروں کا کفیل ہونا ہو،یا خود عشق کے سبب عاشق کی کوئی نفسیاتی کیفیت ہو، جس سے ایک وفا شعار اور صاحب اقتدار محبوب کے تصور کی جہت برآمد ہوتی ہو۔

اس طرح دو افراد کے درمیان ایک مخصوص تعلق جسے اہل دل “عشق” کہتے ہیں، غزل میں بیک وقت تین مختلف سطحوں پر فعال ہوا۔ ایک سطح فکری ہے دوسری جذباتی اور تیسری جسمانی؛ کہ محبوب کی صفات کی مناسبت سے محبت کی یہی وضع بنتی ہے۔لیکن ان سطحوں میں اقسام، تعریف اور صفات کی اتنی جہتیں نکلتی ہیں کہ بقول ابن الندیم عربی میں عشق کی تعریف اور صفات کے تقریباً 80 نام ہیں جو انھوں نے مرضوبانی کی فہرست سے منتخب کر کے لکھے ہیں اور اس میں بھی مرضوبانی نے ہر ایک کے لیے اشعار سے مثالیں بھی دی ہیں۔ مگر اس سے کہیں زیادہ دلچسپ یہ حقیقت ہے کہ اشعار کی ایک قابل لحاظ تعداد میں یہ تینوں سطحیں بہ یک وقت فعال ہیں۔

ایک ہی شعر میں عشق / محبوب کے ایک سے زیادہ تصور نظم کرنے کی تخلیقی ضرورت کے سبب ‘تخصیص’ کے مقابلے میں ‘تعمیم’ کی صفت لازمی ہوئی۔یعنی فنی سطح پر یہ ضروری ہوا کہ محبوب کا ذکر اس زبان میں ہو جس سے اس کی ذات یا جنس کا تعین نہ ہوسکے تاکہ محبوب یا اس کے اوصاف (مثلاً بے نیازی) کے کنائے میں صوفیا کا خدا، درباری شاعروں کا بادشاہ (ظل اللہ) اور عاشق کا محبوب (بت بے رحم) تینوں شامل ہو جائیں۔ یہ تو غزل کے شعر کی معنیاتی مجبوری تھی۔ لسانی سطح پر زبان فارسی میں ضمائر اور افعال کے ہونے کے سبب شعر کی لسانیات کے تعمیمی کردا رکو فروغ ہوا یہاں تک کہ عربی اور اردو میں جہاں افعال میں تذکیر اور تانیث کے صیغے واضح ہیں۔ شعر مذکر صیغوں میں کہے گئے کہ یہی عام گفتگو میں تعمیم کا صیغہ ہے۔ اسے پردہ دار یا بے پردہ محبوب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ فارسی زبان کا ایک لسانی امتیاز تھا، جو شاعر