1 Answers
Best Answer
جواب: فتح مکہ کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش کا اجتماع تھا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنھوں نے دس سال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بے انتہا تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ جس کی وجہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اب یہ لوگ مجبور و بے بس تھے اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے ان سے کس قسم کا انتقام لیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ان کی طرف توجہ کی اور پوچھا۔ ”اے گروہ قریش !تم جانتے ہو میں تمھارے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والا ہوں؟“ انھوں نے جواب دیا۔ ”ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نیک برتاؤ کریں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی اور سب کو معاف کر دیا:
ترجمہ :” تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمھا را قصور معاف کرے۔ وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے“۔ (سورة يوسف :۹۲)
ترجمہ :” تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمھا را قصور معاف کرے۔ وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے“۔ (سورة يوسف :۹۲)
Please login or Register to submit your answer