قرآنی دلائل کی روشنی میں وجودِ باری تعالیٰ پر بحث کریں؟

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتقرآنی دلائل کی روشنی میں وجودِ باری تعالیٰ پر بحث کریں؟
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
جواب: وجود باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے میں کوئی عاقل اور سمجھ دار شک نہیں کر سکتا۔ عقل کا یہی تقاضا ہے۔ ہم کوئی بھی چیز جب دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے اس کا بنانے والا بھی ہے۔ یہ جو مکان نظر آتا ہے کسی معمار کا بنایا ہوا ہے۔یہ جو گھڑی چل رہی ہے کسی کارخانے میں بنی ہےاور اس کارخانے کو کوئی چلا رہا ہے۔ کوئی مکان خودبخود نہیں بنتا۔ کوئی گھڑی خود بخود نہیں بنتی۔ کوئی کارخانہ خود بخود نہیں چلتا۔ پھر دنیا کا یہ عظیم الشان کارخانہ جو نامعلوم وقت سے اب تک ایک خاص نظام کے تحت چل رہا ہے۔ خود بخود کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور کیسے چل سکتا ہے؟ زمین ایک خاص وقت میں سورج کے گرد اپنا چکرپورا کرتی ہے۔ آج تک اس میں ایک سکینڈ کا فرق نہیں پڑا۔ستارے اپنے وقت پر نظر آتے ہیں اور اپنے وقت پر نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ اپنی رفتار نہیں بھولتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”تو اللہ کی صنعت میں کوئی فرق نہیں دیکھے گا۔ پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے۔ کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔“ (سورۃ الملک: ۳)
نظام کائنات وجود الہیٰ کی دلیل:
سورج اپنے مدار میں چکر لگارہا ہے اور چاند اپنے مدار میں۔ نہ سورج اپنے مدار سے ہٹتا ہے، نہ چاندسورج کی طرف کھینچ کر جاتا ہے۔نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رات آتے آتےرک جائے۔ قرآن مجید نے اس کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”نہ سورج کی مجال ہے کہ جا پکڑے چاند کو اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں“ (سورۃ یٰس: ۴۰)

قدرت کا یہ کارخانہ اسی نظم و ضبط کے ساتھ ایک نامعلوم مدت سے مسلسل چل رہا ہے۔ کیا عقل یہ مانتی ہے کہ اتنا بڑا نظام اتنی مدت سے مسلسل بغیر کسی چلانے والے کے چل سکتا ہے؟ ظاہر ہے عقل یہ بات مان سکتی۔ اس لیے خود یہ کائنات دن رات، چاند سورج وار زمین وآسمان کا یہ نظم و ضبط اللہ تعالیٰ کے وجود کا واضح ثبوت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ:
”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے بدلتے رہنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“ ( سورۃ آل عمران: ۱۹)

اس بات کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود اس کی اپنی پیدائش کی طرف متوجہ کیا ہے کہ سوچو اور اگر یہ سمجھ آجائے تو پھر اس پر یقین کر لو۔شک و شبہ میں مت پڑو۔
”کیا یہ لوگ(انسان) بغیر کسی کے (پیدا کیے)پیدا ہوگئے ہیں یا یہ کہ خود (اپنے ) خالق ہیں۔یا انھوں نے آسمانوں اور زمین کو پید اکرلیا ہے۔اصل یہ ہےکہ یقین نہیں رکھتے۔“ (سورۃ الطور: ۳۵، ۳۶)
نظام کائنات کی یہ گواہی ایک عقلی دلیل ہے۔ اس دلیل کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ کو مانن انسانی فطرت کی آواز ہے اور انسان کی روح کو ایک خالق کائنات کے ماننے اور اس کی عبادت کے بغیر سکون نہیں ملتا۔ ا س لیے انسانیت کے ہر دور میں مہذب سے مہذب اور وحشی سے وحشی قوموں نے کسی نہ کسی صورے میں ایک عظیم ذات کا اعتراف کیا ہےاور اس کی عبادت کی ہے۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں بسنےوالے وحشی اقوام جن کی فکری سطح بہت کم تھی وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی قائل تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وجود باری تعالیٰ پر ایمان لانا انسان کی فطرت میں ہے۔ بڑے سے بڑا کافر بھی کسی بڑی مصیبت میں پھنس کر بے اختیار کرنے والے کو پکار اٹھتا ہے۔