قرآن مجید کی تاثیر پر نوٹ لکھیں۔

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتقرآن مجید کی تاثیر پر نوٹ لکھیں۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
قرآن مجید چونکہ کلام الہی ہے اس لیے اس میں پڑھنے والوں کے لیے بلا کی تاثیر رکھ دی گئی ہے۔ اس تاثیر کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتا ہے:
ترجمہ :۔ اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تو دیکھ لیتا کہ وہ دب جاتا، پھٹ جاتا اللہ کے ڈرسے۔(سورة الحشر )

یہ اسی تاثیر کا سبب ہے کہ ایک مومن اس کی تلاوت کے دوران میں ایک عجیب کیفیت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہی دراصل ایمانی کیفیت ہے۔ جو تعلق باللہ میں استواری اور قرآنی تعلیمات کو اپنے اندر جذب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجید سنتے اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر رقت کی عجیب پر کیفیت حالت طاری ہو جاتی۔ اس بارے میں ایک حدیث ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ” مجھے قرآن سناؤ میں نے عرض کی اے خدا کے رسولﷺ میں آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کو قرآن سناؤں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم پر قرآن نازل ہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم نے فرمایا میں اوروں سے قرآن سننا پسند کرتاہوں ، چنانچہ میں سورۃ نساء پڑھنے لگا۔ جب میں اس آیت پر پہنچا۔
ترجمہ : پھر کیا حال ہو گا جب بلاویں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والا اور بلاویں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا۔ (سورة النساء :۴۱)

تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم نے فرمایا اب بس کرو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ قرآن کی تلاوت کے دوران میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس کے بارے میں مفسر ابن کثیر اپنی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں۔”وہ نہ چیختے تھے اور نہ تکلفات سے کام لے کر کسی مصنوعی کیفیت کا مظاہرہ کرتے تھے، بلکہ وہ ثبات وسکون، ادب و خشیت میں اس قدر ممتاز تھے کہ ان صفات میں ان کی کوئی برابری نہ کر سکا“۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۴، صفحہ۵۱)

مومن کا دل تلاوت قرآن کے وقت جہاں کانپ اُٹھتا ہے اس کے ساتھ اس کے دل میں سکون کی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے۔ گویا بدن اور دل کے نرم پڑھنے کا مطلب ہی سکون کا حاصل ہو جاتا ہے۔ جو رحمت الہٰیہ کے نزول کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت سکون ورحمت کا نزول ہوتا ہے، اس لیے اس وقت رحمت الہٰیہ کا امیدوار بننے کے لیے قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سے سنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تا کہ تم پر رحم ہو۔ (سورة الاعراف: ۲۰۴)

یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کو توجہ سے سنتے ہیں تا کہ اس کے ذریعے قرآن ان کے دلوں میں اتر جائے۔