(قصیدہ شہر آشوب) کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالات(قصیدہ شہر آشوب) کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

خلاصہ:
مرزا محمد رفیع سوداؔ نے اپنے قصیدے شہر آشوب میں دلی کی تباہ حالی کی داستان پیش کی ہے اور بڑا مؤثر انداز بیاں اپنایا ہے۔ سودا اس قصیدے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہے اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منہ میں زبان ہے۔ اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دوں گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔

آگے شاعر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سنا جو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا ہے۔ پھر میں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پوچھا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے؟ میرا سوال سن کر وہ کہنے لگا بس سودا چپ رہ جا ان کا تو خدا ہی حافظ ہے۔لوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گے۔ یہاں لوگوں کے ذرائع معاش الگ الگ ہیں۔ یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار کماتے ہیں۔

اس کی کہانی آرام سے سنو کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی روٹی کمانا چاہتا ہے تو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی کیونکہ وہ مالک خود خستہ حال ہوتا ہے۔ وہ خو دکم آمدنی کا شکار ہوتا ہے، اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا۔ تمام عمر زندگی گھوڑے کے چارے کا انتظام کرنے میں گزرتی ہے، یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہے۔

جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے۔ تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہیں ہے کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے۔ ایران سے مال لانا پڑتا ہے اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ (شعرا) دنیا کے حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاں بیٹے سے ملنا ہے، آج حال یہ ہے کہ شعرا کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں۔

اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہیں وہاں بھی یہی سوچتے ہیں کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھوں تاکہ کچھ رقم مل جائے۔ملا کا بھی شعرا جیسا حال ہے، ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو ایک دو روپے مل سکتے ہیں۔ میں کیا بتاؤں ملا کا حال؛ دن بھر بچوں کو پڑھانے کے بعد ان کے دسترخوان پر صرف دال اور جو کی روٹی ہوتی ہے۔دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے گھر کے اخراجات کا حساب لگاتے ہیں۔اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہے۔ اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہاں کر سکے گا۔

اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بننا چاہے تو اس پر فوراً شعرا طنز کرنے بیٹھیں گے۔ جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے۔پھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، کوئی پھر کودتا ہے، کوئی رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے۔ پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو وہ اصول وجد توڑ دیتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سر گوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔

شاعر مزید فرماتے ہیں کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکے، اس کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں آسودگی اور اطمنان اور سکون کبھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے ہوگا مگر مجھے نہیں لگتا ہے۔ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہاں بھی نہیں مل پائے گا۔یہاں اگریہاں فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی۔اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا، وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔