مرزا اسد اللہ خان غالب کی خطوط نگاری کی خصوصیات مفصل طور پر بیان کیجیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتمرزا اسد اللہ خان غالب کی خطوط نگاری کی خصوصیات مفصل طور پر بیان کیجیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

غالب اردو زبان و ادب کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جو ایک عظیم تہذیب اور روایت کی امین ہی نہیں بلکہ اسے عظیم تہذیب اور روایت کا خالق بھی کہا جاسکتا ہے۔ غالب کی شاعری ان کی روایت ہے اور ان کی تہذیب ان کی انسانیت ہے۔ دونوں کو لازوال حسن اور لازوال قدر و قیمت حاصل ہے۔ آج غالب کے انتقال کو ایک سو سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے لیکن ان کی شخصیت اور شاعری کی کرامت یہ ہے کہ ہمیں ان کی آواز، اپنے عہد کی آواز نظر آتی ہے۔ان کے احساسات پر اپنے دور کے احساسات کا گمان گزرتا ہے اور زبان کا کوئی ادیب یا شاعر یہ دعوٰی نہیں کرسکتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی انداز میں غالب سے اثر قبول نہیں کیا۔ بلاشبہ غالب فارسی اور اردو دونوں کے عظیم شاعر ہیں۔اس سلسلہ میں بہرحال اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری نظر آتا ہے کہ غالب کی جو عظت ہے اور آج جو اس عالمگیر پیمانے پر ان کی عظمت کا اعتراف کیا جارہا ہے وہ تمام تر ان کی اعلیٰ شاعری کی بناءپر ہے۔ان کے اس مرتبہ کا تعین ان کے چند سائل اور ان کے خطوط سے ہوتا ہے۔ جو اردو معلّی اور غالب کے خطوط کے نام سے مخیم جلووں میں موجود ہیں۔غالب کی شخصیت اور فن میں حقیقت اپنی جگہ ایک کمال کا درجہ رکھتی ہے کہ اردو نثر میں ان کی کوئی مستقل تصنیف نہ ہونے کے باوجود صرف اُن کے خطوط نے اردو کے نثر کے ارتقاءمیں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے اور وہ اس طرح کہ آگے چل کرجو سا دہ اور سلیس انداز اردو نثر کا معیار ٹھہرا اس کا پہلا نمونہ خطوط غالب ہی میں ملتا ہے۔

خطوط غالب کی خصوصیات

غالب سے پہلے اردو میں مکتوب نگاری کی جو مثالیں ملتی ہیں ان کی حیثیت انشاء پردازی کی سی ہے اور ان خطوط میں ایسا کوئی انداز نظر نہیں آتا کہ ہم انہیں نثر اردو میں ایک جداگانہ صنف کے بطور شمار کرسکیں۔ دراصل اب تک اس کے غیر واضح انداز کا سبب یہ تھا کہ خطوط نجی تحریروں کا درجہ رکھتے تھے۔ غالب کی اجتہاد طبیعت نے ان انفرادی تحریروں کو اجتماعی تحریر بنادیا۔ غالب مندرجہ ذیل خصوصیات کی بناءپر اس صنف کے موجد ٹھہرے۔

(۱) پُر تکلف القاب و آداب اور نیاز مندانہ ختتام کی تبدیلی

غالب سے پہلے خطوط کی ابتداء کے بطور طویل پُر تضع اور پُر تکف القاب و آداب سے ہوتی تھی۔ یہ القاب و آداب کسی ناقد کے الفاظ میں شرمناک حد تک پُر تکلف ہوتے تھے اور خط کی ابتداءہی سے ایک ذہنی بوجھ پڑنا شروع ہوجاتا تھا۔ خط کا معیار یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس قدر پر تضع القاب و آداب ہوتے لکھنے والا اتنا ہی باشعور، مہذب اور لائق و فاضل سمجھا جاتا۔غالب نے اس طریقہ کو یکسر ختم کردیا اور ایک عام فہم تخاطب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے خط شروع کردیا۔ اسی طرح خط کے اختتام پر عاجزی انکساری و نیاز مندی کے اظہار کو ختم کرتے ہوئے صرف اپنا نام لکھنے پر اکتفا کیا۔

(۲) اختصار اور سادگی

غالب کے خطوط کی دوسری خصوصیات اختصار کے ساتھ براہ راست مقصد کا بیان ہے اس سے بیشتر خط کو معاملہ کی جزئیات میں اس قدر الجھایا جاتا تھا کہ اصل مقصد کوسوں دورجاکر کھلتا تھا۔ غالب نے سادگی کے ساتھ اپنے حف مدّعا کو تحریر کرکے پڑھنے والے کیلئے خط میں ایک کشش پیدا کردی۔

(۳) ڈرامائی انداز

غالب کی مکتوب نگاری کی ایک اہم خصوصیت ان کا ڈرامائی انداز ہے۔ اس سلسلہ میں غالب نے اپنے ایک خط میں (جو مرزا حاتم علی مہر کو لکھا گیا تھا) اپنے انداز بیان کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

مرزا صاحب! میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے، ہزار کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصل کے مزے لیا کرو۔

مرزا غالب کے اس اندازے کے خطوط کو پُر لطف جاذبیت دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دو آدمی آمنے سامنے بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں۔

(۴) مزاح

غالب کے خطوط کی ایک اور خصوصیت ان کا مزاحیہ انداز ہے۔ غالب کا ذہن زندگی کی حقیقتوں سے باخبر تھا وہ جانتے تھے کہ کہ وقت کی غم پرستی زندگی کو ادھورا کردیتی ہے چنانچہ اُنہوں نے اپنی تحریروں کو مزاح سے شگفتی دی۔وہ کبھی شب و روز کی کیفیت پر ہنسے کبھی رسم و رواج پر مسکرائے مگر اس مزاح کا انداز یہ رکھا کہ وہ مذاق اور مرتبہ کے مطابق وہ وہ اپنی اس خصوصیت میں مواقع پر باکمال نظر آتے ہیں کہ تعزیت ناموں تک میں مزاحیہ شگفتگی اختیار کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر بھی ان کا مقصد قاری کو دکھ اور کرب کی فضا سے نکال کر تازہ دم مسّرت کی فضا میں لانا ہوتا ہے۔

(۵) تاریخی اور معاشرتی واقعات

خطوط غالب کی اہمیت کا ایک اور پہلو اپنے عہد کی تاریخی اور معاشرتی تصویر کشی ہے انہوں نے ان تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی طرف واضح اشارے کئے ہیں خصوصاً ۷۵۸۱ءکی جنگ ِآزادی کی تاریخ کے باب میں ان کے خطوط نہایت کارآمد اور معتبر مواد فراہم کرتے ہیں۔

(۶) ادبی و فنی حیثیت

غالب کے خطوط کی ادبی و فنی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلمّہ ہے۔ انہوں نے ان میں فنی نکات پر بحثیں کی ہیں۔ مختلف فنی اصطلاحات کی وضاحت کی ہے۔ مشکل الفاظ کی تشریح بیان کی ہے اور اردو فارسی شعراء پر باوزن تبصرہ کیا۔ ان صورت حال میں ان کی یہ تحریریں فن اور ادب میں تنقیدی اضافہ بھی ہے۔

(۷) نجی کمزوریوں کا اظہار

ان کے خطوط کے اس پہلو کو بھی ان کی خصوصیات ہی شمار کرنا چاہئے کہ ان میں ان کی اپنی نجی کمزوریوں کا اظہار بھی موجود ہے۔ یہ بڑے ظرف اور حوصلے کی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے وہ گوشے بھی دوسروں کے سامنے پیش کردے جو دوسروں کی نظروں میں تاریک ٹھہرتے ہیں۔ غالب نے اپنے متعلق کچھ نہیں چھپایا وہ ان کمزوریوں کا اظہار ہمدردیوں کے حصول کے لئے نہیں کرتے بلکہ اپنی ذات اور اپنے فن کی صحیح پہچان کے لئے کرتے ہیں اس لیے کہ کسی شخصی پسِ منظر کو سمجھے بغیر کسی فن کار کے فن کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

(۸) زبان کی خوبیاں

ان کے خطوط کی آخری خصوصیت ان کی زبان سے ہم رشتہ ہے۔ انہوں نے مسقفی اور مسجع عبارت اور بھاری بھر کم الفاظ کی جگہ سادی اور عام فہم قسم کی زبان لکھی ہے۔ ان خطوط کی زبان میں لطافت ہی لطافت ہے نہ کسی پر پھبتی ہے نہ پیچیدہ انداز متین الفاظ میں شوخ انداز ہے اور دل میں گھر کرنے والا لہجہ ہے۔ ان تمام خوبیوں کے پیش نظر خطوط غالب اردو نثر کی ایک ایسی جدت آمیز صنف ٹھہرے کہ جس کے آغاز اور انجام دونوں کا سہرا ان ہی کے سر ٹھہرا۔ لوگوں نے انداز غالب کی تقلید بھی کرنا چاہی مگر ان کی سی بات کسی میں پیدا نہ ہوسکی۔

(۹) تبصرہ

۰۴۸۱ءکے آس پاس مرزا غالب جو فارسی اور اردو کے متعلقہ عہد کے اکابر شعراء اور نثر نگاروں میںشمار ہوتے تھے۔خطوط نویسی کی طرف متوجہ ہوئے۔ زندگی اب بڑے مصروف ہوچلی تھی اور غالب کو قدرت کی طرف سے بطور خاص جدت پسند طبیعت ملی تھی۔ چنانچہ اُنہوں نے اردو نثر کو فارم کے اعتبار سے ایک جدید مختصر صنف سے روشناس کیا۔ اردو نثر میں اگر چہ مکتوب نگاری کی یہ صنف اپنی بے مقصد سی طویل انشائی صورت میں موجود رہی تھی اور غلام احمد شہید، غلام غوث بے خبر اور دوسروں کے مکاتیب اردو میں موجود تھے مگر بدلتے ہوئے تقاضے اور رجحانات اس کی تشکیل کو چاہتے تھے۔

داکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں کہ

غالب ان لوگوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بیدار تھے۔ ان کی زندگی ان کے فن کاوسیلہ بن گئی اور اسی سبب غالب کے خطوط کی اہمیت غالب کے شعری نتائج فکر سے کم نظر نہیں آتی۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ

دل کے معاملے میں غالب کو ان کے اشعار کے انتخاب نے رسوا کیا ہو یا نہیں ان کے خطوط نے یقینا ان کو سب کو محبوب بنادیا ان کی شاعری میں ان کی فکرو تخیل جاگتا ہے تو ان کے خطوط میں ز ندگی اور شخصیت کا حسن اور حرکت ہے۔

اگر خطوط نویسی کو فنون لطیفہ میں جگہ دی جائے تو اردو میں اس کی مثال صرف غالب کے خطوط میں ملتی ہے۔ کسی سے بات کرنا ہو تو اس میں کتنے ہی عناصر اپنا کام کرتے ہیں۔ اچھی گفتگو میں نقش، رقص،آہنگ اورشخصیت سب کچھ ایک ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ شخص کی عدم موجودگی میں یہی کرشمہ غالب کے خطوط میں نظر آتا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی غالب نے مکتوب نگاری جیسی محدود اور نجی تحریر کو ہمہ جت بنادیا اور اپنی اس نثری تحریر میں بقول

داکٹر ابواللیث صدیقی

روز مرّہ کی گفتگو کو زبان کا چٹخارہ دیا۔

وہ خطوط نگاری کے رمز سے بہت پہلے سے واقف تھے اور اس کے آئین اور اصول ایک مختصر فارسی رسالے میں لکھ چکے تھے البتہ یہ امر خاص طور پر قابل بیان ہے کہ انہوں نے اردو زبان کے خطوط میں جو سادگی و سلاست پیش نظر رکھی وہ اُن کے فارسی خطوط میں بھی موجود نہیں۔ پھر ان کے حسب موقع اور حسبِ مرتبہ مزاح نے پڑھنے والے کے لئے ان کے خطوط میں دوہری کشش پیدا کردی۔