ناول ٹیڑھی لکیر کا مختصر جائزہ پیش کیجئے۔

ادبی محفلناول ٹیڑھی لکیر کا مختصر جائزہ پیش کیجئے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
ٹیڑھی لکیر عصمت چغتائی کا ایسا شاہکار ناول ہے جس میں انہوں نے سوانحی انداز اپنایا ہے۔ اس ناول میں ہیروئین شمن کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کے دلچسپ واقعات کو ڈرامائی انداز میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ کردار نگاری پلاٹ اور قصے پر بھاری پڑ گئی ہے۔ اکبر علی خان نے اس ناول کے تجزیے میں لکھا تھا کہ: ٹیڑھی لکیر پر لوگ کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں لیکن عصمت کی سچائی، جرات، بےباکی، ناقابل تقلید حد تک فنی چاپکدستی اور تحریر کی سطر سطر میں جاری و ساری خلوص کی لہروں کا انکار بجائے خود معترض کی ذہنی ناپختگی کی دلیل ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مریض کا علاج چاہنے والے مرض کی تشخیص سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسباب کی اس دنیا میں سبب سے آنکھ چرا لیں اور 'ھو الشافی' کہہ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں۔ یہ ناول پہلی بار مئی-1944 میں شائع ہوا تھا۔ مئی-1967 کے جدید ایڈیشن میں عصمت چغتائی کا تحریر کردہ پیش لفظ بھی شامل کیا گیا، جس کے چند اقتباسات ذیل میں پیش ہیں: جب ناول "ٹیڑھی لکیر" شایع ہوئی تو کچھ لوگوں نے کہا میں نے ایک جنسی مزاج اور بیمار ذہنیت والی لڑکی کی سرگذشت لکھی ہے۔ علم نفسیات کو پڑھیے تو یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون بیمار ہے اور کون تندرست؟ ایک پارسا ہستی جنسی بیمار ہو سکتی ہے اور ایک آوارہ اور بدچلن انسان صحت مند ہو سکتا ہے۔ جنسی بیمار اور تندرست میں اتنا باریک فاصلہ ہوتا ہے کہ فیصلہ دشوار ہے۔ مگر جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے، 'ٹیڑھی لکیر' کی ہیروئین نہ ذہنی بیمار ہے اور نہ جنسی۔ جیسے ہر زندہ انسان کو گندے ماحول اور آس پاس کی غلاظت سے ہیضہ، طاعون ہو سکتا ہے ، اسی طرح ایک بالکل تندرست ذہنیت کا مالک بچہ بھی اگر غلط ماحول میں پھنس جائے تو بیمار ہو جاتا ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ مگر "شمن" زندہ ہی نہیں ہے ، جان دار ہے ، اس پر مختلف حملے ہوتے ہیں لیکن ہر حملے کے بعد وہ پھر ہمت باندھ کر سلامت اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ ہر امتحان سے گزر کر پرسکون انداز میں اپنا سر تکیے پر ٹکا دیتی ہے اور ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرنے کے بعد دوسرا قدم اٹھاتی ہے۔ یہ اس کا قصور نہیں ہے کہ وہ بےحد حساس ہے اور ہر چوٹ پر منہ کے بل گرتی ہے مگر پھر سنبھل جاتی ہے۔ نفسیاتی اصولوں سے ٹکر لے کر وہ انہیں جھٹلا دیتی ہے۔ ہر طوفان سر سے گزر جاتا ہے۔ ۔۔۔۔ اور جگ بیتی اور آپ بیتی میں بھی تو بال برابر کا فرق ہے۔ جگ بیتی اگر اپنے آپ پر بیتی محسوس نہ کی ہو تو وہ انسان ہی کیا؟ اور بغیر پرائی زندگی کو اپنائے ہوئے کوئی کیسے لکھ سکتا ہے؟ شمن کی کہانی کسی ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ اٗس دور کی لڑکیوں کی کہانی ہے جب وہ پابندیوں اور آزادی کے بیچ ایک خلا میں لٹک رہی ہیں اور میں نے ایمانداری سے ان کی تصویر ان صفحات میں کھینچ دی ہے تاکہ آنے والی لڑکیاں اس سے ملاقات کر سکیں اور سمجھ سکیں کہ ایک لکیر کیوں ٹیڑھی ہوتی ہے اور کیوں سیدھی ہو جاتی ہے؟ اور اپنی بچیوں کے راستے کو الجھانے کے بجائے سلجھا سکیں۔ اور بجائے تنبیہ الغافلین کے، اپنی بیٹیوں کی دوست اور رہنما بن سکیں۔