نظم طلوع اسلام کی تشریح اور مرکزی خیال بیان کیجئے۔

ادبی محفلCategory: Jkbose Urdu Questions Answersنظم طلوع اسلام کی تشریح اور مرکزی خیال بیان کیجئے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

نظم طلوع اسلام کی تشریح
طلوع اسلام علامہ اقبال کے پہلے اردو شعری مجموعے ”بانگ درا“ کی آخری نظم ہے۔ اس نظم کو انہوں نے ١٩٢٢ء میں تخلیق کیا ہے۔ اس نظم سے قبل اقبال نے ایک بہت ہی اہم نظم ”خضر راہ“ لکھی تھی جب 1918 میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور اقبال نے 1919 میں خضر راہ لکھی جب کہ عالم اسلام مایوسیوں کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا‌، لیکن اس کے باوجود اقبال کو امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی اور انہیں یقین کامل تھا کہ ایک دن ملت ضرور سر بلند ہوگی۔اس طرح اقبال کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، ترک رہنما مصطفی کمال پاشا نے سقاریہ کی جنگ میں یونانیوں کو شکست دے دی اور مسٹر گلیڈسٹن کا غرور خاک میں ملا دیا ، تو اقبال خوشی اور مسرت سے سرشار ہو گئے۔ اس خوشی کا اظہار 1922 میں نظم طلوع اسلام لکھ کر کیا۔ اس نظم کے عنوان سے ہی یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ملت کے عروج کا سورج ایک بار پھر طلوع ہوتا ہوا نظر آیا۔ اقبال کا ہمیشہ رجائیت پر یقین رہا ہے اس لئے وہ رجائی شاعر کہلاتے ہیں، وہ کبھی مایوس اور ناامید نہیں ہوئے، لیکن اس نظم میں ان کی کچھ اور ہی کیفیت ہے۔ انہیں قوم و ملت کا کامرانی سے ہمکنار ہونا نظر آرہا ہے۔ اس لیے تمام کی تمام نظم مسرت و شادمانی کے جذبے سے مملو ہے۔ اب ہم اس نظم کے ایک ایک بند کی تشریح کی طرف بڑھتے ہیں۔

اس نظم کا مرکزی خیال
اس نظم کا مرکزی خیال خود اس کے عنوان میں پوشیدہ ہے، اس کا پہلا بند مسرت اور شادمانی کے جذبات سے معمور ہے بلکہ تمام کی تمام نظم میں یہی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اقبال نے ترک رہنما مصطفی کمال پاشا کی کامیابی کو ”طلوع اسلام“ سے تعبیر کیا ہے۔ ”خضر راہ“ میں کہیں نہ کہیں نا امیدی اور مایوسی آمیزہ جھلکتا ہے لیکن اس نظم میں اقبال کا دل اس یقین سے لبریز ہے کہ اگر قوم و ملت اپنے باطن میں ایمانی قوت کو پیدا کرلے تو وہ پھر ساری دنیا کو فتح کر سکتی ہے:

؀ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اس نظم کے کل نو بند ہیں۔ پہلے بند کا پہلا شعر ہی ان لفظوں میں عنوان کی وضاحت کردیتا ہے کہ ”افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی“ اسی بند میں تھوڑا آگے چل کر اس یقین کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی

یعنی پہلے بند میں شاعر نے ملت کو ترقی اور کامرانی کی خوشخبری سنائی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ملت کس طرح اپنی قوت کی معرفت حاصل کر لیتی ہے۔ اس بند کا ایک مصرعہ اس طرح اس کی وضاحت کرتا ہے:

؀مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے

دوسرے بند میں مصطفی کمال پاشا کو ’ترک شیرازی‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی خدمت میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اس لیے انہوں نے یونانیوں اور مغربیوں کو شکست دے کر ملت کو سر بلند کر دیا تھا۔ یہ مشہور زمانہ شعر بھی اقبال نے پاشا کی شان میں کہا ہے:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس نظم کے تیسرے بند میں اقبال نے ملت کو اس کی بے پناہ اور قوی صلاحیتوں سے آگاہ کیا ہے۔ اقبال نے مسلمان کو خدا کی زبان، خدا کا ہاتھ، خدا کا آخری پیغام اور اسی نسیت سے اسے جاوداں اور ایشیائی اقوم کا پاسبان اور رہنما ٹھہرایا ہے۔ اقبال نے ملت کو یہ تاکید کی ہے کہ تو اپنے ظاہر و باطن کو پاک کر کیوں کے جلد ہی تجھ سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا۔ اس کی وضاحت اس کلام کے ذریعے کی گئی ہے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اس نظم کا چوتھا بند اسی تیسرے بند کی تعلیم و تربیت کی وضاحت کرتا ہے کہ جہانگیری اور جہانبانی کے لیے صداقت، عدالت اور شجاعت کی تربیت ضروری ہے۔ اخوت، محبت، اتحاد، حیدری زوربازو، ابوزرغفاری کا فقر، صدیق اکبر کی صداقت اور شاہین کی طرح پرواز؛ یہ وہ اوصاف حمیدہ ہیں جو مرد مومن کے لیے ضروری ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی

پانچویں بند میں بھی اسی خیال و جذبے کی توسیع کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ مسلمان کو مساوی حقوق کے سبق کو یاد رکھنا چاہیے۔ بندہ اور آقا میں امتیاز کرنا بربادی کا سبب ہے۔ لالچ اور ہوس جو دلوں میں بت تراش لیتی ہے۔ ان قومی، اونچ نیچ، ذات پات، فرقہ واریت کے بتوں کو توڑنا ضروری ہے۔ بالآخر اس بات پر زور دیا ہے کہ زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے نہ ٹوٹنے والا یقین، مسلسل جدوجہد اور اخوت و محبت درکار ہے۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

نظم کا چھٹا بند خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں ترکوں کی فتح و کامرانی کا بیان ہے۔ یہی وہ فتح تھی جس نے اقبال سے یہ معرکہ آرا نظم تخلیق کرائی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے خفیہ ساز باز اور امداد پا کر یونانی اس طرح ترکوں پر جھپٹے تھے جس طرح عقاب اپنے شکار پر جھبٹتا ہے۔ ان کے پاس آبدوز کشتیاں تھیں، ان کی فوجوں کے پاس لاسلکی نظام (وائرلیس) تھا، وہ جدید ترین اسلحہ سے مسلح تھیں لیکن ترکوں کی قوت ایمانی کے سامنے کچھ بھی کام نہ آیا اور انہیں شکست فاش ہوئی۔ اقبال اہل ایمان کی قوت مخصوصہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے!
یہ خاکی زندہ تر پائندہ تر پابندہ تر نکلے!
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ساتویں بند میں مسلمان سے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی مسلمان سے خطاب کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جس طرح ترک اپنی قوت بازو کا اندازہ کر کے اندر آزاد اور سرخرو ہو گئے، اسی طرح تو بھی بری رسومات سے آزاد ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تو پیغام خداوندی کو سمجھ لے، اپنی خودی کی معرفت حاصل کر یعنی اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان لے، زندگی کی جنگ میں فولاد کی صورت سخت جاں ہو جائے، معاملات مہر وفا میں ریشم کی طرح نرم ہو جائے اور فرقہ واریت، رنگ و نسل کے امتیاز کو فراموش کرکے اتحاد و اتفاق کا راستہ اختیار کرلے۔ اس بند کے چند مخصوص شعر یہ ہیں:

خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

آٹھویں بند میں اقبال نے ملوکیت، سرمایہ داری، تہذیبِ مغرب اور سائنس کی ایجادات کو بیان کیا ہے جو دنیا کو تباہ کرنے کے لئے اسلحہ فراہم کرتی ہے۔ ان تمام کی انہوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور مسلمان کو یاد کرایا ہے کہ اصل زندگی وہ ہے جو اچھے اعمال پر مبنی ہے کیونکہ:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اس بند کا آخری شعر اور نواں بند فارسی میں اقبال نے تخلیق کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد مسلمان آج دنیا تیرا پیغام سننے کے لیے گوش بر آواز ہے، اٹھ کھڑا ہو اس موقع کو غنیمت جان اور اپنی تعلیمات کو عام کر دے۔ آخری بند میں شاعر کے دل کی اضطرابی کیفیت اور جوش و جذبے کی فراوانی ہر لفظ سے پھوٹ پڑتی ہے۔ شاعر مسرت کے عالم میں جھوم رہا ہے کہ اجڑے گلشن میں پھر سے بہار آئی، آبشار پھر سے بہہ نکلے، خوش نوا پرندے ایک بار پھر سے نغمہ سنج ہو گئے۔یہ نغمے کیا ہیں؟ دراصل وہ پیغام ہے جو اس جہان رنگ و بو میں انقلاب برپا کر دے گا اور بلبل ہزار داستان کی نغمگی دوبارہ سے سنائی دینے لگی ہے۔ یہ بلبل ہزار داستان درحقیقت شاعراقبال ہے۔

نظم کا فنی جائزہ:
یہ نظم طلوع اسلام جو اقبال نے ترک رہنما مصطفی کمال پاشا نے جب یونانیوں پر فتح حاصل کی تھی 1922ء میں تب فرحت و خوشی کے عالم میں لکھی تھی۔ اگر اقبال کی اس نظم کو فنی اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی بہت سی اہم نظموں میں سے ایک ہے۔ خیال رہے کہ ان کی یہ تخلیق ان کے شعری مجموعہ ”بانگ درا“ کی آخری نظم ہے جس کی اشاعت 1924 میں ہوئی تھی۔ ”بال جبریل“ اس زمانے کے بعد کا شعری مجموعہ ہے۔ جو پختگی ان کی نظم ”مسجد قرطبہ“ میں ہوں اس نظم میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود طلوع اسلام ایک اہم اور کامیاب نظم ہے۔ یہ نظم اقبال کے فکر و فن کے سفر میں سنگ میل سے کم درجہ نہیں رکھتی۔ یوسف سلیم چشتی کی رائے اس نظم کے حوالے سے یہ ہے:

” میری رائے میں بندش اور ترکیب، مضمون آفرینی اور بلند پروازی، رمزوکنایہ کی فراوانی اور مشکل پسندی، شوکت الفاظ اور فلسفہ طرازی غرضکہ صوری اور معنوی محاسن شعری کے اعتبار سے یہ نظم بانگ درا کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔“

اس نظم کی ایک خاص صفت ہے جو اس کو دیگر نظموں سے ممتاز کرتی ہے وہ مسرت انگیز کیفیت ہے جو آغاز سے اختتام تک نظم پر چھائی ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ نظم کیف و سرور کے عالم میں تخلیق ہوئی ہے۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے لے کر 1922 تک ملت اسلامیہ پر بڑا برا وقت رہا ہے، اسی طرح دیگر ملک بھی مدت سے پریشانی کے عالم میں تھے۔ مدتوں کے بعد ملت اسلامیہ کے اقبال کا ستارہ فتح سمرنا کی شکل میں چمکا تو اقبال خوشی سے جھوم اٹھے، اسی عالم وجد میں یہ نظم انجام کو پہنچی ہے۔

نظم کی ہیئت:
اقبال کی پسندیدہ ہئیت ترکیب بند ہے۔ اقبال نے جس طرح اپنی بہت ساری دیگر نظموں کو ترکیب بند ہئیت میں تخلیق کیا ہے اسی طرح اس نظم طلوع اسلام کو بھی ترکیب بند ہیئت میں ڈھالا ہے۔ ترکیب بند میں متعدد بند ہوتے ہیں اور ہر بند گویا ایک علیحدہ غزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہی غزل کا سا قافیہ اور ردیف، سب مصروں کا ایک سا وزن، ہر شعر اپنی جگہ پر الگ بھی ہے اور بند کے سارے شعر کسی خیال کی ڈور میں بندھے ہوئے بھی ہیں۔ اس نظم میں پیکر تراشی کے عمدہ نمونے بھی موجود ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ شاعری موسیقی سے زیادہ مصوری ہے۔وہ شعر زیادہ دلچسپ اور دلکش ہوتا ہے جس میں شاعر اپنا تجربہ بیان نہ کرے بلکہ جو کچھ اس کی چشم تصور نے دیکھا ہے وہ لفظی پیکر تراشی کے ذریعے دوسروں کو بھی دکھا دے۔ چند اشعار دیکھیں:

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی

ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے

تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانیاس نظم میں استعارہ اور تشبیہ اور علامات کا حسین برتاؤ ہوا ہے۔ طلوع اسلام سے اس کی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے دوسرے اور چھٹے بند کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

سرشک چشم مسلم میں ہے نسیاں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اس نظم کے چند علامتی شعر ملاحظہ ہوں:

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی

اس نظم کا موضوع اگرچہ ہنگامی ہے یعنی یہ نظم مخصوص حالات و کیفیات اور ایک مخصوص واقعے یعنی ترک رہنما مصطفی کمال پاشا کی کامیابی اور فتح سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ لیکن خیالات، حالات میں انقلابات کے باوجود یہ نظم زندہ رہی ہے تو اس لیے کہ عظیم شاعری کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس میں ڈھالے افکار و جذبات بے معنی و بے مصرف بھی ہوجائیں اس کے باوجود قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے۔ اقبال کی یہ نظم آج بھی بڑے ہی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی اور سمجھی جاتی ہے یہی ایک شاعر کا فنی کارنامہ ہے۔