کامیابی کے حصول کے لیے اُستاد اور شاگرد کا رشتہ مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے سیکھتے ہوئے آپ اس رائے سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟ مفصل تحریر کیجیے۔

ادبی محفلCategory: اسلامی سوالات و جواباتکامیابی کے حصول کے لیے اُستاد اور شاگرد کا رشتہ مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے سیکھتے ہوئے آپ اس رائے سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟ مفصل تحریر کیجیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
1 Answers
Best Answer
beingsajid Staff answered 1 سال ago
معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور ،منبہ ومرکز ہوتا ہے ،ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کوایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب ،توانا،پرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی مرہون منت ہے۔اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہےمعلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔ انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا”۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو داؤد۔366 خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلی انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21) حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ،جب وہ حضرات اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں(دارمی)۔ یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوامام المفسرین ، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلّم کائنات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ،تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے،بیٹھنے کا اندازایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابہ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے،استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاداور اساس کہا گیا ہے ۔عربی مقولہ ہے الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔معلّم انسانیت پر محنت کرکے کار نبوت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔امام الانبیاءﷺکی حدیث شریف اس پر شاھد ہے کہ علم والے نبیوں کے وارث ہیں۔(ابوداؤد۔3641) استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکا ارشاد مبارک منصب تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا ،لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گااور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(مسلم۔1893) معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمہ داری سب سے مشکل ہے۔ مصور پاکستان،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت ،عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاددراصل قوم کا محافظ ہوتاہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار نا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے،سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے،معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔معلّم کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع ،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہواہو۔استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔معلم اور شاگرد کے درمیان کا رشتہ بہت بلند مرتبت ہے اس میں ادب کے ساتھ ساتھ محبت کا ہونا بھی ضروری ہے تبھی یہ رشتہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔