میں ،میرا شوق مطالعہ

0

ویسے کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس سے دوستی کریں ،یعنی اگر اسکا مطالعہ کریں، ایک تو یہ دوستی بے لوث ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑتی۔ گو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں کتب بینی سے لوگ کافی دور ہیں اور اسکی وجہ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں بیشتر کتب کی موجودگی ہے ،اس لئے لوگ ای ریڈنگ کو اصل کتاب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بیشتر لوگ تو وہ ہیں کہ جو کتب بینی کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں ،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی بھی کتب بینی کا شوق نہیں رہا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں کہ جنہیں اب بھی کتب بینی کے بغیر بے چینی سی محسوس ہوتی ہے،اور جو لوگ انٹرنیٹ پر سارا سارا دن اور سارا ساری رات وٹس اپ،فیس بک ،انسٹا گرام ،ٹویٹر اور دوسری سوشل میڈیا ایپ پر موجود ہوتے ہیں،اور نہ جانے کیا کیا اناپ شناپ وائس مسیجز کرتے رہتے ہیں،لیکن بات جب مطالعہ اورکتب بینی کی آتی ہے ،تو یہاں ان کی گاڑی کو بریک لگ جاتے ہیں ،حالانکہ مغربی اقوام ہم سے زیادہ مصروف زندگی گزارتے ہیں۔ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں ، انٹرنیٹ وغیرہ کی ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہیں ،لیکن اسکے باوجود کتب بینی کے اب بھی بہت شوقین ہیں۔ آج بھی ان کی لائبریریوں میں ریڈرز کا جھمگٹا رہتا ہے۔ آج بھی وہ‌رسائل و کتب کے دلدادہ ہیں اور اب بھی ان کے ہاں افسانے اور ناول شوق سے پڑھے جاتے ہیں اور بیسٹ سیلر کے دوڈیں لگی ہوتی ہیں۔

اب بھی ان کے ہاں کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن چھاپے جاتےہیں۔اور دوسری طرف ہم ہیں کہ کتابوں سے روز بروز دور ہوتے جارہے ہیں۔
تو آئیں آپ کو اپنی کتب بینی یا مطالعہ کے ذوق و شوق، اور اپنے سفر کتب بینی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اگر میں اپنے ابتدائی دنوں کے شوق کتب بینی کی بات کروں ،تو اس کا شوق مجھے میرے کزن (خالہ کا لڑکا )ماسٹر علی جاوید کے والد ملا یوسف کی رات کو اس زمانے کی کہانیوں، رستم سہراب، قصہ حاتم طائی ،الف لیلہ ہزار داستان وغیرہ کی کہانیوں کو ،گھر والوں کے سامنے پڑھتے ہوئے، پروان چڑھا اور اسے مہمیز تب ملی جب ایک رات مجھے ملا یوسف کے جھونپڑی نما کمرے سے کتاب لاکر جز دان پر رکھنے کو کہا گیا،تاکہ ملا عشاء کی نماز سے آتے ہی فوراً کہانی کا آغاز کریں ،وگرنہ عشاء کی نماز سے آتے ہی ،پہلے وہ بکریوں کو چارہ وغیرہ دینے اور دوسرے کئی کاموں میں مصروفیات کی وجہ سے دیر کردیتے تھے ،لیکن جز دان پر کتاب رکھنے سے اور ہماری خالہ گنجاتون کی انہیں آواز دینے سے وہ فوراً آجاتے اور کہانی بمعہ ترجمہ کا آغاز جلدی سے ہوجاتا تھا۔

تو بات ہورہی تھی مہمیز کی تو ایک دن ایسے ھی اس گھر کی پرانی الماری سے کتاب نکالتے ھوئے میری نظراچانک سفید رنگ کے خرگوش کی ایک تصویر پرپڑی اور کتاب کا نام تھا،،ماہنامہ ھمدرد نونہال،، اور وہ بھی کافی صخیم ،یعنی خاص نمبر۔۔میں نے اسی وقت اسے نیفے میں اڈس لیا،کیونکہ وہ کتاب میرے کزن ماسٹر علی جاوید کی تھی،اور وہ اپنی کتاب کسی کو ہاتھ لگانے بھی نہیں دیتا تھا،لیکن چھپاکر لیجانے سے تو منع نہیں کرسکتا تھا،جو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کرلیا اور مٌلا کی کتاب جزدان پر رکھ کے سیدھا ھماری فیملی کے اکلوتے کمرے میں جا گھسا،کمرہ اندر سے بند کیا،کیروسین تیل کے قندیل کی مدھم لو اونچا کرکے،جو اس رسالے کی ورق گردانی شروع کی ،تو کئی ساعتوں تک ،کہانیوں کی رنگین و سادہ پینٹنگز میں کھویا رہا،لیکن جب دھیان ذرا کہانیوں کو پڑھنے کی طرف مبذول کی ،تو ایسی رںگ برنگی ،سحرزدہ اور ایڈونچر سے لبریز دنیا کو پایا کہ اردو کی مکمل طور کم فہمی (کیونکہ میں اس وقت تیسری جماعت میں تھا) کے باوجود ایک طرح سے اس نئی دنیا میں کھوسا گیا،اور پھر اس پہلی رات کی چھوٹی رسالہ چوری نے مجھے مزید ،،کتب چوری،، اور پھر،، مکمل کتب ڈاکہ زنی ،،کی طرف مائل کیا۔

یہ واردات مجھے کئی دنوں تک ،گھر والوں اور خاص طور پر ماسی(خالہ)نوربی بی مرحومہ کی نظریں بچا کر کرنا پڑا ،اور وہ وقت تھا،اسکول کی موسم گرما کی تعطیلات کا،اور ٹائم ہوتاتھا دن کے 11 ،12بجے جب میرا کزن ،اپنے دوستوں سے ملنے گھر سے باہر اور اس کا ابا ملا یوسف اس جھونپڑا نما کمرےکو چٹخنی لگاکر،قہوہ بیچنے بازار جاتا تھا،تو ایک ھفتے کے اندر اندر میں نے سارے نونہال رسالوں کا صفایا کردیا،جن کی شاید میرے کزن کو ضرورت بھی نہیں تھی،کیونکہ وہ انہیں کافی عرصہ ہوئے پڑھ چکا تھا،وہ دھول مٹی سے اٹی ھوئی‌ تھیں،اور 1975سے 1978 تک کے سال کی تھیں،جبکہ واردات 1980ء کے سال کا تھا۔

شاید اسی وجہ سے میں مطمئن تھا کہ میرے کزن کو ان کی اب ضرورت نہیں ،اور میں اپنے طور پر اس بارے میں کافی مطمئن تھا،لیکن چوری کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ عمرمیں مجھ سے بڑا تھا اور پھر اپنی کوئی بھی چیز کسی کو بہ آسانی نہیں دیتا تھا ،جہ جائیکہ وہ کتاب ہی کیوں نہ ھو،کیونکہ ماسی نوربی بھی مجھے اس بارے میں ممانعت کرچکی تھی اور اس نے اس چوری کی روک تھام کی بھی کافی کوششیں کیں ،لیکن میری طرف سے ان ،،مسروقہ ،،مال کی واپسی ،باوجود میرے ھاں کرنے کے ،نا قابل واپسی ،ہوئی ،جس کے سبب ،میری چوری کی شکایت میرے کزن تک پہنچ گئی اور جو اس نے ایک دن چھاپہ مارا ،تو گو ہمارے لوہے کی چارپائی کے نیچے چھپی ھوئی سارے مال کی برآمدگی اور میرے کزن کی جھڑکیوں نے وقتی طور پر میرے قدم روک بھی دئیے،لیکن پھر ایک بہت بڑی کتابوں کی ڈکیتی کو نہ روک سکے،جو کہ پلاننگ کے مطابق پورے دوگھنٹے جاری رہ کر انجام کوپہنچا اور اس واردات میں میں نے نہ صرف سارے نونہال رسالوں پر ہاتھ صاف کیا،بلکہ جتنے بھی بچوں کے اور رسائل و کتب دستاب ھوئے ،ان پر بھی مکمل طور پر ھاتھ صاف کرلیااور پھر مسروقہ مال کو ایسی جگہ چھپا دیا کہ جہاں میرا کزن تو دور ،کسی کی بھی ان پر نظر نہیں پڑسکی اور وہ جگہ تھی ایک پرانی لوہے کی صندوق ، جو میں نے چارپائی کے نیچے کھسکا دی تھی، اور میں اسے ہردم مقفل رکھتا تھا۔

جب مجھے پڑھنا ہوتا تو کھینچ کر اسے باہر نکالتا اور مزے لے لے کر کتابیں پڑھتا یہاں تک کہ گرمیوں کی تعطیلات کے خاتمے تک مکمل طور پر پڑھ کر ختم بھی کردیں ۔لیکن پھر کتب بینی کا ایسا چسکا اور جنون لگا،کہ اب اڈء طرح کے نئے رسالے کی تلاش شروع کردی، جو بازار میں عبدالمجید جندانی کی دکان سے نہ صرف نونہال کی صورت بلکہ بچوں کا رسالہ،انکھ مچولی،جگنو اور ٹوٹ بٹوٹ کی صورت لشکارے مارتی تھیں ۔بالکل نئی نویلی دلہن کی ظرح ۔ لیکن بنا ہیسوں کے نہیں تھیں۔

اب سوچنے کی بات یہ تھی کہ پیسوں کا بندوبست کیسے ہو، اس وقت(1980 کی دہائی) ہمارا جیب خرچا صرف اور صرف ایک روپیہ ہوتا تھا اور ایک رسالے کی قیمت بھی لگ بھگ اتنی ہی ھوتی تھی،جسے خریدنا ممکن نہیں تھا۔

پھر پتہ نہیں کیسے ہمارے شوق مطالعہ پر اللہ پاک کو رحم آگیا اور اسلامی جمعیت طلبہ والوں کو اس کا زریعہ بناکر ،مجھے،، ماہنامہ ساتھی،، دلوایا گیا،جو گو کہ کم صفحوں کا ننھا منا بے رنگ رسالہ تھا،لیکن میرے زوق مطالعہ کو اس وقت تک تسکین دیتا ریا کہ جب تک کہ اپنے جیب خرچ سے روزانہ پچیس پیسے کی بچت کرکے،ماہنامہ نونہال ،بچوں کا رسالہ اور ٹوٹ بٹوٹ لینے کے قابل نہ ھوا۔

اس دوران دو تین سال گزرگئے اور جب میں چھٹی جماعت میں پہنچا تو کسی پرانے نونہال سے ،چوہا نمک اور چینی کی بوری والا،،،لطیفہ سرقہ کرکے ماہنامہ ساتھی کو بھیجا اور وہ جب 1983 کے ایک شمارے میں جب چھپا،کہ جس کی اطلاع مجھے میرے دوست عبداللہ الجوہر نے رمضان کے مہینے کی نماز فجر کے وقت شمارہ تھماتے ھوئے دی ،تو مارے خوشی و انبساط کے میرے پاوں زمین پر ٹکے ھی نہیں۔چونکہ یہ میری پہلی تحریر تھی ،جس کی وجہ سے میرا نام پہلی دفعہ کسی رسالے میں آیا تھا کہ جس نے ایک طرح سے مجھے ایک پہچان دی،تو اس کے بعد میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہانیاں لکھنے کا بھی آغاز کر دیا چونکہ اب میں نونہال ،ٹوٹ بٹوٹ ،نور،بچوں کا رسالہ اور آنکھ مچولی بھی ھر ماہ خرید کر پڑھنے لگا تھا،اس لئے ان رسالوں میں سے کسی میں خط و کتابت کے ذریعے ،تو کسی میں لطیفہ بھیج کر ،کسی میں کوئی چھوٹی موٹی ڈرائنگ بھیج کر اور کسی میں قلمی دوستی کے کالم کے لئے اپنی تصویر اور تعارف بھیج کراپنی شمولیت کراتا رہا جبکہ اس سلسلے میں میں نے کچھ ھم خیال دوستوں جن میں میرے کلاس فیلو عبداللہ جوہر،اور ہم سے ایک کلاس پیچھے سلیم کاشانی،ناصر عارف,نعیم آزاد کے ساتھ ملکر نہ صرف ھر ماہ باقاعدگی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالوں کا ذوق و شوق سے مطالعہ شروع کیا بلکہ باقاعدہ طور ہم پر ھررسالے کے قلمی دوستی کے کالم میں اپنا تعارف بمعہ تصویر کے بھی بیجتھے رے،اور عبدااللہ جوھر کے ہی مشورے سےہم نے حاجی محمد صدیق میڈیکل اسٹور گوادر کو اپنا مستقل ایڈریس بناکر ایک نئے سفر کا آغاز کیا اور ہمیں جب پاکستان کے مختلف جگہوں سے قلمی دوستی کی خواھش رکھنے والوں کے خطوط آنے شروع ہوئے ،تو میں نے تو ہر خط کا نہ صرف جواب دیا،بلکہ اس سے قلمی دوستی کا رشتہ بھی جوڈدیا،حتیٰ کہ کچھ دوستوں جن میں سجاد احمد انصاری اور محمد سے کراچی جاکر ملاقات بھی کی ۔ لیکن باقی دوست صرف منثخب لوگوں کے خطوط کے جوابات دیتے رہے ،اور حتیٰ کہ ہمارے دو دوستوں نے تو باقاعدہ اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ نہ صرف قلمی دوستی شروع کی بلکہ ان سے چھوٹے موٹے تحائف بھی منگواتے رہے اور اسی پربس نہیں بلکہ بعد میں ہمارے دو دوستوں نے بڑی عمر کے رسالے ،،جواب عرض،،میں اپنے لڑکوں والے نام لڑکیوں والے بناکر لڑکوں سے خوب خوب تحائف بھی وصول کئےاور تب تک جعلی ناموں سے عیاشی کرتے رہے ،جب تک کہ مقامی طور ان کا بھانڈا نہیں پھوٹا جبکہ میں نے اس دوران صرف اور صرف مطالعہ اور کہانی لکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ،اور میری کچھ کہانیاں انہی رسالوں میں چھپیں بھی،کہ جن میں مقامی طور پر میری کہانی ،،ھزار روپے کی بات ،،کافی مشہور بھی ہوئی ،کہ جس کے چھپنے پر نعیم آزاد کے بھائی سلیم رضا نے مجھ پر سرقہ کرنے کا الزام بھی لگایا،لیکن ثابت نہ کرسکے،جبکہ اسی بات کو تکرار،،ہزار روپے کی بات،، بناکر ناصر قادربخش کافی عرصے تک مجھے چھیڑتے بھی رہے۔

خیر میری بچوں کے رسائل کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ،مختلف قسم کی کہانیوں جن میں رحمن برادرس سے منگوائی گئی کہانیوں سند باد جہازی ،قصہ ھزار داستان ،حاتم طائی ۔عمرو عیار کی پوری سیریز اور پھر بڑوں کے رسائل جواب عرض،سلام عرض ،آداب عرض اور ساتھ ہی ساتھ چونکہ پاکستانی فلموں کا دور تھا اور گوادر میں پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح اوپن چھت سینما جاکر پاکستانی فلم دیکھنے کا شوق بھی مطالعہ کے شوق کی طرح ھر شب ھوتا رہا،اور وہ بھی بلوچستان ٹاکیز نامی سینما میں بالکل مفت،کیونکہ میرے ماموں خدابخش باہوٹ جو کہ مزکورہ سینما میں مینیجر ھوتے تھے اور یوں تو ہماری صرف اور صرف جمعہ والی رات فلم دیکھنے کی اجازت تھی لیکن میں اور میرا کزن مرحوم الہی بخش ماموں کی نظر بچاکر پورا ھفتہ کھبی گیٹ کیپر تو کھبی ٹکٹ والے کی سفارش سے فلم دیکھتے تھے۔اور اسی فلم بینی کے شوق نے ہمارا رحجان پاکستان سے شائع ہونے والے فلمی رسائل ماہنامہ رومان،شمع،اسٹارلائیٹ اور ھفتہ وار اخبار نگار کی بھی طرف کیا ،جو ہمارے فلمی معلومات کو جلا بخشتے رہے،اسی طرح ماہنامہ کرکٹر اور نوائے وطن سے ہم نے کرکٹ اور کرکٹرز کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

یہاں پر ایک بات کی وضاحت کردوں کہ ان تمام رسائل کے اخراجات کے لئے میں کافی محنت مشقت پیسے اکھٹی کرتا تھا۔

مجھے اب بھی یاد ھے کہ شام کے اوقات میں میں چھوٹا سا کھوکا لے کر بچوں کے کھانے کی مختلف قسم چیزیں بیچ کراور گرمیوں کی تعطیلات میں مختلف سبزیوں و فروٹ کی دکانوں میں کام کرکے اپنی کتابوں و دیگر اخراجات کے لئے پیسے اکھٹی کرتا رہا ،پھر مجھ پر قسمت یوں مہر بان ہوئی کہ اسی دوران میرے کزن ماسٹر علی جاوید کی اے ایس ایف سیکورٹی فورس میں جاب لگ گئی ،جس کی وجہ سے مجھے اپنے کزن کی جگہ گوادر کلب (آرسی ڈی سی)میں لائبریری کے انچارج بننے کا شاندار موقع ملا ،جو میرے شوق مطالعہ کو بلندیوں کی انتہا تک لے گیا،کیونکہ پہلی بار نہ صرف روزنامہ اخبارات جن میں جنگ،امن ،حریت،جسارت اور ڈان و نیوز اور ھفت روزہ اخبار جہاں کےمطالعہ کا مفت موقع ملا ،بلکہ لائبریری میں موجود مختلف النوع موضوعات کی سینکڑوں کتب کے مطالعہ کا بھی بھر پور موقع ملا۔یہ سال تھا 1987،کا جب میں میٹرک میں ایک پیپر میں رہ جانے کے سںبب ٹیچنگ کے پیشے سے منسلک ھوگیاتھا ،اور میری صبح ڈیوٹی کے سلسلے میں گورنمنٹ گوتری بازار مڈل اسکول میں گزرتی، تو شام کے اوقات گوادر کلب کی لائبریری میں گزرتے،اور چونکہ اخبارات کا مطالعہ دوپہر کو بازار سے گھر لاکر کرچکا ھوتا تھا،اس لئے شام کو لائبریری بیٹھ کر کوئی نہ کوئی کتاب ضرور میرے زیر مطالعہ رہتی،جسکی ابتداء میں نے سلمی کنول کے ناول سہاگن سے کی، جہاں میں نے موصوفہ کو اونچی اور ایلیٹ سوسائٹی کے قصے کہانیوں کو صفحہ قرطاس پر رقم کرتے ھوئے پایا،اور موصوفہ کے سشستہ ،بلیغ اور خوبصور ت مکالموں کی کشش اتنی زیادہ تھی کہ مین کافی دنوں تک ان کے سحر سے نہیں نکل سکا،اور جب تک ان کے تمام ناولز جن میں خاص طور پرلالہ ,لکیریں ،اکیلی،سنگسار اور اس جیسے کئی خوبصورت ناولز شامل تھے،دو دو تین تین دفعہ نہیں پڑھے ،مجھے چین نہیں آیا ،اور بار بار پڑھنے سے اس دور میں مجھے ان کے مکا لمے تک ازبر ہوگئے۔

اگلا نمبر رضیہ بٹ کاتھا جو کہ لائبریری ممبران جن میں خاص طور ہر ڈاکٹر شریف مرحوم اور ماسٹر منیر شاد کا فیورٹ تھا،اس کے بھی بیشتر ناولز میں نےپڑھ لئے،جن میں خاص طور پر بانو،لغزش ،اور یوں بھی ھوتا ھے ،،جیسے خوبصورت ناول شامل تھے،اسی طرح میں بشری رحمان کے دو صخیم ناولز بھی پڑھے بغیر نہ رہ سکا,جن میں ایک لگن اور دوسری ،،خوبصورت،، تھی،
اسکے بعد باری آئی عنایت اللہ المعروف التمش کی پیلے رنگ کی جرائم ،سیکس اور واردات والی کہانیوں کی کہ ،جنیہں میں نے زوق شوق سے پڑھا ، جن میں خاص ظور پر ,,داستان ایمان فروشوں کی اور میں کسی بیٹی نہیں ھوں ،،مجھے بہت ہی خوبصورت اور حقیقت سے کافی قریب لگے۔

اسی رو میں بہتے ھوئے پھر آئی باری واجدہ تبسم کی کہ جن کی لکھنو کے نوابوں پر لکھی گئی ،کئی خوبصورت انکشافات والی کہانیاں بھی مزے لے لے کر پڑھیں ،جن میں تہہ خانہ،زن زر زمین اور پھول کھلادوں ،،جیسی کہانیوں کے خوبصورت مجموعے شامل تھے،کہ جن میں خاص طور پر نتھ کا بوجھ اور نتھ اتر آئی جیسی کہانیاں ہم نے بہت چاھت اور شوق سے پڑھیں، اسی طرح کے موضوعات پھر ہمیں عصمت چغتائی کی طرف لے گئے ،کہ جن کی کہانیوں کے بیشتر موضوعات بھی واجدہ تبسم کی طرح سیکس کا احاطہ کرتے تھے ،کہ جن میں خاص طور پر تل ،گیندا ،گھر والی اور لحاف جیسی عورت کا احاطہ کرتی ھوئی کہانیاں گو کہ ہمیں اس وقت سیکس زدہ لگیں ،لیکن وہ دراصل ادبی رنگ اور چاشنی سے بھرپور تھیں۔

اب یہاں سے ہمارا رخ اردو افسانہ کے عظیم رائٹر سعادت حسن منٹو کی طرف گیا،کہ جن کی یوں تو ہم نے بیشتر کہانیاں ایک نہیں متعدد بار پڑھیں ،لیکن خاص طور پر ٹھنڈاگوشت،بو،کھول دو،کالی شلوار،,برمی لڑکی،بارش،پھاتو،پری ،راجو اور پینٹ پتلون کو حقیقت سے بہت ہی قریب تر اور شاندار شاہکار پایا ۔

بانو قدسیہ کا ناول ،،راجہ گدھ،،کو میں نے ایک خوبصورت ناول کے طور پر مطالعہ کیا۔ شوکت صدیقی کے ناول ،،خدا کی بستی اور جانگلوس نے بھی مجھے کافی متاثر کیا۔

اسی طرح سفر ناموں میں ممتاز مفتی کی لبیک اور مستنصر حسین تارڑ کے بیشتر سفر نامے میرے زیر مطالعہ رہے ،لیکن مجھے ذاتی طور پر جن سفرناموں نے متاٹر کیا وہ دو تھیں ۔پہلا تھا ،، نکلے تری تلاش میں اور دوسرا تھا ،،اندلس میں اجنبی،،

ایسے ہی طنز ومزاح میں شفیق الرحمان کا،، شگوفے ، حماقتیں اور مزید حماقتیں ،،کرنل محمد خان کی بجنگ آمد اور بسلامت روی اورمشتاق احمد یوسفی کی ،،چراغ تلے اور خاکم بدہن بھی ہمیں بہت ہی خوبصورت کتابیں لگیں۔

اور اگر طنز ومزاح کے بے تاج بادشاہ ابن انشا کی کتب ،،ابن بطوطہ کے تعاقب میں،چلتے ھو تو چین کو چلیے،خمار گندم ،دنیا گول ھے اور اردو کی آخری کتاب ،،کی بات نہ کی جائے تو بڑی زیادتی ھوگی،اس لئے وہ بھی میرے زیر مطالعہ رہیں اور میں نے انہیں لاجواب پایا۔

اسی کے ساتھ ساتھ لائبریری میں موجود ہارون رشید ، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی ،کرشن چندر اور منشی پریم چند بھی میرے زیر مطالعہ رھے ،لیکن مجھے سب سے زیادہ منٹو اور قاسمی کی سادہ اور کہانی سے بھر پور افسانوں نے متاثر کیا،اس لئے شاید میرے افسانوں میں دونوں کا ملا جلا رنگ نظر آتا ھے۔

اس کے علاوہ شاعروں کے مجموعے بھی میرے زیر مطالعہ رہے ،جن میں خاص طور پر احمد فراز کی تنہا تنہا،فیض احمد فیض کی کلیات نسخہ ہائے وفا ،ناصر کاظمی کی چھوٹے بحور کے مجموعے برگ نے اور دیوان۔ اسی طرح عطا شاد کی اردو کلیات برفاگ اور پروین شاکر کی مکمل کلیات،، ماہ تمام ،،وہ کتاب یے جو میں نے دہلی انڈیا سے ماسٹر عبدالغفور جاشکی کے توسط سے منگواکر پڑھی تھی اور آج تک وہ خوبصورت کلیات میرے پاس محفوظ ھے۔

اسی طرح مرزا اسداللہ خاں غالب ،جو کہ اردو زبان کا یکتا و یگانہ شاعر گزرا ھے ،اسکی شاعری کافی مشکل ھونے کی وجہ سے میں اس طرح نہ پڑھ سکا،لیکن وہی کام معروف غزل گائیک جگجیت سنگھ نے ڈرامہ سیریل ،،غالب ،،میں اپنی سریلی اور مدھر آواز میں ان کی خوبصورت غزلیں گاکر ہم جیسوں کو غالب کی زندگی،اس دور کے حالات اور ان کے دکھ درد سمجھنے میں کافی آسانی کردی۔ملاحظہ کیجیئے ان کی غزلیات کے کچھ اشعار
۔ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
*یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
*تجھے ھم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ھوتا.
**دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ھزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں۔
اسی طرح اگر بلوچی ادب کے کتب کی بات کریں ،تو ہمیں سب سے زیادہ سید ظہور شاہ ہاشمی نے متاثر کیا،جن کے ناولٹ ،،نازک ،،۔۔۔،،بلوچی زبان و ادب کی تاریخ اور ،بلوچی سیاھگ ءٍ راست نبیسگ کو میں نے متعدد بار پڑھا اور مزکورہ کتب مجھے بہت ہی خوبصورت ،تحقیقی اور ادبی شہ پارے لگے،جبکہ ان کی تالیف کردہ بلوچی زبان کی ضخیم لغات ،،سید گنج،،کو ھم بجا طور ہر بلوچی زبان کا سب سے بہترین لغات بلکہ انسائیکلو پیڈیا تک بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسی طرح شے رگام جو ماہتاک بلوچی میں بی ایس او اور بلوچستان کی سیاست کے پیچ و خم پر قسط وار بحٹ ومباحثہ کا سلسلہ آگے لایا وہ بھی میرے زیر مطالعہ رہے ۔

غرض آرسی ڈی سی کے لائبریرین کی حیثیت سے مجھے تقریبًا اردو ادب کی بیشتر کتب کے بھرپور مطالعہ کا نادر موقع ملا ،اور میں برملا اس بات کا اعتراف کرتا ھوں ،کہ میرے ادبی کیڑے کو باہر نکل کر ،مجھ ناچیز کو بھی ادیبوں کی صف میں ایک چھوٹی سی جگہ فراہم کرنے میں آرسی ڈی سی کی لائبریری کا ہہت بڑا بہت بڑا کردار ھے۔

جس سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ کتب خانے یا لائبریری کسی بھی انسان کے نہ صرف زوق کتب بینی کوجلا بخشتے ہیں،بلکہ اگر وہ تھوڈی سی اور محنت کرے تو اسے ایک کامیاب ادیب بننے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔

چونکہ اب ایک تو عمر اور دوسری کمزور بینائی کی وجہ سے میں ماضی کی طرح ذیادہ کتابوں کا مطالعہ نہیں کرسکتا،لیکن أج بھی اگر کہیں اچھی اور خوبصورت کتاب مل جائے تو اسے ایک بار پڑھتا ضرور ھوں ،جیسا کہ اس وقت میری خواہش شہاب نامہ اور ترجمہ شاہ جو رسالو ،،پڑھنے کی ھے اور انشاللہ جلد مزکورہ کتب ہمارے زیر مطالعہ ہوں گی۔
تمت بالخیر
رفیق زاھد۔گوادر
اپریل ،مئی 2021 ء