پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

0

غزل

پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے
مہرو وفا و لطف و عنایت، ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمزو اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ دیکھے سے جی اٹھتا ہے
یار کے آ جانے کو یکا یک، عمر دوبارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے؟سر پر اس کے، لاتا ہے معشوق اپنا
جس بےدل، بےتاب وتواں کو عشق کا مارا جانے ہے
تشنہ خوں ہے اپنا کتنا؟مؔیر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانا ہے

تشریح

پہلا شعر

پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

شاعر دنیا کو چمن اور اس کی مناسبت سے پتوں کو اہل دنیا قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چمن میں محض ایک گل یعنی محبوب ہی ہے جو میرے حال سے واقف نہیں ہے۔ ورنہ چمن کا ایک ایک پیڑ اور پتا میرے حال سے آشنا ہے گویا دنیا کا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کو میری حالت کا پتا نہیں ہے۔

دوسرا شعر

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا وارا جانے ہے

شاعر کہتا ہے کہ عشق کا سا سادہ بھی کوئی دنیا میں ہوگا کہ محبت میں اپنے دل کے نقصان کو بھی اپنا فائدہ خیال کرتا ہے۔یعنی محبت میں دل سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،تکلیفیں برداشت کرتا ہے لیکن مایوس نہیں ہوتا بلکہ اسی میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے۔

تیسرا شعر

چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

شاعر کہتا ہے کہ دل کی بیماری کا علاج یعنی عاشق پر کرم کرنا حُسن والوں کا شیواہ ہی نہیں ہے ورنہ نادان سے نادان دلبر یعنی محبوب بھی اس درد کا علاج جانتا ہے۔

چھٹا شعر

کیا کیا فتنے؟سر پر اس کے، لاتا ہے معشوق اپنا
جس بےدل، بےتاب وتواں کو عشق کا مارا جانے ہے

ہمارا معشوق بھی عجیب ہے۔وہ جس کو سمجھتا ہے کہ یہ میرے عشق میں گرفتار ہوگیا ہے اس پر کرم کرنے کے بجائے طرح طرح کی بلائیں نازل کرتا ہے۔گویا جو اس کے عشق میں بے اختیار ہو جاتا ہے وہ طرح طرح کے فتنوں سے دوچار رہتا ہے۔

ساتواں شعر

تشنہ خوں ہے اپنا کتنا؟مؔیر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانا ہے

غزل کے مقطعے میں شاعر کہتا ہے کہ مصیبتیں برداشت کرنے والا نا سمجھ مؔیر بھی اپنے ہی خون کا اس قدر پیاسا ہے کہ محبوب کی تیز دھار تلوار کی چمک کو گوار خیال کرتا ہے۔برداشت کرنے کے لائق تّصور کرتا ہے۔