عشق میں خوف و خطر چاہئیے

0

غزل

عشق میں خوف و خطر چاہئیے
جان کے دینے کو جگر چاہئیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک اک پہر چاہئیے
کم ہیں شنا سائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئیے
عشق کے آثار ہیں اے بو لہوس
داغ بہ دل،دست بہ سر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

تشریح

پہلا شعر

عشق میں خوف و خطر چاہئیے
جان کے دینے کو جگر چاہئیے

عشق کا راستہ بڑا پرخطر ہوتا ہے۔اس پر چلنے والے کو قدم قدم پر صبر آزما امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔مؔیر کہتے ہیں کہ عشق میں جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جان دینے کے لیے بڑے جگرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا جو کوئی اس میدان میں قدم رکھے، اس کے دل میں خوف، ڈر بالکل نہ ہو اور بڑا حوصلہ رکھتا ہو۔

دوسرا شعر

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک اک پہر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں جو حال دل کا ہوا ہے اس سے کمزوری اور بے ہوشی کا سا عالم رہتا ہے۔ اب ہماری یہ کمزوری اس حال کو پہنچ چکی ہے کہ پلک اٹھانے یعنی آنکھ کھولنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے اور اس کے کھولنے کو ایک مدت چاہیے ہوتی ہے۔

تیسرا شعر

کم ہیں شنا سائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں دل کے داغ دراصل عاشق کا سرمایہ ہیں۔ لیکن ہر کوئی اس کی عظمت کو پہچان نہیں سکتا۔ اس کے پرکھنے کے لئے جس نظر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔

چوتھا شعر

عشق کے آثار ہیں اے بو لہوس
داغ بہ دل،دست بہ سر چاہیے

شاعر کہتا ہے کہ اے بولہوس، اے لالچی انسان، تجھے کیا معلوم کہ عشق کیا ہے؟ دل پر صدمے اٹھانا اور سر پر ہاتھ دھر کر ہر وقت سرگرداں رہنا عاشق کی علامتیں ہیں لیکن تجھے اس سے کیا واسطہ۔تو تو ہر وقت ہوس میں گم رہتا ہے۔

پانچواں شعر

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ ہر کام میں سلیقہ پہلی شرط ہے۔سلیقہ کے بغیر کوئی کام درست نہیں ہوتا۔سلیقہ ایک ہُنر ہے اور ہر کام کے لیے ضروری ہے۔یہاں تک کہ عیب کرنے کے لئے بھی اس ہنر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔