Advertisement
Advertisement

غزل

عشق میں خوف و خطر چاہئیے
جان کے دینے کو جگر چاہئیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک اک پہر چاہئیے
کم ہیں شنا سائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئیے
عشق کے آثار ہیں اے بو لہوس
داغ بہ دل،دست بہ سر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

تشریح

پہلا شعر

عشق میں خوف و خطر چاہئیے
جان کے دینے کو جگر چاہئیے

عشق کا راستہ بڑا پرخطر ہوتا ہے۔اس پر چلنے والے کو قدم قدم پر صبر آزما امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔مؔیر کہتے ہیں کہ عشق میں جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جان دینے کے لیے بڑے جگرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا جو کوئی اس میدان میں قدم رکھے، اس کے دل میں خوف، ڈر بالکل نہ ہو اور بڑا حوصلہ رکھتا ہو۔

Advertisement

دوسرا شعر

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک اک پہر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں جو حال دل کا ہوا ہے اس سے کمزوری اور بے ہوشی کا سا عالم رہتا ہے۔ اب ہماری یہ کمزوری اس حال کو پہنچ چکی ہے کہ پلک اٹھانے یعنی آنکھ کھولنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے اور اس کے کھولنے کو ایک مدت چاہیے ہوتی ہے۔

تیسرا شعر

کم ہیں شنا سائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں دل کے داغ دراصل عاشق کا سرمایہ ہیں۔ لیکن ہر کوئی اس کی عظمت کو پہچان نہیں سکتا۔ اس کے پرکھنے کے لئے جس نظر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔

Advertisement

چوتھا شعر

عشق کے آثار ہیں اے بو لہوس
داغ بہ دل،دست بہ سر چاہیے

شاعر کہتا ہے کہ اے بولہوس، اے لالچی انسان، تجھے کیا معلوم کہ عشق کیا ہے؟ دل پر صدمے اٹھانا اور سر پر ہاتھ دھر کر ہر وقت سرگرداں رہنا عاشق کی علامتیں ہیں لیکن تجھے اس سے کیا واسطہ۔تو تو ہر وقت ہوس میں گم رہتا ہے۔

Advertisement

پانچواں شعر

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

شاعر کہتا ہے کہ ہر کام میں سلیقہ پہلی شرط ہے۔سلیقہ کے بغیر کوئی کام درست نہیں ہوتا۔سلیقہ ایک ہُنر ہے اور ہر کام کے لیے ضروری ہے۔یہاں تک کہ عیب کرنے کے لئے بھی اس ہنر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

Advertisement