Advertisement
Advertisement

غزل

غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا
جامہ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں، لیک نا محرم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صُبح پیری، شام ہونے آئے مؔیر
تو نہ چیتا،یاں بہت دن کم رہا

تشریح

پہلا شعر

غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

شاعر کہتا ہے کہ درد و الم ہماری زندگی کا حصہ رہا ہے۔ جب تک دم میں دم رہا یعنی سانسیں چلتی رہیں،غم نے ہمیں سکون میسر نہیں ہونے دیا۔اس پر محبت میں دل کھو دیا۔اب اس دل کے جانے کا غم اتنا شدید تھا کہ زندگی عذاب ہو گئی۔

Advertisement

دوسرا شعر

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

شاعر کہتا ہے کہ یہ دل ہے جو طرح طرح کی بلائیں نازل کرتا ہے۔ کبھی چین سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتا۔ شاعر کہتا ہے کہ اب اس دل کی حقیقت کھلی ہے‌ جو مخص ایک خون کا قطرہ تھا آنسو بن کر آنکھ سے نکلا تو دامن تک بھی نہ پہنچ پایا۔پلکوں پر آ کر ہی جم گیا۔

تیسرا شعر

جامہ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں، لیک نا محرم رہا

شاعر کہتا ہے کہ ظاہری لباس کوئی معنی نہیں رکھتا، یہ مخص دکھاوا ہے۔ اصل حقیقت دل کی ہے۔ اب شاعر کہتا ہے کہ زاہد کے پاکیزہ لباس پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ دھوکا ہے کہ وہ کعبے میں ہوتے ہوئے بھی اس سے نامحرم ہے۔کعبے کی عظمت سے روشناس نہیں ہے۔

Advertisement

چوتھا شعر

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

میر کہتے ہیں کہ ہماری زندگی رنج و الم میں گزری، رونا ہمارا مقدر رہا۔زندگی بھر روئے اور بہت روئے۔اتنا روئے کہ اپنی زندگی کی تلخیوں اور رونے کی کہانی کو جس کاغذ پر ہم نے رقم کیا تھا وہ بھی ایک عرصے تک گیلا رہا۔ گویا ہمارے رنج و الم اور رونے کی شدت سے بے جان کاغذ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

Advertisement

پانچواں شعر

صُبح پیری، شام ہونے آئے مؔیر
تو نہ چیتا،یاں بہت دن کم رہا

شاعر کہتا ہے کہ بچپن اور جوانی خدا کی نافرمانیوں میں گزر چکے ہیں۔ اس میں آخرت کا نہ سوچا تو نہ سہی۔ مگر اے مؔیر! تمھارا تو اب بوڑھاپا بھی ختم ہونے کو جا رہا ہے لیکن تم نے آخرت کی خبر نہیں لی۔یہ نہیں چیتا یعنی سوچا کی زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔

Advertisement